فکر و نظر

بہار: ذات پر مبنی سروے میں مذکور ’گھاسی‘ کون ہیں؟

ذات کا تعارف: بہار میں کرائے گئے ذات پر مبنی سروے میں مذکور ذاتوں سے واقفیت حاصل کرنے کے مقصد سے دی وائر نے ایک نیا سلسلہ شروع کیا ہے۔ پہلا حصہ گھاسی ذات کے بارے میں ہے۔

(علامتی تصویر: پی ٹی آئی)

(علامتی تصویر: پی ٹی آئی)

بہار میں2 اکتوبر 2023 کو جو کچھ  ہوا،  وہ  صرف یہ نہیں تھا کہ ریاستی حکومت نے 209 ذاتوں کی فہرست جاری کردی، جس میں ذاتوں کے نام، ان کی آبادی اور کل آبادی میں ان کی حصہ داری کا ذکرتھا۔ سیاسی نقطہ نظر سے دیکھیں، تویہ ایک نئی سیاست کا آغاز تھا ،جسے منڈل 3.0 کہا جا رہا ہے۔

ملک کی سیاست پر اس کا اثر یہ ہے کہ الیکشن نوٹیفکیشن جاری ہونے سے ٹھیک پہلے راجستھان میں اشوک گہلوت کی حکومت نے صوبے  میں ذات پر مبنی مردم شماری کرانے کا حکم صادر کر دیا ہے۔ کانگریس دیگر ریاستوں میں بھی ذات پر مبنی مردم شماری کا اعلان کر رہی ہے۔ وہیں،بی جے پی کے پاس  فی الحال اس کے لیے کوئی کاٹ نہیں ہے۔ وہ اس کی مخالفت کر پا رہی  ہے اور نہ ہی حمایت۔

خیر،ہم  اس پر بات کرتے ہیں کہ آخربہار حکومت کی جانب سے جو رپورٹ جاری کی گئی ، اس کی ان ذاتوں کے لیے کیا اہمیت ہے۔ ہم یہ بھی جانیں گے کہ ان ذاتوں کی روایات کیا ہیں؟ ان کی وسعت کتنی ہے اور بلا شبہ ہم اس بارے میں بھی بات کریں گے کہ آج ان کی حالت کیا ہے؟

حالاں کہ ،بہار حکومت کی جانب سے سماجی اور اقتصادی رپورٹ جاری نہیں کی گئی ہے، لیکن ہم ذاتوں کے اندر موجود تہوں کو اجاگر کرنے کی کوشش کریں گے۔

آج سب سے پہلے اس ذات کی  بات جسے اس ذات کا رکن سمجھا جاتا ہے، جو کم از کم 1990کے بعد سے بہار میں سیاسی طور پر سب سے طاقتور ذات سمجھی جاتی ہے۔ یہ ذات  ہےگھاسی۔ آج ہم اس ذات کے بارے میں بات کریں گے جو بہار سرکار کی جانب سے جاری کردہ رپورٹ میں56ویں مقام پر ہے اور اس کی کل آبادی صرف 1462 بتائی گئی ہے۔ فیصد کے لحاظ یہ صرف 0.0011 ہے۔

کون ہیں گھاسی؟

بنیادی طور پریہ  چرواہا (گڈریا، گلہ بان)کمیونٹی رہی ہے، لیکن اس قسم کے چرواہے نہیں جو اپنی بھیڑ— بکریوں اور مویشی وغیرہ کے ساتھ خانہ بدوشوں جیسی زندگی بسر کرتے ہیں۔ یہ میدانی علاقوں میں رہنے والے چرواہے ہیں۔ انہیں گھسیارا بھی کہا جاتا ہے۔ ماضی میں ان کا مشغلہ بھی یہی تھا۔ مویشیوں کو پالنا اور ان کے لیےگھاس کاٹ کر لانا۔

انہیں گھاسی کہنے کی روایت اس وقت شروع ہوئی ہوگی،جب خانہ بدوش چرواہوں کے ایک گروپ نے اپنے لیے ایک محفوظ اور مستحکم زندگی بسرکرنے کا فیصلہ کیا ہوگا۔ اس وقت ان کے پیش نظر دو باتیں رہی ہوں گی— ایک تو یہ کہ ان کے مویشیوں کو آب و دانہ مل جائے اور دوسری یہ کہ زندگی گزارنے کے لیے اناج پیدا کرنے کے لیے زمین۔ اس طرح  سے اس ذات کے آباؤ اجداد نے کھیتی باڑی اور مویشی پروری کو اپنایا ہوگا۔

لیکن وقت کے ساتھ حالات ضرور بدلے ہوں گے۔

ہوا یہ ہوگا کہ میدانی علاقوں میں آباد ہونے کی وجہ سے قبائلیت آہستہ آہستہ معدوم  ہوئی ہوگی اور غیر قبائلی تشخص پروان چڑھا ہوگا۔ گھاسی کو گھوشی اور گوشی بھی کہا جاتا ہے۔ ان دونوں الفاظ کے معنی کسی کتاب میں متعین نہیں ہیں۔ لیکن ہندی ادب بتاتا ہے کہ گھوشی کا مطلب ہے پکارنے والا۔ یہ لفظ گھوش سے نکلا ہے اور اس کا مطلب ہی ہے—  پکارنا اور گھوشی کا مطلب  پکارنے والا۔

بہار کے علاوہ یہ ذات اتر پردیش کے علاقوں میں رہتی ہے۔ اوریہ یادووں کی ایک ذیلی ذات بھی ہے۔

کیا رہی ہےتاریخ

تاریخ کی بات کروں، تو بہت سے مؤرخین (مقامی نہیں،غیر ملکی) روز، ایبٹسن، ڈینزل، میکلاگن، ایڈورڈ ڈگلس وغیرہ نے اس ذات کے بارے میں یہ خیال ظاہر کیا ہے کہ یہ ہندو اور مسلمان دونوں ہوتے  ہیں۔ بعض مؤرخین کا خیال ہے کہ جن یادووں نے اسلام کو اپنایا،وہ  گھوسی کہے گئے۔ لیکن اب اس پر کوئی یقین نہیں کرتا۔ اب توجو گھوسی خاندان میں پیدا ہوتے ہیں ،وہ بھی اپنے آپ کو گھوسی کے بجائے یادو کہنے لگے ہیں۔

اس ذات کے لوگ بہار کے مگدھ علاقے میں اکا دکا  ہی صحیح، پائے جاتے ہیں۔ اس کے علاوہ اس ذات کے لوگ اتر پردیش کے مین پوری، اٹاوہ، ہمیر پور، جھانسی، باندہ، جالون، کانپور، فتح پور وغیرہ اضلاع میں رہتے ہیں۔

ہندوستانی ہندو ذاتوں میں ایک مماثلت یہ ہے کہ تمام ذاتیں گوتروں میں تقسیم ہیں۔ گھاسی ذات کے لوگ بھی کئی گوتروں میں بٹے ہوئے ہیں اور اس طرح کہ آج بھی وہ اپنے گوتروں سے باہر جا کر شادی نہیں کرتے۔ کچھ گوتریہ ہیں – بابریہ یا بربائیا، پھاٹک، جیواریا یا جرواریہ، پھٹکالو یا پھٹکیاں، کرائیا، شوندیلے، راؤت، لہوگایا، انگوری، بھرگدے یا بھرگودیو، گائندویا یا گدویا، نگانہ اور دھومر یا دھنر وغیرہ۔

خیر، اس ذات کے لوگوں کی اپنی بہت سی کہانیاں ہیں جو دراصل لوک کہانیاں ہیں۔ یقینی طور پر ا ن میں کرشن کے ساتھ تعلق کو مرکزی حیثیت حاصل ہے۔ لیکن اب ایک بڑی تبدیلی یہ آئی ہے کہ سب یادو لفظ کی چھتری  کے نیچے آ گئے ہیں۔ اس لیے گھاسی یا گھوسی کی صورت میں الگ وجود کی ضرورت نہیں رہ گئی ہے۔

اس کے پیچھے سیاسی وجوہات ہیں۔ بہار میں لالو پرساد یادو اور اتر پردیش میں ملائم سنگھ یادو کی سیاست نے تقریباً تمام یادووں کو متحد کر دیا ہے۔ اس وجہ سے اجتماعی طور پر یہ ایک بڑی سیاسی قوت ہے۔

تاہم، بہار کی ذات پر مبنی مردم شماری کی رپورٹ میں گھاسی ذات کا الگ سے حوالہ دیا گیا ہے، تو اس کا مطلب یہ بھی ہے کہ اس ذات کے کچھ لوگ اب بھی ہیں جو خود کو یادو کہلوانا پسند نہیں کرتے۔ وہ صرف گھاسی ہیں۔ چرواہے کی طرح۔

(نول کشور کمار فارورڈ پریس، نئی دہلی کے ہندی ایڈیٹر ہیں۔)

Categories: فکر و نظر

Tagged as: , , ,