دی رپورٹرز کلیکٹو – الجزیرہ نے اپنی ایک رپورٹ میں بتایا تھا کہ بینک آف بڑودہ کے ملازمین نے صارفین کو بینک کے نئے موبائل بینکنگ ایپ ‘باب ورلڈ’ پر رجسٹر کرنےکے لیے غیر مجاز موبائل نمبروں کو ان کے اکاؤنٹس سے منسلک کیا۔ اب یہ بات سامنے آئی ہے کہ اس کی مدد سے کچھ کھاتوں سے کئی لاکھ روپے کی چوری کی گئی ہے۔
دہرادون: بینک آف بڑودہ کی اندرونی خط و کتابت اور تحقیقاتی رپورٹ میں انکشاف ہوا ہے کہ بینک سے وابستہ لوگوں نے ہی 362 صارفین کے کھاتے سے 22 لاکھ روپےکی چوری کی ہے۔
بینک آف بڑودہ کی یہ تحقیقاتی رپورٹ دی رپورٹرز کلیکٹو-الجزیرہ کی اس رپورٹ کے بعدآئی ہے، جس میں انہوں نے بتایا تھا کہ بینک کے ملازمین نے غیر مجاز موبائل نمبران صارفین کے اکاؤنٹس سے منسلک کیےتھے، جن کے اکاؤنٹس سے موبائل نمبر منسلک نہیں تھے۔ایسااس لیے کیا گیا تاکہ ان صارفین کو بینک کے نئے موبائل بینکنگ ایپ ‘باب ورلڈ’ پر رجسٹر کیا جا سکے۔ یہ غیر مجاز موبائل نمبر بینک ملازمین، برانچ منیجرز، گارڈز، ان کے رشتہ داروں اور دور دراز علاقوں میں کام کرنے والے بینک ایجنٹ کے تھے۔
رپورٹرز کلیکٹو کی خبر نے خبردار کیا تھا کہ ایپ پر رجسٹریشن بڑھانے کے دباؤ میں اختیار کیے گئےاس طریقے کی وجہ سے صارفین کے پیسے کے لیے سنگین خطرہ پیدا ہوسکتا ہے۔ بینک نے گزشتہ سال ایک اندرونی ای میل میں اس خطرے کو تسلیم کیا تھا۔ فرضی موبائل نمبروں سے متعلق متعدد ای میل میں بتایا گیا ہے کہ ‘اس سے فراڈ کا امکان بہت زیادہ بڑھ جاتا ہے۔’
اب بینک کے ہیڈ آفس کے داخلی دستاویز تسلیم کرتے ہیں کہ فراڈ ہوا ہے اور بینک کے ایجنٹوں (جنہیں بزنس کارسپانڈنٹ کہا جاتا ہے) نے موبائل بینکنگ کا استعمال کرتے ہوئے صارفین کے اکاؤنٹس سے ہزاروں روپے نکال لیے ہیں۔ چھ صارفین ایسے ہیں جنہیں 1.1 لاکھ روپے سے زیادہ کا نقصان ہوا ہے، جبکہ ایک کو تقریباً 1.77 لاکھ روپے کا نقصان ہوا ہے۔ ایک ایجنٹ نے ایک صارف کے اکاؤنٹ سے 3.9 لاکھ روپے سے زیادہ کی چوری کی ہے۔
بینک ہیڈ آفس نے متعلقہ بینک مینجرز سے کہا ہے کہ وہ ‘صارفین کے کھاتوں میں رقوم کی وصولی اور بحالی کے لیے ضروری کارروائی شروع کریں’۔
ملک کے مرکزی بینک، ریزرو بینک آف انڈیا (آر بی آئی) نے دی رپورٹرز کلیکٹو اور الجزیرہ کی تحقیقات کے بعد بینک کو آڈٹ کا حکم دیا تھا۔ 10 اکتوبر کوریزرو بینک نے کہا کہ اس نے اگلے نوٹس تک بینک آف بڑودہ کو ‘باب ورلڈ’ پر نئے صارفین کو رجسٹر نہ کرنے کو کہاہے۔
ریزرو بینک کے مطابق، اس فیصلے کی وجہ باب ورلڈ پر صارفین کو شامل کرنے کے عمل میں پائی جانے والی کچھ خامیاں تھیں۔
مذکورہ آڈٹ میں بینک آف بڑودہ نے تقریباً 4.2 لاکھ اکاؤنٹس کے دستاویز کی تصدیق کی۔ یہ وہ اکاؤنٹ تھے جن پر شبہ ظاہر کیا گیا تھا کہ بینک ملازمین نے انہیں ایپ پر غلط طریقے سے رجسٹر کیا ہے۔ بینک کے برانچ کے عملے نے 29 اور 30 جولائی کو ملک بھر میں تقریباً 7000 برانچوں میں پھیلے ہوئے ان اکاؤنٹس کو آڈٹ کیا۔ ملازمین کو تفتیش کے لیے دیگر شاخوں میں بھیجا گیا۔ حتمی تحقیقاتی رپورٹس میں خامیوں کو درست طریقے سے اجاگر کیا گیا ہے، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اعلیٰ سطح پر مستعدی سے جانچ کی گئی ہے، لیکن یہ رپورٹ انٹرنل آڈٹ کےگرے ہوئےمعیار کو بھی اجاگر کرتی ہیں۔
کئی بینک ملازمین نے رپورٹرز کلیکٹو کو بتایا کہ یہ آڈٹ غلط کاموں کا پتہ لگانے کے بجائے غلط کاموں کو چھپانے کے لیے کیا گیا تھا۔ انہوں نے بتایا کہ اپنے ریجنل آفس کی ہدایت پر انہوں نے آڈٹ کے لیے جعلی دستاویزوں کا انتظام کیا اور جعلی دستاویز بنوائے۔
ایک ملازم، جنہوں نے خود صارفین سے دستاویز حاصل کیے تھے، نے بتایا، ‘بینک جانتا ہے کہ وہ (باب ورلڈ کے اندراج کے بارے میں) غلط ہے، اب بینک ڈیمیج کنٹرول موڈ میں چل رہا ہے۔
بینک آڈیٹنگ اور فرانزک اکاؤنٹنگ کے ماہرین کا کہنا ہے کہ بینک آف بڑودہ کو اپنی شاخ کے ملازمین کو آڈٹ کے لیے مقرر نہیں کرنا چاہیے تھا۔ یہ کام غیر جانبدارانہ تحقیقات کے لیے آؤٹ سورس کیا جانا چاہیے تھا۔
بینک نے اپنے انٹرنل آڈیٹرز سے کہا تھا کہ وہ بنیادی طور پر بینک آف بڑودہ کے ان ریکوسٹ لیٹر کی جانچ کریں جو یہ دکھاتاہو کہ صارفین نے باب ورلڈ ایپ کے لیےدرخواست دی تھی اور ان فارم کی جانچ کریں جن پر صارفین نے اپنے اکاؤنٹ سے وابستہ موبائل نمبر کو تبدیل کرنے کے لیے دستخط کیے ہیں۔اس طرح کے فارم کی موجودگی اس بات کا ثبوت ہوگی کہ بینک ملازمین نے فرضی طریقوں سے ایپ کی رجسٹریشن بڑھانے میں دھوکہ دہی نہیں کی۔
رپورٹرز کلیکٹو کو ملی آڈٹ رپورٹ سے پتہ چلتا ہے کہ زیادہ تر معاملوں میں یہ دستاویز نہیں ملے۔
سنگین کوتاہیاں
آٹھ علاقوں کی آڈٹ رپورٹ میں انکشاف ہوا کہ بہ مشکل ایک تہائی اکاؤنٹس میں باب ورلڈ کی درخواست تھی۔ ان آڈٹ رپورٹس میں بتایا گیا کہ بہت سے اکاؤنٹس جنہوں نے باب ورلڈ ایپلی کیشن کو سائن اپ کیا، ان کے رجسٹرڈ موبائل نمبر کے بجائے متعلقہ برانچ یا برانچ منیجریا بزنس ایجنٹ کا نمبر ان سے منسلک تھا۔
بزنس کارسپانڈنٹ بینکوں کے ایجنٹ کے طور پر کام کرتے ہیں اور کسٹمر سروس سینٹر یعنی گراہل سیوا کیندروں کے ذریعے گاؤں، دیہی علاقوں اور دور دراز علاقوں میں بینکنگ خدمات فراہم کرتے ہیں۔
آڈٹ میں پتہ چلا کہ بہت سے اکاؤنٹس اجنبی افراد کے موبائل نمبروں سے منسلک تھے۔ بعد میں بینک نے ان نمبروں کو اکاؤنٹس سے خود بخود ہٹا دیا۔آڈٹ کے بعد بینک نے برانچوں کو ہدایت کی ہے کہ ایسے کھاتوں پر موبائل بینکنگ کو فوری طور پر بلاک کیا جائے۔
ایسی مثالیں بھی سامنے آئیں، جن میں اکاؤنٹ کھولنے کے فارم پر صارفین کی طرف سے دیئے گئے موبائل نمبر سے مختلف نمبر ان کے اکاؤنٹ سے منسلک تھے اور باب ورلڈ پر رجسٹرڈ تھے۔
غورطلب ہے کہ بینک کی پالیسی کہتی ہے کہ ایک موبائل نمبر کو زیادہ سے زیادہ آٹھ بینک اکاؤنٹس سے منسلک کیا جاسکتا ہے – وہ بھی صرف اس صورت میں جب تمام اکاؤنٹس ایک ہی خاندان کے ہوں – لیکن آڈٹ رپورٹ میں اس پالیسی کی خلاف ورزی کی کئی مثالیں درج ہیں۔
آڈٹ رپورٹ میں بہت سے ایسے موبائل نمبر سامنے آئے، جن میں 10-60 اکاؤنٹس منسلک ہیں- ایسے زیادہ تر اکاؤنٹس کو کھلوانے کا کام کسی نہ کسی بزنس کارسپانڈٹ نے کیا تھا۔
ایک علاقے کی رپورٹ میں سفارش کی گئی ہے کہ آڈٹ کیے گئے اکاؤنٹس میں سے تقریباً ایک چوتھائی کے موبائل نمبرز کو ان لنک کر دیا جائے۔
ملک بھر کی برانچوں کے حوالے سے آڈٹ رپورٹ میں بھی ایسے ہی خدشات کا اظہار کیا گیا ہے۔ 10 اگست کو تمام زونل اور علاقائی سربراہوں کو بھیجے گئے ایک خط میں، بینک آف بڑودہ کے چیف جنرل منیجر بی ایلنگو نے لکھا: ‘آڈٹ کے نتائج سے پتہ چلا ہے کہ بنیادی ضروری دستاویزوں کی دستیابی کے حوالے سے خامیاں ہیں اور ہم نے جن خامیوں کا مشاہدہ کیا ہے، انہیں جاری رکھنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔ ان نتائج کی سنگینی کو دیکھتے ہوئے ہم نے جلد از جلد بے ضابطگیوں کو درست کرنے کا عمل شروع کر دیا ہے۔’
خط میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ بینک برانچوں کو گمشدہ دستاویزوں کو حاصل کرنے کے لیے صارفین سے رابطہ کرنا چاہیے، جنہیں بڑے دفاتر سے تصدیق کے بعدمحفوظ رکھا جانا چاہیے۔
ڈیمیج کنٹرول
ایک طرف بینک نے غیر مجاز ڈیبٹ اور گمشدہ دستاویزوں کے معاملے کو تسلیم کیا ہے، وہیں ملازمین کے اشتراک کردہ شواہد اور تجربات سے پتہ چلتا ہے کہ کچھ علاقائی دفاتر نے اپنے جونیئر عملے کو جعلی دستاویز بنا کراس صورتحال سے نمٹنے کے لیے کہا تھا۔
اس کور—اپ حکمت عملی کا ایک طریقہ تھا کہ موبائل بینکنگ کانسنٹ فارم پر بینک صارفین کے دستخط اور انگوٹھے کے نشان کو جلد بازی میں شامل کرنا۔ ان میں سے کئی دستاویزوں پر پرانی تاریخیں ڈال دی گئی تھیں۔ یہ سب کچھ اس لیے کیا گیا تاکہ آڈیٹرز تصدیق کر سکیں کہ تمام دستاویز صحیح سےموجود ہیں۔
تین ریاستوں میں ملازمین نے رپورٹرز کلیکٹو کو بتایا کہ جن برانچوں کا انہوں نے معائنہ کیا یا جہاں وہ کام کرتے ہیں ،وہاں کئی اکاؤنٹس کے لیےیہ دستاویزدستیاب نہیں تھے۔ جو دستیاب تھے، ان کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کی گئی تھی – بعض صورتوں میں دستخط جعلی تھے۔ دیگر معاملات میں آڈٹ کرنے سے پہلے بینک کے عملے کو دستخط لینے کے لیے ضروری دستاویز کے ساتھ اکاؤنٹ ہولڈرز کے گھر بھیجا گیا تھا۔
رپورٹرز کلیکٹو نے اتر پردیش اور گجرات کی ریاستوں میں کچھ کھاتہ داروں کے لیے بنائے گئے ایسے دستاویز کی کاپیاں دیکھی ہیں۔ مثال کے طور پر، اتر پردیش کی ایک برانچ کے دستاویزوں میں صرف اکاؤنٹ ہولڈر کے دستخط تھے اور کوئی تفصیلات نہیں تھیں۔ انٹرنل آڈیٹر،جس نے یہ فارم رپورٹرز کلیکٹو کے ساتھ شیئر کیے، نے کہا کہ برانچ کے عملے نے ہی یہ تفصیلات پُر کی تھیں۔ ان تفصیلات میں موبائل نمبر اور درخواست کی تاریخ جیسے اہم نکات شامل تھے۔
اس آڈیٹر نے کہا کہ اس کے ریجنل مینجر نے تمام آڈیٹرز سے ویڈیو کانفرنس کے ذریعے برانچ کے عملے کے ساتھ ‘تعاون’ کرنے کو کہا تھا اورساتھ ہی یہ تصدیق کرنے کی کوشش کرنے کو بھی کہا تھا کہ تمام اکاؤنٹس ٹھیک ٹھاک ہیں۔
آڈیٹر نے کہا کہ ایسی ہدایات کی وجہ سے ہم نے وہ فارم بھی منظور کر لیے ہیں جن کے بارے میں ہمیں معلوم تھا کہ یہ نئے سرے سے حاصل کیے گئے ہیں۔
رپورٹرز کلیکٹو نے اتر پردیش میں ایک اور بینک برانچ اور گجرات کی ایک برانچ سے آڈٹ شدہ فارموں کی کاپیاں دیکھیں۔ ان کاپیوں پر صارفین کے دستخطوں کے بجائے انگوٹھے کے نشانات تھے۔ ان فارموں کو شیئر کرنے والے بینک ملازمین نے کہا کہ وہ نہیں جانتے کہ جو کسان دستخط بھی نہیں کر سکتے، وہ موبائل بینکنگ ایپ کا استعمال کیسے کر سکتے ہیں۔ ملازمین کا کہنا تھا کہ آڈٹ سے قبل ان فارموں پر انگوٹھوں کے نشانات لیے گئے تھے اور برانچ کے ملازمین نے یہ فارم بھرے تھے۔
رپورٹرز کلیکٹو کی طرف سے دیکھی گئی آڈٹ رپورٹ میں اس بات پر بھی روشنی ڈالی گئی کہ باب ورلڈ ایپ پر بہت سے ایسے صارفین رجسٹرڈ تھے جو تعلیم یافتہ نہیں تھے۔ ان میں سے بہت سے باب ورلڈ پر ان کے اکاؤنٹ سے منسلک بزنس کارسپانڈنٹ کے موبائل نمبر کے ذریعے رجسٹرڈ تھے۔
ایک آڈٹ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ غیر تعلیم یافتہ صارفین ایپ کے اہل نہیں ہیں۔ 15 سال سے کم عمر کے بچے بھی اہل نہیں ہیں، لیکن بہت سے نابالغوں کے اکاؤنٹ ایپ پر رجسٹرڈ ہیں۔
ایپ اندراج کی وجہ سے جانچ کی زد میں آنے والے بہت سے اکاؤنٹس پردھان منتری جن دھن یوجنا کے تحت کھولے گئے تھے۔ وزیر اعظم نریندر مودی کی طرف سے شروع کی گئی اس اسکیم کا مقصد کھاتہ میں کم از کم بیلنس کی شرط کو پورا کیے بغیر غریبوں کو بینکنگ سسٹم سے جوڑنا ہے۔ یہ اس لیے ہے کہ غریبوں کا بینک اکاؤنٹ ہو اور حکومت اس میں سبسڈی دے سکے۔
ایک بینک ملازم نے بتایا کہ انہوں نے اور ان کے ساتھیوں نے ان صارفین کو فارم پر دستخط کروانے کے لیے دباؤ کے حربے اپنائے۔ ملازمین نے صارفین سے کہا کہ انہیں اکاؤنٹ کی تفصیلات کو اپ ڈیٹ کرنے کے لیے فوری طور پر دستاویز پر دستخط کرنے کی ضرورت ہے ورنہ اکاؤنٹس بند کر دیے جائیں گے یا سبسڈی بند ہوجائے گی۔ انہیں باب ورلڈ کے آڈٹ کے بارے میں کچھ نہ بتا کر اندھیرے میں رکھا گیا۔
اس ملازم نے ایک اور کمی کو بے نقاب کیا۔ آڈیٹرز سے اکاؤنٹ کھولنے کے فارموں کی تصدیق کرنے کو بھی کہا گیا تھاکیونکہ ان میں صارف کا موبائل نمبر ہوتا ہے۔ لیکن بہت سے اکاؤنٹس میں وہ فارم نہیں تھے جو اکاؤنٹ کھولتے وقت صارف کو بھرنا پڑتا ہے۔ اس لیے برانچ کے کچھ عملے نے دیگر دستاویزوں کے ساتھ ان فارموں پر صارفین کے دستخط/ انگوٹھے کے نشانات بھی حاصل کیے۔
چونکہ اس برانچ کا عملہ ان فارموں کو بیک ڈیٹ کرنے کا خطرہ مول نہیں لینا چاہتا تھا، اس لیے انہوں نے یا تو تاریخ کو خالی چھوڑ دیا یا اس دن کی تاریخ ڈال دی جس دن کچھ نئے فارموں کا آڈٹ کیا جا رہا تھا۔ اس طرح، یہ اکاؤنٹ کھولنے کے فارم میں اکاؤنٹ کھولنے کی تاریخ 29 یا 30 جولائی (آڈیٹنگ کی تاریخیں) نظر آتی ہیں، جبکہ یہ اکاؤنٹس کم از کم چند سال پہلے کھولے گئے تھے۔
رپورٹرز کلیکٹو کے ذریعے دیکھی گئی آڈٹ رپورٹ سے پتہ چلتا ہے کہ اس طریقے کو بہت نارمل انداز میں اپنایا گیا تھا۔ یہ رپورٹ نہ صرف کوتاہیوں کو اجاگر کرتی ہیں بلکہ انٹرنل آڈٹ کی سطح کو بھی ظاہر کرتی ہیں۔
صارفین کی شناخت سے متعلق بہت سے دستاویز نامکمل ہیں، کچھ پر دستخط نہیں ہیں، کچھ پر تاریخ نہیں ہے، کئی کی تصدیق نہیں ہوئی ہے، اور بہت سے دستاویز مختلف وجوہات کی بنا پر قبول نہیں کیے گئے ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر برانچ کی سطح پر غیر جانبدارانہ آڈٹ ہوتا تو ایسے دستاویز کو مسترد کر دیا جاتا۔
ہندوستان میں فرانزک اکاؤنٹنگ کے علمبردار سمجھے جانے والے تصدیق شدہ بینک فرانزک اکاؤنٹنٹ میور جوشی نے رپورٹرز کلیکٹو کو بتایا کہ تفتیش کاروں کو آڈیٹنگ میں بے ضابطگیوں پر توجہ دینی چاہیے، جیسے کہ پرانی تاریخ کے ساتھ تازہ، واضح فارم ؛ یا پرانی تاریخ والے فارم کا نیا فارمیٹ۔
انہوں نے کہا کہ ایسی آڈیٹنگ فرم ہیں جو دستاویز کی تصدیق میں اسی طرح کی مہارت رکھتی ہیں، جس کے لیے بینک آف بڑودہ نے اپنے برانچ کا عملہ مقرر کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ بینک کو اس معاملے کے لیے ایک بیرونی آڈیٹر مقرر کرنا چاہیے تھا۔
جوشی نے بتایا کہ تازہ حاصل کیے گئے فارم اور پچھلی تاریخ والے فارم کو آڈیٹنگ کی دنیا میں تشویش کاباعث سمجھا جاتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ بنیادی دستاویزوں کو نئے سرے سے حاصل کرنے کی ضرورت ایک سنگین مسئلہ ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ بینک کے پاس یہ دستاویز نہیں تھے۔ یہ آر بی آئی کی ہدایات کی خلاف ورزی ہے اور بینک پر جرمانہ عائد کیا جا سکتا ہے۔
مایوس ملازم
بینک آف بڑودہ میں گھوٹالے نے ملازمین کو متاثر کیا ہے۔ ان میں سے بہت سے لوگوں نے رپورٹرز کلیکٹو کو بتایا کہ انہیں دوہری مار کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ سب سے پہلے بینک نے اپنے ملازمین سے کہا کہ وہ باب ورلڈ پر کسی بھی طریقے سے صارفین کو رجسٹر کریں۔ اس کے بعد بینک نے ملازمین پر دباؤ ڈالا کہ وہ دستاویز پیش کریں جس سے یہ ثابت ہو کہ صارفین نے باب ورلڈ کی خدمات کی درخواست کی تھی۔
آڈیٹنگ کے دوران لیپا پوتی میں ملوث بینک ملازمین نے کہا کہ اگر آر بی آئی مزید تحقیقات کے لیے ان کے فارموں کی جانچ پڑتال کرتا ہے تو وہ مشکل میں پڑ سکتے ہیں۔ لیکن اگر انہوں نے اپنے ریجنل مینجر کی بات نہ مانی ہوتی اور صحیح آڈٹ رپورٹ تیار کی ہوتی تو یقیناً وہ مشکل میں پڑ جاتے۔
بہت سے ملازمین نے بتایا کہ کس طرح ان پر دباؤ ڈالا گیا۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ اور ان کے ساتھی شارٹ کٹ اختیار کرنے کو مجبور ہوئے۔ اتر پردیش میں واقع ایک دیہی شاخ کے سربراہ نے کہا کہ جب موبائل بینکنگ کو صارفین کے کھاتوں میں کسی اور کا موبائل نمبر شامل کرکے زبردستی چالو کیا جاتا ہے تو رضامندی کے فارم کیسے دستیاب ہوں گے؟
یوپی کے ہی ایک اور افسر نے آڈیٹنگ کے دن اس رپورٹر کو فون کیا اور اپنا غصہ ظاہر کیا۔ انہوں نے کہا کہ ان کی برانچ میں بے بس ملازمین نہ صرف کسٹمرز کے فارم بھر رہے تھے بلکہ ان پر کسٹمرز کے جعلی دستخط بھی کر رہے تھے۔
بینک آف بڑودہ ایمپلائز یونین (کرناٹک) نے 30 جولائی کو بینک کے منیجنگ ڈائریکٹر اور سی ای او کو بھیجے گئے اپنے خط میں ان خدشات کا اظہار کیا تھا۔ خط میں کہا گیا تھاکہ یونین نے کافی عرصے سے موبائل بینکنگ اور دیگر بے ضابطگیوں کے مسئلے کی طرف انتظامیہ کی توجہ مبذول کرانے کی کوشش کی لیکن کوئی فائدہ نہیں ہوا۔
ایک بینک ملازم نے کہا، ‘جو لوگ اس گڑبڑ ی کے لیے ذمہ دار ہیں انہیں جوابدہ ہونا چاہیے۔ یہاں ایک عرصے سے آمریت چلی آ رہی ہے۔
دی رپورٹرز کلیکٹو نے آر بی آئی سے ایک ای میل میں اس کی کارروائی کے بارے میں پوچھا لیکن کوئی جواب نہیں ملا۔ کلیکٹو نے آر بی آئی کےسپر ویژن ڈپارٹمنٹ سے جیسو داس پردیپ جی کو کال کیا مگر انہوں نے اس بنیاد پر تبصرہ کرنے سے انکار کر دیا کہ وہ میڈیا سے بات کرنے کےلیے مجاز نہیں ہیں۔
بینک آف بڑودہ نے بھی انٹرنل آڈٹ اور اس کے نتائج کے بارے میں دی رپورٹرز کلیکٹو کے سوالون کا جواب نہیں دیا۔
(ہیمنت گیرولا رپورٹرز کلیکٹو کے رکن ہیں۔)
(یہ رپورٹ پہلے رپورٹرز کلیکٹو کی ویب سائٹ پر شائع ہوئی تھی۔ انگریزی میں پڑھنے کے لیےیہاں کلک کریں۔)
Categories: فکر و نظر