عالمی خبریں

فلسطین جنگ کے پس منظر میں عالمی اور ہندوستانی میڈیا کا کردار

گزشتہ دو مہینوں سے فلسطین میں جاری تنازعہ نے ایک مرتبہ پھر یہ ظاہر کردیا ہے کہ عالمی اور ملکی میڈیا کس طرح اپنا کام غیر جانبدارانہ طریقے سے انجام نہیں دے رہے، بلکہ وہ مجموعی طور پر دائیں بازو کے خیالات کی عکاسی کر رہے  ہیں۔

Destroyed buildings in Gaza. Photo: X/@UNRWA

Destroyed buildings in Gaza. Photo: X/@UNRWA

فلسطین میں جاری تنازعہ کے پہلے دن یعنی 7 اکتوبر سے ہی مغربی اور ہندوستانی میڈیا کے کام کرنے کے انداز کو بڑی حد تک بے نقاب ہوتے دیکھا گیا ہے۔اب تک ہندوستانی اور مغربی میڈیا دونوں کی طرف سے تنازعہ کی رپورٹنگ نے جائے واقعہ سے رپورٹنگ کرنے والے ’نام نہاد‘ صحافیوں کی طرف سے مکمل تعصب اور تاریخ سے لاعلمی کا مظاہرہ پیش کیا ہے۔

ساتھ ہی مغربی میڈیا نے پہلے دن سے ہی اسرائیلیوں کو ’مارے گئے‘ اور فلسطینیوں کو تنازعہ میں ’مردہ‘ قرار دینا شروع کردیا تھا، جس سے صاف ظاہر ہوتا تھا کہ ان کی ہمدردیاں کس طرف ہیں۔ وہ  اسرائیلیوں کو فلسطینیوں کی جانب سے ہلاک کرتے ہوئے دکھا رہے تھے جبکہ اسرائیل کی جارحانہ کارروائی کے سبب مارے جانے والوں کو صرف مردہ قرار دے رہے تھے اور نہ ہی یہ بتا رہے تھے کہ انھیں کس نے مارا؟ ایسا لگ رہا تھا کہ وہ اپنے آپ ہی فوت ہورہے ہیں۔

اس کے علاوہ اکثر مغربی ٹی وی چینلوں کا جو مشاہدہ کیا گیا اس سے یہ سامنے آیا کہ زیادہ تر ٹی وی شوز کے میزبان فلسطینیوں کے خلاف مکمل طور پر متعصب اور صہیونی لابی کے ساتھ ہمدردی رکھتے ہیں۔

ان میں سے اکثر نے مکمل طور پر غیر پیشہ وارانہ اور یکطرفہ موقف اختیار کرتے ہوئے اور صہیونی لابی کے حق میں مکمل جانبداری کا مظاہرہ کرتے ہوئے، اپنے مہمانوں کو ان کا نقطہ نظر پیش کرنے یا صورتحال کی وضاحت کے لیے کافی وقت نہ دے کر اپنے مہمانوں کو مسخر کرنے کی کوشش کی اور ساتھ ہی انھیں اپنا موقف واضح کرنے کے لیے زیادہ وقت بھی نہیں دیا۔

درحقیقت، ان ٹی وی اینکرز، نامہ نگاروں اور میزبانوں کو خود ایک صحافتی سبق حاصل کرنے کی ضرورت تھی کہ وہ کس طرح سے انٹرویو لیں یا جائے واقعہ سے خبریں کیسے پیش کریں یا حالات کا تجزیہ کس طریقے سے پیش کریں۔اس ضمن میں جو واقعہ سرِفہرست ہے وہ ہے جب برطانیہ میں فلسطینی اتھارٹی کے نمائندے/ سفیر نے بی بی سی کے ’ہارڈ ٹاک‘ پروگرام کے لیے اسٹیفن سکور کے ساتھ اپنے انٹرویو کے دوران مداخلت کرنے والے میزبان کو کیسے انٹرویو کرنے کا سلیقہ سکھایا یہ اس کی ایک بہت اچھی مثال تھی۔

سفیر حسام زمروت نے باوقار اور انتہائی پرسکون انداز میں پروگرام کے دوران میزبان کو ایک سے زیادہ مرتبہ خاموش کرایا اور اپنی بات کو مدلل، منطقی اور قائل کرنے والے انداز میں پیش کیا۔ شاید یہ ایک سبق ہوسکتا ہے، ہمارے ہندوستانی مسلم رہنماؤں اور ترجمانوں کے سیکھنے کے لیے کہ کس طریقے سے آپ تیاری کے ساتھ ٹی وی انٹرویوز دے سکتے ہیں اور پروگرام کے اینکر کی بدتمیزیوں کا مقابلہ کرتے ہوئے کس طریقے سے اپنا نظریہ مدلل، منطقی اور قائل کرنے والے انداز میں پیش کرسکتے ہیں۔

بہرحال، ہم ہندوستانی میڈیا کی بات کریں تو یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ انہوں نے پہلے دن سے ہی ایک جانبدارانہ لب و لہجہ اختیار کرلیا تھا، جو مکمل طور پر فلسطین مخالف تھا۔ اس کی ایک وجہ یہ ہوسکتی ہے کہ ہندوستانی سیاسی منظر نامے پر رپورٹنگ کرتے کرتے جانبدار ہونا ان کی ذہنیت میں شامل ہوچکا ہے۔

تنازعہ کے آغاز میں ایک ٹی وی اینکر نے، جو اپنی اونچی آواز کے لیے مشہور ہے، اس نے نہایت پرجوش آواز میں فلسطینی جنگجوؤں کو ‘جہادی’ قرار دیا اور زور دیا کہ ان کو مکمل طور پر ختم کر دیا جانا چاہے۔ یہ ایک ایسا جذبہ تھا جسے ایک سابق فوجی جرنل نے بڑی بہادری کے ساتھ دہرایا،ساتھ ہی کئی ممالک میں ہندوستانی سفیر رہ چکے ایک صاحب نے اپنی سرمہ دار آنکھوں کو گھما تے ہوئے اس کی تائید کی۔غالباً ان میں سے کسی کو بھی ‘جہاد’ کا صحیح مفہوم معلوم نہیں جیسا کہ اسلام میں پیش کیا گیا ہے۔

اس کے علاوہ، زیادہ تر ہندوستانی ہندی ٹی وی چینلوں نے، ہمیشہ کی طرح، ٹی آر پی حاصل کرنے کے لیے گمراہ کن اور زیادہ تر غلط سرخیوں کا سہارا لیا۔ کچھ نے تو دو سال پرانے ویڈیو کلپ کا بھی سہارا لیا، اور دعویٰ کیا کہ یہ غزہ شہر کی تازہ ترین ویڈیوز ہیں۔

ہمارے زیادہ تر ٹی وی اینکرز، جو مکمل طور پر بلیٹ پروف جیکٹوں اور ہیلمٹ میں ملبوس تھے، انھیں اسرائیلی فوج کے پیچھے چلتے ہوئے یعنی کہ ان کی حفاظت میں چلتے ہوئے رپورٹنگ کرتے دیکھا جاسکتا تھا۔ان میں سے اکثر اپنے آرام دہ ہوٹل کے کمروں سے بھی رپورٹنگ کرتے نظر آئے اورناظرین کو یہ تاثر دینے کی کوشش کی کہ وہ جنگ کے میدان سے رپورٹنگ کررہے  ہیں یعنی کہ انھوں نے یقینی طور پر یہ مان لیا تھا کہ ہندوستانی ناظرین نہایت احمق ہیں اور انہیں آسانی سے بے وقوف بنایا جاسکتا ہے۔

اس طریقے کی رپورٹنگ سے ایک بات اور ثابت ہوتی ہے کہ ہندوستانی ناظرین کی ایک بڑی تعداد بہری اور گونگی ہے اور قوم پرستی کے لبادے میں جو کچھ بھی ان کے سامنے پیش کیا جاتا ہے اسے وہ سچی خبر سمجھ کر قبول کرلیں گے اگر اس پر قوم پرستی کا لیبل لگا ہو۔

لیکن شاید یہاں وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ اس سے قبل آر ایس ایس کے علمبردار، یا نام نہاد نظریاتی مفکر، ہٹلر کے یہودی مخالف پروپیگنڈے اور قتل کرنے والی مشین کی مکمل حمایت کرتے تھے۔ تاہم، جیسا کہ موجودہ بحران میں دکھایا گیا ہے، صیہونی لابی اور نام نہاد قوم پرست ہندوتوا قوتوں دونوں کا مشترکہ دشمن ایک، یعنی کہ مسلمان ہیں۔ عالمی ہندوتوا بریگیڈ نے تیزی سے حماس کے حملے کی مذمت کرنے کے لیے سوشل میڈیا کا سہارا لیا۔

مزید، ایسا لگتا ہے کہ ایک بھی چینل چاہے مغربی ہو یا ہندوستانی، اس نے اپنے ناظرین کو تنازعہ کی تاریخی میراث سے واقف کرانے کے لیے تکلیف نہیں اٹھائی۔ یہاں تک کہ دو معروف عالمی چینل کی ویب سائٹ پر، جب ان کے آرکائیوز میں معلومات تلاش کرنے کی کوشش کی گئی تو کافی پرانی اور نامکمل معلومات سامنے آئیں۔

ایسا لگتا تھا کہ صہیونی قوم پرستی کی پیدائش  کیسے ہوئی اسے چھپانے کی کوشش کی گئی ہے۔ان دونوں چینل نے 1860 جب صہیونی قوم پرستی کی شروعات ہوئی تھی اس کے بجائے صرف 1947 سے صہیونیت کی تاریخ پیش کی۔

اس حوالے سے تازہ ترین باب کا اضافہ بی بی سی کے صحافیوں نے کیا ہے۔انھوں نے بی بی سی پر الزام لگایا کہ وہ اسرائیل-فلسطین تنازعہ کی کہانی کو درست طریقے سے بیان کرنے میں ناکام رہا، فلسطینیوں کے مقابلے میں اسرائیلی متاثرین کی انسانیت سازی میں زیادہ کوششیں کیں، اور کوریج میں اہم تاریخی سیاق و سباق کو چھوڑ دیا۔

کارپوریشن کی طرف سے کام کرنے والے برطانیہ میں مقیم آٹھ صحافیوں کی طرف سے ٹی وی چینل الجزیرہ کو لکھے گئے 2300 الفاظ پر مشتمل خط میں، بی بی سی کو ‘عام شہریوں کو دیکھنے کے انداز میں دوہرے معیار’کا قصوروار بھی ٹھہرایا گیا ہے، اس لیے کہ اس کی رپورٹنگ’غیر متزلزل’  رہی ہے۔

بی بی سی کے صحافیوں نے کہا کہ بی بی سی کے پلیٹ فارمز پر، ‘قتل عام’ اور ‘ظلم’ جیسی اصطلاحات ‘صرف حماس کے لیے مخصوص رہیں، اور اس گروپ کو خطے میں تشدد کا واحد اکسانے والا اور مرتکب قرار دیا گیا۔

مجموعی طور پر، اس بات پر دھیان  دینے کی ضرورت ہے کہ میڈیا کی تبدیلی جو مغرب میں گزشتہ 50-60 سالوں میں عالمی سطح پر اور 30-35 سالوں میں ہندوستان میں رونما ہوئی ہے،وہ ایک ایسے نمونے کی پیروی کرتی ہے جو ایک منصفانہ اور قابل اعتماد میڈیا کی ترقی کے لیے سازگار نہیں ہے۔

یہ اسی صورت میں ہو سکتا ہے جب مختلف خبر رساں اداروں میں کام کرنے والے صحافی بنیادی صحافتی اصولوں کی بنیاد پر قائم رہیں، جو کسی خاص مسئلے/خبر پر تحقیق کرنا جانتے ہوں، حقائق پر مبنی اچھی اور سچی خبر کیسے لکھیں جو کہ کسی قسم کے تعصب سے پاک ہو، اور وہ  دلیری سے اپنے پیشے کے تقاضوں پر عمل کرتے ہوئے ایسی خبریں نشر کریں جو قابل اعتماد اور حقیقت پر مبنی ہوں اور ایسا تجزیہ پیش کریں جس کی صداقت  تحقیق سے کی جاسکتی ہو۔

مزید صرف ایک نظریے کو آگے بڑھانے کے لیے یا ناظرین کی تعداد میں اضافے کے لیے خبروں کی دوڑ میں شامل نہ ہوں بلکہ سچی اور صحیح خبر پہلے پہنچانے کی کوشش کریں، تبھی عوام کو دوبارہ میڈیا پر اعتماد حاصل ہوسکتا ہے جو کہ موجودہ دور میں تقریباً ختم ہو چکا ہے۔

(اسد مرزا سینئر صحافی اور سیاسی تجزیہ نگار ہیں، وہ بی بی سی اردو سروس اور خلیج ٹائمز دبئی سے وابستہ رہے ہیں۔)