فکر و نظر

بہار کاسٹ سروے: انسانی تہذیب کی نشو و نما میں چماروں کا حصہ

ذات کا تعارف: دی وائر نے بہار میں کرائے گئے ذات پر مبنی سروے میں مذکور ذاتوں سے واقفیت حاصل کرنے کے مقصد سے ایک سلسلہ شروع کیا ہے۔ 9 واں حصہ چمار ذات کے بارے میں ہے۔

(علامتی تصویر بہ شکریہ: وکی میڈیا کامنز)

(علامتی تصویر بہ شکریہ: وکی میڈیا کامنز)

کچھ ذاتیں ایسی ہیں جو اس ملک کے ہر گوشے میں آباد ہیں۔ ان میں ایک ذات ہے — چمار۔ بہارسرکار کی جانب سے ذات پر مبنی سروے رپورٹ، 2022 کے مطابق، بہار میں اس ذات کی آبادی 68 لاکھ 69 ہزار 664 ہیں، جو کل آبادی کا تقریباً 5.255 فیصد ہے۔ اس ذات کی سیاسی موجودگی بھی بہت خاص رہی ہے اور یہ حیرت کی بات نہیں ہے کہ اسی ذات سے آنے والے جگجیون رام مرکز کی سیاست میں اتنی قوت رکھتے تھے کہ اندرا گاندھی انہیں بابو جی کہہ کر مخاطب کرتی تھیں۔

وہیں1977 میں جب اس ملک میں غیر کانگریسی سرکار وجود میں آئی، تو انہیں نائب وزیر اعظم بنایا گیا۔ بہار میں ہی، جہاں دیگر ‘اونچی’ ذاتوں کا دبدبہ رہا، رام سندر داس وزیر اعلیٰ (21 اپریل 1979 – 17 فروری 1980) بنے۔ یہ وہ وقت تھا جب بہار میں کانشی رام کی بہوجن تحریک کا کہیں نام ونشان نہیں تھا۔

خیر، سیاسی شعور اور سماجی بیداری کے مابین بہت فرق ہے۔ یہ سمجھنے کے لیے کہ آج  بھی چمار ذات کے لوگوں کو کمتر کم سمجھا جاتا ہے، سماجیاتی غوروفکر کی اشد ضرورت ہے۔

دراصل، انسانی تہذیب کی نشوونما ایک مستقل عمل ہے۔ اس کا کوئی بھی مرحلہ ایک جھٹکے میں مکمل نہیں ہوتا۔ مثال کے طور پر، اس سرزمین پر آنے کے بعد انسانوں نے شکار کے بعد جس کام کو اپنایا وہ کھیتی باڑی تھی۔ یہ ایک بڑی کامیابی تھی، جو انسانوں کے کسی خاص گروہ کو میسر نہیں آئی، بلکہ یہ ایک اجتماعی کامیابی تھی۔ لہذا، یہ کہا جاسکتا ہے کہ اس زمین پر جتنے لوگ ہوئے ہیں، سب کے آبا و اجداد کسان تھے۔

ہندوستان کے بارے میں بات کریں، تو وادیٔ سندھ کی تہذیب کی باقیات کے طور پر جو کچھ حاصل ہوا ہے، اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ زراعت سب سے اہم ہے۔ لوگ کھیتی باڑی کرتے تھے۔ تاہم، وہ ایک کاریگر بھی تھے، جنہوں نے شہری تہذیب کو اپنے سانچے میں ڈھالا۔

پھر ذاتیں کیوں بنیں؟ کیوں کوئی کسان سے چمار بن گیا؟ جبکہ اس کا بنیادی کام کھیتی باڑی کرنا تھا۔ یہ ایک ایسا سوال ہے جس کے بارے میں کوئی اکیڈمک بحث ہوئی ہو، کوئی تحقیق کی گئی ہو، اس کی جانکاری نہیں ملتی۔

دراصل، چمار اُن ذاتوں میں رہی ہیں، جنہوں نے کھیتی باڑی اور کاریگری دونوں کو اپنا پیشہ بنائے رکھا۔ جیسے اس ملک میں بڑھئی ہوئے یا لوہار ہوئے۔ اس کڑی میں کمہاروں کو بھی شامل کیا جاسکتا ہے، جنہوں نے مٹی سے برتن، گھڑے، کھپریل بنائے۔ ان سب کی طرح چماروں کی کاریگری بھی بے مثال تھی۔ یہ مویشی بھی پالتے رہے۔ لیکن اس نے مردہ جانوروں کو سڑنے کے لیے نہیں چھوڑا۔ اس ذات کے لوگوں نے فانی جسم کو بھی کارآمد بنا دیا اور یقین کیجیے کہ ان کے ذریعے مردہ جانوروں کی جلد نکالنے پر اسے زیب و تن کر کے اور اوڑھ کر سب سے پہلے انسانوں نے یہ جانا کہ سردی کی راتوں میں جان کیسے بچائی جا سکتی ہے۔

کتنی عجیب بات ہے کہ آج بھی اس ملک میں شنکر کی پوجا کی جاتی ہے، جس کے بدن پر مردہ جانور کی جلد بتائی جاتی ہے، لیکن اس ذات کے لوگ، جو مردہ جانوروں کی جلد نکال کراسے کارآمدبناتے ہیں، وہ اچھوت ہیں۔ آج بھی، اس ذات کے لوگوں کو اچھی نظر سے نہیں  دیکھا جاتا، جبکہ ان کے تیار کردہ جوتے اورچپلوں کو پہن کر لوگ اپنے پیروں کی حفاظت کرتے ہیں۔ گویا یہ تھینک لیس جاب ہو۔

اگر ہم غیر تحریری تاریخ پر نگاہ ڈالیں تو، کھیتی باڑی میں چمار ذات کے لوگوں کی خدمات لوہار اور بڑھئی کے لوگوں سے کم نہیں رہی۔ بڑھئی سماج کے لوگوں نے اگرلکڑی کا ہل بنایا اور لوہاروں نے لوہے کو پگھلا کر وہ ہل، جو زمین میں گھس کر مٹی کو اوپر لے آتا ہے۔ یہ اس وقت تک ممکن نہیں تھا اگر چمار ذات کے لوگوں نے چمڑے کا وہ تھیلا نہیں بنایا ہوتا، جو بلوور (دھونکنی) میں استعمال ہوتا ہے۔ ہوا کو جمع کرنے اور بھٹی کے کوئلے کو اتنا گرم کرنے دینا کہ یہ لوہے کو بھی پگھلا دے۔

اس تناظر میں دیکھیں، تو یہ ایک حیرت انگیز ایجاد تھی، جس کے بارے میں کہیں کچھ بھی درج  نہیں ہے۔ چمار ذات کے لوگوں نے سب سے پہلے والو کا استعمال کیا۔ انہوں نے اپنے تجربات سے سیکھا کہ دنیا میں کوئی جگہ ہوا کے بغیر نہیں ہے۔ انہوں نے چمڑے کا بڑا تھیلا بنایا اور اس میں والو لگا دیا، تاکہ جب دھونکنی کو اٹھایا جائے تو اس میں والو کے راستے ہوا بھرجائے اور جب اس کو دبایا جائے تو والو بند ہوجائے اور ہوا ایک طے شدہ راستے سے باہر نکلے اورکوئلے کا درجہ حرارت بڑھائے۔

صحت عامہ کے لحاظ سے بھی دیکھیں، توچمار ذات کے لوگوں نے مردہ جانوروں کی لاشوں کو گاؤں کے علاقے سے باہر لے جاکر انسانیت کی حفاظت کی۔ گاؤں میں آج بھی وہ ایسا کرتے ہیں۔ ذرا سوچئے کہ اگر وہ ایسا نہ کریں تو کیا ہو؟ گاؤں کے گاؤں مختلف متعدی بیماریوں کا شکار ہوجائے۔ اس ملک نے مردہ چوہوں کی وجہ سے ہونے والی طاعون کی وبا کے وسیع پیمانے پر اثرات کا مشاہد ہ کیا ہے۔

خیر، ذات پات کے نظام نے ہندوستان کی اس ثقافت کا خاتمہ کر دیا جس میں لوہار، بڑھئی، کمہار، چمار اور دیگر کسان ذاتوں کے مابین کوئی فرق نہیں تھا۔ جس کے پاس جو مہارت تھی، اس کا استعمال کرتے ہوئے اس نے ایک ترقی یافتہ معاشرے کی بنیاد رکھی۔

آج کی حالت یہ ہے کہ جن دلتوں پر سب سے زیادہ مظالم کی خبریں آتی ہیں، ان میں چمار ذات کے لوگ سب سے زیادہ  شکار ہیں۔ پھر چاہے یہ راجستھان کے علاقے میں ہوں یا اتر پردیش میں، کہیں انہیں گھوڑی پر چڑھنے کی وجہ سے مار دیا جاتا ہے، تو کہیں مونچھیں رکھنے پر۔ ان کے ساتھ چھوا چھوت کا عالم یہ ہے کہ آج بھی وہ کسی  جاگیردار کے گھڑے سے پانی پی لیں تواس کی سزا، انہیں موت کی صورت میں دی جاتی ہے۔

یہ خود کو مغرب میں جاٹو سمجھتے ہیں اور چمار لفظ کو خارج کرتے ہیں۔

پھرسے سیاسی شعور کے بارے میں بات کی جائے تو چمار ذات کے لوگ سب سے زیادہ بیدار ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ کوئی بھی سیاسی جماعت آج ان کو نظرانداز کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہے۔ ویسے بھی وہ زمانہ چلا گیا جب اس ذات کے لوگ خوف و دہشت میں کسی پارٹی کوسپورٹ کردیتے تھے۔ آج ان کے پاس ان کانظریہ ہے۔ یہ نظریہ انہیں ڈاکٹر امبیڈکر کے نظریہ سے حاصل ہوا ہے، جنہوں نے اچھوتوں کے لیے ایک بڑی تحریک شروع کی۔

بلاشبہ، اس کے پیچھے روی داس کا ‘جاتی توڑو’ پیغام بھی رہا۔ یقینا روی داس بہار میں نہیں، بلکہ کاشی، اتر پردیش میں پیدا ہوئے، لیکن بہار ان کے پیغامات سے اچھوت نہیں تھا۔ وہی روی داس، جنہوں نے بیگم پورہ کا خواب دیکھا تھا اور کہا تھا؛

کہہ روی داس کھالیں چمارا

جو ہم شہری سو میت ہمارا

(نول کشور کمار فارورڈ پریس، نئی دہلی کے ہندی ایڈیٹر ہیں۔)