فکر و نظر

نریندر مودی کے امرت کال میں کیا ہے بھوک اور بے روزگاری کا حال؟

کیا وزیر اعظم مودی اس بات کی وضاحت کر سکتے ہیں کہ ‘سب سے تیزی سے بڑھتی معیشت، جو 2028 تک دنیا کی تیسری سب سے بڑی معیشت بننے کی راہ پر ہے’ اسے 80 کروڑ لوگوں میں مفت اناج کیوں تقسیم کرنا پڑ رہا ہے؟

علامتی تصویر، بہ شکریہ: Alliance of Bioversity International and CIAT/Flickr CC BY-SA 2.0

علامتی تصویر، بہ شکریہ: Alliance of Bioversity International and CIAT/Flickr CC BY-SA 2.0

جیسے جیسے انتخابی سیاست رفتار پکڑتی جا رہی ہے، وزیر اعظم نریندر مودی تیزی سے تضادات میں پھنستے جا رہے ہیں۔

گزشتہ دنوں چھتیس گڑھ میں ایک انتخابی تقریر میں مودی نے ایک بڑا اعلان کیا کہ 80 کروڑ غریب ہندوستانیوں میں مفت اناج تقسیم کرنے کی اسکیم، جو کووڈ وبائی امراض کے اثرات کو کم کرنے کے لیے شروع کی گئی تھی، اگلے پانچ سالوں کے لیے بڑھائی جائے گی۔ اپنی عادت کے مطابق وزیر اعظم نے دعوی کیا کہ یہ ‘ہندوستان کے لوگوں کو مودی کی گارنٹی’ ہے۔

ایک اورگارنٹی ہے کہ مودی حال ہی میں اپنی تقاریر میں زور شور کہتے رہے ہیں — کہ وزیر اعظم کے طور پر ان کی تیسری مدت کے دوران ہندوستان تیسری سب سے بڑی معیشت بن جائے گا۔ عوام کے نام اپنے تمام پیغامات میں مودی اپنے تیسرے دورِ اقتدار کے بارے میں یوں بات کرتے ہیں جیسے اوپر والے نے یہ طے کر دیا ہو!

اب، یہاں سیاسی معیشت تضاد ہے۔

کیا پی ایم مودی یہ بتا سکتے ہیں کہ سب سے تیزی سے بڑھتی معیشت، جو 2028 تک تیسری سب سے بڑی معیشت بننے کی راہ پر ہے، اسے 80 کروڑ لوگوں میں مفت غذائی اجناس کیوں تقسیم کرنا چاہیے؟ کیا اگلے پانچ سالوں تک مفت راشن اس لیے فراہم کیا جائے گا کہ ہندوستان تیزی سے خوشحال ہو رہا ہے اور امرت کال میں داخل ہو رہا ہے؟

دوسری طرف دیکھیں کہ اگر ہندوستان تیزی سے ترقی کر رہا ہے تو پھر گلوبل ہنگر انڈیکس میں مزید نیچے کیوں گر رہا ہے؟ ہندوستان 2023 کے گلوبل ہنگر انڈیکس میں چار مقام پھسل کر 125 ممالک میں سے 111 ویں نمبر پر آگیا ہے۔ مودی حکومت ہنگر انڈیکس رپورٹ کی تنقید کرتی ہے، لیکن پردھان منتری غریب کلیان ان یوجنا (پی ایم جی کےوائی) کے تحت مفت خوراک کی اسکیم کو مزید پانچ سال کے لیے بڑھا کر بالواسطہ طور پر اس کی حمایت کر رہی ہے۔

درحقیقت، یہ وہ سنگین تضادات ہیں جو قریب گزشتہ 10 سالوں سے پی ایم مودی کی قیادت میں سیاسی معیشت کی خصوصیت بنے ہوئے ہیں۔ زمینی سطح پر کچھ حقیقی نتائج دکھانے کے لیے دس سال بہت طویل عرصہ ہے، خواہ وہ ترقی ہو، روزگار ہو، بچت کی شرح ہو، نجی سرمایہ کاری ہو، غیر ملکی سرمایہ کاری میں اضافہ ہو یا برآمدات وغیرہ۔ ان تمام معاملات پر دستیاب اعداد و شمار ناقص کارکردگی کو ہی ظاہر کرتے ہیں۔ لیکن اس سے وزیر اعظم اور ان کی پی آر مشینری کو ہندوستان کے عالمی معیشت میں سب سے اول ہونے جیسے حیران کن دعوے کرنے پر کوئی فرق نہیں پڑتا ہے۔ الیکشن کے موسم میں سوشل میڈیا سمیت کئی میڈیا چینلوں کے ذریعے اس نیریٹو (بیانیہ) کو چلایا جا رہا ہے۔

لیکن وقتاً فوقتاً تضادات سامنے آتے رہتے ہیں، جیسے کہ اگلے پانچ سال کے لیے ’مودی گارنٹی‘ کے طور پر مفت اناج کی توسیع کا معاملہ ہی دیکھ لیں۔

ایک اور اسکیم جس کو مودی نے اقتدار میں آنے کے بعد یکسر مسترد کردیا، وہ منریگا دیہی روزگار گارنٹی اسکیم تھی، جسے انہوں نے حقیقی اقتصادی ترقی، روزگار اور آمدنی پیدا کرنے میں کانگریس کی ناکامی کی یادگار کے طور پر پیش کیا۔ مودی اور ان کی حکومت کی آج  کی تاریخ میں سب سے بڑی ستم ظریفی یہ ہے کہ دیہی روزگار گارنٹی بجٹ کا 93 فیصد حصہ مالی سال کے پہلے چھ مہینوں میں ہی خرچ ہو گیا ہے۔ چونکہ یہ ڈیمانڈ پر مبنی اسکیم ہے، اس لیے اخراجات ممکنہ طور پر بجٹ میں مختص 60000 کروڑ روپے سے کہیں زیادہ ہوں گے۔ کیا یہ بی جے پی کے 10 سال کے اقتدار کے بعد مودی نامکس کا حقیقی ثبوت ہے؟

اپنے دور اقتدار کے تقریباً دس سالوں میں مودی جی ڈی پی کی بلند شرح نمو کی ضمانت نہیں دے سکے – یہ پچھلے نو سالوں سے تقریباً 5.7 فیصد پر برقرار ہے۔ وہ سالانہ 2 کروڑ نوکریاں فراہم کرنے میں بری طرح ناکام رہے، جس کا انہوں نے 2014 میں وعدہ کیا تھا۔ وہ کسانوں کی آمدنی کو دوگنا کرنے میں ناکام رہے، جو اس وقت ظاہر ہوتا ہے جب آپ 10 سالوں کے دوران ایم ایس پی میں اضافے کے ساتھ فارم ان پٹ کی لاگت میں اضافے کا موازنہ کرتے ہیں۔

اسی لیے اب وہ اگلے پانچ سال تک مفت اناج کی ضمانت دے رہے ہیں۔

مودی حکومت کی معاشی کارکردگی یا اس کی گراوٹ کا سب سے زیادہ نقصاندہ ثبوت گزشتہ ماہ محکمہ شماریات کے ذریعے جاری جولائی 2022 سے جولائی 2023 کے لیے پیریڈک لیبر فورس سروے میں سامنے آیا۔ سروے سے پتہ چلتا ہے کہ سیلف ایمپلائمنٹ کے اعداد و شمار میں بہت زیادہ اضافہ ہوا ہے، جو کہ 2022-23 میں کل ایمپلائیڈ (کام میں لگےافراد) کا 58 فیصد ہے۔

معیشت میں کل ایمپلائیڈ لوگوں کا ڈیٹا 500 ملین سے زیادہ ہے۔ 2017-18 میں سیلف ایمپلائیڈ زمرہ، بنیادی طور پر دیہی ہندوستان میں چھوٹے دکاندار اور شخصی طور پر سروس پرووائیڈر (طرح طرح کی خدمات فراہم کرنے والےلوگ) کل ایمپلائیڈ کا 52 فیصد تھے۔

سیلف ایمپلائمنٹ میں بڑا اضافہ نان مینوفیکچرنگ سیکٹر میں کم معیار کے روزگار میں اضافے کی نشاندہی کرتا ہے۔ یہ واضح ہے کیونکہ سیلف ایمپلائڈز میں سے ایک تہائی ان پیڈ ورکرز ہیں جو بغیر کسی تنخواہ کے چھوٹے خاندانوں کے ذریعے چلائی جانے والی اکائیوں میں شامل ہوتے ہیں۔ اس لیے سیلف ایمپلائمنٹ کا تناسب اس میں بغیر تنخواہ کے کام کرنے والے لوگوں کے تناسب میں گزشتہ 5 سالوں میں ڈرامائی طور پر اضافہ ہوا ہے، ، خاص طور پر نوٹ بندی اور وبائی امراض کے بعد۔

ماہر اقتصادیات سنتوش مہروترا کے مطابق، سیلف ایمپلائڈ زمرے میں ان پیڈ ورکرز کی تعداد 2017-18 میں 4 کروڑ سے بڑھ کر 2022-23 میں 9.5 کروڑ ہوگئی ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن (آئی ایل او) ان پیڈ — ورکرز کو ‘ ایمپلائیڈ’ یعنی کام کرنے والے فردکے طور پر بیان نہیں کرتی اور 92 ممالک میں اس سسٹم کوفالو کیا جاتا ہے۔ ہندوستان میں ان پیڈ—   ورکرز سیلف ایمپلائڈ زمرے کا تقریباً ایک تہائی ہیں۔

یہ ممکنہ طور پر معیشت میں سب سے بڑی استرکچرل کمزوری ہے کیونکہ لیبر فورس سروے یہ بھی ظاہر کرتا ہے کہ 2017-18 اور 2022-23 کے درمیان حقیقی معنوں میں اوسط ریگولر ماہانہ تنخواہ میں 20 فیصد سے زیادہ کی گراوٹ آئی ہے۔ سیلف ایمپلائمنٹ اور کیزوئل (عارضی) زمرے کے لیے بھی اصل تنخواہ میں گراوٹ کو دکھاتا ہے۔

درحقیقت، پچھلے پانچ سالوں میں اوسط تنخواہ میں کوئی اضافہ نہ ہونا واضح طور پر روزگار کے گرتے معیار کو ظاہر کرتا ہے۔ اس بات کا پتہ خود بھی لگایا جا سکتا ہے، بس جا کر کسی بھی سیلف ایمپلائڈ—کنسٹرکشن یا ٹرانسپورٹیشن میں لگے لوگ (اوبر یا اولا ڈرائیور) سے پوچھیں، وہ آپ کو بتائیں گے کہ ان کی تنخواہ عملی طور پر مستحکم ہے، بھلے ہی ورز مرہ کی زندگی گزارنے کے لیے لاگت میں اضافہ ہوگیا ہو۔

تنخواہ کا مستحکم ہونا، خصوصی طور پر دیہی علاقوں میں قوت خرید کی کمی کو ظاہر کرتا ہے، جو کہ حالیہ برسوں میں ہندوستان لیور، بجاج آٹو وغیرہ جیسی کمپنیوں کی دیہی مانگ میں اضافہ کی کمی سے ظاہر ہوتا ہے۔ بجاج آٹو جیسی دو پہیہ گاڑیاں بنانے والی کمپنیاں پانچ یا چھ سال پہلے کے مقابلے آج 30 سے 40 فیصد کم یونٹس فروخت کر رہی ہیں، جو پہلے کبھی نہیں ہوا تھا۔ لگژری سیگمنٹس – ایس یو وی ، جیولری، الکٹرانکس، ہوٹل، ہوائی سفر وغیرہ میں کھپت میں زبردست اضافہ دیکھا گیا ہے اور ان کی ضروریات کو پورا کرنے والی کمپنیاں اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کر رہی ہیں۔

نچلے متوسط طبقے کی کھپت اب تک کی سب سے نچلی سطح پر نظر آ رہی ہے۔

لیبر فورس سروے میں نظر آنے والا تنخواہ کا جمود بڑی حد تک نچلی 60 سے 70 فیصد آبادی کی نمائندگی کرتا ہے۔

یہ دیکھنا دلچسپ ہوگا کہ پی ایم مودی ہندوستان کے امرت کال میں داخل ہونے کی اپنی عظیم کہانی کے بارے میں لوگوں کو کس طرح یقین دلاتے ہیں۔ کوئی بھی مودی سے ایک سادہ اور عام سا سوال پوچھ سکتا ہے کہ امرت کال میں 80 کروڑ لوگ اناج خریدنے کے قابل کیوں نہیں ہیں؟

(انگریزی میں پڑھنے کے لیےیہاں کلک کریں۔)