’جس کُشتی کے لیے انعامات اور اعزازات سے نوازا گیا، خواتین پہلوانوں کو اپنے تحفظ کے لیے اسی کُشتی کو ترک کرنا پڑ رہا ہے‘

ریسلنگ فیڈریشن کے سابق صدر اور بی جے پی ایم پی برج بھوشن کے قریبی سنجے سنگھ کے فیڈریشن کے سربراہ بننے کی مخالفت میں برج بھوشن کے خلاف جنسی استحصال کے الزامات کے حوالے سے احتجاج کرنے والے پہلوانوں میں سے ایک بجرنگ پونیا نے ’پدم شری‘ ایوارڈ لوٹا دیا ہے۔

اپریل میں جنتر منتر پر مظاہرہ کے دوران میڈیا سے بات کرتے ہوئے بجرنگ پونیا، ساتھ ونیش پھوگاٹ اور ساکشی ملک۔ (فائل فوٹو: ٹوئٹر/بجرنگ پونیا)

اپریل میں جنتر منتر پر مظاہرہ کے دوران میڈیا سے بات کرتے ہوئے بجرنگ پونیا، ساتھ ونیش پھوگاٹ اور ساکشی ملک۔ (فائل فوٹو: ٹوئٹر/بجرنگ پونیا)

نئی دہلی: بی جے پی ایم پی اور انڈین ریسلنگ فیڈریشن کے سابق صدر برج بھوشن شرن سنگھ کے خلاف جنسی استحصال کے الزامات کے حوالے سے احتجاج کرنے والے پہلوانوں میں سے ایک بجرنگ پونیا نے ریسلنگ فیڈریشن میں برج بھوشن کے قریبی سنجے سنگھ کے صدر بننے کی مخالفت کرتے ہوئے احتجاج کے طور پر اپنا ‘پدم شری’ ایوارڈ لوٹا دیا ہے۔ٹوئٹر (اب ایکس) پر پوسٹ کیے گئے ایک خط میں پونیا نے وزیر اعظم نریندر مودی کو مخاطب کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ‘میں خواتین پہلوانوں کی توہین کے بعد ‘ایوارڈ یافتہ’ بن کر نہیں جی پاؤں گا، اس لیے میں یہ اعزاز واپس کر رہا ہوں۔’

ان کا پورا خط درج ذیل ہے؛

عزت مآب وزیراعظم،

امید ہے آپ بخیرہوں گے۔آپ ملک کی خدمت میں مصروف ہوں گے۔ آپ کے اس انتہائی مصروف شیڈول کے درمیان میں آپ کی توجہ ہماری کشتی کی جانب مبذول کرانا چاہتا ہوں۔ آپ کو معلوم ہوگا کہ اسی  سال جنوری کے مہینے میں ملک کی خواتین ریسلرز نے ریسلنگ ایسوسی ایشن پر قابض برج بھوشن سنگھ پر جنسی ہراسانی کے سنگین الزامات لگائے تھے۔ جب ان خواتین پہلوانوں نے اپنی تحریک شروع کی تھی تو میں بھی اس میں شامل ہو گیا تھا۔تحریک میں شامل پہلوان جنوری میں اس وقت اپنے گھروں کو لوٹ گئے جب حکومت نے انہیں ٹھوس کارروائی کی یقین دہانی کروائی۔ لیکن تین ماہ گزرنے کے بعد بھی جب برج بھوشن کے خلاف ایف آئی آر تک درج نہیں کی گئی تو ہم پہلوانوں نے اپریل کے مہینے میں دوبارہ سڑکوں پر اتر کر احتجاج کیا تاکہ دہلی پولیس کم از کم برج بھوشن سنگھ کے خلاف ایف آئی آر درج کرے، لیکن پھر بھی بات نہیں بنی تو ہمیں عدالت میں جا کر ایف آئی آر درج کروانی پڑی۔

جنوری میں شکایت کنندہ خواتین پہلوانوں کی تعداد 19 تھی جو اپریل تک کم ہو کر 7 پر آگئی، یعنی ان تین مہینوں میں اپنی طاقت کے دم پر برج بھوشن سنگھ نے 12 خواتین پہلوانوں کو انصاف کی لڑائی سے پیچھے ہٹنے کو مجبور کر دیا۔ یہ تحریک 40 دنوں تک جاری رہی۔ ان 40 دنوں میں ایک اور خاتون ریسلر پیچھے ہٹ گئیں۔ ہم سب پر بہت دباؤ تھا۔ ہمارے پروٹیسٹ سائٹ پر توڑ پھوڑ کی گئی اور ہمیں دہلی سے باہر نکال دیا گیا اور ہمارے احتجاج پر پابندی لگا دی گئی۔ جب یہ ہوا تو ہمیں کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا کہ کیا کریں۔ اس لیے ہم نے اپنے میڈل کو گنگا میں بہانے کے بارے میں سوچا۔ جب ہم وہاں گئے تو ہمارے کوچ صاحبان اور کسانوں نے ہمیں ایسا کرنے نہیں دیا۔

اسی دوران آپ کے ایک ذمہ دار وزیر کا فون آیا اور ہمیں کہا گیا کہ واپس آجائیں، ہمارے ساتھ انصاف کیا جائے گا۔ دریں اثنا، وزیر داخلہ سے بھی ہماری ملاقات ہوئی، جس میں انہوں نے ہمیں یقین دلایا کہ وہ انصاف دلانے میں خواتین پہلوانوں کا ساتھ دیں گے اور ریسلنگ فیڈریشن سے برج بھوشن، اس کی فیملی اور اس کے حواریوں کو نکال دیں گے۔ ہم نے ان کا مشورہ مان لیا اور سڑکوں سے اپنی تحریک ختم کر دی، کیونکہ ریسلنگ فیڈریشن کا حل سرکاری کر دے گی اور انصاف کی لڑائی عدالت میں لڑی جائے گی، یہ دونوں باتیں ہمیں منطقی لگیں۔

لیکن 21 دسمبر کو ہوئے ریسلنگ ایسوسی ایشن کے انتخابات میں برج بھوشن ایک بار پھر سے قابض ہوگیا۔ اس نےبیان دیا کہ ‘دبدبہ ہے اور دبدبہ رہے گا۔’ خواتین ریسلرز کے جنسی استحصال کا ملزم سرعام  ریسلنگ کا اہتمام  کرنے والی اکائی  پراپنے تسلط کا دعویٰ کر رہا تھا۔ اس ذہنی دباؤ میں اولمپک تمغہ جیتنے والی واحد خاتون ریسلر ساکشی ملک نے ریسلنگ سےاپنے ریٹائرمنٹ کا اعلان کر دیا ۔

ہم سب نے رات روتے ہوئے گزاری۔ کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا کہ کہاں جائیں، کیا کریں اور کیسے رہیں۔ حکومت اور عوام نے اتنی عزت دی۔ کیا اسی عزت کے بوجھ تلے گھٹتا رہوں؟

سال 2019 میں مجھے پدم شری سے نوازا گیا۔ کھیل رتن اور ارجن ایوارڈ سے بھی نوازا گیا۔ جب مجھے یہ اعزاز ملا تو میں بہت خوش ہوا۔ ایسا لگا تھا کہ زندگی کامیاب ہو گئی۔ لیکن آج میں اس سے کہیں زیادہ ناخوش ہوں اور یہ اعزازات مجھے تکلیف دے رہے ہیں۔ اس کی ایک ہی وجہ ہے، جس ریسلنگ کی وجہ سے یہ اعزاز ملا اس میں ہماری خواتین ریسلرز کو اپنے تحفظ کے لیے ریسلنگ کوہی  ترک کرنا پڑ رہا ہے۔

کھیل ہماری خواتین کھلاڑیوں کی زندگی میں زبردست تبدیلیاں لے کر آیا تھا۔ پہلے دیہی علاقوں میں یہ تصور بھی نہیں کیا جا سکتا تھا کہ دیہی میدانوں میں لڑکے اور لڑکیاں ایک ساتھ کھیلتے نظر آئیں گے۔ لیکن پہلی نسل کی خواتین کھلاڑیوں کی ہمت کی وجہ سے ایسا ہو سکا۔ آپ کو ہر گاؤں میں لڑکیاں کھیلتی نظر آئیں گی اور وہ کھیلنے کے لیے ملک اور بیرون ملک بھی جا رہی ہیں۔ لیکن جن کا دبدبہ قائم ہوا ہے یا رہے گا، ان کی پرچھائیں تک  خواتین کھلاڑیوں کو ڈراتی  ہے اور اب وہ پوری طرح سےدوبارہ قابض ہوگئے ہیں، ان کے گلے میں پھولوں کے ہاروں والی تصویریں آپ تک ضرور پہنچی ہوگی۔

جن بیٹیوں کو ‘بیٹی بچاؤ بیٹی پڑھاؤ کی برانڈ ایمبیسیڈر بننا تھا ان  کو اس حال میں پہنچا دیا گیا کہ انہیں اپنے کھیل سے ہی پیچھے ہٹنا پڑا۔ ہم ‘ایوارڈ یافتہ’ پہلوان کچھ نہ کر سکے۔ خواتین ریسلرز کی توہین کے بعد میں ‘ایوارڈ یافتہ ‘ بن کر اپنی  زندگی نہیں گزار سکوں گا۔ ایسی زندگی مجھے عمر بھر ستائے گی۔ اس لیے میں آپ کو یہ ‘اعزاز’ واپس کر رہا ہوں۔

جب کسی پروگرام میں جاتے تھے تو ناظم ہمیں پدم شری، کھیل رتن اور ارجن ایوارڈ یافتہ پہلوان کہہ کر ہماراتعارف کرواتا تھا تو لوگ بڑے جوش و خروش سے تالیاں بجاتے تھے۔ اب اگر کوئی مجھے اس طرح پکارے گا تو مجھے گھن آئے گی کیونکہ ایوارڈ یافتہ  ہونے کے باوجود ایک  باعزت زندگی جو ہر خاتون ریسلر جینا چاہتی ہے، اس سے انہیں  محروم کر دیا گیا۔

مجھے ایشور پر پورا بھروسہ ہے، ان کے گھر دیر ہے، اندھیر نہیں۔ ایک دن انصاف کی ناانصافی پر فتح ضرور ہوگی۔

آپ کا،

بجرنگ پونیا