گراؤنڈ رپورٹ

چھتیس گڑھ: ’تبدیلی مذہب‘ کی وجہ سے گاؤں والوں کا عیسائیوں کا بائیکاٹ، لاش کو دفن کرنے کی اجازت نہیں

چھتیس گڑھ کا نارائن پور ضلع ریاست کے آدی واسی علاقوں میں مشنریوں کے ذریعے ‘جبراً تبدیلی مذہب’ کے بی جے پی کے دعووں کا مرکز بن کر ابھرا ہے۔ نئے سال کی شروعات پرحالات اس وقت خراب ہوگئے تھے، جب یہاں کے وشو دیپتی ہائی اسکول کے اندر واقع سیکریڈ ہارٹ چرچ میں بھیڑ نے توڑ پھوڑ کی تھی۔

گزشتہ جنوری میں چھتیس گڑھ کے نارائن پور میں سیکریڈ ہارٹ چرچ میں بھیڑ نے توڑ پھوڑ کی تھی۔ اب اسے دوبارہ بنایا گیا ہے۔ (تصویر: شراوستی داس گپتا)

گزشتہ جنوری میں چھتیس گڑھ کے نارائن پور میں سیکریڈ ہارٹ چرچ میں بھیڑ نے توڑ پھوڑ کی تھی۔ اب اسے دوبارہ بنایا گیا ہے۔ (تصویر: شراوستی داس گپتا)

نارائن پور (چھتیس گڑھ): چھتیس گڑھ کے بریہیبیڑا گاؤں کی13 سالہ سنیتا کی2 نومبر کو نارائن پور کے ضلع اسپتال میں ٹائیفائیڈ سے موت ہوگئی۔

جب اس کی لاش گھر لائی گئی تو بڑی تعداد میں وہاں پہنچے گاؤں والوں نے خاندان کو عیسائی رسم و رواج کے مطابق لڑکی کی لاش کو گاؤں کی زمین میں دفن کرنے سے روک دیا۔ اس کے بجائے انہوں نے اصرار کیا کہ خاندان روایتی قبائلی رسم و رواج اور روایت کے مطابق لاش کو دفن کرے۔

سنیتا کے بڑے بھائی 18 سالہ منوپوٹائی نے دی وائر کو بتایا،’ہم بھی انہی  کی طرح آدی واسی  ہیں، لیکن وہ (گاؤں والے) نہیں چاہتے کہ ہم چرچ جائیں یا چرچ کے طور طریقوں پر عمل کریں۔ وہ چاہتے ہیں کہ ہم روایتی (قبائلی) اصولوں اور رسم و رواج پر عمل کریں۔ انہوں نے کہا کہ اگر ہم عیسائیت چھوڑ دیں تو وہ ہمیں اس کی تدفین کی اجازت دیں گے۔ یہ مسئلہ اب یہاں کے ہر گاؤں میں عام ہے۔’

آخرکار سنیتا کو جمعرات کی شام دیر گئے (2 نومبر) اس کے گاؤں سے دور نارائن پور ضلع کے مرکز کے قریب ایک قبرستان میں دفن کر دیا گیا۔ بریہیبیڑا گاؤں ضلع کے مرکز سے تقریباً 10 کلومیٹر کے فاصلے پر جنگل کے اندر واقع ہے۔

تیرہ سالہ سنیتا کی موت 2 نومبر کو ہوئی تھی۔ (تصویر: شراوستی داس گپتا)

تیرہ سالہ سنیتا کی موت 2 نومبر کو ہوئی تھی۔ (تصویر: شراوستی داس گپتا)

منوپوٹائی اور سنیتا کی طرح ہی  قبائلی اکثریتی بستر علاقے میں بہت سے لوگوں نے عیسائیت اختیار کر لی ہے۔ تاہم، ان لوگوں کو دوسرے گاؤں والے – جن میں سے کچھ کو ہندوتوا گروپس کی حمایت حاصل ہے— کے بڑھتے ہوئے حملوں کا سامنا  کرنا پڑ رہاہے۔ وہ قبائلی رسومات اور روایات کو ہندو دھرم  کے مساوی مانتے ہیں، اس لیے غیر ہندو روایات پر روک لگاتے ہیں۔

منوپوٹائی نے کہا، ‘اگر حکومت بدلتی ہے (ان انتخابات کے بعد) تو یہ اچھا ہو گا کہ  وہ سب کی بات سنیں۔ اس الیکشن سے ہم صرف یہ چاہتے ہیں کہ حکومت جس طرح سب کو سپورٹ کرتی ہے، اسی طرح ہمیں بھی سپورٹ کرےاور ہمارے مسائل کو سنے۔ ہمارے پاس حقوق تو ہیں لیکن وہ ہمارے گاؤں میں حاصل  نہیں ہیں۔ انہیں ہمارے حقوق کو یقینی بنانا چاہیے۔’

گاؤں کے مذہبی امور کی نگرانی کرنے والی دیو کمیٹی کے رکن سنتورام نے کہا کہ عیسائیوں کو اپنے ‘اصل مذہب’ کی طرف لوٹ آنا چاہیے۔

انہوں نے کہا، ‘اگر آپ سناتن دھرم میں نہیں رہتے ہیں تو آپ دھرم ریتی (مذہبی رسومات) کی خلاف ورزی کر رہے ہیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ ہمارا گاؤں مناسب رسم و رواج کی پیروی کرے۔ گاؤں میں دیو ریتی  پر عمل کرنا پڑے گا۔ میں کسی کی مخالفت نہیں کر رہا ہوں۔ وہ ہمارے بھائی بہن ہیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ وہ اپنے اصل مذہب اورہماری دیو ریتی میں واپس آئیں۔ پی ای ایس اے (پیسا/پنچایت پروویژن (شیڈولڈ ایریاز میں توسیع) ایکٹ، 1996) بھی اس کی اجازت دیتا ہے۔’

چھتیس گڑھ میں انتخابات کا پہلا مرحلہ 7 نومبر کو  ہے۔ جن 20 نشستوں پر ووٹنگ ہو رہی ہے، ان میں سے 12 نشستیں بستر ڈویژن کے قبائلی علاقوں میں آتی ہیں۔ نارائن پور، جہاں 7 نومبر کو ووٹنگ ہے، ریاست کے قبائلی علاقوں میں عیسائی مشنریوں کی طرف سے ‘جبراً تبدیلی مذہب‘ کے بی جے پی کے دعووں کا مرکز بن کر ابھرا ہے۔

ستمبر میں مرکزی وزیر داخلہ امت شاہ نے الزام لگایا تھا کہ بھوپیش بگھیل کی قیادت والی کانگریس حکومت میں ریاست میں ‘ تبدیلی مذہب کی لہر چل پڑی ہے’۔

دوسری طرف کانگریس نے ان الزامات کو بے بنیاد قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ بی جے پی کے پاس اٹھانے کے لیے کوئی ایشو نہیں ہے اس لیے وہ لوگوں کو پولرائز کر رہی ہے۔

نارائن پور چرچ حملے کا نتیجہ

دی وائر کی رپورٹ کے مطابق، صرف گزشتہ سال دسمبر میں نارائن پور ضلع  سے عیسائی مخالف تشدد کے 20 سے زیادہ معاملے سامنے آئے تھے۔

نئے سال کی شروعات میں حالات  اس وقت خراب ہوگئے  جب 2 جنوری 2023 کو نارائن پور کے وشوادیپتی ہائی اسکول کےاندر واقع سیکریڈ ہارٹ چرچ میں توڑ پھوڑ کی گئی۔ یہ حملہ علاقے میں تبدیلی مذہب کے حوالے سے قبائلی برادری کے ساتھ پولیس کی میٹنگ کے فوراً بعد ہوا تھا۔

حملہ اس وقت ہواتھا، جب اسکول کا سیشن جاری تھا اور کیمپس کے اندر بچے موجود تھے۔ اس واقعے میں ایک پولیس اہلکار زخمی ہو گیا۔ حملے کے بعد بی جے پی کے ضلع صدر روپ سائی سلام سمیت پانچ لوگوں کو گرفتار کیا گیا تھا۔

چرچ کے پادری اور اسکول کے پرنسپل فادر جومون دیواسیا نے دی وائر کو بتایا کہ نارائن پور میں اپنے چار سال کے کام کاج کے دوران انھوں نے کبھی  بھی اس طرح کے تشدد کی توقع نہیں کی تھی۔

چرچ کو اب دوبارہ بنایا جا رہا ہے۔ تاہم، حملے کے نشانات ابھی باقی ہیں۔ کئی شیشے کی کھڑکیاں اب بھی ٹوٹی ہوئی  ہیں اور ان کی مرمت نہیں کی گئی۔ یہ ایک ایسی جگہ تھی جہاں سینکڑوں لوگ آتے تھے۔

انہوں نے کہا کہ ان کا چرچ، جو جگدل پور ڈائیسس کے تحت آتا ہے، سات اضلاع میں پانچ دہائیوں سے زیادہ عرصے سے ہسپتالوں اور اسکولوں کو خدمات فراہم کر رہا ہے۔ تاہم، اس نے اس عرصے میں کبھی کوئی تشدد نہیں دیکھا۔

نارائن پور کے وشوادیپتی اسکول کے اندر واقع چرچ میں موجود مدر میری کے مجسمے کو توڑ دیا گیا تھا۔ اسے دوبارہ نصب کیا جانا ہے۔ (تصویر: شراوستی داس گپتا)

نارائن پور کے وشوادیپتی اسکول کے اندر واقع چرچ میں موجود مدر میری کے مجسمے کو توڑ دیا گیا تھا۔ اسے دوبارہ نصب کیا جانا ہے۔ (تصویر: شراوستی داس گپتا)

انہوں نے کہا، ‘ہمارا سیاست سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ ہم یہاں صرف اپنے اسکولوں کے ذریعے تعلیم کی ترویج و اشاعت اور اپنے اسپتالوں کے ذریعے لوگوں کی مدد کرنے کے لیے آئے ہیں۔ ہمیں اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ کون سی پارٹی اقتدار میں ہے، چاہے وہ بی جے پی ہو یا کانگریس۔’

تاہم، ضلعی مرکز سے دور اور نارائن پور کے گاؤں کے اندر گھنے جنگلاتی علاقوں میں، گاؤں والے  مذہبی ترجیحات کی قیمت چکا رہے ہیں۔

چھ مارچ کو سنتیرناگ کے 36 سالہ بڑے بھائی کی سولینگا گاؤں میں دل کا دورہ پڑنے سے موت ہو گئی۔ منوپوٹائی کی طرح ہی سنتیرناگ (32) اپنے بھائی کی لاش کو ہسپتال سے گھر واپس لے آئے  اور اسے دفن کرنا چاہتے  تھے۔

تاہم، تقریباً پانچ سے چھ لوگوں نے خاندان کو قبرستان پہنچنے سے روک دیا اور کہا کہ وہ اس کی اجازت صرف اسی صورت میں دیں گے جب خاندان روایتی قبائلی رسم و رواج کی پیروی کرے۔

انہوں نے کہا، ‘پہلے، گاؤں کے اندر ایک میدان تھا جہاں ہم وشواسی (جیسا کہ عام طور پر عیسائی کہلاتے ہیں) اپنے مردہ کو دفن کر سکتے تھے۔ لیکن اب وہ ہمیں ایسا کرنے کی اجازت نہیں دیتے۔ ہم نے پولیس سے بھی مداخلت کرنے کو کہا۔ میں نے ان گاؤں والوں  کے خلاف مقدمہ درج کرایا ہے جو اب بھی جاری ہے۔ بالآخر، میرے بھائی کو شہر کے قریب ایک عیسائی قبرستان میں دفن کیا گیا۔’

سنتیرناگ سلینگا گاؤں میں اپنے گھر میں۔ (تصویر: شراوستی داس گپتا)

سنتیرناگ سلینگا گاؤں میں اپنے گھر میں۔ (تصویر: شراوستی داس گپتا)

کوکوڑی گاؤں میں رہنے والی 24 سالہ سریتا کو 2012 میں عیسائیت اختیار کرنے پر ان کے خاندان نے بے دخل کر دیا تھا۔ جب وہ  چھوٹی تھیں تب ان کے والدین کا انتقال ہو گیا تھا۔ وہ اپنے خاندانی گھر میں رہتی ہیں، جبکہ ان کا بھائی اور ان کا خاندان وہاں سے چلا گیا۔

سریتا نے دی وائر کو بتایا کہ وہ مختلف دیہاتوں میں کام کرنے جاتی ہیں، دیگر وشواسیوں (عیسائیوں کو عام طور پر یہی کہا جاتا ہے) کے لیےان کے کھیتوں میں چھوٹے موٹے کام کرتی ہیں۔

انہوں نے کہا میرا بھائی وشواسی نہیں ہے اور مجھ سے بات نہیں کرتا اور مجھ سے کوئی تعلق نہیں رکھنا چاہتا۔ وہ نہیں چاہتا کہ میں خاندانی زمین پر کام کروں۔ گاؤں والوں نے اس پر دباؤ ڈالا کہ مجھ سے کوئی تعلق نہ رکھے۔ انہوں  نے اس سے مجھے عیسائیت چھوڑنے پر آمادہ کرنے کو کہا، لیکن میں نے انکار کر دیا۔ انہوں نے میرا نام منریگا کی فہرست سے نکال دیا، اس لیے مجھے گاؤں سے باہر جا کر کام کرنے کے لیے مجبور ہونا پڑا۔’

سریتا نے بتایا کہ جب وہ چھوٹی تھیں تو طویل علالت کے بعد ان کے والدین انہیں چرچ لے گئے تھے۔ انہوں  نے بتایا کہ کئی ڈاکٹروں سے ملنے اور ہسپتالوں میں جانے کے بعد جب وہ چرچ گئیں تو ان کی حالت بہتر ہونے لگی۔

انہوں نے کہا، ‘لوگ کہتے ہیں کہ ہمیں پیسےملے ،اس لیے ہم چرچ جانے لگے یا کسی نے ہم پر دباؤ ڈالا، لیکن ایسا نہیں ہے۔ میں ایک وشواسی بن گئی  کیونکہ میری بیماری کے دوران اس نے  میری مدد کی۔’

سریتا کے ہی گاؤں میں رہنے والی جونائی نے بھی بتایا کہ وہ بھی اپنی بیماری سے تنگ آکر کچھ وشواسی کے کہنے پر چرچ جانے لگی تھیں۔ وہاں پرے کرنے کے بعد ایک ہفتے میں ان کی پریشانی دور ہونےلگی اور وہ روزانہ جانے لگیں۔

سریتا اور جونائی کوکوڑی گاؤں میں سریتا کے گھر کے باہر۔ (تصویر: شراوستی داس گپتا)

سریتا اور جونائی کوکوڑی گاؤں میں سریتا کے گھر کے باہر۔ (تصویر: شراوستی داس گپتا)

‘ہمیں ہمارا حق اور الگ قبرستان دو’

سنتیرناگ نے کہا، ‘ہم پر کسی کی طرف سے کوئی دباؤ نہیں ہے۔ ہم نے اپنی مرضی سے عیسائیت کو اپنایا ہے۔’

وہ کہتے ہیں، ‘ہم صرف یہ چاہتے ہیں کہ ہمارے مردہ کو عزت کے ساتھ دفن کرنے کے لیےآس پاس کے 4-5 گاؤں کے وشواسیوں کو زمین الاٹ کی جانی چاہیے۔ کانگریس نے ہمیں یقین دلایا ہے کہ اگر وہ اقتدار میں آئیں گے تو وہ ہمیں زمین دیں گے۔ لیکن اگر بی جے پی آتی ہے تو ہمیں زیادہ امید نہیں ہے۔’

منوپوٹائی نے کہا کہ کانگریس کہہ رہی ہے کہ انہوں نے (ہمیں ہمارا حق نہ دے کر) غلطی کی ہے، اس بار وہ ہماری مدد کریں گے۔ لیکن بی جے پی نے ایسا کچھ نہیں کہا ہے۔ ہمیں خالی وعدے کرنے والی کانگریس جیسی دوسری حکومت نہیں چاہیے۔ لیکن ایک خوف یہ بھی ہے کہ اگر بی جے پی حکومت بناتی ہے تو یہاں تشدد ہو گا۔

منوپوٹائی۔ (تصویر: شراوستی داس گپتا)

منوپوٹائی۔ (تصویر: شراوستی داس گپتا)

تبدیلی مذہب  ایک ‘سماجی مسئلہ’ ہے: بی جے پی

ان حالات کے لیے کانگریس اور بی جے پی ایک دوسرے پر انگلیاں اٹھا رہی ہیں۔

نارائن پور سے کانگریس کے امیدوار چندن کشیپ، جو موجودہ ایم ایل اے بھی ہیں، نے کہا کہ بی جے پی صرف ‘جبری تبدیلی مذہب’ کی بات کر رہی ہے، کیونکہ اس کے پاس اٹھانے کے لیے کوئی دوسرا مسئلہ نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ جنوری کا واقعہ بی جے پی کی طرف سے پہلے سے منصوبہ بند تھا۔

جنوری میں نارائن پور میں چرچ کی توڑ پھوڑ کے سلسلے میں گرفتار کیے گئے روپسائی سلام نے کہا، ‘بی جے پی کے لیے تبدیلی مذہب صرف ایک ایشو نہیں ہے، بلکہ ایک سماجی مسئلہ ہے۔ قبائلیوں کی تبدیلی ایک بڑا سماجی مسئلہ ہے۔ کانگریس کہہ رہی ہے کہ بی جے پی ایسا کر رہی ہے، لیکن یہ ایک سماجی مسئلہ ہے۔’

دی وائر نے نارائن پور سے بی جے پی کے امیدوار کیدار کشیپ سے بھی رابطہ کیا، لیکن ان کی طرف سے کوئی جواب نہیں ملا۔

انگریزی میں پڑھنے کے لیےیہاں کلک کریں۔