مغربی ایشیا میں جاری تنازعہ نے ایک بار پھر خطے میں تنازعات کے اہم ثالث کے طور پر قطر کا دوبارہ ابھرنا دیکھا ہے۔ گزشتہ ہفتے قطر نے حماس سے دو امریکی یرغمالیوں کی رہائی میں امریکہ کی مدد کی تھی اور امید کی جارہی ہے کہ اس تنازعہ کو ختم کرانے میں بھی قطر کوئی ممکنہ کردار ادا کرسکتا ہے۔
عام طور پر عرب دنیا سے متعلق ایک شبیہ یہ ہے کہ یہ اندرونی جھگڑوں، قبائلی اور علاقائی برتریوں، جھوٹے غرور اور زیادہ تر کھوکھلے متکبرانہ بیانات پر مشتمل آمرانہ ریاستیں ہیں۔لیکن انہی کے درمیان ایک چھوٹی عرب ریاست قطر نے اپنے آپ کو ایک کامیاب علاقائی اور عالمی ثالث دونوں کے طور پر پیش کیا ہے، جس کی عام طور پر عرب ممالک سے توقع نہیں کی جاتی ہے۔
یہ پہلا موقع نہیں ہے کہ اس چھوٹے اور امیر خلیجی ملک نے مختلف بحرانوں میں ثالث یا قدیم دشمنوں کے درمیان بات چیت کے سہولت کار کے طور پر کردار نبھایاہے۔ ماضی میں اس نے شام، سوڈان، چاڈ اور اریٹیریا کے علاوہ 2007 میں یمن، 2008 میں لبنان، اور حال ہی میں2021 میں افغانستان سے متعلق تنازعات پر کامیابی سے نتیجہ خیز اہداف حاصل کیے ہیں۔ اس نے روس اور یوکرین کے درمیان بات چیت میں بھی ثالثی کی ہے، جس سے متعدد یوکرائنی بچوں کی واپسی کو یقینی بنایا گیا ہے۔ قطر نے تقریباً دو دہائیوں قبل اپنی تیل اور گیس کی دولت، طاقتور قطری ملکیت والے ٹیلی ویژن چینل الجزیرہ، اور اس کی ہنرمند سفارتی سروس کے ذریعہ اپنے آپ کو دنیا کے سب سے ناگزیر ثالثوں میں سے ایک بنانے کے لیے صرف کیے ہیں۔پہلے یہ مرتبہ سوئزرلینڈ کو حاصل تھا۔
ایک قطری اہلکار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر اے ایف پی کو بتایا کہ ثالثی اور تنازعات کا حل قطر کی خارجہ پالیسی کا ایک لازمی حصہ ہے اور اس کے لیے بڑی تعداد میں ماہر سفارت کار تعینات کیے جاتے ہیں۔قطر نے ایک اہم امریکی اتحادی کے طور پر خطے میں ایک غیر معمولی جگہ بھی بنالی ہے۔ یہ ایک بڑے امریکی فوجی اڈے کی قطر میں موجودگی سے بھی ظاہر ہے۔ ثالث کے طور پر قطر کے عروج کو ایک دہائی قبل عالمی سطح پر اہمیت حاصل ہوئی، جب اس نے حماس اور طالبان کے لیے ‘سیاسی دفاتر’ کے دوحہ میں قیام کی اجازت دی۔یعنی کہ ان تنظیموں کی سینئر شخصیات کے لیے سفارت خانے کی طرح کے دفاتر، جو امریکی سرپرستی میں دوحہ میں قائم کیے گئے، تاکہ مذاکرات میں آسانی ہوسکے۔
ایک ثالث اور قریبی امریکی اتحادی کے طور پر قطر کا کردار ایک غیر مستحکم خطے میں اپنے سے بڑے اور مسلح پڑوسی ممالک کے درمیان گھرے ہونے کے باوجود اسے ایک نایاب اہمیت کا حامل بناتا ہے۔قطر نے بنیادی طور پر الجزیرہ کی غیر معمولی رسائی کے ذریعے اپنی سافٹ پاور امیج کو تقویت بخشی، جس نے تارکین وطن مزدوروں کے بارے میں مغربی میڈیا میں ملک کے خلاف منفی کوریج کا مقابلہ کرنے میں بھی مدد کی، خاص طور پر پچھلے سال فٹ بال ورلڈ کپ کے انعقاد سے پہلے اس مقابلے کے لیے بنائے جانے والی مختلف تعمیرات میں انسانی حقوق کی پامالی کا بھی اس نے بڑے شاطرانہ انداز میں جواب دیا، جبکہ غیر وطنی مزدوروں کے خلاف ان سے ایک غلام کی طرح کام کروانا اس کے منصوبے کا ایک اہم حصہ رہے، لیکن مغربی ممالک سے قربت کی وجہ سے کسی بھی مغربی ملک نے قطر کے خلاف اس مسئلے کو طول نہیں دیا۔
مبینہ طور پر دوحہ، حماس کے دو اہم بیرونی دفاتر میں سے ایک کے طور پر کام کرتا ہے، دوسرا ترکی میں ہے۔ اس سلسلے میں اسرائیلی حکومت نے بھی قطر کی مدد کی ہے۔ پچھلے پانچ سالوں کے دوران اس نے قطر کو غزہ میں حماس کو مالی امداد دینے کی اجازت دی ہے یعنی کہ تقریباً 30 ملین ڈالر ماہانہ اور ایندھن کی سپلائی کے ذریعے۔ اسرائیل نے بنیادی طور پر وہاں رہنے والے لوگوں کی فلاح و بہبود کی ذمہ داری لینے سے بچنے کے لیے ایسا کیا ہے، لیکن اس امید کے ساتھ کہ غزہ میں حماس کو برقرار رکھنے سے وہ غزہ اور مغربی کنارے کے درمیان کھائی کو اور زیادہ بڑھا دے گا۔ فلسطینی اتھارٹی (پی اے) کو کمزور کر دے گا اور متحدہ فلسطینی پوزیشن کو کمزور کرنے میں کامیاب ہوجائے گا۔
حماس کے ساتھ قطر کے تعلقات پر تبصرہ کرتے ہوئے کویت یونیورسٹی کے تاریخ کے پروفیسر بدر السیف نے اے پی آر ریڈیو کو بتایا کہ حماس کے قطر کے ساتھ مختلف تعلقات ہیں۔ ماضی میں جب غزہ کے بنیادی ڈھانچے کے لیے امداد پیش کرنے کی بات آئی تھی تو قطر وہاں تعمیر نو کے نئے پروجیکٹ شروع کرانے والا ایک اہم ملک رہا ہے یعنی کہ ثالثی کے ذریعے وہ اپنا مالی فائدہ بھی برقرار رکھے ہوئے۔ اسرائیل نے ماضی میں غزہ کو کئی بار تباہ کیا ہے اور اس کے لیے بہت زیادہ تعمیر نو کی ضرورت تھی۔ اور تعمیر نو پر مشرق وسطیٰ میں خطے کی مختلف جماعتوں نے پردہ ڈالا ہے۔
السیف نے قطری خارجہ پالیسی کا ایک اور نقطہ نظر پیش کرتے ہوئے کہا کہ ایک چھوٹی ریاست ہونے کے ناطے اسے ترقی کی منازل طے کرنے کے لیے ایک محفوظ حکمت عملی کی ضرورت تھی۔ لہٰذا وہ خطے میں امن اور خوشحالی کو مرکزی دھارے میں شامل دیکھنا چاہے گا۔ بدقسمتی سے مشرق وسطیٰ کے لیے ایسا ہونا ممکن نہیں ہے۔ اس کے علاوہ، قطر بھی گزشتہ چند سالوں میں خلیجی تنازعہ کا شکار رہا ہے جب سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور دیگرعرب ممالک نے خطے میں اس کی مالی ناکہ بندی کی تھی۔ لیکن سخت محنت اور کامیاب حکمت عملی کے ذریعے قطر اس صورتحال میں بھی فاتح بن کر ابھرا اور اپنے حکمرانوں کی صلاحیتوں کا ثبوت دیا۔
موجودہ تنازعہ میں، قطریوں کا دعویٰ ہے کہ حماس کے ساتھ ان کے قریبی تعلقات نے انہیں شکاگو سے آئی ہوئی ایک امریکی ماں اور بیٹی کی رہائی کو محفوظ بنانے میں مدد فراہم کی، جو غزہ سے دو میل سے بھی کم فاصلے پر نہال اوز کبوتز کا دورہ کر رہی تھیں جب حماس نے حملہ کیا اور ان کو قید کر لیا۔ دونوں خواتین کی رہائی نے امریکی صدر جو بائیڈن کو ایک باضابطہ بیان جاری کرنے پر مجبور کیا جس میں دو امریکیوں کی رہائی کو یقینی بنانے میں قطری اور اسرائیلی حکومتوں کی ‘ان کی شراکت داری’ پر شکریہ ادا کیا گیا۔
قطر نے ایک قابل اعتبار ثالث کے طور پر اپنا کردار ادا کرنا برسوں پہلے شروع کیا تھا۔قطری ثالثی برسوں پہلے، 2008 میں شروع ہوئی، جب اس نے حزب اللہ اور اس کے مغربی حمایت یافتہ مخالفین کو مذاکرات کی میز پر اکٹھاکیا، جب حزب اللہ نے لبنان میں ہوائی اڈے اور اہم بندرگاہوں سمیت بنیادی ڈھانچے کی تنصیبات پر قبضہ کر نا شروع کردیا تھا۔ بات چیت کا نتیجہ دوحہ معاہدے کی صورت میں نکلا، جس نے بحران کو بڑھنے اور لبنان کو ایک اور خانہ جنگی میں دھکیلنے سے روکا۔
قطر کے روایتی امریکی مخالفین جیسے ایران اور روس یا حماس اور طالبان جیسے غیر ریاستی گروپوں کے ساتھ کام کرنے والے تعلقات نے اسے امریکہ اور دیگر مغربی ممالک کے لیے ایک انمول پارٹنر بھی بنا دیا ہے۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ قطر کی غیر ریاستی مسلح گروپوں اور ریاستی عناصر جیسے کہ روس اور ایران دونوں کے ساتھ اچھے تعلقات برقرار رکھنے کی صلاحیت، امریکہ کے اسٹریٹجک پارٹنر ہونے کے باوجود عالمی سطح پر اس کی اہمیت کو بڑھاتی رہے گی۔
اگرچہ اس کے جغرافیائی سیاسی عزائم قدرے قابلِ بحث ہو سکتے ہیں، لیکن اس کے نقطہ نظر نے ثابت کر دیا ہے کہ سفارت کاری اور ثالثی کی مہارتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے ایک سمجھدار اور مستحکم پالیسی یقیناً آپ کو عالمی سطح پر بڑے ممالک کے درمیان ایک کامیاب کردار ادا کرنے کا اہل بناسکتی ہے۔یہاں یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ اگر قطر موجودہ مغربی ایشیائی تنازعے کو ختم کرانے اور مسئلہ فلسطین کو حل کرانے میں کامیاب ہوجاتا ہے تو اس کا ذکر تاریخ کی کتابوں میں سنہری الفاظ میں لکھا جائے گا اور ساتھ ہی دنیا کو یہ بھی باور کرایا جاسکے گا کہ عرب ممالک بھی ایک کامیاب ثالث کے طور پر اپنا کردار ادا کرسکتے ہیں۔
(اسد مرزا سینئر صحافی اور سیاسی تجزیہ نگار ہیں، وہ بی بی سی اردو سروس اور خلیج ٹائمز دبئی سے وابستہ رہے ہیں۔)
Categories: عالمی خبریں, فکر و نظر