خبریں

جمعیۃ نے رام مندر کی تقریب میں حکومت کی شمولیت پر تشویش کا اظہار کیا

رام مندرپران پرتشٹھا کی تقریب میں مرکزی حکومت کی مبینہ شمولیت پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے جمعیۃ علماء ہند نے اسے آئندہ انتخابات کو نامناسب طریقےسے متاثر کرنے کی کوشش قرار دیا۔ جمعیۃ نے اقلیتی برادری کو ہراساں کرنے اور ڈرانے-دھمکانے کی کوششوں پر بھی تشویش کا اظہار کیا ہے۔

ایودھیا میں زیر تعمیر رام مندر۔ (تصویر بہ شکریہ: شری رام جنم بھومی تیرتھ ٹرسٹ)

ایودھیا میں زیر تعمیر رام مندر۔ (تصویر بہ شکریہ: شری رام جنم بھومی تیرتھ ٹرسٹ)

نئی دہلی: ایودھیا میں زیر تعمیر رام مندر کے پران پرتشٹھا پروگرام میں مرکزی حکومت کی مبینہ شمولیت پر غیر سیاسی حلقوں میں اعتراض کیے جا رہے ہیں۔ ہفتے کے آخر میں اپنی سینٹرل ورکنگ کمیٹی کے اجلاس میں ملک کی سب سے قدیم مسلم تنظیم، جمعیۃ علماء ہند نے حکومت کی سرگرم شمولیت کو آنے والے انتخابات کو نامناسب طریقے سے متاثر کرنے کی کوشش قرار دیا۔

دی ہندو کی رپورٹ کے مطابق، مندر کو لے کر چرچہ زور پکڑنے پر جمعیۃ نے ‘اقلیتی برادری کو ہراساں کرنے اور ڈرانے -دھمکانے کی کوششوں’ پر بھی تشویش کا اظہار کیا۔

جمعیۃ کے سکریٹری نیاز احمد فاروقی نے کہا، ‘ایودھیا میں رام مندر کے آس پاس کے حالیہ واقعات کے پیش نظر جمعیۃ علماء ہند نے امن وامان کو متاثرکرنے، اقلیتی برادری کو ہراساں کرنے اور ڈرانے -دھمکانے کی کوششوں پر تشویش کی جانب حکومت اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی توجہ مبذول کرنا ضروری سمجھتی ہے۔ ملک کے اندر نفرت کی بڑھتی ہوئی فضا ملک کی بھلائی کے لیے نقصاندہ ہے۔’

جمعیۃ نے حکومت اور اس کے اداروں سے’متعصبانہ پالیسیاں اپنانے سے گریز کرنے’ کی اپیل کی ہے اور ملک کے شہریوں سے ان مشکل حالات میں امن و امان کو برقرار رکھنے اور قیام امن کے لیے ہر ممکن کوشش کرنے کی اپیل کی ہے۔ فاروقی نے مسلمانوں سے کہا کہ وہ ‘صبر وتحمل سےکام لیں، مایوسی کا شکار نہ ہوں۔’

انہوں نے میڈیا کو طویل عرصہ سے چلے آ رہے مسائل پر جمعیۃ کے موقف کی یاد دلاتے ہوئے کہا، ‘اس معاملے پر اپنے موقف کو دہرانا ضروری ہے، اس بات پر زور دینا کہ بابری مسجد پر سپریم کورٹ کا فیصلہ انصاف کے اصولوں کے مطابق نہیں ہے۔ یہ فیصلہ انصاف کے احساس کے بجائے عقیدے اور پیچیدگیوں پر مبنی نظر آتا ہے۔ سپریم کورٹ نے خود اس دعوے کی تائید کرنے والےشواہد کے فقدان  کو تسلیم کیا ہے کہ بابری مسجد مندر کی تعمیر ایک مندر کو توڑ کر کی گئی تھی۔’

تنظیم نے اس بات پر بھی مایوسی کا اظہار کیا کہ عبادت گاہوں کے قانون 1991 کے سخت نفاذ کے بارے میں اپنے سپریم کورٹ کے ایودھیا فیصلے میں یقین دہانی کے باوجود دیگر مساجد سے متعلق عرضیوں پر اب بھی کئی عدالتوں میں غور کیا جا رہا ہے۔ فاروقی نے کہا،’اس نقطہ نظر نے عدلیہ کی غیر جانبداری پر شہریوں کے اعتماد کو مجروح کیا ہے۔’

دکن ہیرالڈ کی رپورٹ کے مطابق، بیان میں یہ بھی کہا گیا کہ میٹنگ میں ماب لنچنگ سے متعلق حال ہی میں بنائے گئے قانون پر بھی غور کیا گیا اور قانون کے مختلف پہلوؤں کا تفصیل سے مطالعہ کرنے کے لیے تین رکنی کمیٹی تشکیل دی گئی۔

اسرائیل اور حماس کے درمیان جاری جنگ کے بارے میں جمعیۃ کی قرارداد میں حکومت سے اپیل کی گئی ہے کہ وہ اپنے اثر و رسوخ استعمال کرکے  ‘اسرائیلی درندگی اور سفاکی’ کو روکیں اور ایک آزاد فلسطینی ریاست کے قیام سے متعلق اقوام متحدہ کی قراردادوں پر عملدرآمد کو یقینی بنائے اور فلسطینیوں کے حقوق کو یقینی بنائے۔

بیان میں کہا گیا ہے کہ میٹنگ میں اسٹیک ہولڈرز نے  منی پور میں تشدد پر بھی تشویش کا اظہار کیا اور اس کے لیے حکومت کی ناکامی کو ذمہ دار ٹھہرایا۔ میٹنگ میں اس بات پر بھی اتفاق کیا گیا کہ اس کے عہدیداران شخصی طور پر سیکولر سیاسی جماعتوں کی حمایت کر سکتے ہیں لیکن مجموعی طور پر یہ تنظیم انتخابات میں کسی مخصوص سیاسی جماعت کی حمایت نہیں کرتی۔