خبریں

گجرات: بلقیس بانو کیس کے 11 مجرموں نے سرینڈر کیا

سپریم کورٹ نے 8 جنوری کو بلقیس بانو کے ساتھ گینگ ریپ کرنے والے اور ان کے خاندان کے قتل کے 11 مجرموں کی قبل از وقت رہائی کوخارج کرتے ہوئے کہا تھا کہ گجرات حکومت کے پاس انہیں وقت سے پہلے رہا کرنے کا اختیار نہیں ہے۔ رہائی کے فیصلے کو رد کرتے ہوئے عدالت نے مجرموں کو دو ہفتوں کے اندر دوبارہ جیل میں سرینڈر کرنے کو کہا تھا۔

15 اگست کو مجرموں کی جیل سے رہائی کے بعد ان کا خیرمقدم کیا گیا تھا۔ (فائل فوٹو: پی ٹی آئی)

15 اگست کو مجرموں کی جیل سے رہائی کے بعد ان کا خیرمقدم کیا گیا تھا۔ (فائل فوٹو: پی ٹی آئی)

نئی دہلی: سال 2002 میں گجرات فسادات کے دوران بلقیس بانو کے ساتھ گینگ ریپ کرنے والے اور ان کے خاندان کے کئی افراد کے قتل کے مجرموں نے اتوار (21 جنوری) کی رات کو گودھرا جیل میں سرینڈر کر دیا۔

بتا دیں کہ 8 جنوری کو سپریم کورٹ نے گجرات حکومت کے رہائی کے آرڈر کو رد کرتے ہوئے کہا تھا کہ حکومت کے پاس اس طرح سے مجرموں کو رہا کرنے کے اختیارات نہیں ہیں اور ہدایت کی تھی کہ وہ  دو ہفتے کے اندر جیل میں سرینڈر کردیں۔

جیل میں سرینڈر کرنے کی آخری تاریخ 22 جنوری تھی۔

ان لوگوں نے سپریم کورٹ سے سرینڈر کے لیے مزید وقت دینے کی درخواست کی تھی، لیکن 19 جنوری کو عدالت نے ان کے اس مطالبہ کومسترد کر دیا تھا۔

انڈین ایکسپریس کی رپورٹ کے مطابق، مجرموں کے سرینڈر کے پیش نظر پنچ محل ضلع پولیس نے اتوار کی شام سے ہی گودھرا سب جیل کے باہر اہلکاروں کے کئی دستے تعینات کر دیے تھے۔ گودھرا سب جیل کے حکام نے تصدیق کی کہ 11 مجرموں نے اتوار کی رات 11:45 بجے سرینڈر کر دیا۔

یہ مجرم اتوار کی آدھی رات سے کچھ دیر پہلے دو مختلف گاڑیوں میں داہود ضلع کے سنگواڑ سے پنچ محل ضلع کی گودھرا سب جیل پہنچے تھے۔

سپریم کورٹ کی جانب سے مجرموں کو واپس جیل میں سرینڈر کرنے کے فیصلے کے بعد خبریں آئی تھیں کہ وہ اپنے اپنے گھروں پر نہیں ہیں۔

تاہم، 19 جنوری کو داہود ضلع کی اسسٹنٹ سپرنٹنڈنٹ آف پولیس (اے ایس پی) بشاکھا جین نے بتایا تھا، ‘جب سے سپریم کورٹ نے اپنا فیصلہ سنایا (8 جنوری کو گجرات حکومت کی طرف سے دی گئی چھوٹ کو رد کیا)، تب سے وہ پولیس کی نگرانی میں ہیں۔ ہم نے اس دن ہی ان سب سے رابطہ کیا اور ایسا نہیں لگا کہ فیصلے کے بعد ان کا رابطے میں نہیں رہنے کا کوئی ارادہ تھا۔

غورطلب  ہے کہ 27 فروری 2002 کو سابرمتی ایکسپریس کے کوچ میں تشدد کے بعد 59 کار سیوکوں کی موت ہو گئی تھی۔ اس کے بعد ہونے والے تشدد کے دوران بلقیس بانو، جو اس وقت پانچ ماہ کی حاملہ تھیں، اپنی بچی اور دیگر 15 افراد کے ساتھ اپنے گاؤں سے بھاگ گئی تھیں۔

 تین  مارچ 2002 کو داہود ضلع کے لمکھیڑا تعلقہ کے رندھیک پور گاؤں میں جہاں وہ سب چھپے تھے، وہاں 20-30 لوگوں کے ہجوم نے بلقیس کے خاندان پر درانتی، تلوار اور لاٹھیوں سے لیس ہو کرحملہ کیا تھا۔ یہاں بلقیس بانو کے ساتھ گینگ ریپ کیا گیا تھا، جبکہ ان کی بچی سمیت خاندان کے چودہ افراد کو قتل کر دیا گیا تھا۔

قابل ذکر ہے کہ مجرموں کو 15 اگست 2022 کو یوم آزادی کے موقع پر 2002 میں ہوئے بلقیس بانو گینگ ریپ  اور اس کی بچی سمیت خاندان کے افراد کے قتل  کے معاملے میں عمر قید کی سزا کاٹ رہے تمام 11 مجرموں کی سزا معاف کر دی گئی تھی اور ان کو رہا کر دیا گیا تھا۔

جب سپریم کورٹ نے اس سلسلے میں گجرات حکومت سے جواب طلب کیا تو ریاستی حکومت نے کہا تھا کہ قصورواروں کو مرکز کی منظوری سے رہا کیا گیا۔ حکومت نے کہا تھا کہ ‘ان (مجرموں) کا برتاؤ اچھا پایا گیا تھا’ اور انہیں اس بنیاد پر رہا کیا گیا کہ وہ 14 سال جیل میں گزار چکے ہیں۔ تاہم،‘اچھے برتاؤ’ کی وجہ سے رہا ہونے والے مجرموں پر پیرول کے دوران بہت سے الزامات لگے تھے۔

اس وقت، مرکزی وزارت داخلہ امت شاہ کے تحت آتی ہے، جو 2002 کے فسادات کے دوران گجرات کے وزیر داخلہ تھے۔

بتادیں کہ 15 اگست 2022 کو گجرات کی بی جے پی حکومت کی معافی کی پالیسی کے تحت معافی ملنے کے بعد تمام 11 مجرموں کو 16 اگست کو گودھرا کی سب جیل سے رہا ہونے کے بعد سوشل میڈیا پر سامنے آئے ویڈیو میں ریپ اور قتل کے ان مجرموں کا استقبال مٹھائی کھلا کر اور ہار پہنا کر کیا گیا تھا  ۔

اس کو لے کر کارکنوں نے شدید غم و غصے کا اظہار کیا تھا۔اس کے علاوہ سینکڑوں خواتین کارکنوں سمیت 6000 سے زائد افراد نے سپریم کورٹ سے مجرموں کی سزا کی معافی کے فیصلے کو رد کرنے کی اپیل کی تھی۔

مجرموں کی قبل از وقت رہائی کے بعد بلقیس بانو سمیت کئی خواتین کارکنوں اور سیاست دانوں نے اس فیصلے کو سپریم کورٹ میں چیلنج کرتے ہوئے کہا تھاکہ معافی غیر قانونی ہے اور گجرات حکومت کے پاس سزا معافی کا اختیار نہیں تھا۔

انگریزی میں پڑھنے کے لیےیہاں کلک کریں۔