گراؤنڈ رپورٹ

ممبئی: میرا روڈ تشدد کے متاثرین نے کہا – پولیس نے ہندوتوادی بھیڑ کو نہیں روکا

ایودھیا میں رام مندر پران — پرتشٹھا کے موقع پرتقریباً 300 نوجوانوں کے ایک گروپ نے ممبئی کے قریبی علاقوں میں ان دکانوں پر حملہ کیا، جن کے نام مسلمانوں جیسے لگ رہے تھے۔ ان دکانوں پر بھی حملہ ہوا، جنہوں نےبھگوا جھنڈے نہیں لگائے تھے۔ متاثرین کی جانب سے پیش ہونے والے وکیل نے دی وائر کو بتایا کہ کافی سمجھانے کے بعد پولیس نے چار معاملوں میں ایف آئی آر درج کی ہے۔

(السٹریشن : پری پلب چکرورتی/ دی وائر)

(السٹریشن : پری پلب چکرورتی/ دی وائر)

ممبئی: جب منگل (23 جنوری) کو 200-300 سے زیادہ لوگوں کا ایک ہجوم ممبئی کے میرا روڈ پر شانتی نگر کے سیکٹر-5 پہنچا، تو وہ پہلے سے ہی اپنے ہدف اور نشانے سے بخوبی واقف تھے۔ جن دکانوں پر ‘جئے شری رام’ چھپے بھگوا جھنڈے لگے تھے، انہیں چھوڑ دیا گیا، باقی سب پر حملہ کیا گیا۔ ہندو اکثریتی شاپنگ علاقے میں صبا بوٹیک مسلمانوں کی  ملکیتی والا ایک ایسا ہی ادارہ تھا۔

اکثر حملہ آور نوعمر تھے اور ان کی عمر 20 سال کے آس پاس تھی، جو بوٹیک میں داخل ہوئے اور پتھراؤ کیا۔ ان میں سے تقریباً سبھی کے پاس بیک پیک  تھے اور ایسا لگتا تھا کہ انہوں نے ان میں بڑے بڑے پتھر جمع کر رکھے ہیں۔ انہوں نے دکان پر پتھراؤ کیا، شیشے اور بوٹیک کے باہر رکھے پتلوں کو توڑ دیا اور آگے بڑھ گئے۔

تیرہ  سال پرانے بوٹیک کے مالک شمشیر عالم نے دی وائر کو بتایا، ‘یہ سب کچھ 30 سیکنڈ کے اندر  ہوا۔’ حملے میں ان کا بیٹا اور سالا زخمی ہو گئے۔

صبا بوٹیک، مسلمانوں کی ان متعدد دکانوں میں سے ایک جو حملے میں تباہ ہو گئی تھیں۔ تصویر: سکنیا شانتا

صبا بوٹیک، مسلمانوں کی ان متعدد دکانوں میں سے ایک جو حملے میں تباہ ہو گئی تھیں۔ تصویر: سکنیا شانتا

اس کے بعد بھیڑ پڑوسی گلی میں مسلمانوں کی دوسری دکانوں کی طرف بڑھ گئی تھی۔ جب یہ حملہ ہو رہا تھا، تب نیا نگر تھانے کی پولیس صرف 20 میٹر کے فاصلے پر سڑک پر کھڑی دیکھی گئی تھی۔

انہوں نے دعویٰ کیا، ‘لیکن انہوں نے ہجوم کو نہیں روکا۔ ایسا لگ رہا تھا جیسے پولیس بھیڑ کی حفاظت کے لیے موجود تھی۔’

چوبیس جنوری کو عالم اور دیگر دکان مالک، جنہیں حملے میں بھاری نقصان اٹھانا پڑا تھا، پولیس اسٹیشن گئے تھے۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ پولیس نے سنگین ثبوت پیش کرنے کے باوجود ایف آئی آر درج کرنے سے انکار کردیا۔ دی وائر نےجن دوسری دکانوں کا دورہ کیا، وہاں دکان مالکوں کے پاس بھی ایسی ہی کہانیاں تھیں۔

چھوٹے نواب شو شاپ کے مالک شیخ فیاض احمد نے اس وقت کا سی سی ٹی وی فوٹیج دکھایا، جب ان کی دکان پر حملہ کیا گیا تھا۔ نوجوان لڑکے، ممکنہ طور پر نوعمروں کو، دکان پر پتھراؤ کرتے دیکھا جا سکتا ہے۔ ان کے پاس بھاری بھی بیگ تھے، جو پتھروں سے بھرے ہوئے تھے۔ کچھ نے اپنے چہروں کو ڈھانپ رکھا تھا، کئی لوگوں اپنے چہرے ڈھانپنے کی پرواہ نہیں کی تھی۔

ہجوم نے سیکٹر 3 میں ایک ٹیمپو ڈرائیور پر حملہ کر دیا۔ اس کے ٹیمپو کے پیچھے ‘راشد ٹیمپو سروس’ لکھا ہوا تھا۔ اس حملے میں 21 سالہ محمد طارق اور دو دیگر زخمی ہوگئے۔ قریبی موبائل شاپ پر حملے میں ایک اور 49 سالہ شخص زخمی ہوا۔

گجرات کے رہنے والے محمد عمر ایک مقامی آپٹیشین  کے پاس کام کرتے ہیں، بھی اس حملے کا شکار ہوئے۔ دکان کا نام ‘بلیو آئی’ غیر جانبدارسا  لگتا تھا، پھر بھی اس پر حملہ کیا گیا۔

عمر کہتے ہیں کہ یہ دو وجہ سے ہوا۔ پہلا، ان کی دکان کے باہر بھگوا جھنڈا نہیں لگا تھا اور دوسرا داڑھی کی وجہ سے دکان پر بیٹھا ایک شخص ‘مسلمان لگ رہا تھا’۔

بھگوا جھنڈا نہ لگانے پر حملے کا خدشہ سمجھ میں آتا ہے، کیونکہ ایک اور چشمے کی دکان گنگر آئی نیشن پر بھی حملہ کیا گیا تھا۔ یہ ایک ہندو کی دکان ہے، لیکن دکان کے باہر بھگوا جھنڈا نہیں لگایا گیا تھا۔

حملے کے متاثرین کی طرف سے پیش ہونے والے وکیل سچن سالوی نے دی وائر کو بتایا کہ پولیس کو کافی سمجھانے کے بعد آخر کار انہوں نے چار معاملوں میں ایف آئی آر درج کی۔ ان میں سے ایک اس بھیڑ کے خلاف تھی، جس نے سڑک پر ایک 16 سالہ لڑکے پر حملہ کیا تھا۔

سالوے نے کہا، ‘حملے کے بعد لڑکے کو اسپتال میں داخل کرانا پڑا۔ پولیس ایف آئی آر درج نہیں کرنا چاہتی تھی لیکن جب ہم نے پیچھے ہٹنے سے انکار کر دیا تو آخر کار انہوں نے ایف آئی آر درج لکھ ہی لی۔’

بتادیں کہ 23 جنوری کو تھانے ضلع کے تیزی سے ترقی پذیر محلے میرا روڈ میں تشدد کا تیسرا دن تھا۔ 2011 کی مردم شماری کے اعداد و شمار کے مطابق، میرا روڈ میں  16 فیصد سے زیادہ مسلم آبادی ہے۔ پچھلی دہائی میں جیسے جیسے ممبئی کی آبادی تیزی سے بڑھنے لگی، لوگوں کو میرا روڈ اور بھایندر جیسے دور دراز کے مضافاتی علاقوں میں جانا پڑا۔

اس علاقے میں اب بھی کافی خالی زمینیں ہیں اور بہت سے رئیل اسٹیٹ ڈیولپرز اس علاقے پر نظریں جمائے ہوئے ہیں۔ دی وائر نے جن کئی مقامی مسلمانوں سے بات کی، انہوں حملے اور علاقے میں تیزی سے بڑھتے ہوئے رئیل اسٹیٹ کے کاروبار کے درمیان تعلق کی بات کی۔

مقامی سماجی کارکن محمد خالد صدیقی نے کہا،’اگر آپ کے علاقے میں زیادہ مسلمان نہیں ہیں تو خریداروں کو راغب کرنا ہمیشہ آسان ہوتا ہے۔اس طرح جائیداد زیادہ میٹروپولیٹن لگتی ہے اور رئیل اسٹیٹ کی قیمتیں بھی بڑھ جاتی ہیں۔’

بائیس جنوری کا واقعہ کسی اچانک کے اکساوے کی وجہ سے نہیں ہوا تھا۔ مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ یہ منصوبہ بند تھا۔ دراصل پولیس شہر کی اہم سڑکوں پر گشت کر رہی تھی، لیکن وہ حملوں کو روکنے میں ناکام رہی۔ حملے سے ٹھیک ایک گھنٹہ پہلے، میرا-بھایندر میونسپل کارپوریشن نے کئی ‘غیر قانونی ڈھانچے’ کو منہدم کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔

میرا روڈ کے نیا نگر علاقے میں حیدری چوک پر کارپوریشن کے بلڈوزروں نے سات کچے ڈھانچوں کو زمین دوز کر دیا۔ یہ ڈھانچے علاقے میں دو دہائیوں سے زیادہ عرصے سے موجود ہیں، لیکن ان کا استعمال کرنے والوں کو ایک بھی نوٹس یا پیشگی وارننگ نہیں ملی ہے، ایسا انہوں نے بتایا۔

دس سال سے ایک ٹین شیڈ میں ٹو وہیلر کی ورکشاپ چلا رہے شمیم احمدنے بتایا کہ شام 5 بجے کے قریب مقامی پولیس اور ریپڈ ایکشن فورس (آر اے ایف) کی ایک بڑی ٹیم مقامی کارپوریشن کے کچھ اہلکاروں کے ساتھ ان کی دکان پر پہنچی۔

نیا نگر میں بانیگر گلی کے باہر کی جگہ، جہاں 21 جنوری کو تشدد ہوا تھا۔ (تصویر: سکنیا شانتا)

نیا نگر میں بانیگر گلی کے باہر کی جگہ، جہاں 21 جنوری کو تشدد ہوا تھا۔ (تصویر: سکنیا شانتا)

احمد نے کہا، ‘انہوں نے ہمیں زبردستی باہر نکالا اور تعمیرات کو گرانا شروع کر دیا۔’

انہوں نے کہا کہ جن لوگوں نے اپنی دکانیں کھو دیں، ان کا میرا روڈ کے دیگر حصوں ہوئے  حملوں سے کوئی لینا دینا نہیں ہے، لیکن ہم آسان ٹارگیٹ بن گئے۔’

پہلا واقعہ 21 جنوری کو پیش آیا۔ رات کے قریب  10:30 بجے تھے، جب کئی نوجوان نیا نگر کی بانیگر گلی میں داخل ہوئے۔ اس علاقے میں تقریباً تمام گھر مسلم کمیونٹی کے ہیں۔ مقامی لوگوں کا دعویٰ ہے کہ وہ تیز آواز میں میوزک بجا رہے تھے اور ’جئے شری رام‘ کے نعرے لگا رہے تھے۔

آخر کار وہ سنگھوی ایمپائر ہاؤسنگ سوسائٹی کے باہر رک گئے اور تیز آواز میں میوزک بجایا۔ سنگھوی ایمپائر کی رہنے والی زلیخا نے کہا، ‘یہ عمارت سڑک کے آخری سرے پر ہے۔ وہ جانتے تھے کہ وہاں سے نکلنے کا کوئی دوسرا راستہ نہیں ہے۔ وہ وہاں سے نہیں گزر رہے تھے بلکہ اکسانے کے ارادے سے آئے تھے۔’

مقامی مسلمانوں کی ان کے ساتھ بحث ہوئی اور جلد ہی اس بحث نے تشدد کی صورت اختیار کر لی۔ ویڈیوز سوشل میڈیا پلیٹ فارم پر وائرل ہو گئے ہیں اور بی جے پی کے مقامی لیڈروں نے اسے ریاست میں فرقہ وارانہ جذبات بھڑکانے کے لیے اس  کااستعمال کیا ہے۔

اس واقعے کے فوراً بعد مہاراشٹر کے نائب وزیر اعلیٰ دیویندر فڈنویس نے اعلان کیا تھا کہ ریاست میں امن و امان کو خراب کرنے کی کوشش کرنے والوں کے خلاف ‘سخت کارروائی’ کی جائے گی۔

اس کے فوراً بعد 13 افراد کو گرفتار کر لیا گیا۔ ان میں سے دو زلیخا کے بیٹے ہیں۔ زلیخا کہتی ہیں، ‘پولیس ہمارے بچوں کو لے گئی۔ لیکن ان لوگوں سے پوچھ گچھ نہیں کی جو رات گئے علاقے میں داخل ہوئے تھے اور جئے شری رام کے نعرے لگا رہے تھے۔’

گرفتار کیے گئے افراد میں سے دو نابالغ ہیں اور انہیں بھیونڈی میں چلڈرن ہوم بھیج دیا گیا ہے۔ 23 جنوری کو کچھ اور گرفتاریاں کی گئیں۔

پولیس نے ابو شمع نامی شخص کے خلاف ایک اور ایف آئی آر درج کی، جس نے مبینہ طور پر ملک کی صورتحال پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے اور مقامی سیاست دانوں کو ملک میں فرقہ وارانہ منافرت پھیلانے کا ذمہ دار ٹھہراتے ہوئے ایک ویڈیو ریکارڈ کیا تھا۔ شمع کو 24 جنوری کو گرفتار کیا گیا۔

پولیس نے کہا کہ سوشل میڈیا پر اشتعال انگیز پیغامات اور ویڈیوز پوسٹ کرنے والوں کے خلاف کارروائی کی جا رہی ہے۔ تاہم، بی جے پی ایم ایل اے گیتا جین یا بی جے پی لیڈر نتیش رانے کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی گئی ہے، جنہوں نے کھلے عام اشتعال انگیز بیانات دیے ہیں اور مسلم کمیونٹی کو سنگین نتائج بھگتنے کی دھمکی دی ہے۔

دی وائر تین دن تک جاری رہنے والے اس واقعے کا پولیس ورژن اور درج مقدمات کی صحیح تعداد حاصل کرنے کے لیے نیا نگر پولیس اسٹیشن گیا، لیکن سینئر پولیس انسپکٹر ولاس سوپے نے ملنے سے انکار کردیا۔

انگریزی میں پڑھنے کے لیےیہاں کلک کریں ۔