گراؤنڈ رپورٹ

یوپی: اب جب کہ ایودھیا میں ڈینگو نیا ریکارڈ بنا رہا ہے تو کہیں درج کیوں نہیں ہو رہا؟

اس بار دیوالی کے موقع پر جب اتر پردیش حکومت ایودھیا میں دیپ اتسو منا رہی تھی، شہر کے لوگوں میں ڈینگو کا خوف نظر آ رہا تھا۔ ضلع میں 2021 میں ڈینگو کے کل 571 اور 2022 میں مجموعی طور پر 668 مریض پائے گئے تھے، جبکہ رواں سال میں اب تک یہ تعداد آٹھ سو سے تجاوز کر چکی ہے۔

ایودھیا کی ایک سڑک۔ (تصویر بہ شکریہ: پی پی یونس/CC BY-SA 4.0)

ایودھیا کی ایک سڑک۔ (تصویر بہ شکریہ: پی پی یونس/CC BY-SA 4.0)

ایودھیا: ابھی 11 نومبر کو ملک نے مشاہدہ کیا کہ کس طرح اتر پردیش حکومت نے ایودھیا میں سرکاری عظیم الشان دیپ اتسو کے دوران بیک وقت 22.23 لاکھ چراغ جلا کر گنیز بک میں ایک نیا عالمی ریکارڈ قائم کیا۔ لیکن اس کے بعد اسی ایودھیا میں ڈینگو جو نیا ریکارڈ بنا رہا ہے، اس کو ٹھیک سے دیکھنا تک کسی کو گوارہ نہیں ہے!

غورطلب  ہے کہ اسے تسلیم نہ کرنے کی وجہ نہ صرف یہ کہ ڈینگو کے لیے بنایا گیا ریکارڈ عالمی ریکارڈ نہیں ہےبلکہ اس کی وجہ سے جن عام لوگوں پر آفت آن پڑی ہے، ان کو دیکھنے یا دکھانے کا کوئی مطلب  نہیں رہنے دیا گیا ہے اور جن کی ذمہ داری ہے کہ وہ اسے دیکھ کر اس سے نجات کی راہ تلاش کریں، انہیں بہت سی دوسری چیزیں ہی دیکھنے سے فرصت  نہیں مل پا رہی ہے۔ اس لیے وہ اس پر گاہے بگاہے نگاہ طائرانہ ڈال کر آگے بڑھ جا رہے ہیں۔

جہاں تک میڈیا کا تعلق ہے تو آج کل وہ شاید ہی اپنی کسی ذمہ داری کو اپنی ذمہ داری سمجھ کر پوری کرتا ہے۔ اس لیے یہ بات کسی کے لیے حیران کن نہیں ہے کہ اس نے بھی اسے مقامی مسئلہ بنا کر اس کو اس کے حال پر چھوڑ دیا ہے۔

تاہم، ایودھیا سے شائع ہونے والے یا وہاں پہنچنے والے اخبارات کے مقامی ایڈیشن میں دبی زبان سے ہی صحیح، اس ریکارڈ کی کسی نہ کسی طور پر بات ہو رہی ہے۔

مقامی روزنامہ ‘امرت وچار’ نے گزشتہ 14 نومبر کو اپنی ایک رپورٹ میں لکھا ہے کہ ؛ ایودھیا ضلع میں ڈینگو کا ڈنک اب ڈرانے لگاہے اور اب تک رپورٹ ہونے والے اس کے مریضوں کی تعداد نے گزشتہ کئی سالوں کا ریکارڈ توڑ دیا ہے۔ شہر سے لے کر دیہی علاقوں تک متاثرہ مریضوں کا سلسلہ تھم نہیں رہا اور محکمہ صحت کی احتیاطی کارروائی کے باوجود مریضوں کی بڑھتی ہوئی تعداد تشویش میں اضافہ کر رہی ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ ڈینگو نے گزشتہ ستمبر سے ایودھیا کے لوگوں پر قہر برپا  کرنا شروع کر دیا تھا۔ 5 ستمبر کی ‘امر اُجالا’ کی خبر کے مطابق گوسائی گنج کے ایک استاد راجکمار گپتا عرف امردیپ، جو میا ڈیولپمنٹ بلاک میں کام کر رہے تھے، کی ایک پرائیویٹ اسپتال میں ڈینگو سے موت ہو گئی تھی۔

روزنامہ ’ہندوستان‘ میں شائع ہونے والی ایک اور خبر کے مطابق اکتوبر کے اواخر تک ڈینگو انفیکشن کے معاملے میں ایودھیا ضلع اپنے ڈویژن کے پانچ اضلاع میں سب سے اوپر پہنچ گیا تھا، جبکہ امیٹھی ضلع دوسرے، بارہ بنکی تیسرے، امبیڈکر نگر چوتھے اور سلطان پور پانچویں نمبر پر تھا۔

یہ بات قابل ذکر ہے کہ یہ صورتحال اس وقت تھی جب بعض حلقوں میں یہ شکایات سامنے آئی تھیں کہ ڈینگو کی مکمل جانچ نہیں ہو رہی اور اس کا ڈیٹا چھپایا جا رہا ہے۔

’ہندوستان‘ کی خبر میں کہا گیا تھا کہ صورتحال کو دیکھتے ہوئے محکمہ صحت اور میونسپل کارپوریشن الرٹ ہو گئے ہیں اور مختلف مقامات پر گڑھوں میں بھرے بارش کے پانی میں پیدا ہونے والے مچھروں کو ختم کرنے کی کوششیں کی جا رہی ہیں جو ڈینگو انفیکشن کا باعث بن رہے ہیں۔

لیکن ماہرین کا کہنا ہے کہ صورتحال کو سنجیدگی سے نہ لینے کا نتیجہ یہ نکلا کہ نومبر تک نہ صرف سرکاری بلکہ پرائیویٹ اسپتالوں میں بھی مریضوں کی قطاریں لگنا شروع ہوگئیں جو اب بھی ختم نہیں ہو رہی ہیں۔

صورتحال کی سنگینی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ ایودھیا کے ضلع اسپتال کے لیب ٹیکنیشن آر کے یادو کو بھی نہیں بچایا جاسکا اور اسپتال کے آنکھوں کے ڈاکٹر وجئے ہری آریہ کے بیٹے کی بھی موت ہوگئی۔ ضلع کے چیف میڈیکل آفیسر کے اس بات کی تصدیق کرنے سے انکار کرنے کے باوجود کہ نجی اسپتالوں میں یہ اموات ڈینگو کی وجہ سے ہوئی ہیں، وہ عام لوگوں کی نظروں میں گمبھیر ہی ہیں۔

دیگر اطلاعات کے مطابق، ضلع کے دیہی علاقوں کے مقابلے ایودھیا کے شہری علاقے میں ڈینگو کے زیادہ مریض سامنے آرہے ہیں، جس کی ایک وجہ علاقے کو ریاستی حکومت کے سڑکیں چوڑی کرنے کی مہم کے تحت کی گئی مسماری اور کھدائی کی وجہ سے جگہ جگہ پھیلی گندگی، کیچڑ اور پانی جمع ہونے کو بھی بتایا جا رہا ہے۔

‘امرت وچار’ کے مطابق تو ضلع کا محکمہ صحت بھی سرکاری اور غیر سرکاری تعمیراتی کاموں کی وجہ سے پیدا ہونے والی صورتحال کو ہی ڈینگو کے زیادہ انفیکشن کے لیے ذمہ دار ٹھہرا رہا ہے۔

اخبار کے مطابق وبائی امراض کے ماہر ڈاکٹر اروند سریواستو کا کہنا ہے کہ شہری  علاقوں میں کئی مقامات پر تعمیراتی کاموں اور سڑکوں کو چوڑا کرنے کے کاموں کی وجہ سے پانی جمع ہوگیا ہے۔ ستم بالائے ستم یہ ہے کہ نالیاں بھی گندگی سے بھری ہوئی ہیں۔ اسی وجہ سے ضلع میں 2021 میں ڈینگو کے کل 571 اور 2022 میں کل 668 مریض پائے گئے تھے، لیکن اس بار انفیکشن اس تعداد کو بہت پہلے عبور کرچکا ہے اور اب بھی اس پر قابو نہیں پایا جا رہا۔

انہوں نے بتایا کہ ایودھیا نگر علاقے میں ڈسٹرکٹ ویمنس اسپتال کے آس پاس کے آٹھ سے دس علاقوں کو ڈینگو ہاٹ اسپاٹ قرار دیا گیا ہے۔ ضلعی اسپتال میں ڈینگو وارڈ بنایا گیا ہے جبکہ ہیلتھ سینٹروں میں ڈینگی متاثرین کے لیے بیڈ مختص کیے گئے ہیں۔ متاثرین کے بستروں پر مچھر دانی وغیرہ بھی لگائی گئی ہیں۔

سٹی ہیلتھ آفیسر ڈاکٹر رام منی شکلا کا دعویٰ ہے کہ اینٹی لاروا اور فاگنگ لگاتار کرائی جا رہی ہے۔ بے بسی کا اظہار کرتے ہوئے ان کا کہنا ہے کہ گھروں میں اینٹی لاروا سپرے نہیں کیا جا سکتا اور لوگوں کو خود بھی صاف صفائی کا خیال رکھنا ہو گا۔

لیکن سماجی کارکنوں کی مانیں ، تو ہسپتالوں میں صفائی کی صورتحال بھی تسلی بخش نہیں ہے اور اس سال وائرل بخار میں مبتلا مریضوں کا سیلاب آ گیا ہے۔ یہ بخار لوگوں کو دو دو بار اپنی زد میں لے رہا ہے۔

فیض آباد کے علاقے انگوری باغ کے رہائشی رشیجہ، عبدل اور اجئے کے مطابق پہلے انہیں بخار ہوا اور پلیٹ لیٹس میں نمایاں کمی ہوئی تو ڈاکٹروں نے انہیں بتایا کہ یہ ڈینگی کی علامات ہیں۔ اس کے بعد دوائیاں شروع ہوئیں اور وہ تندرست ہوگئے۔ لیکن ایک ماہ بعد پھر وہی صورتحال پیدا ہو گئی۔

اس بارے میں بات کرنے پر ضلع اسپتال کے فزیشن ڈاکٹر نانک سرن نے خدشہ ظاہر کیا کہ پہلی بار کی تحقیقات میں غلطی ہوسکتی ہے۔ ان کے مطابق ان دنوں کٹس کے ساتھ کیے جانے والے تمام ٹیسٹ مشتبہ ہیں۔

سرکاری دعوے کے مطابق اب تک ڈینگی کے کل 818 کیسز سامنے آچکے ہیں جن میں سے 26 سوموار کو آئے ہیں، جس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ انفیکشن ابھی تک نہیں رکا ہے۔ ان میں سے 85 کیسز اب بھی فعال ہیں یعنی زیر علاج ہیں جبکہ 733 مریض صحت یاب ہو چکے ہیں۔ سرکاری طور پر ڈینگی سے کسی ہلاکت کی تصدیق نہیں کی جا رہی ہے۔

جوبھی ہو، اس بار دیوالی کے موقع پر جب ریاستی حکومت دیپ اتسو منا رہی تھی، ایودھیا کے لوگوں میں ڈینگو کا خوف چھایا ہوا تھا اور وہ بی جے پی مقتدرہ میونسپل کارپوریشن کے انتظامات پر سوال اٹھا رہے تھے۔ یہ شکایات بھی سامنے آ رہی تھیں کہ نالیوں اور نالوں کی باقاعدگی سے صفائی نہیں ہو رہی اور نہ ہی کچرا اٹھایا جا رہا ہے۔

اس سلسلے میں سینئر صحافی اندوبھوشن پانڈے بتاتے ہیں کہ ایودھیا شہر میں 27 نالے ہیں۔ ان کی صفائی میونسپل کارپوریشن ٹھیکے پر کراتی ہے۔ ڈینگی سے بچاؤ کے لیے احتیاط کے طور پر بارش سے پہلے ان نالوں کی صفائی بہتر طریقے سے کی جانی چاہیے تھی اور نالوں کی صفائی کا کام بھی ساتھ ساتھ ہونا چاہیے تھا۔ لیکن اس کے تئیں بے حسی کا رویہ برقرار رکھا گیا۔ ایسے میں شہر میں ڈینگی اور وبائی امراض کی وبا قابو سے باہر کیوں نہیں ہوتی؟ اب بھی نالیوں اور نالوں کی باقاعدگی سے صفائی نہیں کی جارہی ہے۔

قابل ذکر ہے کہ گزشتہ دیوالی کے دن جب سماجوادی پارٹی نے مختلف مسائل پر احتجاج کیا تو ڈینگو سے ہونے والی اموات کا معاملہ بھی اس کے ایجنڈے میں شامل تھا۔

پارٹی کے ضلعی ترجمان چودھری بلرام یادو نے کہا کہ ڈینگو اور وبائی امراض کے کیسز میں اضافے کے باوجود میونسپل کارپوریشن اور محکمہ صحت اپنے کام کرنے کے انداز میں تبدیلی نہیں لا رہے ہیں اور بڑے پیمانے پر احتیاطی مہم نہیں چلا رہے ہیں۔ طبی سہولیات بھی ناکافی ہیں۔ جس کی وجہ سے جو شہری مالی طور پر استطاعت رکھتے ہیں وہ مقامی پرائیویٹ ہسپتالوں پر بھی بھروسہ نہیں کر پا رہے ہیں، وہ ریاستی دارالحکومت لکھنؤ سمیت دیگر شہروں کے سپر اسپیشلٹی ہسپتالوں کا سہارا لے کر بھاری اخراجات سے راحت حاصل کر رہے ہیں، لیکن جو لوگ غربت کا شکار ہیں اور زیادہ تر ہیں ہی ، ان کی حالت بہت خراب ہوتی جا رہی ہے۔

اس کے برعکس ایڈیشنل میونسپل کمشنر ارون گپتا کا دعویٰ ہے کہ ڈینگو سے نمٹنے کے لیے ایودھیا نگر کے تمام وارڈوں میں طے شدہ روسٹر کے مطابق فاگنگ کی جارہی ہے۔ اس کام کے لیے ایودھیا کینٹ میں 30 اور دھام میں 12 فاگنگ مشینیں لگائی گئی ہیں۔ اس کے علاوہ میونسپل کونسلروں کی طرف سے ظاہر کی گئی ضرورت کے مطابق ہر وارڈ میں 60 اینٹی لاروا مشینیں فعال ہیں۔ میونسپل کارپوریشن کے اہلکار بھی متعدی بیماریوں کی صورتحال پر نظر رکھے ہوئے ہیں۔

دوسری جانب اتر پردیش کانگریس کے جنرل سکریٹری اور انتظامیہ کے انچارج دنیش جو ایودھیا کے رہنے والے ہیں، کا کہنا ہے کہ آنجہانی عظیم شاعر گوپال داس نیرج نے اپنی ایک مقبول نظم میں ان لوگوں کو ہدایت کی ہے جو چراغ جلاتے ہیں کہ ‘ اندھیرا دھرا پر کہیں  رہ نہ جائے’ ، لیکن ایودھیا میں چراغ جلانے کا نیا ریکارڈ بناتے ہوئے اتر پردیش حکومت نے چراغ تلے اندھیرے کے نہ رہ جانے کی فکر بھی نہیں کی۔ وہ اپنے نئے دیپ اتسو ریکارڈ کے ساتھ ڈینگو کے ریکارڈ کے بارے میں فکر مند ہوتی تو صورتحال اتنی خراب نہ ہوتی۔

(کرشن پرتاپ سنگھ سینئر صحافی ہیں)