خبریں

جو لوگ آج اقتدار میں ہیں وہ لفظ ’سیکولر‘ کو توہین آمیز اصطلاح کے طور پر استعمال کر رہے ہیں: سونیا گاندھی

کانگریس کی سینئر لیڈر سونیا گاندھی نے کہا کہ آج اقتدار میں بیٹھے لوگ کہتے ہیں کہ وہ ‘جمہوریت’ کے لیے پرعزم ہیں، لیکن اس کے ساتھ ہی وہ اس کے منظم عمل کو یقینی بنانے کے لیے اپنائے گئے حفاظتی اقدامات کو بھی کمزور کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ملک کو ہم آہنگی کی جانب لے جانے والے راستے خستہ حالی کا شکار ہیں اور اس کے نتائج بڑھتے ہوئے پولرائزیشن کی صورت میں سامنے آ رہے ہیں۔

سونیا گاندھی۔ (تصویر بہ شکریہ: ٹوئٹر/@INCIndia)

سونیا گاندھی۔ (تصویر بہ شکریہ: ٹوئٹر/@INCIndia)

نئی دہلی:  کانگریس کی سابق صدر سونیا گاندھی نے کہا ہے کہ ‘جو لوگ آج اقتدار میں ہیں’ انہوں نے جمہوریت کے تئیں اپنے عزم کا بڑھ چڑھ کر اظہار کیاہے، لیکن حقیقت میں وہ اس کے کام کاج میں رکاوٹ پیدا کر رہے ہیں۔

خبر رساں ایجنسی پی ٹی آئی کے مطابق، سونیا گاندھی نے 2024 کی منورما ایئر بک میں لکھا ہے، ‘وہ کہتے ہیں کہ وہ ‘جمہوریت’ کے لیے پرعزم ہیں، لیکن اس کے ساتھ ہی وہ اس کے منظم عمل کو یقینی بنانے کے لیے اپنائے گئے حفاظتی اقدامات کو بھی کمزور کرتے ہیں۔’

انہوں نے مزید کہا کہ ‘ہمارے ملک کو ہم آہنگی کی جانب لے جانے والے راستے خستہ حالی کا شکار ہو رہے ہیں اور اس کے نتائج معاشرے میں بڑھتے ہوئے پولرائزیشن کی صورت میں سامنے آ رہے ہیں۔’

سونیا گاندھی نے کہا کہ اب اقتدار میں بیٹھے لوگوں کے ذریعے ‘سیکولر’ لفظ کا استعمال توہین کےمعنوں میں کیا جا رہا ہے۔

سونیا گاندھی نے مہاتما گاندھی کی سیکولرازم کی تشریح کی حمایت کی، جس میں انہوں نے کہا کہ  تمام مذاہب کی مساوات پر زور دیا گیا تھا۔ انہوں نے کہا کہ ‘ہندوستانی سیکولر جمہوریت کا رہنما اصول’ ہمیشہ ‘ہمارے معاشرے کے متنوع گروہوں کے درمیان ہم آہنگی اور خوشحالی کو فروغ دینا’ تھا۔

انہوں نے یہ بھی کہا، ‘درحقیقت ہمارے معاشرے میں ‘تنوع’ کے بجائے ‘تنوعات’ کے بارے میں بات کرنا زیادہ مناسب ہے، کیونکہ ان میں عقیدہ اور یقین، زبانیں اور ثقافتیں، علاقے اور ماحولیات، تاریخ اور روایات شامل ہیں۔ ‘

اس دوران سونیا گاندھی نے جمہوریت کی اکثریتی تشریح پر سوالات اٹھائے۔

انہوں نے کہا، ‘اگر لوگوں کی اکثریت متفق ہے، تو کیا ان کے پاس ہمیشہ باقی بچے لوگوں کے لیے کوئی راستہ ہو سکتا ہے؟ اگر کسی چھوٹے گروپ کے بنیادی مفادات کو نقصان پہنچے تو کیا ہوتا ہے؟ اگر عارضی اکثریت کوئی ایسا فیصلہ لینے پر بضد رہے جس کے مستقبل میں سنگین نتائج برآمد ہوں تو اس کا حل کیا ہے؟’

انہوں نے سوال کیا کہ ‘دوسری طرف اگر مستقل لیکن معمولی اکثریت بنتی ہے تو کیا انہیں بغیر چیلنج کے حکومت کرنے کا حق ہے؟’

مزید کہا کہ ‘اگر لوگوں کو یہ خدشہ ہے کہ ان کی زبان یا مذہبی عمل یا طرز زندگی کو مستقل طور پر صرف اس لیے خطرہ لاحق ہوسکتا ہے کہ وہ زیادہ تعداد میں نہیں ہیں، تو اس سے معاشرے میں امن یا ہم آہنگی میں مدد نہیں ملتی۔’

سونیا گاندھی نے یہ بھی کہا  لوگ سیکولرازم اور جمہوریت جیسے تصورات سے واقف ہیں، ‘ان تصورات کے پیچھےکا گہرا مطلب اکثر غیر واضح ہوتا ہے’۔ انہوں نے کہا کہ ‘ان الفاظ کی واضح سمجھ’ سے ہندوستانیوں کو اس کے ماضی کو سمجھنے اور مستقبل کے چیلنجز کے لیے تیار ہونے میں مدد ملے گی۔

کچھ سیاسی مبصرین نے کہا ہے کہ نریندر مودی کی قیادت والی بی جے پی حکومت میں ہندوستان جمہوری زوال سے دوچارہے۔

سال2021 میں، وہ –ڈیم  ریسرچ انسٹی ٹیوٹ نے میڈیا، تعلیم اور سول سوسائٹی کی گرتی ہوئی آزادیوں کا حوالہ دیتے ہوئے ہندوستان کو ‘ انتخابی آمریت ‘ کے خانے میں رکھا تھا۔

دیگر نے بھی 2014 کے بعد سے ہندوستان میں مسلمانوں کے حاشیہ پر جانے کا حوالہ دیا ہے۔ تاہم حکمران جماعت بی جے پی اور وزیر اعظم نریندر مودی اس بات سے انکار کرتے ہیں کہ ہندوستان میں مذہبی اقلیتوں کے ساتھ امتیازی سلوک کیا جاتا ہے۔

انگریزی میں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں ۔