ایک غیر متوقع عدالتی فیصلے میں یورپی عدالت نے مسلم خواتین کے حجاب پہننے پر پابندی کی تجویز پیش کی ہے۔ اگرچہ ابھی تک کسی بھی رکن ممالک نے اس عدالتی حکم پر ردعمل ظاہر نہیں کیا ہے، لیکن توقع ہے کہ اس سے پورے یورپ میں ایک مرتبہ پھر اسلام مخالف جذبات میں شدت آ سکتی ہے۔
مسلم خواتین کے حجاب پہننے کے موضوع نے یورپ کو برسوں سے تقسیم کر رکھا ہے، اور یہ معاملہ بیلجیم میں ایک بار پھر اس وقت عدالتوں کے سامنے آیا، جب مشرقی شہر ’انس‘ کی ایک سرکاری ملازمہ کو بتایا گیا کہ وہ کام کے دوران حجاب نہیں پہن سکتی۔ یہ خاتون ایک دفتر کے سربراہ کے طور پر اپنے فرائض انجام دیتی ہے اور عوام سے اس کا رابطہ کم کم رہتا ہے۔ اس نے بیلجیم کی کورٹ میں ایک کیس دائر کیا ہے کہ اس فیصلے سے اس کی شخصی اور مذہبی آزادی کی خلاف ورزی ہورہی ہے۔بیلجیم کی حکومت نے اپنے آپ کو اس معاملے سے بچاتے ہوئے رائے دہی کے لیے معاملہ یورپی یونین کی عدالت کو بھیج دیا۔
یورپی عدالت کا فیصلہ
یورپی یونین کی عدالت برائے انصاف (سی جے ای یو) نے اپنے فیصلے میں کہا کہ رکن ممالک کے حکام کے پاس عوامی خدمت کی غیر جانبداری کو یکساں بنانے کے لیے صوابدید کا ایک فرق بھی شامل کرنا چاہیے جس کا وہ فروغ کرنا چاہتے ہیں۔ تاہم، اس مقصد کو’مسلسل اور منظم طریقے سے’ حاصل کیا جانا چاہیے اور اقدامات کو ان افراد تک محدود ہونا چاہیے جن کے لیے وہ ضروری ہیں ساتھ ہی اس نے مختلف ممالک کی قومی عدالت سے کہا کہ اس بات کی تصدیق کرنا کہ ان تقاضوں کی تعمیل کی گئی ہے ان کی ذمہ داری ہے۔
سی جے ای یو نے پہلی بار 2017 میں خواتین کے حجاب پہننے پر فیصلہ سنایا تھا، جب لکسمبرگ کی عدالت نے سوال کیا تھا کہ لباس پر پابندی کیسے لگائی جا سکتی ہے، لیکن صرف ایک عمومی پالیسی کے حصے کے طور پر جس میں تمام مذہبی اور سیاسی علامتوں کو مستثنیٰ قرار دیا گیا تھا۔ یعنی کہ اس وقت بھی عدالت نے یہی کہا تھا کہ اگر کسی سرکاری ملازم کی جانب سے کوئی ایسی چیز پہنی جاتی ہے جس سے اس کے مذہب کی نشاندہی ہوسکتی ہو تو تمام مذاہب کے افراد پر اس کا اطلاق ہونا چاہیے۔فیصلے میں یہ بھی کہا گیا تھا کہ گاہک کارکنوں سے ہیڈ اسکارف اتارنے کا مطالبہ نہیں کر سکتے اگر وہ جس کمپنی میں کام کر رہے ہیں اس میں ایسی کوئی پالیسی موجود نہ ہو۔
سی جے ای یو کی طرف سے جاری کردہ ایک پریس بیان میں کہا گیا ہے کہ 28 نومبر کو، عدالتِ انصاف نے، گرینڈ چیمبر میں بیٹھ کر، OP v Commune d’Ans (C-148/22) کے کیس میں اپنا فیصلہ سنایا، جس میں سے ابتدائی فیصلے کی درخواست کی بنا پر کام کی جگہ پر مذہبی نشانات پہننے کی ممانعت سے متعلق فیصلہ دیا گیا۔جس فیصلہ میں واضح کیا گیا ہے کہ ہر شخص اپنے مذہبی نشانات یا کپڑے پہن سکتا ہے اگر اس پہناوے کے خلاف کوئی حکومتی یا کمپنی کی پالیسی موجود نہ ہو، ساتھ ہی عدالت کا کہنا تھا کہ اگر کوئی ایسا حکم یا آرڈر پہلے سے موجود ہے تو اس کا اطلاق تمام مذاہب پر یکساں طور پر ہونا چاہیے۔ اپنے فیصلے میں، عدالت نے خاص طور پر اس بات پر بھی زور دیا ہے کہ یہ قومی عدالتوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس بات کی تصدیق کریں کہ آیا ان تقاضوں پر عمل کیا جارہا ہے یا نہیں۔
تاہم، اس حکم کے نتیجے میں، یورپی یونین کے تمام سرکاری دفاتر غیر جانبداری کے مفاد میں ملازمین پر مذہبی علامتوں، جیسے کہ اسلامی ہیڈ اسکارف / حجاب پہننے پر پابندی لگا سکتے ہیں۔ساتھ ہی عدالت نے کہا ہے کہ فلسفیانہ یا مذہبی عقائد سے جڑے لباس یا علامتوں پر پابندی کا اطلاق یکساں طور پر ہونا چاہیے۔ اس نے اپنے فیصلے میں کہا،”اس طرح کا قاعدہ امتیازی نہیں ہے اگر اس کا اطلاق تمام افراد پر یکساں طور پر کیا جائے۔“شکایت کنندہ کے وکیل نے برطانوی اخبار دی گارڈین کو بتایا کہ ان علامتوں میں کراس کے ساتھ بالیاں یا ہار پہننا یا کرسمس پارٹیوں کا انعقاد کرنا بھی شامل ہیں۔
نئے فیصلے کے اثرات
یہ نیا عدالتی فیصلہ یقینی طور پر یورپ بھر میں ایک نیا تنازعہ شروع کرسکتا ہے، جس سے مختلف وجوہات کی بنا پر اسلامو فوبیا کو مزید ہوا مل سکتی ہے۔
سب سے پہلے، اگرچہ عدالت نے اپنے فیصلے میں واضح طور پر تمام مذاہب کا احاطہ کیا ہے اور کسی بھی مذہبی نشان کو پہننے سے منع نہیں کیا ہے۔ پھر بھی، ماضی کے تجربات کی بنیاد پر یہ اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ عوام اور حکومتیں دونوں ہی اس شق کو نظر انداز کر دیں گے اور اپنی توانائیاں اور رد عمل صرف حجاب پر مرکوز کردیں گے۔
دوم، یہ حکم ایک بار پھر حجاب یا پردے پر بحث کو ہوا دے سکتا ہے، حالانکہ دونوں لباس بالکل مختلف ہیں۔ لیکن یہ بیانیہ، جو 2006 میں برطانیہ میں پردہ کے تنازعہ کے دوران قائم کیا گیا تھا، ایک بار پھر غیر متناسب اور غیر منطقی طور پر استعمال کیا جا سکتا ہے۔ حجاب کا مسئلہ گزشتہ برسوں میں پورے یورپ میں تفرقہ انگیز معاملہ رہا ہے اور ساتھ ہی حالیہ برسوں میں ہندوستان جیسے ملک میں بھی اس کے پہننے کی مخالفت شروع ہوگئی ہے۔
پورے یورپ میں دائیں بازو کے سیاست دانوں نے اس فیصلے کا خیرمقدم کیا،اس کی ایک وجہ یورپ میں بڑھتے ہوئے دائیں بازو کے نظریات بھی ہوسکتے ہیں، جیسا کہ ہالینڈ اور فرانس کے حالیہ انتخابات میں سامنے آیا ہے۔ یہ مختلف یورپی ممالک جیسے بیلجیم، فرانس، جرمنی اور حال ہی میں نیدرلینڈز میں بڑھتی ہوئی دائیں بازو کی قوم پرستی کے پس منظر میں بھی سامنے آئے ہیں، جہاں دائیں بازو کی سیاسی جماعتیں اور زیادہ مقبولیت حاصل کرتی دکھائی دے رہی ہیں۔
ناقدین نے ان پابندیوں کو مذہبی آزادیوں پر حملہ قرار دیا ہے جو زیادہ تر خواتین کو متاثر کرتے ہیں۔ غیر سرکاری تنظیم ہیومن رائٹس واچ نے کہا کہ جرمنی میں اساتذہ اور دیگر سرکاری ملازمین کے لیے مذہبی لباس اور علامتوں پر پابندی کی وجہ سے کچھ مسلمان خواتین نے تدریسی کیریئر ترک کر دیا ہے اور اب وہ بے روزگار ہیں یعنی کہ ان پابندیوں کا ایک منفی اثر۔
دریں اثناء فرانس میں چہرے کو ڈھانپنے پر پابندی کی وجہ سے گزشتہ تین سال سے بھی کم عرصے میں تقریباً 600 مسلم خواتین پر جرمانہ کیا گیا اور فرانس کے 2004 کے اسکولوں میں حجاب پہننے پر پابندی کے قانون کے آنے کے بعد میں کچھ مسلمان لڑکیوں کو اسکول جانے سے بھی روک دیا ہے۔
برطانیہ میں سر پر اسکارف یا دیگر مذہبی علامتوں پر کوئی پابندی نہیں ہے۔ فرانس میں، جو یورپی یونین کی سب سے بڑی مسلم کمیونٹیز میں سے ایک کی میزبانی کرتا ہے، ملک کے سیکولرازم کے بنیادی اصول پر عمل پیرا ہونے کے لیے بنائے گئے قوانین جسے ”لائسائٹ“ کہا جاتا ہے،اس کے مطابق مسلم خواتین کے حجاب پہننے پر پابندی عائد کی ہے۔
حال ہی میں فرانسیسی وزیر کھیل ایمیلی اوڈیا کاسٹیرا نے ستمبر میں کہا تھا کہ فرانسیسی ایتھلیٹس کو ملک کے سیکولرازم کے اصولوں کی پابندی کرنے کی ضرورت ہے،یعنی کہ اس طرح 2024 کے پیرس اولمپکس کے دوران خواتین ایتھلیٹس کے حجاب پہننے پر پابندی لگا دی جاسکتی ہے۔
تاہم، اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کی ایک اہلکار نے 26 ستمبر کو صحافیوں سے بات کرتے ہوئے اس بات کی نشاندہی کی کہ حجاب پہننا عام حالات میں ایک بے ضرر عمل ہے، اور مذہبی وجوہات کی بنا پر سر پر اسکارف/حجاب پہننے پر پابندی لگانا کسی کے عقیدے کی آزادی کے حق کی خلاف ورزی ہے۔اقوام متحدہ کی اہلکار نے مزید وضاحت کی کہ”مخصوص حالات“ سے مراد ایسے حالات ہیں جو ”عوامی تحفظ، امن عامہ، یا عوامی صحت یا اخلاقیات کے جائز خدشات کو ضروری اور متناسب انداز میں حل کرتے ہیں۔“
اس کے باوجود، بڑی تشویش یہ ہے کہ عدالت کا یہ تازہ فیصلہ خاص طور پر سوشل میڈیا پر بڑھتے ہوئے اسلامو فوبیا کو اور زیادہ فروغ دے سکتا ہے، جیسا کہ فلسطین- اسرائیل جنگ کے شروع ہونے کے بعد سے دیکھا گیا ہے اور اس میں ہندوستان جیسے ملک بھی شامل ہیں، جہاں پر کہ ملک میں اور بیرونِ ملک موجود دائیں بازو کے عناصر جلد ہی اسلام اور مسلمانوں کے خلاف جارحانہ مہم شروع کر سکتے ہیں، بالکل اسی طرح جیسے وہ اس وقت فلسطین کے خلاف محاذ آرا ہیں۔
(اسد مرزا سینئر صحافی اور سیاسی تجزیہ نگار ہیں، وہ بی بی سی اردو سروس اور خلیج ٹائمز دبئی سے وابستہ رہے ہیں۔)
Categories: عالمی خبریں, فکر و نظر