خبریں

گجرات فسادات کے 22 سال: ریپ متاثرہ آج بھی مردوں سے ڈرتی ہے، ایک کر رہی ہے شوہر کی واپسی کا انتظار

سال 2002 کے گجرات فسادات کے دوران اپنی جان بچانے میں کامیاب رہے بعض متاثرین سے دی وائر نے بات کی تو معلوم ہوا کہ آج بھی ان کے زخم مندمل نہیں ہوئے ہیں۔ وہ فسادات کے بعد بنی مسلم بستیوں میں غیر انسانی حالات میں رہنے کو مجبور ہیں۔

سال 2002 کے گجرات فسادات کے بعد تعمیر کی گئی مسلم بستی سٹیزن نگر کی ایک تصویر، جہاں پیٹ اور پھیپھڑوں کے کینسر سے کئی لوگوں کی موت ہو چکی ہے۔ (تصویر: تاروشی اسوانی)

سال 2002 کے گجرات فسادات کے بعد تعمیر کی گئی مسلم بستی سٹیزن نگر کی ایک تصویر، جہاں پیٹ اور پھیپھڑوں کے کینسر سے کئی لوگوں کی موت ہو چکی ہے۔ (تصویر: تاروشی اسوانی)

گودھرا (گجرات): 2002 کے گجرات فسادات میں زندہ بچ جانے والی زبیدہ بی بی کہتی ہیں، ‘ہم نے 22 جنوری (2024) کو اپنے گھر نہیں چھوڑے، اور ہم محسوس کر سکتے تھے کہ حالات بد سے بدتر ہوتے جائیں گے۔’

قابل ذکر ہے کہ 27 فروری 2002 کو ایودھیا سے لوٹ رہے ہندو تیرتھ یاتریوں کی ایک ٹرین گجرات کی راجدھانی گاندھی نگر سے تقریباً 150 کلومیٹر دور ریاست کے پنچ محل ضلع کے ایک چھوٹے سے شہر گودھرا میں رکی۔ بتایا جاتا ہے کہ اسٹیشن پر کام کرنے والے مسلم وینڈروں اور سابرمتی ایکسپریس کے اندر بیٹھے مسافروں کے درمیان مبینہ جھگڑے کے بعد ٹرین کے ایک ڈبے میں آگ لگ گئی، جس کے نتیجے میں 59 افراد ہلاک ہوگئے۔

واقعے کے دو دہائیوں بعد بھی آگ لگنے سے پہلے کیا ہوا تھا اس کی تفصیلات ابھی تک واضح نہیں ہیں۔

اس وقت کی نریندر مودی کی قیادت والی ریاستی حکومت کے مطابق، مرنے والوں میں زیادہ تر کار سیوک تھے جو رام مندر کی تعمیر کی مہم چلانے کے لیے ایودھیا گئے تھے۔

نتیجے کے طور پر 28 فروری کو ایک ہندو ہجوم نے مسلمانوں کو تیرتھ یاتریوں کی موت کا ذمہ دار ٹھہرایا، جس کے نتیجے میں تشدد شروع ہوا۔ریپ، لوٹ مار اور قتل کی وارداتیں ہوئیں، جن کا سب سے بڑا نشانہ مسلم کمیونٹی تھی۔ یہ تشدد دو ماہ سے زیادہ عرصے تک جاری رہا۔

‘ہمارے لیے کوئی امن و سکون نہیں’

زبیدہ بی بی 22 سال سے اپنے شوہر کی واپسی کا انتظار کر رہی ہیں۔ انہوں نے نہ تو انہیں دیکھا ہے اور نہ ہی ان کی لاش ملی ہے۔ قتل عام میں انہوں نے اپنے 45 رشتہ داروں کو کھو دیا تھا۔ ان کے رشتہ داروں کو قتل کیا گیا تھا، انہیں معذور بنا دیا گیا تھا، ان کے ساتھ ریپ کیا گیا تھا۔ اپنے خاندان کو کھونے کے درد کے علاوہ ان کے شوہر محمد بھائی اسماعیل بھائی اور ان کا سب سے بڑا بیٹا یعقوب لاپتہ ہو گئے۔ وہ کہتی ہیں، ‘میں اب بھی اللہ سے اپنے شوہر اور بیٹے کی واپسی کی دعا کرتی ہوں۔’

سال 2002 کے قتل عام میں سرکاری طور پر مرنے والوں کی تعداد 952 بتائی گئی تھی، جن میں سات سال بعد 2009 میں ان  228 افراد کو بھی شامل کر لیا گیا جو لاپتہ  تھے۔

جب حکومت نے متاثرہ لوگوں کو مطلع کیا کہ ان کے خاندان کے افراد کبھی واپس نہیں آئیں گے، تو متاثرین کے خاندانوں کے لیے ایک اور جدوجہد شروع ہو گئی – ان لوگوں کے ڈیتھ سرٹیفکیٹ حاصل کرنے کے لیے جن کو مردہ مان لیا گیا۔

زبیدبی بی اور ان جیسے لوگ جن سے دی وائر نے گودھرا میں ملاقات کی، انہوں نے کہا کہ انہیں 2019 اور 2017 میں ہی ڈیتھ سرٹیفکیٹ ملے۔

اپنے شوہر اور بیٹے کو کھونے کے بعد دوسری شادی نہ کرنے والی زبیدہ بی بی کہتی ہیں، ‘موت میں بھی نہ انہیں سکون ملا اور نہ ہی ہمیں۔’

اب، 22 جنوری 2024 کو ایودھیا میں رام مندر کی پران —پرتشٹھا کی تقریب کے بعد زبیدہ بی بی اور پورے گجرات کے کئی مسلمانوں نے خود کو گھروں کے اندر محدود کر لیا ہے، کیونکہ اس واقعے نے پرانے زخموں کو پھر سے تازہ کر دیا ہے۔

‘ہمارے خاندانوں کو قتل کرنے والے آزاد گھوم رہے ہیں’

سلطانہ فیروز شیخ کو بھی 28 فروری 2002 کو زیادتی کا نشانہ بنایا گیا تھا۔ آج بھی وہ مردوں سے دوری بنائے رکھتی ہیں اور تنہا رہنے کو ترجیح دیتی ہیں اور قرآن کی تلاوت کرتی رہتی ہیں۔ اس دن، جب گجرات مسلمانوں کے خلاف نفرت کی آگ میں جل رہا تھا، شیخ نے سینکڑوں ہندوؤں کے ایک مشتعل ہجوم کے شور کو اپنے گاؤں ڈیلول کی مسلم بستیوں کی جانب بڑھتے ہوئے سنا۔ انہوں نے دی وائر کو بتایا، ‘وہ تلواریں اٹھائے ہوئے تھے اور دھمکی دے رہے تھے کہ وہ ہم سب مسلمانوں کو جلا دیں گے۔’

گاؤں تک پہنچنے والے جنونی ہجوم سے اپنے آپ کو بچانے کے لیے وہ دوسرے مسلمانوں کے ساتھ قریبی کھیتوں میں بھاگ گئے اور اگلی صبح مسلم گروپ حفاظت کے لیے قریبی شہر کلول میں دودھ کی ایک وین میں چھپ گیا۔ لیکن بدقسمتی سے جنونی ہجوم نے وین کو ڈھونڈ لیا اور ایک ایک کر کے تمام مردوں کو آگ میں جھونک دیا۔

شیخ نے اپنے شوہر اور کئی رشتہ داروں کو زندہ جلتے ہوئے دیکھا۔ شیخ اپنے بیٹے کے ساتھ وین سے کود گئیں اورقریبی ندی کی طرف بھاگنے لگیں۔ گلے میں بھگوا گمچھا ڈالے، تلوار لہراتے آٹھ لوگوں نے ان کا پیچھا کیا۔ وہ پکڑی گئیں، انہیں بالوں سے گھسیٹ کر قریبی کھیت میں لے جایا گیا اور ان کے روتے ہوئے چار سالہ بیٹے کے سامنے ہی ان کے ساتھ ریپ کیا گیا اور مار پیٹ کی گئی۔

وہ اپنی آپ بیتی کو یاد کر کے رونے لگتی ہیں اور کہتی ہیں، ‘مجھے اب انصاف کی امید نہیں ہے، مجھے چاہیے بھی نہیں۔ یہ میرے کھوئے ہوئے شوہر کو واپس نہیں لا سکتا۔’

احمد آباد کے سٹیزن نگر میں رہنے والے نرودا پاٹیہ قتل عام کے ایک گواہ معروف پٹھان یاد کرتے ہیں کہ ان کی آنکھوں کے سامنے حاملہ خواتین کو قتل کیا گیا تھا۔ ہندو ہجوم نے ان کے رشتہ داروں اور پڑوسیوں پر مٹی کا تیل ڈال کر زندہ جلا دیا تھا۔ پٹھان نے ان جرائم میں گڈو چارا، بھوانی سنگھ، مایا کوڈنانی اور بابو بجرنگی کے ملوث ہونے کی نشاندہی کرتے ہوئے عدالت میں گواہی بھی دی تھی۔

پٹھان کہتے ہیں، ‘ریپ کی کئی وارداتیں اور قتل کے واقعات کبھی رپورٹ ہی نہیں ہوئے۔ جن لوگوں نے ہمارے خاندانوں کو قتل کیا وہ آزاد گھوم رہے ہیں اور ہم اس کے بارے میں کچھ نہیں کر سکتے۔’

’مسلمان الگ تھلگ زندگی گزار رہے ہیں‘

سٹیزن نگر کی سید نور بانو کہتی ہیں، ‘سٹیزن نگر علاقے کے رہائشی باقاعدگی سے بیمار پڑتے ہیں۔ پچھلے کچھ سالوں میں، بہت سے لوگوں کو پیٹ اور پھیپھڑوں کا کینسر ہوا ہے۔ بدقسمتی سے یہاں بیماری کی وجہ سے موت بہت عام ہو گئی ہے۔’

بانو اور ان جیسے بہت سے مسلمان فسادات کے بعد بے گھر ہو گئے تھے۔ 2002 کے فسادات سے بے گھر ہونے والے کم از کم 50 مسلم خاندان گزشتہ 22 سالوں سے یہاں رہ رہے ہیں۔ یہ علاقہ، جسے بامبے ہوٹل ایریا بھی کہا جاتا ہے، کیرالہ مسلم لیگ ریلیف کمیٹی نے عطیہ کیا تھا اور اسے ایک عارضی ریلیف کیمپ کے طور پر قائم کیا گیا تھا، لیکن اب یہ بے گھر مسلم خاندانوں کے لیے ایک مستقل کچی بستی بن چکا ہے۔ مکین کچرے کے 100 فٹ پہاڑ کے سائے میں رہتے ہیں، کچی آبادی میں بہتے گٹر کے پاس بیٹھتے ہیں۔ پاس کی کیمیکل فیکٹری سے نکلنے والا دھواں سانس کے ساتھ انہیں بیمار کر دیتا ہے۔

بانو (48) یاد کرتی ہیں کہ کس طرح رام مندر کی پران—پرتشٹھا کی تقریب کے موقع پر گجرات میں مندروں، سڑکوں اور ہندوؤں کے گھروں کو روشنی اور بھگوا جھنڈوں سے سجایا گیا تھا۔ اس دوران مسلمانوں کے گھروں کو اندر سے سختی سے بند کر دیا گیا۔

انہوں نے دی وائر کو بتایا، ‘ہم یہاں ان خراب حالات میں رہتے ہیں اور اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ہم کہیں اور جانے کے متحمل نہیں ہو سکتے… حکومت کی جانب سے بھی ہمیں بہتر جگہوں پر پناہ دینے کی کوئی کوشش نہیں کی گئی ہے۔’

فسادات میں بچ جانے والی ایک اورخاتون خیرن پٹھان ضحیٰ پورہ میں رہتی ہیں۔ یہ مسلمانوں کی سب سے بڑی بستیوں میں سے ایک ہے جو 2002 کے بعد گجرات میں قتل کیے جانے کے خوف سے بنی تھی۔ اپنی جوانی میں، پٹھان چاند کھیڑا، احمد آباد میں رہتی تھیں۔ وہ کہتی ہیں کہ فسادات کے بعد ہم اس علاقے میں جانے سے بھی ڈرتے ہیں۔ انہوں نے کہا، ‘آج میں کینیڈا میں گھر خریدنے کا خواب دیکھ سکتی ہوں، لیکن چاند کھیڑا میں نہیں، جو یہاں سے 20 کلومیٹر دور ہے۔ یہ خوف کی انتہا ہے۔’

گجرات فسادات کے 22 سال گزرنے کے بعد بھی سینکڑوں مسلمان اب بھی اپنی ہی سرزمین میں داخلی طور پر بے گھر ہیں۔ سینٹر فار سوشل جسٹس کی ایک رپورٹ کے مطابق ریاست میں اب بھی 16087 لوگ بے گھر ہیں ۔

(انگریزی میں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں ۔ )