خبریں

پونے: کشمیری صحافی کو دیا گیا ایوارڈ منسوخ کرنے والے ادارے نے کہا – صحافی کی رائے حکومت سے نہیں ملتی

پونے کے مہاراشٹر انسٹی ٹیوٹ آف ٹکنالوجی-ورلڈ پیس یونیورسٹی نے کشمیری صحافی سفینہ نبی کو رپورٹنگ سے متعلق ایوارڈ کے لیے منتخب کیا تھا۔ تاہم، یہ ایوارڈ تقریب سے عین قبل منسوخ کر دیا گیا۔ ممبئی پریس کلب کے صدر نے کہا ہے کہ ایسا کرنا نفرت انگیز ہے اور اس کی سخت مذمت کی جانی چاہیے۔

سفینہ نبی۔

سفینہ نبی۔

نئی دہلی: پونے کے پرائیویٹ انسٹی ٹیوٹ مہاراشٹر انسٹی ٹیوٹ آف ٹکنالوجی-ورلڈ پیس یونیورسٹی (ایم آئی ٹی –ڈبلیو پی یو) نے کشمیری صحافی سفینہ نبی کوجرنلزم  کاایوارڈ دینے کے اعلان اور ایوارڈ واپس لینے کےدو دن بعد منتظمین نے کہا ہے کہ انہوں نے اپنا فیصلہ اس لیے تبدیل کیا ہے کیونکہ ان کے( سفینہ کے) خیالات کو ممکنہ طور پر ‘متنازعہ’ سمجھا جا سکتا  تھا اور یہ حکومت کی خارجہ پالیسی کے مطابق نہیں تھے۔

واضح ہو کہ اسکرول میں شائع نبی کی رپورٹ، ‘دی ہاف ویڈوزآف کشمیر‘ کو ‘ معاشرے میں ہمدردی، افہام و تفہیم اور شمولیت کو فروغ دینے والی صحافت’کے زمرے میں ایوارڈ کے لیے منتخب کیا گیا تھا۔ اس میں کشمیر کی ان ‘ہاف ویڈوز’ (ایسی خواتین جن کے شوہر طویل عرصے سے لاپتہ ہیں) کی حالت زار کو سامنے لایا گیا ہے۔

دی وائر نے پچھلی رپورٹ میں بتایا تھا کہ نبی کو ایوارڈ کے بارے میں باضابطہ طور پر مطلع کرتے ہوئے ایک ہوائی ٹکٹ بھیجا گیا تھا تاکہ وہ ایوارڈ لینے کے لیے18 اکتوبر کو پونے پہنچ سکیں، لیکن 16 اکتوبر کو انھیں بتایا گیا کہ ان کا ایوارڈ منسوخ کر دیا گیا ہے اورانہیں سفر کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔

نبی نے دی وائر کو بتایا کہ منتظمین نے انہیں فون پر بتایا کہ یونیورسٹی انتظامیہ نے دائیں بازو کے سیاسی دباؤ کی وجہ سے ایوارڈ منسوخ کر دیا ہے۔

نبی کے ایوارڈ کی منسوخی کے بارے میں جاننے کے بعد تین آزاد جیوری ممبران نے ایوارڈ کی تقریب میں شرکت سے انکار کر دیا تھا۔ ان میں سے ایک دی وائر کے بانی مدیر ایم کے وینو تھے، جنہوں نے کہا تھاکہ انتظامیہ کا یہ فیصلہ حیران کن ہے۔ وینو نے کہا تھا، ‘ہم (سنندا، سندیپ اور میں) اس پروگرام میں شرکت کے لیے پونے میں تھے۔ ایوارڈ کی منسوخی کے بارے میں جاننے کے بعدہم نے آپس میں بات چیت کی اور فیصلہ کیا کہ اپنا احتجاج درج کرانے کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ ہم اس تقریب میں شرکت نہ کریں… کشمیری صحافیوں کو بالکل مختلف قسم کی سنسر شپ  کے ساتھ ہراسانی کا سامنا  کرنا پڑ رہا ہے جو پوری طرح سے غلط ہے۔

ایم آئی ٹی–ڈبلیو پی یو نے ابتدائی طور پردی وائر  کی جانب سے بھیجے گئے سوالوں کا جواب نہیں دیا تھا، تاہم، بعد میں انہوں نے میڈیا کے دیگر اداروں کو ایک بیان میں کہا کہ ‘یہ صورتحال اندرونی مواصلات میں غلط فہمی کی وجہ سے پیدا ہوئی۔’ اس کا یہ بھی کہنا تھا کہ ادارہ سفینہ کے کام کی بہت عزت کرتا ہے اورانہیں آئندہ  ایک بڑی ایوارڈ تقریب میں اعزاز دیا جائے گا۔’

خبررساں ایجنسی پی ٹی آئی نے جمعرات کو اطلاع دی کہ انتظامیہ نے کہا تھا کہ ‘کمیونی کیشن گیپ’ کی وجہ سے پروگرام کو منسوخ کرنا پڑا اور نبی کو ایک دوسرے پروگرام – ‘بھارتیہ چھاتر سنسد’ میں مدعو کیا جائے گا۔

تاہم، جمعرات کی شام ایم آئی ٹی –ڈبلیو پی یو نے آخرکار دی وائر  کو ایک بیان بھیجا ہے جس میں منسوخ شدہ ایوارڈ کے لیے بالکل مختلف وضاحت پیش کی گئی ہے۔

یہ تسلیم کرتے ہوئے کہ جیوری نے نبی کو ایوارڈکے لیے منتخب کیا تھا، انسٹی ٹیوٹ نے کہا کہ اسے ‘سفینہ کے کچھ شائع شدہ خیالات سے آگاہ کرایا گیا تھا، جو متنازعہ تصور کیے جا سکتے ہیں اور حکومت ہند کی خارجہ پالیسی کے مطابق نہیں ہیں۔’

بیان میں اس بارے میں کوئی تفصیلات فراہم نہیں کی گئی ہیں کہ یہ رائے اور خیالات کیا ہیں یا صحافت کا کوئی ادارہ صحافیوں سے حکومتی پالیسیوں سے متفق ہونے کی توقع کیوں کرتا ہے۔

یہ دعویٰ کرنے کے علاوہ کہ کوئی بیرونی دباؤ نہیں تھا، ادارے نے اس بات کی وضاحت نہیں کی کہ اسے اچانک نبی کی ‘رائے اور نظریات’ سے کیسے ‘واقف ‘کرایا گیا۔

اس میں کہا گیا ہے، ‘ان کے خیالات کی توثیق یا اس سے کنارہ  کشی کیے بغیر ہم نے محسوس کیا کہ اس وقت انہیں یہ ایوارڈ دینے سے غیر مطلوبہ تنازعہ ہوسکتا ہے۔ ایک علمی، غیر سیاسی اور غیر جانبدار ادارہ ہونے کے ناطے ہمیں ایسے تنازعات میں نہیں پڑنا چاہیے۔’

ایم آئی ٹی –ڈبلیو پی یو نے نبی کو دیا گیا ایوارڈ منسوخ کرنے کے لیے کسی بھی ‘بیرونی سیاسی یا غیر سیاسی دباؤ’ کی تردید کی ہے۔

سفینہ نے کہا- انسٹی ٹیوٹ کے کسی پروگرام میں شرکت نہیں کریں گی

ایم آئی ٹی-ڈبلیو پی یو کے بیان کے بارے میں دی وائر سے بات کرتے ہوئے سفینہ نبی نے انسٹی ٹیوٹ کو ‘غیر ضروری لیپا پوتی’ کے لیے تنقید کا نشانہ بنایا اور کہا کہ وہ آئندہ اس کی کسی تقریب میں شرکت نہیں کریں گی۔

ہندوستان کے ساتھ ساتھ بین الاقوامی سطح پر شائع ہونے والی کشمیری صحافی نے کہا کہ پچھلے کچھ دن ‘حیران کن’ تھے اور ‘نیو نارمل’ کے بارے میں اشارہ کر رہے تھے۔ انہوں نے پروگرام کے بائیکاٹ کے جیوری کے فیصلے کی تعریف کی اور کہا، ‘اس سے میرے بھروسے کو طاقت ملی اور مجھے یہ دکھانے میں مدد ملی کہ صحافت محفوظ ہاتھوں میں ہے۔’

نبی نے کہا کہ ان کے کام میں بنیادی طور پر خواتین، خاص طور پر ملک کی خواتین اور ان کی ترقی اور بااختیار بنانے میں ان کا تعاون شامل ہے۔ انہوں نے مزید کہا، ‘میں کئی سالوں سے ثابت قدمی اور ناانصافی کی کہانیاں ریکارڈ کرنے کی کوشش کر رہی ہوں۔ اب میں اسے بدل کر خود کہانی نہیں بننا چاہتی۔ میں گزشتہ چند دنوں میں ملنے والی حمایت کے لیے تہہ دل سے شکر گزار ہوں۔ ایمانداری سے کہانی کہنے کی جدوجہد جاری رہے گی۔’

ایوارڈ واپس لینا نفرت انگیز: ممبئی پریس کلب کے صدر

سینئر صحافی گربیر سنگھ ممبئی پریس کلب کے صدر ہیں۔ یہ پریس کلب ہر سال صحافت کے لیے باوقار ریڈ انک ایوارڈ دیتا ہے۔ انہوں نے دی وائر کو بتایا کہ نبی کو دیا گیا ایوارڈ واپس لینا ‘نفرت انگیز ہے اور اس کی سخت ترین الفاظ میں مذمت کی جانی چاہیے۔’

سنگھ نے کہا، ‘انہوں نے یہ ایوارڈ ایک آزاد جیوری کی طرف سے میرٹ پر مبنی انتخاب کے بعد جیتا ہے۔ انسٹی ٹیوٹ کی یہ کارروائی سفینہ نبی کو اس کی کشمیریت اور ریاست میں رونما ہونے والے انسانی المیے کو اجاگر کرنے کی سزا دے رہی ہے۔ کیا یہ ‘قوم پرستی’ ہے، جس کا مقصد ملک کو متحد کرنا ہے، یا نسلی امتیاز، جو ہمارے ملک کو مزید تقسیم کر رہا ہے؟ بطور صحافی ہمیں سوچنا چاہیے کہ اس غلطی کو کیسے درست کیا جائے۔’

نیٹ ورک  آف ویمن ان انڈیانے بھی اس فیصلے کی مذمت کرتے ہوئے ایم آئی ٹی –ڈبلیو پی یو کو ایک خط لکھا ہے۔

خط میں کہا گیا ہے کہ عام طور پر یہ ایوارڈ تنازعات والے علاقوں کی کہانی کو منظر عام پر لانے میں آپ کی تنظیم کی اہمیت کا اعتراف ہوتا۔ لیکن اس ذمہ داری سے پیچھے ہٹنا آپ کے ذریعے دی جا رہی صحافتی تعلیم کی ایک افسوسناک تصویر پیش کرتا ہے ۔

(جہانوی سین کے ان پٹ کے ساتھ)(انگریزی میں پڑھنے کے لیےیہاں کلک کریں۔)