ہندوستان ایک ریاست جمہوری کے طور پر اس حقیقت کو کیسے فراموش کرے گا کہ اس کے لیے وزیر اعظم نے ‘دھرم آچاریہ’ کا چولا پہن لیا تھا اور ان کے ‘سپہ سالار’ انھیں وشنو کا اوتار کہہ رہے تھے اور پران—پرتشٹھا کی تاریخ کو 15 اگست 1947 جیسا اہم بتا رہے تھے۔
اور دن ہوتے تو ان دنوں ملک کے اخبارات یوم جمہوریہ کی تقریبات کی تیاریوں کی خبروں سے بھرے ہوتے، اور نیوز چینل بھی۔ وہ بتاتے کہ راجدھانی دہلی میں سکیورٹی سخت کر دی گئی ہے اور زمین سے آسمان تک نگرانی رکھی جا رہی ہے تاکہ کوئی بھی شرپسند یوم جمہوریہ کی عظیم الشان پریڈ میں خلل پیدا نہ کر سکے۔ خلل ڈالنے کا منصوبہ رکھنے والےمشتبہ افراد کی دھر—پکڑ کی خبریں بھی وہی لاتے۔ اس کی بھی کہ پریڈ میں ملک کی طاقت اور خوشحالی کے کیسے کیسے نظارے دیکھنے کو ملیں گے، کن ریاستوں کی کون کون سی جھانکیاں ہوں گی یا کن کن جھانکیوں کو کن وجوہات کی بنا پر شامل کرنے سے منع کر دیا گیا ہے۔اور ان پر کس قسم کے رد عمل آ رہے ہیں۔
لیکن اس بار ‘فضا’ بدلی ہوئی ہے، اس لیے ان سطور کے لکھے جانے تک ایسی خبریں بھولے بھٹکے اور حاشیے میں بھی جگہ نہیں پا رہی ہیں۔ خبروں کی روانی کو ایودھیا کی جانب موڑ دیا گیا ہے اور بتایا جا رہا ہے کہ رام وہاں آ رہے ہیں۔ تاہم، واقف کاروں کے مطابق چودہ سال کے بن باس سے واپس لوٹنے کے بعد سریو کے گپتر گھاٹ پر دھیان لینے تک وہ کبھی اس کو چھوڑ کر گئے ہی نہیں۔ گئے ہوتے تو وزیر اعظم نریندر مودی اس سے پہلے بھی بے شمار کیمروں کے ساتھ ان کے سامنے سجدہ ریز ہونے ایودھیا کیوں آتے؟
یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ اپنے گھر میں شان سے براجمان ہونے کا ان کا ‘پانچ سو سال کا انتظار’ ختم کر دیا گیا ہے—ایودھیا کو دلہن کی طرح سجایا گیا اور پورے حفاظتی انتظامات کے ساتھ۔ وہاں ایک کالعدم خالصتانی تنظیم کے تین مشتبہ افراد پکڑے گئے، جو مبینہ طور پر مذکورہ انتظار کے خاتمے میں رکاوٹ ڈالنے کی کوشش میں تھے۔
اس سلسلے میں جو بات بتانے سے گریز کیا جا رہا ہے ان میں ایک یہ بھی ہے کہ مرکزی اور ریاستی حکومتوں کو آدھے ادھورے مندر میں بھگوان رام کی پران—پرتشٹھا کی تقریب (جسے ‘رام اتسو’ اور ‘راشٹرکااتسو’ یعنی قومی جشن وغیرہ بھی کہا جا رہا ہے) کو ‘بے مثال’ بنانے کے لیے کسی آئینی یا جمہوری اقدار کی توہین کرنے تک سے گریز نہیں کیا گیا۔ اتر پردیش کی حکومت (جس کے سربراہ یوگی آدتیہ ناتھ سیکولرازم اور سوشلزم جیسی آئینی اقدار کا مذاق اڑانے کا موقع شاذ و نادر ہی جانے دیتے ہیں) نے اپنے افسران کو ہدایت دے کرریاست بھر کے مندروں میں سرکاری طور پررامائن پاٹھ اور بھجن کیرتن کی ‘بے مثال’ پابندی کرائی۔
ملک کا شاید ہی کوئی بیدار شہری یوم جمہوریہ کے موقع پر ان سب کو ترجیح دینے کے پیچھے کی ان حکومتوں اور حکمرانوں کی منشا سے انجان ہو یا اس کو نہ سمجھتا ہو۔ یہ اور بات ہے کہ جمہوری اداروں کے ساتھ ساتھ اپوزیشن کوبھی بے بس یا حقیقی اپوزیشن کا کردار ادا کرنے سے محروم کر دیے جانے کی وجہ سے اسے جوابی کارروائی کی کوئی صورت نظر نہ آ رہی ہو۔
اس صورت حال میں فطری طور پر یہ تصور بھی خوفزدہ کرتا ہے کہ یہ ملک (جو اب تک خود کو دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کہتا رہا ہے —جمہوریت کے بین الاقوامی اشاریوں میں اس کے لنگڑانا شروع کر دینے اور بہت سے ماہرین کی رائے میں تھیوکریسی (پڑھیےادھرم) میں تبدیل ہو جانے کے باوجود اگلے دو ڈھائی مہینوں میں ہونے والے لوک سبھا انتخابات میں اپنی جمہوریت کی سلامتی کے بارے میں فیصلہ کر پایا تو پھر آئندہ تاریخ میں ہماری جمہوریہ کو دھرم (پھر ادھرم ہی پڑھیے) تنتر سے بدلنے کی ان خوفناک کوششوں کس طور پر یاد کیاجائے گا؟
جواب تک پہنچنے میں آسانی پیدا کرنے کے لیے ایک اور سوال سے گزر لیتے ہیں؛ اگر ملک کا فیصلہ اس کے الٹ ہوا اور ‘ادھرم تنتر’ کے علمبرداروں کی منشا کو پنپنے کا ایک اور موقع مل گیا تو کیا ہوگا؟ یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ پھر ان کے ‘سپہ سالاروں’ کی شان میں قصیدے پڑھے جائیں گےجیسا کہ ان دنوں ان کی شان میں پڑھے جا رہے ہیں۔ جنہوں نے عدالتوں کے سامنے سزا کے خوف سے بابری مسجد کے انہدام میں کسی طرح کے کردار کو تسلیم نہیں کیا اور اب اپنے منھ میاں مٹھو بنے ‘رام للا کو ان کا گھر دلانے کے لیے کار سیوا سمیت رام مندر کی تعمیر ‘ کے لیے مختلف جدوجہد میں اپنی ‘بہادری’کی ‘گورو گاتھا’ کا بیان کرتے پھر رہے ہیں۔
یقیناً پھر یہ بھی بتایا جائے گا کہ کس طرح ایک ایک کر کے انہوں نے ملک کی جمہوریت اور آئین کو نشانہ بنایا۔ تعجب کی بات نہیں کہ تب تک ان اندیشوں کو امکانات کے طور پر یاد کیا جانے لگے، جواس ملک اور اس کے اہل وطن کے سامنے پیدا ہوئے ہیں۔
لیکن اگر جمہوریت کی سلامتی کا فیصلہ ہوا تو ہماری جمہوریہ یہ نہیں بھولے گی کہ یہ کوئی اتفاقی بات نہیں ہے کہ آدھے ادھورے مندر میں بھگوان رام کی پران—پرتشٹھا کے لیے یوم جمہوریہ اور نیتا جی سبھاش چندر بوس کے یوم پیدائش سے عین قبل ‘مہورت’ نکلوایا گیا اور شنکرآچاریوں کے اعتراضات کے باوجود اسے تبدیل نہیں کیا گیا۔ ویسے ہی جیسے 2020 میں مندر کے بھومی پوجن کے لیے یوم آزادی سے پہلے 15 اگست یعنی یوم آزادی سے پہلے 5 اگست کی تاریخ کا انتخاب محض اتفاق نہیں تھا۔
ان تمام انتخابات کے پیچھے ان حکمرانوں کی ‘دانشمندی’ تھی جنہوں نے انہیں منتخب کیا (جو جمہوریت کا فائدہ اٹھا کر اقتدار میں آئے اور آئین پر حلف تو اٹھایا لیکن اس سے وفاداری کے لیے بالکل بھی سنجیدہ نہیں تھے۔) کہ آئندہ سے ہر سال یوم آزادی سے پہلے بھومی پوجن کی اور یوم جمہوریہ سے پہلے پران—پرتشٹھا کی تاریخیں آئیں اور اپنے جشن سے سرابور کرتی انہیں منھ چڑھاتی نکل جائیں۔
جمہوریہ اس حقیقت کو بھی کیسے فراموش کرپائے گی کہ اس کے لیے وزیر اعظم نے ‘دھرم آچاریہ’ کا چولا پہنا تھا اور ان کے ‘سپہ سالا’ انھیں وشنو کا اوتار کہہ رہے تھے اور پران—پرتشٹھا کی تاریخ کو 15 اگست 1947 جیسا اہم بتا رہے تھے۔
اس بات کوبھی یاد کیا جائے گا کہ جب اپوزیشن بے بس ہوگئی تھی ، تو شنکراچاریہ اپوزیشن کے رول میں آگئے تھے۔ وہ کہہ رہے تھے کہ سیاست کرنے والوں حکمرانوں کو اس طرح کی مذہبی سرگرمیوں کو مذہبی رہنماؤں کے لیے چھوڑ دینا چاہیے اور اپنی سیاست میں ہی مصروف رہنا چاہیے۔ لیکن جمہوری اور سیکولر آئین پر حلف اٹھانے والے وزیراعظم کے لیے ان کی بات سننا گوارہ نہیں تھا۔ ان کو عرصے سےجل رہے منی پور کے ان شہریوں کی بھی فکر نہیں تھی، جو خونریزی کی وجہ سے جان کی خیر نہیں منا پا رہے تھے۔
اپنی طرف سے لاپرواہ رہ کر وہ سرویشور دیال سکسینہ کی اس نظم کی تردید میں مصروف تھے؛ اس دنیا میں آدمی کی جان سے بڑا/ کچھ بھی نہیں ہے، نہ ایشور، نہ گیان، نہ چناؤ۔
یہی نہیں، بھگوان رام کے تئیں عقیدت کے جھوٹے مظاہرے کے درمیان ان کے آدرش اور اقدار ونظریات کی بھی توہین کر رہے تھے۔ درحقیقت انہیں ایسے کاموں میں مہارت حاصل تھی۔ ا وہ ایمرجنسی کا اعلان کیے بغیر ہی ایمرجنسی جیسی صورتحال پیدا کر سکتےتھے، تو وہ اعلان کیے بغیر ہندو راشٹر جیسی صورت حال کیوں پیدا نہیں کر سکتے تھے، تاکہ ان کی اکثریت پسندی اپنا کھلا کھیل سکے۔
جمہوریہ یہ بھی یاد رکھے گی کہ اس دور میں ان کے اکثریتی کھیل کے بہت سے کھلاڑی اور حامی ایسے خوش تھے، جیسے انہوں نے ذہانت اور چالاکی کے فرق کو مٹانے کا ہدف حاصل کر لیا ہو۔ کئی بار ان کی خوشی میں شکار کے بعد خوش ہونے والے شکاری کی تصویر نظر آتی تھی۔ وہ یہ تو چاہتے تھے کہ تمام اہل وطن ان کی خوشی میں شامل ہوں اور جب بھی وہ کہیں دیوالی منانا شروع کر دیں، لیکن وہ ان کی خوشی کے لیے اپنا دل بڑا نہیں کرنا چاہتے تھے۔ وہ ایسے ‘دکھ’ برداشت کرنے کو بھی تیار نہیں تھے، جس سے ان کی خوشیاں ہوا کے جھونکے سے آنے والی خوشبو کی طرح پھیل جائے۔
یہ آلودگی اورتعفن کی طرح پھیلنا شروع کرتی، تب بھی وہ یہی چاہتے تھے کہ یہ پھیلتی رہے۔ خوف، دہشت، بے یقینی اور افواہ کی طرح پھیلے تو بھی انہیں کوئی فرق نہیں پڑتا تھا۔ کئی بار ایسا لگتا تھا کہ وہ اس لیے خوش ہیں کہ انہوں نے مہاتما گاندھی کو ہرا دیا ہے اورتلسی داس کو شکست دے دی ہے۔ ان کی امیدیں بھی اپنے ساحل کو توڑتی موجوں کی طرح کم،بجبجاتی نالیوں کی طرح زیادہ اپھان پر لگتی تھیں۔
ہاں جمہوریہ کو یہ بھی یاد ہوگا کہ ان کے ساتھ بہت سے ایسے لوگ بھی خوش تھے، جن کے دل رو رہے تھے، لیکن ڈرے ہوئے تھے کہ اگر انہوں نے راجا کا باجا نہیں بجایا تو کون جانے کیا ہو جائے! ان میں ایودھیا کے ہزاروں خاندان بھی شامل تھے، جن کے گھر، دکانیں اور ادارے اس کی ترقی کے لیے بے رحمی سے قربان کیے گئے تھے۔ یہاں تک کہ وہ خاندان بھی جن کے افراد ترقی سے متعلق حادثات کا شکار ہو گئے تھے۔ وہ اس لیے خوش تھے کہ پانی میں رہ کر مگر سے بیر نہیں کر سکتے تھے۔ کیونکہ ان کا ایسے ‘راجاؤں’ سے سابقہ پڑ گیا تھا، جن کی فتوحات بھی ان کے اندرانکساری پیدا نہیں کر رہی تھی۔ وہ جیت کے بعد بھی نشے میں چوڑ تھے اور اس شرم کو محسوس نہیں کر پاتے تھے کہ اس کے باوجود کوئی نہ کوئی پوچھ ہی لیتا تھا کہ رام کو لے آئے ہیں تو وجے مالیا اور نیرو مودی کو کیوں نہیں لا رہے؟
کہا جاتا ہے کہ تاریخ بہت سفاک ہوتی ہے، لیکن وہ ان ‘راجاؤں’ کے لیےبے رحم ہوگی یا مہربان، یہ جاننے کے لیے ابھی انتظار کرنا پڑے گا۔ اگر ملک کا مستقبل لکھنے والوں (ووٹرز) نے اسے ان کے لیے مہربان بنانے کا فیصلہ کیا تو کہہ نہیں سکتے کہ وہ آئندہ بھی مستقبل لکھنے والے بنے رہ پائیں گےیا آخری بار ملک کے مستقبل کا فیصلہ کر چکے ہوں گے۔
(کرشن پرتاپ سنگھ سینئر صحافی ہیں۔)
Categories: فکر و نظر