گزشتہ دنوں منی پور تشدد سےمتعلق ایک اور ویڈیو وائرل ہوا ہے، جس میں کچھ لوگ زمین پر پڑے ایک شخص کو آگ لگاتے ہوئے دیکھے جا سکتے ہیں۔ متاثرہ شخص کے بارے میں ابتدائی طور پر دعویٰ کیا گیا تھا کہ وہ 37 سالہ لال دین تھانگا کھونگسائی ہے، لیکن اب پولیس ذرائع اور کھونگسائی کے اہل خانہ نے اس پر شکوک وشبہات کا اظہار کیا ہے۔
نئی دہلی: اعلیٰ ذرائع نے دی وائر کو بتایا ہے کہ منی پور پولیس کو اب اس شخص کی شناخت کے حوالے سے شبہ ہے جسے 8 اکتوبر کو بڑے پیمانے پر نشر کیے گئے ایک دردناک ویڈیو میں جلتے ہوئے دیکھا گیا تھا۔ پولیس نے دعویٰ کیا ہے کہ اس شخص کے اہل خانہ نے بھی کہا ہے کہ ویڈیو میں نظر آنے والا شخص ان کا رشتہ دار نہیں ہے۔
ذرائع نے 10 اکتوبر کو یہ بات کہی۔ اس سے ایک دن پہلے منی پور کے سیکورٹی ایڈوائزر ریٹائرڈ انڈین پولیس سروس آفیسر کلدیپ سنگھ نے ایک پریس کانفرنس میں کہا تھا کہ پولیس کے پاس ویڈیو ہے اور پولیس اس شخص کی شناخت کرنے کی اہل ہے۔
ویڈیو میں ایک شخص کو جلاتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے اور اس کے قریب کم از کم تین آدمی موجود ہیں۔ ان کا چہرہ نظر آرہا ہے۔ ویڈیو میں گولیاں چلتے ہوئے بھی دیکھی اور سنائی دے رہی ہیں۔
سنگھ نے کہا تھا، ‘یہ 4 مئی کی بات ہے، اور اس شخص کی لاش کو امپھال کے جے این آئی ایم ایس اسپتال میں رکھا گیا ہے۔ اس شخص کی پہچان لال دین تھانگا کھونگسائی (37) کے طور پر کی گئی ہے،وہ جمتنمانگ کھونگسائی کے بیٹے اور کانگ پوکپی کے کھومچنگ گاؤں کے رہائشی ہیں۔’
سنگھ نے نامہ نگاروں کو یہ بھی بتایا کہ ڈی جی پی راجیو سنگھ نے یہ کیس پہلے ہی سنٹرل بیورو آف انویسٹی گیشن (سی بی آئی) کو بھیج دیا ہے۔
دی انڈیجینس ٹرائبل لیڈرز فورم کے رکن گنجا وولزونگ نے بھی صحافیوں کے ساتھ ویڈیو شیئر کیا اور دعویٰ کیا کہ متاثرہ کا تعلق کُکی برادری سے ہے اور یہ واقعہ 4 مئی کو پیش آیا تھا۔
پولیس کے اعلیٰ حکام نے دی وائر کو بتایا کہ ویڈیو میں نظر آنے والا شخص لال دین تھانگا کھونگسائی ہے یا نہیں، اس کو لے کر شکوک و شبہات ہیں۔
ایک اعلیٰ ذرائع نے دی وائر کو بتایا،’لاش جلی ہوئی ہے اور چہرہ بھی ناقابل شناخت ہے، اس لیے شبہ ظاہر کیا جا رہا ہے۔ اب ہم لاش کی شناخت کی تصدیق کے لیے ڈی این اے ٹیسٹ کرائیں گے اور یہ معلوم کریں گے کہ کیا وہ واقعی میں لال دین تھانگا ہیں۔’
ایک ذرائع نے دی وائر کو بتایا کہ پولیس نے سی بی آئی کو ایک خط بھی لکھا ہے، جس میں کہا گیا ہے کہ یہ اسی دن ہوا تھا جب کانگ پوکپی میں ککی کمیونٹی کی خواتین کو برہنہ کر کے پریڈ کرایا گیاتھااور ان کے ساتھ جنسی زیادتی کی گئی تھی اور گاؤں کوآگ لگا دی گئی تھی۔ مذکورہ واقعہ کا ویڈیو بھی وائرل ہوا تھا۔
لال دین تھانگا کھونگسائی کے خاندان نے بھی سیکورٹی ایڈوائزر سنگھ کے دعوے کو مسترد کر دیا ہے۔
کھونگسائی کا خاندان اب چورا چاند پور میں رہ رہا ہے۔ ان کے چھوٹے بھائی منگلال جان کھونگسائی نے دی وائر کو بتایا، ‘میں نے کئی بار ویڈیوکو دیکھا ہے، وہ آدمی میرا بھائی نہیں ہے۔’
انہوں نےزور دے کر کہا، ‘میرے بھائی کو 4 مئی کو کانگ پوکپی ضلع کےیاریپک کے گاؤں ہاوکھونگ چنگ کے قریب زندہ جلا دیا گیا تھا، لیکن وائرل ویڈیو میں نظر آنے والا شخص میرا بھائی نہیں ہے۔’
منگلال جان نے مبینہ طور پر اپنے بھائی کے قتل کے ایک دن بعد 5 مئی کو چورا چاند پور ضلع کے ہینگلیپ پولیس اسٹیشن میں ایف آئی آر درج کرائی تھی۔
ایف آئی آر میں تعزیرات ہند (آئی پی سی) کی دفعہ 302 (قتل) اور 34 (مشترکہ اور تعمیری ذمہ داری) اور ایس سی ایس ٹی ایکٹ کی دفعہ 3(2) (iii) لگائی گئی ہیں۔
ایف آئی آر کے مطابق، لال دین تھانگا کھونگسائی کی لاش جے این آئی ایم ایس میں ہے، جیسا کہ سیکورٹی ایڈوائزر سنگھ نے بھی کہا تھا۔
ایف آئی آر میں اس وحشیانہ قتل میں دو گروہوں – میتیئی لیپن اور آرام بائی تینگول –کے ملوث ہونے کا الزام لگایا گیا ہے۔ کُکی برادری کے خلاف جرائم کی زیادہ تر ایف آئی آر میں ان دونوں گروپوں پر ہی الزام لگائے گئے ہیں۔
منگلال جان نے کہا کہ ریاست میں ابھی جاری نسلی تصادم کی وجہ سے خاندان کے لیے امپھال پہنچ کر لاش کی تصدیق کرنا ناممکن ہے۔
کُکی رضاکار ہاوکیپ نے لال دین تھانگا کھونگسائی کی ماں سے ملاقات کے بعدبتایاکہ ان کی ماں نے بھی کہا کہ ویڈیو میں نظر آنے والا شخص ان کا بیٹا نہیں ہے۔
دریں اثنا، انڈیجینس ٹرائبل لیڈرز فورم نے دی وائر کو بتایا کہ کُکی برادری کے کم از کم چار افراد 3 مئی سے لاپتہ ہیں۔
دی وائر نے اس سے قبل اپنی رپورٹ میں بتایا تھا کہ کس طرح منی پور کے ہسپتالوں میں لاوارث لاشیں پڑی ہیں۔ تاہم، سالیسٹر جنرل تشار مہتہ نےسپریم کورٹ میں دعویٰ کیا تھاکہ امپھال کے مردہ گھروں میں اب بھی پڑی زیادہ تر لاشیں ‘گھس پیٹھیوں’ کی ہیں، یہ دعویٰ بے بنیاد پایا گیا تھا۔
مردہ گھروں میں نسبتاً زیادہ لاوارث لاشیں ہیں جب کہ نامعلوم لاشوں کی تعداد کم ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ تشدد کی وجہ سے گھر والے امپھال نہیں جا رہے ہیں۔
کُکی طلبہ تنظیم نے دی وائر کو یہ بھی بتایا کہ اگر ضروری سیکورٹی فراہم کی جاتی ہے تو وہ تمام متعلقہ دستاویز کے ساتھ امپھال مردہ خانے میں تمام لاشوں کی تصدیق کرنے کے لیے تیار ہیں۔
دی وائر نے کلدیپ سنگھ سے بھی رابطہ کیا، لیکن ان کی طرف سے کوئی جواب نہیں آیا ہے۔
انگریزی میں پڑھنے کے لیےیہاں کلک کریں۔
Categories: خبریں