فکر و نظر

ہندوستان کے لیے بیلٹ پیپر کے نظام کو دوبارہ اپنانا کیوں ضروری ہے

بیلٹ پیپرز کی شفافیت کے برعکس، ای وی ایم – وی وی پی اے ٹی نظام پوری طرح سے غیر شفاف ہے۔ سب کچھ ایک مشین کے اندر مبہم انداز میں رونما ہوتا ہے۔ وہاں کیا ہو رہا ہے، اس کے بارے میں ووٹر کو کوئی جانکاری نہیں ہوتی۔ نہ ہی اس کے پاس اس بات کی تحقیق کرنے یا مطمئن ہونے کا کوئی موقع ہوتا ہے کہ اس کا ووٹ صحیح امیدوار کو ہی گیا ہے۔

(علامتی تصویر بہ شکریہ: www.eci.gov.in)

(علامتی تصویر بہ شکریہ: www.eci.gov.in)

الکٹرانک ووٹنگ مشین (ای وی ایم) پچھلے کئی ہفتوں سے عوامی طور پر سوالوں  کے دائرے میں ہے۔ کئی لوگ ہیں، جو بیلٹ پیپرز کو دوبارہ اپنانے کی وکالت کر رہے ہیں۔ ان کا استدلال یہ ہے کہ دنیا کی بہت سی جمہوریت میں بیلٹ پیپرز کا استعمال ہوتا ہے۔

ای وی ایم پر عوام کا اعتماد بہت کم رہ گیا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس سے ہونے والی ووٹنگ جمہوریت کےبنیادی اصولوں کی پاسداری نہیں کرتی، جو کہ کسی بھی انتخابی نظام کی اولین شرط ہے۔

الیکشن کمیشن کی جانب سے ان باتوں کے جواب میں ای وی ایم کی نمائش کرنے والے جلوسوں کا اہتمام کیا جا رہا ہے اور بچکانہ طریقے  سے عوام کے اوپر ‘اکثر پوچھے جانے والے سوالوں’ (ایف اے کیو) کی بمباری کی جا رہی ہے۔

دنیا بھر میں پانچ طرح کے ووٹنگ سسٹم ہیں؛

〉〉〉 پیپر بیلٹ

〉〉〉 ای وی ایم

〉〉〉 ای وی ایم اور ووٹر ویریفائی ایبل پیپر آڈٹ ٹریل (وی وی پی اے ٹی)

〉〉〉 مشین سے پڑھنے کے قابل بیلٹ پیپر

〉〉〉 انٹرنیٹ پر مبنی ووٹنگ

ان میں سے ہندوستان نے اپنی انتخابی جمہوریت کا آغاز بیلٹ پیپر سے کیا تھا۔ پھر دوسرے نظام کو اپنایا گیا اور اب تیسرے کو استعمال کیا جا رہا ہے۔ یہ کہنا ضروری ہے کہ جہاں ان میں سے پہلا نظام یعنی پیپر بیلٹ جمہوریت کے اصولوں کے مطابق ہے، وہیں تیسرا نظام یعنی ای وی ایم جمہوریت کے اصولوں کے مطابق نہیں ہے۔

جمہوریت کے اصول یہ ہیں؛

〉〉〉 ووٹنگ کا عمل شفاف ہونا چاہیے، تاکہ عام لوگوں کو اس بات کی جانکاری ہو اور یقین ہو کہ ان کا ووٹ درست طریقے سے درج کیا   گیااوراس کی گنتی ہوئی۔

〉〉〉 ووٹنگ اور گنتی کا عمل عوامی آڈٹ کے قابل ہونا چاہیے۔

〉〉〉 عام شہری ووٹنگ کے عمل کے بنیادی مراحل کا جائزہ لینے کےقابل ہوں۔

〉〉〉 ووٹنگ کا عمل، ووٹوں کی گنتی اور نتائج کا تعین تفتیش اور تصدیق کے قابل ہونا چاہیے۔

〉〉〉 انتخابی عمل نہ صرف آزاد اور منصفانہ ہونا چاہیے بلکہ یہ آزاد اور منصفانہ نظر بھی آنا چاہیے۔

〉〉〉 ووٹنگ کے پورے عمل پر الیکشن کمیشن کا کنٹرول ہونا چاہیے۔

بیلٹ پیپرز اور ای وی ایم کے ذریعے ووٹنگ کے عمل کا آپس میں موازنہ کرکے انہیں بہتر انداز میں بیان کیا جاسکتا ہے۔ ایسا عام ووٹر کے نقطہ نظر کو سامنے رکھ کر کیا جا سکتا ہے، جو پانچ سالوں کے لیے اپنی خودمختاری منتخب نمائندوں کو حوالے کر نے کا  کام کرتے  ہیں۔

پیپر بیلٹ؛

〉〉〉 بیلٹ باکس کو الگ سے بنائے گئے کمپارٹمنٹ میں رکھا جاتا ہے۔

〉〉〉 ووٹر پولنگ بوتھ میں داخل ہوتا ہے اور تصدیق کے بعد اسے بیلٹ پیپر دیا جاتا ہے۔

〉〉〉 ووٹر چیک کرتے ہیں کہ بیلٹ پیپر پر ان کے امیدوار کا نام اور انتخابی نشان درج ہے یا نہیں!

〉〉〉 اس کے بعد ووٹر ووٹنگ کمپارٹمنٹ کے اندر جاتا ہے، جہاں بیلٹ باکس رکھا ہوتا ہے۔

〉〉〉 ووٹر اپنی پسند کے امیدوار/انتخابی نشان کے سامنے مہر لگاتا ہے اور بیلٹ پیپر کو بیلٹ باکس کے اندر ڈالتا ہے۔

〉〉〉 ووٹوں کی گنتی کا کام کاؤنٹنگ ٹیبل پر ریٹرننگ آفیسر اور امیدواروں کے ایجنٹوں کی موجودگی میں ہاتھوں سے بیلٹ پیپرز کو چھانٹ کر کیا جاتا ہے۔

〉〉〉 کاؤنٹنگ ٹیبل پر تمام امیدواروں کے لیے ایک ایک ٹرے ہوتا ہے، مشکوک ووٹوں کےلیے ایک ٹرے اور ‘مسترد’ ووٹوں کے لیے الگ ٹرے ہوتاہے۔

〉〉〉 تصدیق/آڈٹنگ کے عمل کے حصے کے طور پر ووٹوں کا بنڈل بنایا جاتا ہے (ہر ایک میں 25) اور پول کیے گئے ووٹوں اور گنے جانے والے ووٹوں کے درمیان ملان کیا جاتا ہے۔

〉〉〉 اس کے بعد ووٹوں کو متعلقہ ٹرے میں رکھا جاتا ہے اور ان کی گنتی کی جاتی ہے۔

〉〉〉 جب متعلقہ ٹرے میں ووٹ ڈالے جا رہے ہوں تو ایجنٹ ہر ووٹ پر نظر رکھتے ہیں۔ حتمی نتائج سے پہلے ‘مسترد’ ووٹوں کی ایک بار پھر تصدیق کی جاتی ہے اور ایجنٹوں کے ساتھ مشکوک ووٹوں کا جائزہ لیا جاتا ہے۔

〉〉〉 ضرورت پڑنے پر تمام تنازعات کو ریٹرننگ آفیسر کے سامنے حل کیا جاتا ہے۔

بیلٹ پیپر سسٹم کے تحت ووٹر بیلٹ پیپر کی درستگی، امیدوار کے نام کی جانچ کر سکتا ہے اور اس بات کو یقینی بنا سکتا ہے کہ یہ صحیح طریقے سے پرنٹ ہوا ہے یا نہیں۔

اس سے ووٹر کو یہ علم ہوتا ہے اور اطمینان حاصل ہوتا ہے کہ اس نے اپنا ووٹ اپنی پسند کے امیدوار کو ہی ڈالا ہے۔ الیکشن کے حوالے سے کسی تنازعہ کی صورت میں تصدیق کے لیے طبعی طور  پر  دوبارہ گنتی ممکن ہے۔ اس میں ووٹوں کی گنتی کا عمل صاف اور شفاف ہوتا ہے۔

الکٹرانک ووٹنگ سسٹم؛

〉〉〉 ای وی ایم کے دو حصے ہوتے ہیں – ایک ہوتا ہے بیلٹ یونٹ (بی یو)، جس میں ہر بٹن کے سامنے امیدواروں کے نام اور ان کے انتخابی نشان ہوتے ہیں۔ دوسرا ہوتا ہے کنٹرول یونٹ (سی یو ) جس میں میموری اور ڈسپلے پارٹس ہوتے ہیں۔

〉〉〉 ووٹر ویریفائی ایبل پیپر آڈٹ ٹریل (وی وی پی اے ٹی) کا تعلق بیلٹ یونٹ اور کنٹرول یونٹ سے ہوتا ہے۔ بیلٹ یونٹ، کنٹرول یونٹ اور وی وی پی اے ٹی آپس میں ایک موصل تار کے ذریعے جڑے ہوتے ہیں۔

〉〉〉 کنٹرول یونٹ پولنگ آفیسر کے پاس ہوتا ہے، جبکہ بیلٹ یونٹ اور وی وی پی اے ٹی ووٹنگ کمپارٹمنٹ کے اندر رکھا ہو تا ہے۔

〉〉〉 جب بھی ووٹر ووٹ ڈالنے اندر آتا ہے، پولنگ آفیسر بیلٹ یونٹ کا بٹن دباتا ہے۔ ہری بتی جلنے پر ہی ووٹر بیلٹ یونٹ میں امیدوار کے نام اور انتخابی نشان کے آگے بٹن دبا کر اپنا ووٹ ڈال سکتا ہے۔

〉〉〉 اسی وقت وی وی پی اے ٹی کے ونڈو پر امیدوار کا سیریل نمبر، نام اور انتخابی نشان ظاہر ہوتا ہے، جو تقریباً 7 سیکنڈ تک رہتا ہے۔

〉〉〉 سات سیکنڈ کے بعد کنٹرول یونٹ سے ایک تیز بیپ کی آواز آتی ہے، جو اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ ووٹ ڈال دیا گیا ہے۔

〉〉〉 گنتی کے دن کاؤنٹنگ آفیسر کنٹرول یونٹ پر گنتی کا بٹن دباتا ہے، جو تمام امیدواروں کو ملے ووٹ کو دکھاتا ہے۔

〉〉〉 حتمی نتائج کے اعلان سے پہلے وہاں تصدیق، آڈٹ اور تنازعات کے حل کی کوئی گنجائش نہیں ہوتی ۔

بیلٹ پیپرز کی شفافیت کے برعکس، ای وی ایم – وی وی پی اے ٹی سسٹم پوری طرح سےمبہم ہے۔ سب کچھ مشین کے اندر مبہم انداز میں رونما ہوتا ہے۔ وہاں کیا ہو رہا ہے اس کے بارے میں ووٹر کو کوئی جانکاری نہیں ہوتی۔ نہ ہی اس کے پاس اس بات کی تحقیق کرنے یا مطمئن ہونے کا کوئی موقع ہوتا ہے کہ اس کا ووٹ صحیح امیدوار کو ہی گیا ہے۔

ووٹر کے پاس بس ایک پرچی کو سات سیکنڈ تک نہارنے کے موقع کے علاوہ اور کچھ نہیں ہوتا ہے۔ ان کے پاس اس بات کی کوئی یقین دہانی نہیں ہوتی کہ اس پرچی کی  گنتی ہوگی یا وی وی پی اے ٹی اور ای وی ایم کے درمیان اس میں کوئی ردوبدل تو نہیں کیا گیا ہے۔

ای وی ایم سسٹم کے تحت ووٹر صرف ایک بٹن دباتے ہیں، بتی دیکھتے ہیں اور ایک بیپ کی آواز سنتے ہیں۔ ان کے پاس اس بات کی کوئی جانکاری نہیں ہوتی ہے کہ ان کا ووٹ واقعی میں درج ہوا ہے اور اگر ہوا ہے تو کس امیدوار کے نام پر درج  ہوا ہے۔ اسی طرح ووٹوں کی گنتی کے عمل کے دوران کسی طرح کی شفافیت نہیں ہے۔

ماہرین اور پیشہ ور افراد کا کہنا ہے کہ الیکشن کمیشن آف انڈیا کا یہ دعویٰ کہ ای وی ایم (بیلٹ یونٹ-وی وی پی اے ٹی-کنٹرول یونٹ) ایک مکمل طور پر خودکار یا خود مختار (اسٹینڈ الون) مشین ہے، جس میں بس ایک بار پروگرام کیا جانے والا چپ لگا ہوتا ہے، سچ نہیں ہے۔

وی وی پی اے ٹی کے آنے سے انتخابات کا اعلان ہونے اور امیدواروں کی حتمی فہرست طے ہونے کے بعد امیدواروں کے نام اور ان کے انتخابی نشانات کو ایک بیرونی ڈیوائس کی مدد سے ای وی ایم میں اپ لوڈ کرنا ہوگا۔

الیکشن کمیشن کے رہنما خطوط میں کہا گیا ہے کہ بھارت الکٹرانکس لمیٹڈ (بی ای ایل) اور الکٹرانکس کارپوریشن لمیٹڈ (ای سی آئی ایل) کے انجینئروں کو وی وی پی اے ٹی میں ان تفصیلات کو الکٹرانک طور پر اپ لوڈ کرنے کے لیے سمبل لوڈنگ یونٹ نامی ڈیوائس کا استعمال کرنا ہوتا ہے۔

اسی رہنما خطوط میں یہ بھی واضح کیا گیا ہے کہ ان آلات کو ای وی ایم/وی وی پی اے ٹی مشینوں کے ساتھ اسٹرانگ روم میں رکھنے کی ضرورت نہیں ہے اور انہیں الیکشن کے فوراً بعد انجینئروں  کو سونپ دینا ہوتا ہے – اس طرح سے یہ ریٹرنگ افسران  کی نگرانی سے باہر ہوتے ہیں۔

ایک ایسے بیرونی ڈیوائس، جو انتخابات کے اعلان ہونے، امیدواروں کی ترتیب طے کرنے، دوسرے رینڈمائزیشن اور بوتھ کی الاٹمنٹ کے بعد ریٹرننگ آفیسر یا ڈسٹرکٹ الیکشن آفیسر کی نگرانی میں نہیں ہیں، سے ای وی ایم/وی وی پی اے ٹی  کا تارسے (وائرڈ) کنکشن انتخابات کروانے کے الیکشن کمیشن کے طریقوں کو  بہت زیادہ مشکوک بنا دیتا ہے، اس نے ووٹنگ اور ووٹوں کی گنتی میں دھاندلی کا خطرہ پیدا کیا ہے۔

کنڈکٹ آف الیکشن رولز، 1961 کے ضابطہ 56 (ڈی ) (4) (بی) یہ اہتمام کیا گیا ہے کہ ای وی ایم میں دکھائے جانے والے ووٹوں کی گنتی پر وی وی پی اے ٹی کی گنتی کو تسلیم کیا جائے گا؛ ‘اگر کنٹرول یونٹ میں نظر آنے والے ووٹوں اور پیپر سلپس کی گنتی میں فرق ہے تو پیپر پرچیوں کی گنتی کے مطابق فارم 20 کی رزلٹ شیٹ میں تبدیلیاں کی جائیں گی۔’

قانون اور حقائق کی روسے، یہ اصول اس حقیقت کا ایک آئینی اعتراف ہے کہ آخر کار یہ وی وی پی اے ٹی ہی ہے، جو ووٹر کی مرضی کو درست طریقے سے درج کرتا ہے۔ اور کسی وجہ سے ای وی ایم کے نتائج میں فرق یا غلطی کو خارج از امکان قرار نہیں دیا جا سکتا۔

اس آئینی اعتراف کے باوجود وی وی پی اے ٹی پرچیوں کو انتخابی نتائج کے اعلان سے پہلے پوری طرح سے گنتی نہ کرنا واضح طور پرمن مانی اور آئین کے آرٹیکل 14 کی خلاف ورزی ہے۔

الکٹرانک سسٹم میں الیکشن کمیشن آف انڈیا کا کنٹرول ختم ہو گیا ہے۔

بیلٹ پیپر سسٹم کے تحت الیکشن کمیشن کا مکمل انتخابی عمل پر مکمل کنٹرول تھا۔ اس میں بیلٹ باکس کی تیاری، بیلٹ پیپرز کی چھپائی، اس کا ڈسپیچ اور ووٹوں کی گنتی جیسے تمام عمل شامل تھے۔ لیکن یہی بات ای وی ایم کے بارے میں نہیں کہی جا سکتی، جس کے کنٹرول یونٹ کے اندر، جس میں ووٹنگ کا ڈیٹا اسٹور کیا جا تا ہے، دو ای ای پرام (الکٹرکلی ایریز ایبل اور پروگرام ایبل میموری) ہوتے ہیں۔

ای وی ایم تیار کرنے والے بی ای ایل اور ای سی آئی ایل الیکشن کمیشن کی نگرانی میں نہیں ہیں۔ وہ اپنی متعلقہ وزارتوں کے کنٹرول میں ہیں اور ان کے  روزمرہ کا ایڈمنسٹریشن ایک بورڈ آف ڈائریکٹرز کے ذریعے کیا جاتا ہے، جس میں بھارتیہ جنتا پارٹی کے لوگ بھرے ہوئے ہیں۔

یہ ادارے خفیہ سافٹ ویئر پروگرام کو ای وی ایم میں استعمال کیے جانے والے مائیکرو کنٹرولرز میں کاپی کرنے کے لیے غیر ملکی چپ مینوفیکچررز کے ساتھ شیئر کرتے ہیں، جب یہ غیر ملکی کمپنیاں ای وی ایم مینوفیکچررز کو سافٹ ویئر کوڈ والے مائیکرو کنٹرولرز فراہم کرتی ہیں، تب نہ تو ای وی ایم مینوفیکچررز اور نہ ہی الیکشن کمیشن کے عہدیدار ہی  ان کے مواد کو پڑھ سکتے ہیں، کیونکہ یہ لاک (مقفل) کیے ہوتے ہیں۔

ایسے میں یہ واضح ہے کہ ای وی ایم کے ذریعے ووٹنگ جمہوریت کے لیے سب سے اہم سمجھے جانے والے کسی اصول کی تعمیل نہیں کرتی ہے۔ ایسے میں ہندوستان کے لیے بیلٹ پیپرز کے نظام کو دوبارہ اپنانا لازمی ہو جاتا ہے۔

اس نظام کے خلاف واحد  شکایت بوتھ لوٹنے اور بیلٹ باکس میں بیلٹ پیپرز بھرنے کے پرانے واقعات سے متعلق ہے۔ یہ اس وقت کی بات ہے جب نگرانی، سیکورٹی، نقل و حمل اور مواصلاتی نظام اتنے ترقی یافتہ نہیں تھے جتنے آج ہیں۔ لیکن آج ہم اس وقت سے آگے نکل چکے ہیں۔

آج، سینئر انتخابی اہلکار، الیکشن آبزرور، پولیس اور فلائنگ اسکواڈ سی سی ٹی وی کیمروں کی مدد سے بوتھ کی سرگرمیوں کو براہ راست دیکھ سکتے ہیں اور کسی بھی گڑبڑی  کی صورت میں فوری مداخلت کر سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ حساس بوتھوں کی حفاظت کے لیے مسلح افواج تعینات ہوتے  ہیں، جس کے پاس بوتھ کو لوٹنے کی کسی بھی کوشش یا بیلٹ باکس میں بیلٹ پیپرز بھرنے کی صورت میں گولی چلانے کے احکامات ہوتے ہیں۔

الیکشن کمیشن کے پاس بیلٹ پیپرز کے ذریعے انتخابات کرانے کا مطالبہ تسلیم نہ کرنے کی کوئی وجہ نہیں ہے۔ انتخابی قانون میں کسی بھی ترمیم کو چند منٹوں میں بل کے ذریعے نوٹیفائی کیا جا سکتا ہے۔

بیلٹ باکس اور دیگر سامان کی خریداری دو سے تین ہفتوں میں کی جا سکتی ہے، کیونکہ یہ اب بھی پنچایت اور بلدیاتی انتخابات میں استعمال ہو رہے ہیں۔

تربیت یافتہ افسران کی دستیابی کے حوالے سے بھی کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ جہاں تک بیلٹ پیپرز کا تعلق ہے، وہ امیدواروں کے نام فائنل ہونے کے بعد ہی چھاپے جائیں گے۔ الیکشن کمیشن کو بس یہ کرنا ہے کہ وہ پرنٹنگ پریس کے ناموں کی فہرست بنائے اور سکیورٹی چیک کرنے کے بعد ان کے ناموں کی منظوری دے کر رکھے۔

اس لیے الیکشن کمیشن کو ای وی ایم کے ‘مارکیٹنگ ایجنٹ’ کے طور پر کام کرنے کے بجائے عوام کے مطالبات کو تسلیم کرنا چاہیے اور جمہوریت کو بچانے کے لیے بیلٹ پیپر کے نظام کو دوبارہ اپنانا چاہیے۔

(ایم جی دیوسہایم ایک سابق فوجی اور انڈین ایڈمنسٹریٹو سروس کے افسر ہیں۔ وہ سٹیزنز کمیشن آن الیکشن کے کنوینر ہیں اور الیکٹورل ڈیموکریسی – این انکوائری ان ٹو دی فیئر نین اینڈ انٹیگریٹی آف الیکشن ان انڈیا نامی کتاب کے مدیر ہیں۔)

انگریزی میں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں۔