کشمیری صحافی سفینہ نبی کو ان کی ایک رپورٹ کے لیے پونے کے مہاراشٹر انسٹی ٹیوٹ آف ٹکنالوجی-ورلڈ پیس یونیورسٹی نے ایوارڈ کے لیے منتخب کیا تھا۔ تاہم، ایوارڈ سے متعلق تقریب سے ایک دن پہلےانہیں فون پر مطلع کیا گیا کہ سیاسی دباؤ کی وجہ سے ایوارڈ منسوخ کر دیا گیا ہے۔
نئی دہلی: کشمیری صحافی سفینہ نبی کو پونے کے مہاراشٹر انسٹی ٹیوٹ آف ٹکنالوجی-ورلڈ پیس یونیورسٹی (ایم آئی ٹی –ڈبلیو پی یو) کے زیر انتظام جرنلزم اسکول کی طرف سے دیےجانے والے میڈیا ایوارڈ کے لیے منتخب کیا گیا تھا، لیکن وہ اس وقت حیران رہ گئیں جب ایوارڈ کی تقریب سے ایک دن پہلے ان کا ایوارڈ منسوخ کر دیا گیا۔
رپورٹ کے مطابق، بدھ کو انسٹی ٹیوٹ میں تقریب کا انعقاد کیا گیا۔ دی وائر کو موصولہ اطلاعات کے مطابق دائیں بازو کے سیاسی دباؤ کی وجہ سے یونیورسٹی انتظامیہ نے ایوارڈ کومنسوخ کر دیا۔ انسٹی ٹیوٹ کے عہدیداروں نےاس واقعے پر خاموشی اختیار کر رکھی ہے۔
اسکرول میں شائع نبی کی رپورٹ، ‘دی ہاف ویڈوزآف کشمیر‘ کو ‘ معاشرے میں ہمدردی، افہام و تفہیم اور شمولیت کو فروغ دینے والی صحافت’کے زمرے میں ایوارڈ کے لیے منتخب کیا گیا تھا۔ اس میں کشمیر کی ان ‘ہاف ویڈوز’ (ایسی خواتین جن کے شوہر طویل عرصے سے لاپتہ ہیں) کی حالت زار کو سامنے لایا گیا ہے۔ یہ ان خواتین کی کہانی ہے،جن کو ان کے شوہروں کی گمشدگی کے دہائیوں بعد بھی جائیداد کے حقوق سے محروم رکھا جا رہا ہے۔ ان کی اس رپورٹ کو پلتزر سنٹر آن کرائسز رپورٹنگ سے تعاون ملا تھا۔
ان کی رپورٹ کو سات رکنی جیوری نے متفقہ طور پر درجنوں اندراجات میں سے منتخب کیا تھا۔ جیوری میں انسٹی ٹیوٹ کے تین ممبران اور چار بیرونی ممبران شامل تھے۔ بیرونی اراکین میں انڈین ایکسپریس کے پونے ایڈیشن کی مقامی ایڈیٹر سنندا مہتہ، ٹائمز آف انڈیا کے کارٹونسٹ سندیپ ادھوریو، بینیٹ یونیورسٹی میں میڈیا اسکول کے سربراہ سنجیو رتن سنگھ اور دی وائر کے بانی مدیر ایم کے وینو شامل تھے۔
نبی کو 11 اکتوبر کو ایم آئی ٹی –ڈبلیو پی یو میں میڈیا اینڈ کمیونی کیشن کے شعبہ کے ڈائریکٹر دھیرج سنگھ نے فون کال اور ای میل کے ذریعے مطلع کیا تھا کہ انہیں ایوارڈ کے لیے منتخب کیا گیا ہے۔
نبی نے دی وائر کو بتایا کہ انسٹی ٹیوٹ نے ایوارڈ کی تقریب کے لیے ان کے سفر کے انتظامات کیے تھے اور انھیں 17 اکتوبر کو پونے کے لیے روانہ ہونا تھا۔ تاہم، 16 اکتوبر کی دوپہر کو انہیں ایک نامعلوم فیکلٹی ممبر کا فون آیا جس نے کہا کہ ان کا ایوارڈ منسوخ کر دیا گیا ہے اس لیے انہیں اب پونے آنے کی ضرورت نہیں ہے۔
انھوں نے کہا، ‘سب کچھ ٹھیک تھا اور ایک ہفتے تک وہ سفری انتظامات وغیرہ کے لیے مجھ سے رابطہ کرتے رہے۔ مجھے17 اکتوبر کو سفر کرنا تھا اور 16 اکتوبر کو دوپہر 2 بجے کے قریب مجھے ایک خاتون کا فون آیا جس نے خود کویونیورسٹی کی فیکلٹی ممبر بتایا، انہوں نے مجھے بتایا کہ وہ میرا ایوارڈ منسوخ کر رہے ہیں اور مجھے اب سفر نہیں کرنا چاہیے۔ جب میں نے وجہ پوچھی تو انہوں نے بتایا کہ مجھے ایوارڈ دینے کی وجہ سے ان پر بہت زیادہ سیاسی دباؤ ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ میرے لیے سفر کرنا یاایوارڈ کی تقریب میں شامل ہونا انتہائی جوکھم بھرا ہوگا۔
یہ سوچتے ہوئے کہ یہ کسی طرح کی پرینک کال ہے، نبی نے حقیقت جاننے کے لیے ڈپارٹمنٹ آف ماس کمیونی کیشن اینڈ جرنلزم کے اسسٹنٹ پروفیسر راجیش کمار سے رابطہ کیا، کیونکہ اس وقت تک یونیورسٹی سےوہی واحد شخص ان کے رابطے میں تھے۔ انھوں نے کہا، ‘میں حیران تھی کہ انھیں کچھ معلوم نہیں تھا اور انہوں نےتصدیق کرنے کے لیے کچھ وقت دینے کی درخواست کی۔’
وہ کہتی ہیں،’انہوں نے کچھ دیر بعد مجھے فون کیا اور تصدیق کی کہ وہ واقعی میرا ایوارڈ منسوخ کر رہے ہیں اور وہ اس کے لیے معذرت خواہ ہیں۔ میں نے ان سے درخواست کی کہ یہ سب کچھ ای میل پر ڈالیں اور وجہ بتائیں کہ وہ ایسا کیوں کر رہے ہیں۔ اس کے بعد دھیرج سنگھ نے مجھے فون کیا۔ انہوں نے بھی یہی کہا اور ای میل پر کچھ بھی ڈالنے کو تیار نہیں ہوئے ۔ وہ صرف مجھے فون کر رہے تھے اور وجہ بتا رہے تھے کہ یونیورسٹی پر مجھے اعزاز نہ دینے کابہت زیادہ سیاسی دباؤ ہے۔’
اس کے بعد نبی نے جیوری ممبران سے رابطہ کیا۔ انہیں بھی اس حوالے سے کچھ نہیں بتایا گیا تھا۔
نبی کے ایوارڈ کی منسوخی کے بارے میں جاننے کے بعد جیوری ممبران نے اس تقریب میں شرکت سے انکار کر دیا جہاں وہ ‘میڈیا اور جمہوریت’ کے موضوع پر ہونے والے مباحثے میں حصہ لینے والے تھے۔ بتادیں کہ اس ایوارڈ کا اعلان انسٹی ٹیوٹ نے گزشتہ سنیچر کو عوامی طور پر پریس میں ایک بیان جاری کرکے کیا تھا۔
جیوری ممبران کا کہنا ہے کہ وہ ایوارڈ کی منسوخی کے بارے میں سن کر حیران رہ گئے۔ ایم کے وینو نے دی وائر کو بتایا، ‘جیوری کے تین ارکان (سنندا، سندیپ اور میں) اس تقریب میں شرکت کرنے اور ایک بحث میں حصہ لینے کے لیے پونے میں تھے۔ ایوارڈ کی منسوخی کی اطلاع ملنے پر ہم نے آپس میں بات چیت کی اور فیصلہ کیا کہ سب سے اچھا احتجاج یہی ہوگا کہ ہم اس تقریب میں شرکت نہ کریں۔
دی وائر نے ایم آئی ٹی –ڈبلیو پی یو میں میڈیا اور کمیونی کیشن کے شعبہ کے ڈائریکٹر دھیرج سنگھ سے رابطہ کیا اور پوچھا کہ ایوارڈ کیوں منسوخ کیا گیا ہے۔ ان کے جواب موصول ہونے پر اس رپورٹ کو اپ ڈیٹ کیا جائے گا۔
Categories: خبریں