Author Archives

اسد مرزا

کیا 2024 میں ہندوستان ترقی اور مذہبی ہم آہنگی کی راہ پر گامزن ہوگا؟

سال 2024 جہاں ایک جانب ہندوستان کے داخلی، معاشی، سیاسی اور سماجی شعبوں پر اپنا دیرپا نقش چھوڑ سکتا ہے وہیں وہ عالمی سطح پر ایک بڑی طاقت کے طور پر ابھر کر سامنے آنے کے مواقع بھی پیش کرسکتا ہے۔ اب یہ ہندوستان کی قیادت پر منحصر ہے کہ وہ کس طرح ان چیلنجز کا سامنا کرتی ہے، ہندوستان کو داخلی طور پر ایک متنوع کثیرالثقافتی جمہوری ملک بناکر یا اسے مذہب کی بنیادوں پرتباہی کی طرف آگے لے جا کر۔

بی جے پی اور کانگریس نے شروع کی 2024 کی انتخابی مہم

انتخابی سال 2024 کے آغاز سے کچھ ہی دن قبل، حکمراں بی جے پی اور حزب اختلاف کی کانگریس پارٹی، دونوں نے ایک انداز میں اگلے عام انتخابات کے لیے اپنی مہم شروع کردی ہے۔بی جے پی کی توجہ مختلف سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر مرکوز رہے گی، جبکہ کانگریس اپنی پرانی روایات کو جاری رکھتے ہوئے عوامی رابطوں پر زیادہ انحصار کرے گی۔

سال 2024 : عالمی سطح پر جمہوری اقدار کا امتحان

سال 2024 ایک تاریخی سال ثابت ہوسکتا ہے کیونکہ اس سال امریکہ، روس، ایران، ہندوستان سمیت تقریباً 70 ممالک میں صدارتی یا ایوانِ نمائندگان کے انتخابات ہونے ہیں، جن کے مجموعی اثرات ہمارے مستقبل پر کافی گہرا اثر مرتب کر سکتے ہیں۔

یورپ میں دائیں بازو کی اسلام مخالف تحریکات میں تیزی

حالیہ عرصے میں یورپ کے مختلف ممالک میں دائیں بازو کے سیاست دانوں کے لیے عوام کی بڑھتی ہوئی حمایت کو اور یورپ کے مختلف ممالک میں اسلاموفوبیا کے بڑھتے ہوئے معاملوں کی بنا پر یہ کہا جاسکتا ہے کہ اس وقت یورپ بہت تیزی سے دائیں بازو کی قوم پرست تحریکوں کا نشانہ بن رہا ہے۔

یورپی یونین کی حجاب پر مجوزہ پابندی: کیا اسلامو فوبیا کو مزید ہوا مل سکتی ہے

ایک غیر متوقع عدالتی فیصلے میں یورپی عدالت نے مسلم خواتین کے حجاب پہننے پر پابندی کی تجویز پیش کی ہے۔ اگرچہ ابھی تک کسی بھی رکن ممالک نے اس عدالتی حکم پر ردعمل ظاہر نہیں کیا ہے، لیکن توقع ہے کہ اس سے پورے یورپ میں ایک مرتبہ پھر اسلام مخالف جذبات میں شدت آ سکتی ہے۔

فلسطین جنگ کے پس منظر میں عالمی اور ہندوستانی میڈیا کا کردار

گزشتہ دو مہینوں سے فلسطین میں جاری تنازعہ نے ایک مرتبہ پھر یہ ظاہر کردیا ہے کہ عالمی اور ملکی میڈیا کس طرح اپنا کام غیر جانبدارانہ طریقے سے انجام نہیں دے رہے، بلکہ وہ مجموعی طور پر دائیں بازو کے خیالات کی عکاسی کر رہے ہیں۔

کیا اسلام مخالف رہنما گیرٹ وائلڈرز نیدرلینڈز کا نیا وزیر اعظم ہوگا

اگر وائلڈرز نیدرلینڈز کا نیا وزیراعظم بن جاتا ہے،تو یہ دائیں بازو کی ایک بڑی فتح ہوگی۔ ڈچ انتخابات مغربی یورپ میں دائیں بازو کے بڑھتے ہوئے اثر ات کی جانب اشارہ کرتے ہیں۔ پچھلی دہائی میں یورپ کے بیشتر ملکوں میں انتہائی دائیں بازو کی سیاست کی حمایت میں اضافہ ہوا ہے۔

فلسطین کے لیے جنوبی افریقہ کی حمایت

فلسطین میں جاری تنازع کو پچاس سے زیادہ دن ہو چکے ہیں، اور اب تک 12000 سے زائد فلسطینی عوام شہید ہوچکے ہیں،لیکن ابھی تک چند ممالک نے ہی فلسطینیوں کی حالت زار پر لب کشائی کی ہے اور ان میں سے بھی صرف ایک ملک یعنی جنوبی افریقہ نے واضح طور پر اسرائیل کے خلاف سفارتی اقدامات کیے ہیں، اور اسرائیلی جارحیت کو فوری طور پر روکنے کا مطالبہ کیا ہے۔

فلسطین تنازعہ یوکرین جنگ پر حاوی

ایسا لگتا ہے کہ چالیس دن پرانے فلسطین-اسرائیل تنازعہ نے گزشتہ 18 ماہ سے جاری یوکرین جنگ پر سے عالمی توجہ ہٹالی ہے، مزید یہ کہ اب امریکہ نے بھی آہستہ آہستہ یوکرین سے منہ موڑنا شروع کردیا ہے۔ لیکن اس کے پسِ پشت یوکرین نے اپنی سفارتی کاوشیں جاری رکھتے ہوئے یورپی یونین میں شامل ہونے کا راستہ بہت حد تک پار کرلیا ہے۔

مسلمان صیہونیت سے نفرت کرتے ہیں یہودیت سے نہیں

اسرائیل میں گزشتہ ایک ماہ سے جاری تنازعے کو عالمی سطح پر ایک نیا حامی مل گیا ہے یعنی کہ دائیں بازو کے ہندو قوم پرست۔ اگرچہ ان میں سے اکثر افراد کو اس بات کا کوئی اندازہ نہیں ہے کہ اسرائیل میں جنگ کی اصل وجہ کیا ہے لیکن وہ پھر بھی مسلمانوں کی فلسطینیوں کی حمایت کی مذمت کرتے ہیں۔ کیونکہ وہ صہیونیت اور یہودیت میں فرق نہیں کرپاتے ہیں۔

کیا قطر مغربی ایشیائی تنازعہ اور مسئلہ فلسطین میں ثالث کے طور پر کردار ادا کر سکتا ہے

مغربی ایشیا میں جاری تنازعہ نے ایک بار پھر خطے میں تنازعات کے اہم ثالث کے طور پر قطر کا دوبارہ ابھرنا دیکھا ہے۔ گزشتہ ہفتے قطر نے حماس سے دو امریکی یرغمالیوں کی رہائی میں امریکہ کی مدد کی تھی اور امید کی جارہی ہے کہ اس تنازعہ کو ختم کرانے میں بھی قطر کوئی ممکنہ کردار ادا کرسکتا ہے۔

اسرائیل حماس جنگ اور ناکام قاہرہ امن اجلاس

مصر نے مغربی ایشیا میں جاری تنازع میں فلسطینیوں کے ساتھ اظہار یکجہتی اور غزہ میں جاری انسانی بحران کا حل تلاش کرنے کی کوشش میں قاہرہ امن سربراہی اجلاس کی میزبانی کی، لیکن اس کا نتیجہ جیسا کہ امید کی جارہی تھی کچھ زیادہ خوش آئند نہیں رہا اور نہ ہی اس میں کوئی حکمت عملی وضع کی گئی۔