خبریں

سویندو ادھیکاری کا مجھے ’خالصتانی‘ کہنا پوری  طرح سے ناقابل قبول: بنگال کے سکھ آئی پی ایس افسر

مغربی بنگال میں بی جے پی کے قائد حزب اختلاف سویندو ادھیکاری نے سندیش خالی کے اپنے دورے کے دوران وہاں تعینات سکھ آئی پی ایس افسر جسپریت سنگھ کو مبینہ طور پر ‘خالصانی’ کہہ کر مخاطب کیا تھا۔ واقعہ کے وائرل ویڈیو میں دیکھا جاسکتا ہے کہ ‘خالصتانی’ کہے جانے کے بعد  اسپیشل سپرنٹنڈنٹ آف پولیس سنگھ بی جے پی لیڈروں کے خلاف سخت ردعمل کا اظہار کررہے ہیں۔

بی جے پی لیڈر سویندو ادھیکاری اور آئی پی ایس افسر جسپریت سنگھ۔ (تصویر بہ شکریہ: فیس بک/ویڈیو اسکرین گریب)

بی جے پی لیڈر سویندو ادھیکاری اور آئی پی ایس افسر جسپریت سنگھ۔ (تصویر بہ شکریہ: فیس بک/ویڈیو اسکرین گریب)

جالندھر: مغربی بنگال میں تعینات انڈین پولیس سروس (آئی پی ایس) کے سکھ افسر کا ایک ویڈیو منگل (20 فروری) کو سوشل میڈیا پر وائرل ہوا۔ ویڈیو میں بنگال اسمبلی میں بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے قائد حزب اختلاف سویندو ادھیکاری کی جانب سے سکھ آئی پی ایس کو مبینہ طور پر ‘خالصتانی’ کہے جانے کا دعویٰ ہے۔

یہ واقعہ سندیش خالی واقعہ کے خلاف بی جے پی کے احتجاج کے دوران پیش آیا تھا۔

آئی پی ایس افسر کی قیادت میں بی جے پی ایم ایل اے سویندو ادھیکاری مغربی بنگال کے شمالی 24 پرگنہ ضلع کے سندیش خالی گاؤں میں داخل ہونے کی کوشش کر رہے تھے، جب اچانک انہوں نے آئی پی ایس افسر جسپریت سنگھ پر ‘خالصتانی’ ہونے کا الزام لگا دیا۔

سنگھ مغربی بنگال کے بشیرہاٹ میں اسپیشل سپرنٹنڈنٹ آف پولیس (ایس ایس پی)، انٹلی جنس برانچ (آئی بی) کے عہدے پر تعینات ہیں۔

جیسے ہی یہ ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہوا، اپوزیشن جماعتوں نے بی جے پی کے ‘اقلیتی مخالف’ موقف اور نا زیبا الفاظ کے استعمال کو تنقید کا نشانہ بنایا۔

بی جے پی کے دو رہنما – آسنسول جنوبی کے ایم ایل اے اگنی متر پال اور سویندو ادھیکاری – کو ویڈیو میں نمایاں طور پر دیکھا جا سکتا ہے، جہاں وہ پولیس کے ساتھ بحث کر رہے ہیں۔ بی جے پی اب بیک فٹ پر ہے؛ پارٹی کی پنجاب اکائی نے اس معاملے پر خاموشی اختیار کر رکھی ہے۔

دی وائر سے بات کرتے ہوئے سنگھ نے بتایا کہ جب یہ واقعہ پیش آیا تب وہ بشیرہاٹ پولیس تھانہ حلقہ کےسندیش خالی گاؤں میں ڈیوٹی پر تھے۔

انہوں نے کہا، ‘چونکہ سی آر پی سی کی دفعہ 144 نافذ تھی، اس لیے ہم نے سویندو ادھیکاری کی قیادت میں لیڈروں کے گروپ (بی جے پی ایم ایل اے) کو سندیش خالی میں داخل ہونے سے روکنے کی کوشش کی۔ جب ہم نے لیڈروں کو روکا تو سویندو ادھیکاری نے مجھے ‘خالصتانی’ کہا، جو پوری طرح سے ناقابل قبول تھا۔ میں نے اس کے خلاف سخت ردعمل کا اظہار کیا۔’

فرید آباد، ہریانہ کے 2016 بیچ کے آئی پی ایس افسر نے بتایا کہ جب وہ احتجاج میں سویندو ادھیکاری کے سامنے کھڑے ہوگئے تو وہ پیچھےجا کر بیٹھ گئے اور خاتون لیڈر آگے آگئیں۔

اقلیتوں – خصوصی طور پر سکھوں – کے خلاف تشدد کے بڑھتے ہوئے واقعات کے پس منظر میں انہیں ایک پیغام دیتے ہوئے سنگھ نے لوگوں سے اپیل کی کہ وہ خود کو ‘بے بس’ یا ‘مظلوم’ نہ سمجھیں۔ انہوں نے کہا،’بلکہ، نہ صرف اپنے لیے بلکہ دوسروں کے حقوق اور وقار کے لیے بھی لڑنے کے قابل اور مضبوط بنیں۔’

سنگھ نے کہا، ‘ہم جلد ہی قانونی کارروائی کی توقع کر رہے ہیں۔ ہماری پولیس ٹیم ویڈیو فوٹیج کا جائزہ لے رہی ہے اور قانون کے مطابق قانونی کارروائی کی جائے گی۔’

سنگھ نے بتایا کہ جب مغربی بنگال ہائی کورٹ کا فیصلہ آیا تو پولیس نے بی جے پی کے ممبران اسمبلی کو 12.30-1 بجے کے قریب سندیش خالی میں داخل ہونے کی اجازت دی۔

ویڈیو

ویڈیو میں سنگھ کو بھیڑ میں کھڑے ہو کر غصے کے ساتھ ایم ایل اے اگنی مترا پال کو ان کے نازیبا الفاظ کا جواب دیتے ہوئے دیکھا جا سکتاہے۔

وہ یہ کہتے ہوئے نظر آ رہے ہیں کہ ‘میں اس پر کارروائی کروں گا۔صرف اس لیے کہ میں نے پگڑی پہن رکھی ہے ، آپ نے مجھے خالصتانی قرار دے دیا؟ آپ میرے مذہب کے بارے میں کچھ نہیں کہہ سکتے۔ کیا کسی نے آپ کے مذہب کے بارے میں کچھ کہا ہے؟ پھر آپ نے میرے مذہب پر تبصرہ کیوں کیا؟’

اس کے بعد پولیس افسر نے ایم ایل اے پال سے اونچی آواز میں کہا، ‘مذہب پر کوئی تبصرہ نہیں کر رہا ہے، صرف آپ ہی کر رہے ہیں۔ اگر کوئی پولیس والا پگڑی پہنے ہوئے ہے تو کیا اسے خالصتانی مان لیا جائے گا؟ میں آپ کے عقیدے / آستھا کے بارے میں بات نہیں کر رہا ہوں، لہذا میرے (مذہب) کو بھی بیچ  میں مت لائیے۔آپ کی  ہمت کیسے ہوئی مجھے خالصتانی کہنے کی! کیا یہ آپ کا لیول ہے؟’

ا س واقعے کا نوٹس لیتے ہوئے مغربی بنگال پولیس نےسوشل سائٹ پر ایک بیان میں کہا، ہم مغربی بنگال پولیس برادری اس ویڈیو کو شیئر کرتے ہوئے انتہائی غصے میں ہیں،جس میں ہمارے ہی  ایک افسر کو ریاستی اپوزیشن لیڈر نے ‘خالصتانی’ کہا ہے۔ ان کی ‘غلطی’: وہ ایک قابل فخر سکھ اور قابل پولیس افسر ہیں، جو قانون کو نافذ کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔’

پولیس کے بیان میں کہا گیا ہے، ‘یہ تبصرہ اتنا ہی بدنیتی پر مبنی اور نسلی ہے جتنا کہ فرقہ وارانہ طور پر اکسانے والا ہے۔ یہ ایک مجرمانہ فعل ہے۔ ہم واضح طور پر کسی شخص کی مذہبی شناخت اور عقائد پر بلاوجہ، ناقابل قبول حملے کی مذمت کرتے ہیں، جس کا مقصد لوگوں کو تشدد اور قانون شکنی پر اکسانا ہے۔ سخت قانونی کارروائی شروع کی جا رہی ہے۔’

سیاستدانوں نے بی جے پی کو تنقید کا نشانہ بنایا

مغربی بنگال کی وزیر اعلیٰ ممتا بنرجی نے اس واقعہ کو لے کر بی جے پی کو سخت نشانہ بنایا۔ انہوں نے ایکس پر لکھا، ‘آج بی جے پی کی تفرقہ انگیز سیاست نے بے شرمی سے آئینی حدود کو پار کر دیا ہے۔ بی جے پی کے مطابق پگڑی پہننے والا ہر شخص خالصتانی ہے۔ میں اپنے سکھ بھائیوں اور بہنوں کے وقار کو کم کرنے کی اس مذموم کوشش کی شدید مذمت کرتی ہوں۔ ہم بنگال کی سماجی ہم آہنگی کے تحفظ کے لیے پرعزم ہیں اور اس میں خلل ڈالنے کی کسی بھی کوشش کو روکنے کے لیے سخت قانونی کارروائی کریں گے۔’

بنگال کی حکمراں جماعت ترنمول کانگریس (ٹی ایم سی) نے ایکس پر ایک ویڈیو شیئر کیا، جس میں سکھ برادری کے لوگ ‘ کسان مخالف بی جے پی، سکھ مخالف بی جے پی مردہ باد’ کے نعرے بلند کرتے ہوئے احتجاج کرتے نظر آ رہے ہیں۔

پارٹی نے لکھا، ‘سکھ برادری کے لوگوں نے بی جے پی کے پارٹی دفتر کے باہر احتجاج کیا اور ایک آن ڈیوٹی آئی پی ایس افسر کے خلاف اپوزیشن لیڈر سویندو ادھیکاری کے فرقہ وارانہ ریمارکس کے لیے ا ن سے معافی مانگنے کا مطالبہ کیا۔’

اس دوران ٹی ایم سی نے وزیر اعظم مودی سے بھی معافی مانگنے کا مطالبہ کیا ہے۔

بدھ کے روز پارٹی نے ایک پوسٹ میں کہا کہ سویندو ادھیکاری کی جانب سے کل کہے گئے اشتعال انگیز ‘خالصتانی’ نازیبا الفاظ سے شدید غمزدہ سکھ برادری احتجاج میں سڑکوں پر نکل آئی ہے۔

پارٹی نے کہا،’آج وہ بی جے پی بنگال کے دفتر کے باہر جمع ہوئے۔ ان کے دل غم اور غصے سے بھرے ہوئے تھے۔ ان کا احتجاج نہ صرف انصاف کے مطالبے کےلیےہے بلکہ ان کی شناخت اور وقار کے احترام کی ایک پختہ علامت کے طور پر بھی ہے۔ 24 گھنٹے گزر گئے، وزیر اعظم نریندر مودی، آپ اب تک خاموش کیوں ہیں؟’

ٹی ایم سی نے ایک پریس نوٹ جاری کیا ہے جس میں سویندو ادھیکاری کے قدم کو کلکتہ ہائی کورٹ کی ہدایات کی خلاف ورزی قرار دیا گیا ہے، جس میں سویندو کو علاقے (سندیش خالی) میں اشتعال انگیز تقریر کرنے سے منع کیا گیا تھا۔

اس سے پہلےایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے ٹی ایم سی خواتین ونگ کی صدر چندریما بھٹاچاریہ نے کہا، ‘2014 میں بی جے پی کے اقتدار میں آنے سے پہلے ملک نے اس سطح کی تفرقہ انگیز سیاست کا مشاہدہ نہیں کیا تھا۔ تب سے ہم نے بی جے پی کو کئی بار اس طرح کی حکمت عملی اپناتے ہوئے دیکھا ہے۔ انہوں نے کسانوں کی تحریک کے دوران بھی ایسی ہی حکمت عملی اپنائی تھی۔’

بدھ کو ایک اور پوسٹ میں انہوں نے کہا، ’24 گھنٹے گزر چکے ہیں، لیکن اب تک وزیر اعظم کی طرف سے ایک بھی معافی نہیں مانگی گئی ہے۔ کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ بی جے پی سویندو کے توہین آمیز ‘خالصتانی’ تبصرہ کی حمایت کرتی ہے؟ کیا بی جے پی کے دل میں سکھ برادری کی کوئی عزت نہیں ہے؟ یہ تعصب ناقابل قبول ہے!’

شرومنی گرودوارہ پربندھک کمیٹی (ایس جی پی سی) کے صدر ایڈوکیٹ ہرجیندر سنگھ دھامی نے اس واقعہ پر سخت ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے ایکس پر لکھا کہ مغربی بنگال میں بی جے پی لیڈروں کے  ذریعے ایک سکھ آئی پی ایس افسر ایس جسپریت سنگھ کی جان بوجھ کر کی گئی کردار کشی انتہائی قابل مذمت ہے۔

انہوں نے کہا، ‘ملک میں ایسی سوچ رکھنے والے لیڈروں کو کبھی نہیں بھولنا چاہیے کہ سکھوں نے ملک کی آزادی اور دفاع کے لیے سب سے زیادہ قربانیاں دی ہیں۔ سکھوں کو کسی سے سرٹیفکیٹ کی ضرورت نہیں ہے، بلکہ وہ اپنی روایات اور رسم و رواج کے مطابق ملک کی خدمت کرنا جانتے ہیں۔’

دھامی نے یہ بھی لکھا، ‘یہ بڑا سوال ہے کہ ایسے لوگ جان بوجھ کر ملک میں نفرت کا ماحول بناتے ہیں لیکن حکومتیں خاموش رہتی ہیں۔ ایسا ماحول پیدا کرنے والوں کو سزا ملنی چاہیے، تاکہ جو لوگ مختلف شعبوں میں اپنی ذمہ داریاں دیانتداری سے سرانجام دے رہے ہیں انہیں اس قسم کی نفرت کا نشانہ نہ بننا پڑے۔’

پنجاب اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر اور کانگریس کے سینئر لیڈر پرتاپ سنگھ باجوہ نے کہا، ‘یہ ناقابل بیان حد تک شرمناک ہے۔ مغربی بنگال میں بی جے پی کے رہنما ایک سکھ آئی پی ایس افسر کو خالصتانی کہہ رہے ہیں، کیونکہ وہ اپنا فرض ادا کر رہے ہیں۔ کیا بی جے پی سکھوں کے بارے میں یہی سوچتی ہے؟ ان لوگوں کے خلاف سخت کارروائی کی جانی چاہیے جنہوں نے یہ غنڈہ گردی کی اور سکھوں کو خالصتانیوں کے طور پر پیش کرنے کی کوشش کی۔’

اس سے قبل شرومنی اکالی دل کے ترجمان دلجیت سنگھ چیمہ نے بھی بی جے پی پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ ‘ایک قابل احترام سکھ پولیس افسر کو خالصتانی کہنا – جو مغربی بنگال میں ایک پولیس افسر کے طور پر اپنے فرائض انجام دے رہے تھے – انتہائی قابل مذمت ہے، یہ انتہائی توہین آمیز معاملہ ہےاور سنگین ہیٹ کرائم کا معاملہ ہے۔ مجرم کے خلاف مقدمہ درج کرکے عبرتناک سزا دی جانی چاہیے۔’

انگریزی میں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں ۔