ادبستان

مساجنیز: اسمتھ کی یہ کتاب معاشرے میں رائج خواتین کی تضحیک کو بے نقاب کرتی ہے

بک ریویو: 1989 میں انگلینڈ کی صحافی جون اسمتھ کی تحریر کردہ ‘مساجنیز’ زندگی کے ہر شعبے — عدالت سے لے کر سنیما تک میں عام اور رائج خواتین کی تضحیک کی چھان بین کرتی ہے۔ ہندوستانی تناظر میں دیکھیں تو خواتین کی تضحیک کا یہ دائرہ لامحدود نظر آتا ہے۔

(تصویر بہ شکریہ: amazon.in/Pixabay)

(تصویر بہ شکریہ: amazon.in/Pixabay)

وہ ٹوائلٹ سیٹ پر بیٹھی تھی۔ اپنے آپ کو کمتر دکھانے کی شدید خواہش کے باعث اچانک پیٹ سے غلاظت نکالنے کا خیال آیا، تاکہ اس کے بدن سے جو نکل سکتا ہو نکل جائے اور رہ جائے صرف بدن! وہ بدن جسے اس کی ماں بیکار کہتی تھی، وہ بدن جو صرف کھانے اور پاخانے کے کام آتا ہے۔ اور جیسے ہی اس نے حاجت پوری کی وہ اکیلے پن اور دکھ سے باہر نکل آئی۔ اپنا ننگا بدن سیور — پائپ کے چوڑے سے منہ پر ٹکائے ہونا اس سے زیادہ تکلیف دہ بات کچھ اور نہیں ہو سکتی۔

(دی انبیریبل لائٹنس آف بی انگ / وجود کی ناقابل برداشت لطافت)

اسے اپنے بڑے پستانوں سے شدید نفرت محسوس ہونے لگی، جن کی وجہ سےایک عورت کی حیثیت سے اس کی قدروقیمت کم ہو گئی۔ وہ اپنے بڑھے ہوئے پستانوں سے گھری ہوئی ہے۔ اس کے پستان کتنے شاندار شیپ میں تھے اور اب جس تیزی سے وہ بڑے ہوئے ہیں، ساری خوبصورتی ختم ہو گئی ہے۔

(دی فیئرویل پارٹی)

وہ عورت کی خوبصورتی کو یاد کر کے زور زور سے رو رہے تھے، وہ جانتے تھے کہ آخر کار عورتوں کے بدن ایک جیسے ہی ہوتے ہیں۔ اور بدصورتی مردوں کے کان میں یوں سرگوشی کر رہی ہے جیسے خوبصورتی سے انتقام لے رہی ہو، ‘دیکھو جوعورتیں تمہیں اتنی خوبصورت اتنی پیاری لگتی ہیں یہی ان کی آخری سچائی ہے ۔ یہ اس عورت کے جو بڑھے ہوئے بدصورت پستان تم دیکھ رہے ہو یہ وہی پستان ہیں جن کی خوبصورتی پر تم احمق لوگ فریفتہ رہتے ہو۔

(دی فیئرویل پارٹی)

یہ تمام اقتباسات چیکوسلواکیہ (بعد میں فرانس میں آباد ہوئے) کے مشہور و معروف ادیب میلان کنڈیرا کی کتابوں سے ماخوز ہیں۔ کنڈیرا نے حال ہی میں دنیا کو الوداع کہا ہے۔

یہ اقتباسات مشہور زمانہ کتاب ‘مساجنیز‘ کی مصنفہ جون اسمتھ نے نقل کیے ہیں۔ یہاں وہ اس حقیقت کا جائزہ لیتی ہیں کہ ایک ایسے ادیب جن کی بے پناہ تعریف و توصیف کی گئی ہے (بالخصوص ہندی کی عورتیں میلان کنڈیراپر فریفتہ رہتی  ہیں)، ان کی تحریریں نہ صرف لاشعوری طور پر بلکہ کھلےطور پر بھی خواتین کی تضحیک کرتی ہیں۔

اسمتھ کنڈیرا کے بارے میں لکھتی ہیں؛ ‘پستان، پستان اور پستان! یہاں ایک انسان ہے جسے خواتین کے پستانوں کی جسامت سے نفرت ہے۔‘وہ مزید کہتی ہیں کہ مذکورہ اقتباسات کا آخری حصہ خواتین کے تئیں میلان کنڈیرا کی نفرت کی وجہ کو بہت حد تک ظاہر کرتا ہے۔ عورتوں کا بدن! ان کا بدن نفرت کے قابل ہے۔ ان کا بدن ان کو کمتر دکھاتا ہے۔ خوبصورت سے خوبصورت عورتیں بھی بوڑھی ہوتی ہیں اور کتنی ہی بدصورت نظر آتی ہیں!

‘مساجنیز’ میں، اسمتھ نے کنڈیرا کی تحریروں اور ان میں موجود خواتین کی تضحیک کے پہلو کو نمایاں کرنے کے لیے ایک پورا باب لکھا ہے۔ اپنی باتوں کو دلیل فراہم کرنے کے لیے وہ کنڈیرا کی ایک اور کتاب، ‘دی آرٹ آف ناول’ کا تذکرہ کرتی ہیں۔ اسمتھ کا خیال ہے کہ اس کتاب میں کنڈیرا نے یورپی ناول نگاروں کا ذکر کرتے ہوئے جان بوجھ کر خواتین ناول نگاروں کو نظر انداز کیا ہے، گویا ان کا  وجود ہی نہ ہو۔

اپنی کتاب میں اسمتھ نہ صرف ادب بلکہ معاشرے کے دیگر شعبوں کی پرتیں بھی کھول کر رکھ دیتی ہیں۔ انگلینڈ کی صحافی اور انسانی حقوق کی کارکن جون اسمتھ کی کتاب ‘مساجنیز’ جب  1989 میں شائع ہوئی تو طوفان برپا ہو گیا۔ جتنے لوگوں نے اس کی حمایت کی، اس سے کہیں زیادہ لوگوں نے اس کی مخالفت کی۔ مجھے اس کتاب کو پڑھنے اور سمجھنے کے لیے کافی مشقت اٹھانی پڑی۔

پہلے سے پڑھی ہوئی بہت سی چیزیں، جن کی تشریح میں نہیں کرپاتی تھی، حالاں کہ وہ غلط سی لگتی تھیں، اس کتاب کے توسط سے مجھے انہیں گہرائی سے سمجھنے میں مدد ملی۔ ادب میں عورتوں کے بدن کو مرکز میں رکھ کر کسی بھی واقعے کوبیان کرنا مجھے اکثر ناگوار لگتا تھا۔ ساتھ ہی اگر اس ادب پارے کی خوب پذیرائی بھی ہو رہی ہو تو۔ اس کتاب کو پڑھنے کے بعد مجھے سمجھ میں آیا کہ یہ مسئلہ دراصل بہت گہرائی سے خواتین کی تضحیک سے متعلق ہے۔

درحقیقت، لفظ ‘مساجنی’ کا ترجمہ (ہندی) تقریباً ناممکن ہے۔ ٹھیک ویسے ہی جس طرح ہمارے معاشرے میں اس کی موجودگی کو کم کرنا بہت مشکل ہے۔ انگریزی لفظ مساجنی کے بیک وقت کئی معنی ہیں – عورتوں سے نفرت، ناپسندیدگی، خوف، انہیں مردوں سے کمترسمجھنا، انہیں آگے نہ بڑھنے دینا، عورتوں کی توہین، تضحیک، انہیں مسترد کرنا وغیرہ۔ ایک طرح سے کہیں تو دنیا میں خواتین کے خلاف جتنے بھی تاثرات ہیں وہ اس ایک لفظ میں مضمر ہیں۔

ہندوستانی معاشرے میں اس لفظ کے معنی کا دائرہ لامحدود ہو جاتا ہے۔ ہر سیاسی، ثقافتی اور جغرافیائی منظر نامے کے ساتھ اس لفظ کے معنی بدل جاتے ہیں۔ ہندی میں مساجنی کے لیے سب سے مشہور لفظ استری دویش (خواتین کی تضحیک) ہے۔ میں بھی اس مضمون میں یہی لفظ استعمال کر رہی ہوں۔

جیسا کہ کتاب ‘مساجنیز’ کی مصنفہ کہتی ہیں کہ مساجنی کا مطلب صرف عورتوں سے نفرت یا خوف ہی نہیں ہے (حالانکہ اس میں دونوں مفہوم شامل ہیں)، اس میں خواتین کی ہتک، توہین  اور مسترد کردینے کا ایک پورا رویہ شامل ہے۔ اور یہ اس کی نہاد میں ہوتا ہے کہ اس بنیاد پر خواتین کو بالکلیہ مسترد کردیا جائے۔

اس کتاب کے مختلف ابواب میں مصنفہ نے یہ سمجھانے کی کوشش کی ہے کہ ہماری زندگی کے شعبہ جات میں خواتین کی تضحیک کا یہ پہلو اس قدر ہمہ گیر ہے کہ ہر ہر سطح پرہم اس سے متاثر ہوتے ہیں۔ پارلیامنٹ سے لے کرعدالت تک، برطانوی شاہی خاندان کی بہو، برطانوی وزیر اعظم تھیچر، سنیما، ادب، شاعری، کہانی، بازار اور آخر میں ایک مرڈر مسٹری کے توسط سے پولیس، عدالت، جج، میڈیا اور معاشرہ ہر جگہ خواتین کی تضحیک کاپہلو نظر آتا ہے۔

‘مساجنیز’ چھوٹے— بڑے  20 ابواب میں منقسم  ہے۔ مصنفہ نے ہر باب میں بڑی عرق ریزی سے خواتین کی تضحیک کا جائزہ پیش کیا ہے۔

پہلے باب کی ابتدائی سطرمیں وہ بتاتی ہیں کہ برطانیہ میں اکتوبر 1991 میں ہاؤس آف لارڈز نے میریٹل ریپ کے خلاف ایک قانون پاس کیا۔ تمام مرد ارکان پر مشتمل ہاؤس آف لارڈز کو اس قانون کو ہضم کرنے میں کافی دشواری ہوئی۔ آخر، اس کے ذریعے ہزاروں سالوں کے مردوں کے حقوق جو سلب کیے جا رہے تھے۔

ہندوستان میں آج بھی شادی کے اندر ریپ کو جرم نہیں سمجھا جاتا۔ ایک وقت میں ملک کے چیف جسٹس دیپک مشرا کا ماننا تھا کہ اگر اس پر عمل کیا گیا تو شادی اور خاندان کے ادارے کی بنیادیں ہل جائیں گی۔ ہندوستان میں شادی کا ادارہ خواتین کی تضحیک کا سب سے بڑا کیریئر ہے۔ شادی کے اسی ادارے کے اندر خواتین کی تضحیک کی بے شمار پرتیں ہیں، جن کا شمار ناممکن ہے۔ عورتیں شادی کے اندر ریپ کے درد  کو خاموشی سے برداشت کرتی رہتی ہیں۔

پہلے ہی باب میں اسمتھ نے پروفیسر انیتا ہل اور جج کلیرنس تھامس کے کیس کے توسط سے ورکنگ پلیس میں خواتین کی تضحیک کے موضوع پر تفصیل سے بحث کی ہے۔ امریکہ میں قانون کی پروفیسر انیتا ہل نے سپریم کورٹ کے لیے نامزد بلیک جج تھامس کے خلاف الزام لگایا تھا کہ تھامس نے کام کرنے کے دوران ان کے خلاف جنسی تبصرے کیے تھے۔ تمام تر کوششوں کے باوجود وہ سینیٹ میں اپنا مقدمہ ثابت نہ کر سکیں اور سینیٹ نے تھامس کو سپریم کورٹ کا جج مقرر کر دیا۔ اس کیس کے توسط سے اسمتھ بتانا چاہتی ہیں کہ سینیٹ سے لے کر عدالت تک ایک عورت کے تئیں نظریہ بنیادی طور پر اسٹریوٹائپ یعنی خواتین کی تضحیک کا ہی رہتا ہے۔

اس معاملے میں ہندوستانی عدالتوں، ججوں، وکیلوں اور پولیس کا خواتین کے ساتھ رویہ کسی سے پوشیدہ  نہیں ہے۔ یاد کر سکتے ہیں کہ بھنوری دیوی ریپ کیس میں جب جج نے کہا تھا کہ چونکہ ملزم اونچی ذات کا ہے اس لیے وہ ‘نچلی ذات’ کی عورت کا ریپ کر ہی نہیں سکتا۔ اگر ہندوستان میں آج تک خواتین کے معاملات پر ہونے والے مباحثوں اور فیصلوں پرتحقیق کی جائے تو ہر طرف خواتین کی تضحیک کا پہلو نظر آئے گا۔

آج بھی ہندوستان میں خواتین کے تئیں عدالتوں، ججوں، وکلاء، میڈیا اور پولیس کا رویہ انتہائی جاگیردارانہ اور خواتین کی تضحیک سے بھرا ہوا ہے۔ تمام مقدموں میں مختلف فریقوں کا زور عورت کو بد کردار ثابت کرنے پر مرکوز ہوتا ہے۔

یارکشائر ریپر نامی ایک مشہور واقعے کے توسط سےاسمتھ برطانوی معاشرے میں کئی سطحوں پر رائج خواتین کی تضحیک  کو نمایاں کرتی ہیں۔ اس میں ایک سیریل کلر یکے بعد دیگرے 13 خواتین کو قتل کرتا ہے اور برطانوی پولیس 5 سال تک اسے پکڑنے میں ناکام رہتی ہے۔ اس معاملے میں بھی پولیس کا رویہ کسی نہ کسی سطح پر خواتین کو ہی قصور وار ٹھہرانے کا ہے۔

اسمتھ بازار کی ہیروئن اور گلوکار سمانتھا فاکس اور مارلن منرو کے ذریعے بھی خواتین کی تضحیک کے پہلوؤں کو اجاگر کرتی ہیں۔

یہی نہیں برطانوی شاہی خاندان بھی خواتین کی تضحیک کرنے کے معاملے میں پاک و صاف نہیں رہا۔ 1980 کی دہائی کی سنسنی لیڈی ڈیانا اور پرنس چارلس کی شادی بہت زیادہ تنازعات کا موضوع رہی۔ میڈیا ڈیانا کو جینے نہیں دے رہا تھا۔ پیج تھری پر اس بات پر گرما گرم بحث ہوتی رہتی تھی کہ ایک عام خاندان سے تعلق رکھنے والی 19 سالہ خوبصورت ڈیانا شاہی خاندان کی بہو بننے لائق تھی یا نہیں۔ بالآخر، پاپرازی سے بچنے کی کوشش کرتے ہوئے ایک حادثے میں اس کی موت ہو جاتی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ وہ کبھی ملکہ کی چہیتی بھی نہیں رہیں۔ پرنس اینڈریو اور ان کی اہلیہ سارہ فرگوسن کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا۔ یہ تو شکر ہے کہ یہ جوڑا بادشاہت کے شکنجے سے نکل آیا۔

یہ شاہی خاندان کی بہوؤں کی کہانی ہے۔ ہندوستانی خاندانوں میں بہوؤں کو بیگانہ اور دی ادر سمجھنے کا رواج  ہے۔ خاندان میں بہو کی حیثیت سب سے کمزور ہوتی ہے۔ پدرشاہی خاندان میں اقتدار کی درجہ بندی میں وہ آخری پائیدان پر ہوتی ہے۔ خاندان میں بہوؤں کے لیے ہر قدم پر حقارت، توہین اور تضحیک کا سامنا کرنا عام سی بات ہے۔ اچھے خاصے پڑھے لکھے لوگ بھی اپنی بہوؤں کی ثانوی حیثیت کو نہ صرف قبول کرتے ہیں بلکہ اپنی زندگی میں بھی اس کی پیروی کرتے ہیں۔

شادی کے ادارے کے ذریعے عورت نہ صرف غلام بنتی ہے بلکہ وہ  متعلقہ خاندان کی خادمہ اور نوکرانی بھی بن جاتی ہے۔ جاگیردارانہ ہندوستانی خاندانوں میں خواتین، خاص طور پر بہوؤں کی تضحیک کی ان کہی کہانیاں ہیں۔

کتاب میں ورجن میری (کنواری مریم) کے افسانے کی تفتیش کرتے ہوئے اسمتھ اس بات کو بھی سمجھنا چاہتی ہیں کہ انگلینڈ کے چرچ میں کوئی عورت پادری کیوں نہیں ہوسکتی۔ ان تمام چیزوں میں انہیں ‘مساجنی’ہی نظر آتی ہے۔ بہرحال، مذہب کوئی بھی ہو،خواتین کی تضحیک کا پہلو اس کی بنیاد میں نمایاں ہے۔

اسمتھ قدیم روم اور ایتھنز کی جمہوریت کی بھی چھان بین کرتی ہیں اور پاتی ہیں کہ تاریخ کی ہر عمارت پدرانہ نظام کی بنیاد پر بنائی گئی ہے اور اس کی تعمیرمیں سب سے پہلے خواتین کی ہی چنائی ہوئی ہے۔

اس کے علاوہ اسمتھ مشہور فلمساز الفریڈ ہچکاک کی فلم ‘سائیکو’ سے شروع کرکے تمام ہالی وڈ فلموں کا جائزہ لیتی ہیں اور یہ ثابت کرتی ہیں کہ یہ فلمیں بنیادی طور پر اپنی نوعیت کے اعتبار سے خواتین کی تضحیک کرتی ہیں۔ ان فلموں میں عورتوں کے بدن کو اس طرح سے دکھایا گیا ہے کہ دیکھنے والوں کے لیے وہی لطف اندوزی کا سامان بن جاتے ہیں۔

ہچکاک نے اپنی فلم میں قاتل کو ایک عورت کے طور پرقتل کرتے ہوئے دکھایا ہے۔ نیز خواتین کے بدن کے ساتھ ریپ اور قتل کی تصویر کشی اس طرح کی جاتی ہے کہ ناظرین عورتوں کے بدن کو چٹخارہ لے کر دیکھیں اور اس کا نقطہ نظر اسی طرح  سے ڈھل جاتا ہے اور وہ خواتین کی تضحیک کی صورت میں ہی خود کو معاشرے میں پاتا ہے۔

اگر ہم ہندوستانی فلموں کی بات کریں تو شاید ہمیں یہ تلاش کرنا پڑے گا کہ کون سی فلم ایسی ہو گی جس میں خواتین کی تضحیک کا کوئی پہلو نہ ہو۔ تمام ‘مسالہ’ فلمیں خواتین مخالف ہی ہوتی ہیں۔ زیادہ تر ہندی فلموں میں خواتین کردار کی کوئی ضرورت نہیں ہوتی۔ وہ اپنے خاندان، شوہر، بوائے فرینڈ اور بچوں کے ارد گرد ہی گھومتی رہتی ہے۔ اس کی آزادانہ شخصیت کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی۔ جہاں کہیں مضبوط خاتون کردار ہوتا بھی ہے وہاں وہ بچوں کی خصوصاً بیٹے کو نظر انداز کرتی پائی جاتی ہے۔ اور الزام کی سوئی اس کی طرف ہی گھوم جاتی ہے۔

اب آتے ہیں ادب کی طرف۔ شارلٹ برونٹی کا ناول ‘شرلی’ 1849 میں شائع ہوتا ہے۔ اس میں شرلی نابینا شاعر جان ملٹن پر خواتین کو نظر انداز کرنے کا الزام لگایا ہے۔ ملٹن کی پیدائش کے تین صدی بعد 1929 میں پیدا ہوئے ادیب میلان کنڈیراکی تحریر میں خواتین کی تضحیک کا تذکرہ پہلے ہی کیا جا چکا ہے۔

اسی طرح اسمتھ نے ہولوکاسٹ پر کچھ مشہور کتابوں اور ان میں بیان کردہ خواتین کرداروں کا بھی جائزہ لیا ہے۔ وہ مشہور ناول ‘سوفیز چوائس’ کے مصنف ولیم اسٹائرن کی نسل پرستانہ اور خواتین کی تضحیک پر مبنی خیالات پر کڑی تنقید کرتی ہیں۔ اسی طرح وہ امریکی فضائیہ کے نوجوان لڑکوں کی نظموں میں خواتین سے لطف اندوز ہونے کی خواہش کی مخالفت کرتی ہیں اور ان میں موجود خواتین کی تضحیک کے پہلو کو نشان زد کرتی ہیں۔

اگر ہندوستانی زبانوں کے ادب کا اس طرح جائزہ لیا جائے تو زیادہ تر یہ شروع سے آخر تک جاگیردارانہ ذہنیت کی عکاسی کرتا ہے۔ اس میں ہر جگہ خواتین کی تضحیک کا پہلو ہے۔ تاہم، یہ اتنا وسیع ہے کہ اس پرجامع تبصرہ کرنا ناممکن ہے۔

آخری باب میں اسمتھ نے ایک بار پھر برطانیہ کے مشہور سیریل کلنگ پر تفصیل سے بحث کی ہے اور خاتون در خاتون قتل معاملوں میں ہر فریق کا نقطہ نظر پیش کرتی ہیں۔ ایک صحافی کے طور پر اسمتھ کو اس کیس کو کور کرنے کی ذمہ داری تھی۔ لہذا، اسمتھ اس کیس کی اندرونی تہوں کو بھی بے نقاب کرنے میں کامیاب ہیں۔ یہ بے وجہ نہیں تھا کہ ہر قتل کے بعد پولیس چیف کسی نہ کسی طریقے سے اس عورت کو مورد الزام ٹھہراتا ہے۔ مثال کے طور پر – ‘وہ ایک طوائف تھی’، یا ‘وہ بہت زیادہ شراب پیتی تھی’ یا ‘وہ رات گئے واپس آتی تھی’ وغیرہ۔

خواتین کے بارے میں اس طرح کے اسٹریوٹائپ ہر معاشرے میں موجود ہیں اور آج بھی ایسا ہی ہوتا ہے۔ عورت سے متعلق کوئی بھی واقعہ رونما ہوا نہیں کہ اس کے کردار کی چیر پھاڑشروع ہوجاتی ہے۔

لیکن اس کتاب کی ایک بڑی خامی یہ ہے کہ یہ اس مساجنی، جس کا پھیلاؤ اس قدر ہے، اس سے چھٹکارا پانے کا کوئی حل پیش نہیں کرتی ۔ یا شاید ان کے پاس کوئی حل ہے بھی نہیں! تاہم، اپنی ’پوسٹ اسکرپٹ‘ میں مصنفہ کا کہنا ہے کہ تمام مرد یا عورت خواتین کی تضحیک کےحامی  نہیں ہوتے۔

اسمتھ خاندان کے اندر موجود ان گنت خواتین کی تضحیک کے پہلو پر بھی بات نہیں کرتی ہیں۔ ہندوستانی خاندانوں میں اندر تک پیوست خواتین کی تضحیک کے موضوع پر کئی کتابیں لکھی جا سکتی ہیں۔

اسمتھ اس قدر مضبوط مساجنی  کو پدرانہ نظام کے اظہار کے طور پر پیش نہیں کرتی ہیں۔ شاید اسی لیے ان کے پاس قوی ہیکل دیو کی طرح موجود خواتین کی اس تضحیک کا کوئی حل بھی نہیں ہے۔

(امیتا شیریں سماجی کارکن ہیں۔)

(ہندی میں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں)