فکر و نظر

بہار کاسٹ سروے: کون ہیں دون-وار؟

ذات کا تعارف: دی وائر نے بہار میں کرائے گئے ذات پر مبنی سروے میں مذکور ذاتوں سے واقفیت حاصل کرنے کے مقصد سے ایک سلسلہ شروع کیا ہے۔ سترہواں حصہ دون-وار کمیونٹی کے بارے میں ہے۔

(علامتی تصویر بہ شکریہ: Wikimedia Commons/Sntshkumar750)

(علامتی تصویر بہ شکریہ: Wikimedia Commons/Sntshkumar750)

جس نے بھی ذاتیں بنائیں وہی اس نظام کا موجد رہا ہے کہ اس معاشرے پر وہ اپنی اجارہ داری کیسے قائم رکھ سکتا ہے۔ ایک ایسی اجارہ داری، جو نسل در نسل جاری رہے۔ یہ آسان نہیں ہے اور اس کے اپنے مضر اثرات بھی ہیں۔ کئی بار ایسی اجارہ داری کے خواہشمند خود اس کا شکار ہو جاتے ہیں اور پھر تاریخ میں ان کا کوئی ذکر نہیں ملتا۔

آپ کہیں گے کہ یہ کیسے ممکن ہے وہ گروہ جو کسی غالب گروہ کا حصہ رہا ہو وہ معدوم ہو جائے؟ لیکن یقین کیجیے یہ ممکن ہے اور اس کی مثال دون-وار ہیں اور اب بہار میں ان کی آبادی جو کبھی پٹنہ، چھپرہ، سیوان، گوپال گنج، مظفر پور سے لے کر دربھنگہ، سیتامڑھی، مدھوبنی اور سپول تک پھیلی ہوئی تھی، اب صرف مدھوبنی اور سپول تک محدود رہ گئی ہے۔

آبادی کی بات کریں، تو حال ہی میں بہار حکومت کی جانب سے جاری کی گئی ذات پر مبنی مردم شماری کی رپورٹ سے پتہ چلتا ہے کہ بہار میں صرف 1361 لوگوں نے تسلیم کیا ہے کہ وہ دون-وار ہیں۔

جب اس اعداد و شمار کو دیکھتا ہوں تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ آخر یہ لوگ کہاں گئے؟ آخر کیا وجہ ہے کہ ان لوگوں کی آبادی بہار کی کل آبادی کا صرف 0.0010 فیصد رہ گئی ہے؟ کیا یہ سب لوگ کسی جنگ میں ہلاک ہوگئے؟

یہ سوال اس لیے کہ یہ جنگجو قوم سے تعلق رکھتے ہیں اور مغل فوج میں شامل تھے۔ ان کا ذکر آئین اکبری میں آیا ہے۔

’آئین اکبری‘ تو چھوڑیے، ان کا تعلق درون آچاریہ سے بتایا جاتا رہا ہے اور یہی ان کے آباؤ اجداد کے نام رکھنے کی وجہ بھی ہے۔ تاہم، کچھ لوگوں کو یہ خیالی بات لگ سکتی ہے۔ میں تو سوامی سہجانند سرسوتی کی بات کر رہا ہوں، جو بہار میں اصلاحات اراضی کی تحریک کے بڑے رہنما مانے جاتے رہے ہیں اور آزادی سے پہلے بہار میں ان کا دبدبہ تھا۔ یہ ان کا دبدبہ ہی تھا کہ جب ملک آزاد ہوا، تب شری کرشن سنگھ نے بہار کے پہلے وزیر اعلیٰ کی حیثیت سے برہمنوں، راجپوتوں اور کایسٹھوں کو پیچھے چھوڑ کر بھومیہاروں کا پرچم لہرایا۔

سوامی سہجانند سرسوتی نے اپنی کتاب ’برہمرشی ونس کا وستار‘ میں لکھا ہے؛

’اب دون-وار وغیرہ الفاظ کے معنی ملاحظہ کیجیے۔ درحقیقت دون-وار برہمن کانیہ کبج برہمن، وتس گوترا والے دیکلی یا دیو کلی کے پانڈے ہیں۔ یہ واضح طور پر دون-وار کے اہم مقامات نرہن، نام گڑھ، وبھوت پور اور گنگاپور وغیرہ دربھنگہ ضلع کے رہنے والے دون-وار برہمنوں کے پاس اب تک موجود شجرہ نسب میں لکھا گیا ہے۔ وہاں یہ لکھا ہوا ہے کہ دیوکلی کے پانڈے وتس گوتری دو برہمن، جن میں سے ایک کا نام اس وقت یاد نہیں، مغل بادشاہوں کے زمانے میں کسی فوجی عہدے پر تعینات ہونے کے بعد دہلی  سےمگدھ اور ترہت کی حفاظت کے لیے آئے اور پٹنہ دانا پور کے قلعہ میں رہے۔ وہ اسی جگہ رہ گئے اورانہیں شاہی وقار اور پنشن وغیرہ بھی ملی۔

ان میں سےایک کی کوئی اولاد نہیں تھی۔ لیکن دوسرے بھائی سمندر پانڈے کے دو بیٹے تھے۔ ایک کا نام سادھورام پانڈے اور دوسرے کا مادھورام پانڈے تھا، جن میں سادھورام پانڈے کی اولاد خاص طور پر دربھنگہ کے سریسا پرگنہ میں پائی جاتی ہے، حالانکہ یہاں اور وہاں بھی، کسی نہ کسی وجہ سے، وہ دربھنگہ ضلع کے ہر طرف پھیلے ہوئے ہیں۔  بلکہ دربھنگہ کے حصار گاؤں میں (جنک پور کے قریب) اب تک دون-وار برہمنوں کو پانڈے کہا جاتا ہے۔ مادھورام پانڈے کی اولاد مگدھ کے اکل پرگنہ میں پائی جاتی ہے۔ سادھورام پانڈے کا بیٹا راجہ ابھیرام اور ان کے بیٹے رائے گنگارام ہوئے؛ جنہوں نے اپنے نام پر گنگاپور بسایا۔ وہ بہت بہادر تھے۔ ان کی دو شادیاں تھیں اور دونوں میتھل لڑکیوں سے تھیں۔ ایک عورت بھاگ رانی، چاک استھان کے راجا سنگھ میتھل کی بیٹی تھی اور دوسری مکتارانی تسکھورا استھان کے پنڈت گوپی ٹھاکر میتھل کی بیٹی تھی۔ ایک سے تین اور دوسرے سے چھ، اس طرح رائے گنگارام کے نو بیٹے تھے، جنہوں نے نرہن، رام گڑھ، وبھوت پور اور گنگاپور جیسے نو مقامات پر اپنی اپنی سلطنتیں قائم کیں۔

انہی میں سے پیچھے کوئی شخص، جن کا نام معلوم نہیں، ضلع اعظم گڑھ کے مقام رینی میں مئو سے مغرب میں تونس ندی کے قریب آباد ہوئے، جن کی اولاد وہاں 12 کوس پر پھیلی ہوئی ہے۔ پھر وہاں سے دو آدمی آکر زمانیہ پرگنہ، ضلع غازی پور میں آباد ہوئے اور بعد میں کئی گاؤں میں پھیل گئے۔ ان میں سے ہی بعض صوبہ بنارس سے مدھو پور وغیرہ جگہوں پر بھی آباد ہوئے اور اسی طرح کئی جگہوں پر دو دو ایک ایک گاؤں یا گھروں میں پھیل گئے۔ رینی کے مقام سے ہی بلیا کے قریب تین چار گاؤں کے پاس جیرابستی وغیرہ میں تین یا چارگاؤں میں بسے ہوئے ہیں ، وہ کسی وجہ سے پانڈے کہلانے کے بجائے تیواری کہلانے لگے، جو آج بھی تیواری کہلاتے ہیں۔ جیسے پنڈت نگینہ تیواری وغیرہ۔

اس طرح سادھورام پانڈے کی بہت اولادیں ہوئیں۔ لیکن مادھو راؤ پانڈے کی اولاد صرف مگدھ میں پائی جاتی ہے۔ تاہم ان کی تعداد وہاں کم نہیں ہے۔ دیگھواڑہ (چھپرہ) کے قریب ببھنگاؤں اور اس طرح کے دو دیگر مقامات کے دون-وار لوگ اب بھی پانڈے کہلاتے ہیں۔ جبکہ دون-وار نامی برہمن بہار اور متحدہ صوبے میں پائے جاتے ہیں اور کھشتریا دون-وار صرف چند گاؤں میں پائے جاتے ہیں۔ تو اس سے بلاشبہ ثابت ہوتا ہے کہ ان کھشتریوں کے بارے میں وہی بات ہو سکتی ہے جو ابھی کہی گئی ہے۔’

تو یہ واضح ہے کہ دون-وار برہمن ہی ہوتے ہیں۔ لیکن وہ برہمن، جو یاچک (سوال کرنے والا ، مانگنے والا) نہیں ہوتے۔ مطلب وہ برہمن، جو کرم کانڈ (مذہبی رسومات) کرتے ہیں، لیکن صرف اپنے لیے۔ وہ کسی ججمان کے گھر نہیں جاتے اور رسومات ادا کرنے کے نام پر پیسے نہیں اینٹھتے ۔ یہ لوگ کھیتی باڑی اور زمینداری کرتے ہیں۔ لیکن برہمنوں نے انہیں اپنے سے الگ رکھا۔

لیکن اب اس میں کوئی سوال نہیں ہے کہ انہوں نے دون-واروں کو خود سے الگ کیوں رکھا ہے۔ اس بارے میں خود سوامی سہجانند سرسوتی نے اپنی مذکورہ کتاب میں لکھا ہے؛

بہت سے انگریزوں نے کئی مقامات پر لکھا ہے کہ جب بہت سے بھومیہار (برہمنوں) اور راجپوتوں کا ایک ہی گوتر ہے، جیسے کنوار یا دون-وار، تو پھر انہیں ایک ہی کیوں نہ سمجھا جائے؟ لیکن یہ ان کی غلطی ہے۔ کیونکہ عام طور پر غیر ملکیوں کو یہ معلوم نہیں ہوتا کہ گوتر یا اصل کسے کہتے ہیں۔ دوسری بات، وہ یہ بھی دیکھتے ہیں کہ بہت سے لوگوں کو ان کے گوتروں سے ہی پکارا جاتا ہے، جیسے بھاردواج، گوتم اور کوشک وغیرہ۔ اس وجہ سے ان کو گمان ہوا کہ دون-وار اور کنوار بھی گوتروں کے نام ہیں۔ جس کی وجہ سے انہوں نے ایسا بیان دیا، جس کو دیکھ کر آج کل کے لکیر کے فقیر بھی یہی بیان دینے لگتے ہیں۔ لیکن درحقیقت کنوار اور دون-وار وغیرہ اسم اولین قیام یا ڈیہوں سے ماخوذ ہیں، جنہیں متھلا میں مول کہتے ہیں۔’

سوامی سہجانند سرسوتی کی اس تفصیل میں ایک لفظ آیاہے – ڈیہہ۔ انہوں نے اس کا مفہوم یوں بیان کیا ہے – پہلی رہائش گاہ۔ درحقیقت ڈیہہ کا مطلب ایک اونچی جگہ ہے جہاں پانی کا خوف نہ ہو۔ یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ بہار کے ان تین خطرات میں سے ایک پانی ہے جن کے بارے میں مہاتما بدھ نے بتایا تھا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ بہار ندیوں کی ریاست رہی ہے۔ ان میں سب سے اہم ہمالیہ سے آنے والی ندیاں ہیں جن کا پانی آج بھی ہر سال بہار کو تباہ کر دیتا ہے۔ لہٰذا ڈیہہ یعنی اونچی جگہوں پر آباد ہونا زندگی کے لیے ضروری تھا۔

اس کا تذکرہ بھلے ہی تاریخ میں نہ ہو،لیکن دستیاب حقائق کی بنیاد پر یہ کہا جا سکتا ہے کہ پہلی جنگ جو لڑی گئی وہ صرف ڈیہہ کے لیے تھی۔ جو جیت گیا وہ حکمران بن گیا۔ اور سوامی سہجانند سرسوتی کے مندرجہ بالا اقتباسات سے واضح ہوتا ہے کہ دون-وار لوگ ڈیہہ کے رہنے والے تھے۔ عام زبان میں کہا جاتا ہے کہ یہ لوگ گاؤں کے شمال میں رہے اور باقی دکھن ٹولے میں۔

تاہم، جب سوامی سہجانند سرسوتی ‘برہمرشی ونس کا وستار’ لکھتے ہیں، تو یہ ممکن ہے کہ ان پر یہ الزام لگے کہ انہوں نے مٹھی بھر بھومیہاروں کو ایک بڑا گروہ ظاہر کرنے اور انہیں برہمنوں سے الگ کرنے کی کوشش کی۔ اور شاید اسی لیے انہوں نے اس بات کا ذکر کیا ہے کہ جب کوئی برہمن کسی کھشتری قبیلے کی لڑکی سے شادی کرتا ہے اور اس سے جو بیٹا حاصل کرتا ہے وہ بڑا کشتریہ ہوتا ہے۔

اگر ہم سوامی سہجانند سرسوتی کے اشاروں پر یقین کریں تو نہ صرف بھومیہار، بلکہ دون-واروں کے آباؤ اجداد بھی وہی عظیم کھشتری تھے۔ خود سوامی سہجانند سرسوتی کے الفاظ میں؛

‘سب سے معتبر اور مستند بات یہ ہے کہ دون-وار اور کنوار وغیرہ ناموں والے کھشتری پہلے ایاچک برہمن ہی تھے۔ لیکن کسی وجہ سے وہ اس برہمن سماج سے الگ ہو گئے یا کر دیے گئے۔ بنارس-رامیشور کے قریب گوتم کھشتری آج بھی اپنے آپ کو کیتھو مشر یا کرشن مشر کی اولاد کہتے ہیں، جن مشر جی کی اولادیں سبھی گوتم بھومیہار برہمن ہیں اور وہ بھومیہار برہمنوں سے علیحدگی کی وجہ یہ بتاتے ہیں کہ کچھ عرصہ ہوا ہے کہ ہمارے آباؤ اجداد کو گوتم برہمن حصہ (زمینداری وغیرہ) نہ دیتے تھے، اس لیے وہ ناراض ہو گئے اور ایک طاقتور کشتریہ بادشاہ کی پناہ لی۔ لیکن اس نے کہا کہ اگر تم ہماری بیٹی سے شادی کرو گے تو ہم لڑ کر تمہارا حصہ دلوادیں گے۔ اس پر انہوں نے بھی ایسا ہی کیا اور اس کے بعد سے ہی بھومیہار برہمنوں سے الگ ہو کر کھشتریوں میں شامل ہو گئے، یہ مناسب بھی ہے۔ کیونکہ جیسا کہ اس واقعہ میں پہلے ہی دکھایا جا چکا ہے، تمام منو اور مہا رشیوں وغیرہ کا یہی اصول یہ ہے کہ اگر کوئی برہمن کسی کھشتریا کی بیٹی سے شادی کرتا ہے تو اس کا بیٹا خالص کھشتریا ہوگا۔ ‘

سوامی سہجانند سرسوتی اپنے مضمون میں کہتے ہیں، ‘خلاصہ یہ ہے کہ سبھی دون-وار وغیرہ ناموں والے کھشتریوں کی تعداد بہت کم ہے، لیکن ان ناموں والے بھومیہار برہمنوں کی تعداد زیادہ ہے۔ اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ کسی وجہ سے وہ لوگ ان مانگنے والے برہمنوں سے الگ ہو گئے ہیں۔ اس لیے ان کے دون-وار وغیرہ اسم اور گوتر وہی ہیں جو دون-وار وغیرہ نام والے برہمنوں کے ہیں۔

تاہم، یہ سچ ہے کہ دون-وار لوگ ایاچک برہمن رہے ہیں۔ بہتر تو یہ ہو کہ دون-وار، جنہیں ایاچکوں میں سب سے اعلیٰ  ہونے کا گھمنڈ رہا ہے ، وہ اپنی برتری یا انا چھوڑ کر بڑے گروہ کا حصہ بن جائیں تاکہ اس ملک اور معاشرے سے ذات پات کا مکمل خاتمہ ہو جائے۔

(نول کشور کمار فارورڈ پریس، نئی دہلی کے ہندی ایڈیٹر ہیں۔)