خبریں

ہائی کورٹ نے 2018 سے جیل میں بند کشمیری صحافی آصف سلطان کو رہا کرنے کا حکم دیا

جموں و کشمیر ہائی کورٹ نے کشمیری صحافی آصف سلطان پر لگے پبلک سیفٹی ایکٹ (پی ایس اے) کو رد کر دیا ہے۔ نیوز میگزین ‘کشمیر نیریٹر’ کے رپورٹر آصف کو 2018 میں دہشت گردوں کو پناہ دینے کے الزام میں گرفتار کیا گیا تھا، جنہوں نے اُسی سال سری نگر میں ایک انکاؤنٹر کے دوران ایک پولیس اہلکار کو ہلاک کر دیا تھا۔

آصف سلطان۔ تصویر بہ شکریہ: فیس بک

آصف سلطان۔ تصویر بہ شکریہ: فیس بک

نئی دہلی: جموں و کشمیر ہائی کورٹ نے طویل عرصے تک حراست میں رہےایوارڈ یافتہ کشمیری صحافی آصف سلطان پر لگائے گئے پبلک سیفٹی ایکٹ (پی ایس اے)کورد کرتے ہوئے ان کی رہائی کا حکم دیا ہے۔

دی ٹیلی گراف  کی رپورٹ کے مطابق، جسٹس ونود چٹرجی کول نے اس ہفتے ایک فیصلے میں آصف کے 9 اپریل 2022 کے حراست کے فیصلے کو رد کر دیا۔

عدالت نے کہا کہ حراست میں لینے والی اتھارٹی نے زیر حراست شخص کو وہ دستاویز، جن پر حراست  کا دارومدارہے، فراہم نہ کر کے ضابطے کی خلاف ورزی کی ہے۔

جسٹس کول نے کہا، ‘اگر حراست میں لیے گئے شخص کو دستاویز نہیں دیے جاتے ہیں  تو وہ حراستی احکام کے خلاف موثر انداز میں اپنی نمائندگی کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہوگا۔’

پچھلے سال اپریل میں آصف کو این آئی اے عدالت نے چار سال جیل میں گزارنے کے بعد ضمانت دے دی تھی، لیکن اس کی حراست میں توسیع کے لیے پی ایس اے کے تحت مقدمہ درج کیا گیا تھا۔

بعد ازاں انہیں کوٹ بھلوال جیل بھیج دیا گیا۔ رپورٹ کے مطابق، ابھی تک یہ واضح نہیں ہے کہ  اس بارانہیں  رہا کیا جائے گا یا نہیں۔

عدالت نے کہا کہ انہیں رہا کر دیا جانا چاہیے، بشرطیکہ کسی اور کیس میں ان کی ضرورت نہ ہو۔

نیوز میگزین ‘کشمیر نیریٹر’ کے رپورٹر آصف سلطان کے خلاف انسداد دہشت گردی غیر قانونی سرگرمیاں روک تھام ایکٹ (یو اے پی اے) کے تحت مقدمہ درج کیا گیا تھا۔ آصف کو 2018 میں دہشت گردوں کو پناہ دینے کے الزام میں گرفتار کیا گیا تھا، جنہوں نے اُسی سال سری نگر میں ایک انکاؤنٹر کے دوران ایک پولیس اہلکار کو ہلاک کیا تھا۔

آصف اور ان کے اہل خانہ نے ان الزامات کی تردید کی تھی۔

آصف کے اہل خانہ، وکیل اور ان کے میگزین نے زور دے کر کہا تھاکہ انہیں ان کے پیشہ ورانہ کام کی وجہ سے گرفتار کیا گیا تھا۔انہوں نے کہا تھا کہ میگزین کے لیے ‘دی رائز آف برہان’ مضمون لکھنے کے بعد ان کی مشکلات شروع ہوگئی تھیں۔

حزب المجاہدین کے کمانڈر برہان وانی کو جولائی 2016 میں سیکورٹی فورسز نے ہلاک کر دیا تھا۔ یہ مضمون ان کی وفات کے دو سال بعد لکھا گیا تھا۔ اس سے قبل پولیس نے آصف پر ان کی  تحریروں میں دہشت گردی کو بڑھاوادینے کا الزام لگایا تھا۔

آصف کو 2019 میں امریکن نیشنل پریس کلب کی جانب سے جان ایوبچن پریس فریڈم ایوارڈ ملا تھا۔اس کے ساتھ ہی وہ سال 2020 میں دنیا بھر میں آزادی صحافت کو لاحق خطرات کے ٹائم میگزین کے 10 ‘موسٹ ارجنٹ’ معاملوں میں بھی شامل کیے گئے تھے۔

نیویارک میں قائم کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس(سی پی جے)نے 2020 میں آصف کی حمایت میں امریکی اخباردی  واشنگٹن پوسٹ میں پورے صفحے کا اشتہار شائع کیا تھا۔

سال2021میں ہالی ووڈ اداکار، پروڈیوسر اور اسکرین رائٹر جارج کلونی اور ان کی وکیل بیوی امل کلونی کے ذریعے قائم کے گئے کلونی فاؤنڈیشن فار جسٹس (سی ایف جے) نے ان کے مقدمے کی نگرانی کرنےکا اعلان کیا تھا۔ اس کی سماعت کئی بار ملتوی کی گئی اور کووڈ وبائی مرض کی وجہ سے تقریباً دو سال تک کوئی سماعت نہیں ہوئی۔

عدالت کا یہ فیصلہ حکومت کی جانب سےایک نیوز پورٹل کشمیر والا کے ایڈیٹر فہد شاہ کو رہا کرنے کے کچھ دنوں بعد آیا ہے، جنھوں نے تقریباً دو سال جیل میں گزارے تھے۔

گزشتہ نومبر میں ہائی کورٹ نے کشمیری صحافی سجاد احمد ڈار ، جنہیں سجاد گل کے نام سے بھی جانا جاتا ہے، کی حراست کو ردکر دیا تھا ۔