فکر و نظر

بہار کاسٹ سروے: کم آبادی کی وجہ سے چیک کمیونٹی کو ان کے حقوق سے محروم رکھا گیا ہے

ذات کا تعارف: دی وائر نے بہار میں کرائے گئے ذات پر مبنی سروے میں مذکور ذاتوں سے واقفیت حاصل کرنے کے مقصد سے ایک سلسلہ شروع کیا ہے۔ چودھواں حصہ چیک کمیونٹی کے بارے میں ہے۔

 (علامتی تصویر، بہ شکریہ: وکٹوریہ لیہ/فلکر (CC BY-NC-ND 2.0))

(علامتی تصویر، بہ شکریہ: وکٹوریہ لیہ/فلکر (CC BY-NC-ND 2.0))

اگر آپ نان ویجیٹیرین کھانے کے شوقین ہیں اور ہندی بولنے والی ریاستوں میں رہتے ہیں، تو یہ ممکن ہے کہ آپ چیک کمیونٹی کے لوگوں کو جانتے ہوں۔ دراصل ان کا کام ہی ایسا ہے۔وہ تو  اب حالات ذرا بدلے ہیں، ورنہ پہلے کیا مسلمان اور کیا ہندو— سب ان سے گوشت خریدتے تھے۔ انہوں نے بھی کبھی کوئی فرق نہیں کیا۔

کئی بار لوگ سوچتے ہیں کہ چیک اور قصاب/قصائی  دونوں ایک ہی ہیں۔ لیکن یہ الگ الگ  ذاتیں ہیں۔

دراصل، چیک وہ ہوتے ہیں جو چھوٹے جانوروں کے گوشت کا کاروبار کرتے ہیں۔ قریشی برادری کے لوگ جنہیں قصائی بھی کہا جاتا ہے، وہ بڑے جانوروں کا کاروبار کرتے ہیں۔ بہار میں ان دونوں ذاتوں کی آبادی اور حیثیت میں بڑا فرق ہے۔ مثال کے طور پر قصاب یا قصائی برادری کی آبادی 1 لاکھ 33 ہزار 807 ہے جبکہ چیک کمیونٹی کے لوگوں کی آبادی تقریباً نصف یعنی 50404 ہے۔

حیثیت کے بارے میں بات کریں، تو چیک اور قصاب/قصائی دونوں ارذال مانے جاتے ہیں۔ چیک کمیونٹی کے زیادہ تر لوگ بے حد غریب ہوتے ہیں اور ان کی حالت ہندو مذہب کے دلت کھٹک جیسی ہے۔ کھٹک ذات کا روایتی پیشہ بھی چیک کمیونٹی سے ملتا جلتا ہے۔ فرق صرف اتنا ہے کہ چیک کا ذبح کیا ہوا مسلمانوں کے لیے حلال اور ہندوؤں کے لیے حرام مانا جاتاہے۔ اسی طرح کھٹک کا ذبح کیا ہوا ہندوؤں کے لیے مقدس اور مسلمانوں کے لیے غیر مقدس کہا جاتا ہے۔

تاہم، چیک برادری کو کئی دوسرے ناموں سے بھی مخاطب کیا جاتا ہے۔ جیسے بکر قصاب یا بز قصاب۔ بکر کا مطلب بکرا—بکری۔ بعض مقامات پر لوگ انہیں چکوا کہہ دیتے ہیں۔ ایسا بہار میں خوب کہا جاتا ہے۔ وہاں ہر ذات کو اس طرح سے نام بگاڑ کر پکارا جاتا ہے۔ جیسے گوالے کوگووروا، دھوبی کو دھوبیا، چمار کو چمرا۔ یہ ذاتوں کو نیچا دکھانے کے لیے بھی کہا جاتا ہے۔ کئی بار لوگ ‘اونچی’ ذات کو بھی اسی طرح پکارتے ہیں۔ جیسے – پنڈتوا، بھومیہاروا، راجپوتوا۔ تاہم، نام نہاد اعلیٰ ذاتوں کے معاملے میں یہ تبدیلی 1990 کے بعد آئی ہے۔

نام پکارے جانے کے لحاظ سے اتر پردیش ایک مہذب ریاست ہے۔ وہاں کے لوگ اسے بکر قصاب یا بز قصاب ہی کہتے ہیں۔ ان دونوں ریاستوں میں ہی چیک کمیونٹی کے زیادہ تر لوگ رہتے ہیں۔ اتر پردیش میں بنیادی طور پر روہیل کھنڈ اور اودھ کے علاقوں میں۔ روہیل کھنڈ کے بریلی، بجنور، بدایوں اور شاہجہاں پور اضلاع میں وہ اچھی تعداد میں ہیں۔

وہیں ،اودھ کے علاقے کی بات کریں، خاص طور پر لکھنؤ، کھیری، اناؤ اور ہردوئی۔ جبکہ بہار کے ہر ضلع میں چیک کمیونٹی کے لوگ ملیں گے۔ ہندوستان کے علاوہ یہ لوگ پاکستان کے کراچی اور لاہور میں بھی رہتے ہیں۔ ویسے ہندوستان میں رہتے ہوں یا پاکستان میں، سب کا کام ایک جیسا ہے۔ بکری ذبح کرنا اور اس کے گوشت اور کھال کی تجارت کرنا۔

سچر کمیشن نے اپنی رپورٹ میں چیک کمیونٹی کے لوگوں کی پرواہ ضرور کی، لیکن اصل سوال تو عملدرآمد کا ہے۔ بہار اور یوپی دونوں ریاستوں میں یہ ذات پسماندہ طبقے میں شامل ہے۔

جہاں تک سیاسی حیثیت کا تعلق ہے تو یہ بالکل نہ ہونے کے برابر ہے۔ ویسے بھی ہندوستان میں سماجی حیثیت کے لیے آبادی ضروری ہے۔ لیکن صرف پچاس ہزار کی آبادی اکثر انہیں ہر حق سے محروم رکھتی ہے۔

خیر،اب ان کے روزگار پر بھی حملہ ہو رہا ہے۔ مذہب کی بنیاد پر جھٹکا اور حلال کا تنازعہ کھڑا کیا گیا ہے۔ لیکن اب یہ لوگ بھی بدلنے لگے ہیں۔ انہوں نے اپنے روایتی پیشوں کی جگہ نئے پیشے اپنا لیے ہیں۔ لیکن تبدیلی کے لیے ایک مدت درکار ہے۔

(نول کشور کمار فارورڈ پریس، نئی دہلی کے ہندی ایڈیٹر ہیں۔)