فکر و نظر

کیوں الیکشن کمیشن کا کردار سوالوں کی زد میں ہے؟

بغیر کوئی وجہ بتائے الیکشن کمشنر ارون گوئل کا استعفیٰ اس بات کی تازہ ترین مثال ہے کہ گزشتہ پانچ سالوں میں الیکشن کمیشن کی آزادی کس طرح شک کے دائرے میں آگئی ہے۔

(السٹریشن: دی وائر)

(السٹریشن: دی وائر)

نئی دہلی: لوک سبھا انتخابات سے چند ہفتے قبل بغیر کوئی وجہ بتائے الیکشن کمشنر ارون گوئل کے استعفیٰ نے الیکشن کمیشن آف انڈیا کی شفافیت اور کام کاج کے طریقے پر ایک بار پھر سوال کھڑے کر دیے ہیں۔

گوئل کے استعفیٰ کے ساتھ ہی تین رکنی الیکشن کمیشن میں صرف ایک رکن – چیف الیکشن کمشنر راجیو کمار – رہ گئے ہیں۔ اس سے پہلے فروری میں الیکشن کمشنر انوپ پانڈے ریٹائر ہو گئے تھے، لیکن ان کی جگہ ابھی تک پُرنہیں کی گئی ہے۔ خبروں کے مطابق وزیر اعظم نریندر مودی اس ہفتے کے آخر میں دونوں الیکشن کمشنروں کی تقرری کے لیے ایک میٹنگ کی صدارت کریں گے۔

یہ انتخابی ادارہ ایک خود مختار اکائی ہے جو ہندوستانی جمہوریت کے لیے بہت ضروری ہے کیونکہ اسے ملک میں لوک سبھا، راجیہ سبھا اور ریاستی اسمبلیوں اور صدر اور نائب صدر کے دفاتر کے انتخابات کرانے کا کام سونپا گیا ہے۔

ساتھ ہی، یہ اس بات کو بھی یقینی بناتا ہے کہ سیاسی جماعتیں ووٹ کی اپیل کرتے ہوئے ماڈل ضابطہ اخلاق کی پابندی کریں جو مذہب، ہیٹ اسپیچ، ذات پات یا فرقہ وارانہ جذبات، بدعنوان طریقوں کے استعمال سے منع کرتی ہے اور انتخابی مقصد کے لیے سرکاری مشینری کااستعمال کرنے سے حکمران جماعت (مرکز اور ریاستوں میں) کو روکتی ہے۔

اس مہینے کے شروع میں، وی —ڈیم کی رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ ہندوستان 2018 میں انتخابی آمریت (الیکٹورل آٹو کریسی) کے زمرے میں آگیا اور 2023 کے آخر تک اس زمرے میں بنا  رہا۔ اس سے زیادہ تشویشناک بات یہ ہے کہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ہندوستان ان 18 ممالک میں شامل ہے، جہاں انتخابات کی آزادی اور غیر جانبداری  کے انڈیکس کافی حد تک نیچے چلے گئے ہیں۔

یہ پانچ وجوہات ہیں جن کی وجہ سے الیکشن کمیشن کی آزادی، شفافیت اور کام کاج گزشتہ پانچ سالوں میں جانچ کے دائرے میں آ گئی  ہے۔

الیکٹورل بانڈ

سپریم کورٹ کی جانب سے گزشتہ ماہ الیکٹورل اسکیم کو ‘غیر آئینی’ قرار دینے کے بعد الیکشن کمیشن کا کردار سوالوں کی زد میں ہے۔ سوموار کو عدالت عظمیٰ نے الیکٹورل بانڈسے متعلق تفصیلات فراہم کرنے حوالے سے عدالت کی سابقہ ہدایت کی تعمیل کرنے کے لیے وقت میں توسیع کی مانگ والی اسٹیٹ بینک آف انڈیا (ایس بی آئی) کی عرضی کو خارج کر دیا ۔

عدالت نے الیکشن کمیشن سے ‘جانکاری مرتب کرنے اور اسے 15 مارچ 2024 کو شام 5 بجے سے پہلے اپنی ویب سائٹ پر شائع کرنے کے لیے بھی کہا۔’

پچھلے مہینے سپریم کورٹ کے حکم کے بعد ابتدائی طور پر تبصرہ کرنے سے انکار کرنے کے بعد چیف الیکشن کمشنر راجیو کمار نے کہا تھا کہ کمیشن عدالت کی ہدایات پر عمل کرے گا ۔ تاہم الیکٹورل بانڈ پر الیکشن کمیشن کے بدلتے ہوئے موقف نے خدشات کو بڑھا دیا ہے۔

سال 2018 میں اس اسکیم کے آغاز سے پہلے الیکشن کمیشن نے وزارت قانون کو الیکٹورل بانڈکے خلاف وارننگ دیتے ہوئے خط لکھا تھا کہ اس سے سیاسی جماعتوں کو غیر ملکی ذرائع سے غیر قانونی عطیات چھپانے میں مدد ملے گی اور یہاں تک کہ ‘شیل کمپنیوں’ کے ذریعے سیاسی فنڈنگ کے لیے کالے دھن کے استعمال میں اضافہ ہو سکتا ہے۔’

الیکشن کمیشن نے 2021 میں اچانک اپنا موقف تبدیل کر لیا اور مغربی بنگال، کیرالہ، تمل ناڈو، آسام اور پڈوچیری میں اس سال ہونے والے اسمبلی انتخابات کے لیے یکم اپریل 2021 سے الیکٹورل بانڈ کے نئے سیٹ جاری کرنے پر روک لگانےکے لیے سپریم کورٹ میں دائر عرضی کی مخالفت کی۔

بتادیں کہ 2017-2018 اور 2022-2023 کے درمیان فروخت کیے گئے 12008 کروڑ کے کل الیکٹورل بانڈ میں سے بی جے پی کو تقریباً 55فیصد یا 6564 کروڑ روپے ملے ہیں۔

ای وی ایم اور وی وی پی اے ٹی

الیکشن کمیشن کا ووٹر ویریفائی ایبل پیپر آڈٹ ٹریل (وی وی پی اے ٹی) ملان اور الکٹرانک ووٹنگ مشین (ای وی ایم) کا استعمال اس وقت سے ہی سوالوں کی زد میں ہے، جب سے اس نے 2019 کے لوک سبھا انتخابات کے دوران پہلی بار اس کا ملک گیر استعمال شروع کیا ہے۔

سال 2019 کے لوک سبھا انتخابات کے بعد تمام ای وی ایم کو وی وی پی اے ٹی سے جوڑ دیا گیا ہے۔ وی وی پی اے ٹی ایک ووٹر کو سات سیکنڈ کے لیے ایک پرنٹ شدہ پرچی دکھاتا ہے، جس میں اس امیدوار کا نام اور انتخابی نشان ظاہر ہوتا ہے جسے اس نے ووٹ دیا تھا۔ اس کے بعد یہ پرچی سیل بند ڈراپ باکس میں گر جاتی ہے۔ سپریم کورٹ کے رہنما خطوط کے مطابق، الیکشن کمیشن ہر اسمبلی حلقہ میں پانچ رینڈم طریقے سے منتخب پولنگ بوتھ کی وی وی پی اے ٹی پرچیوں  کی تصدیق کرتا ہے۔

جولائی 2019 میں ایک پارلیامانی کمیٹی نے کہا تھا کہ مرکزی حکومت نے پارلیامنٹ سے وعدہ کیا تھا کہ وہ 2019 کے انتخابات کے دوران ای وی ایم اور وی وی پی اے ٹی کے درمیان ممکنہ تضادات کے بارے میں الیکشن کمیشن سے معلومات حاصل کرے گی، لیکن پچھلے چار سالوں سے اس نے ابھی تک ایسا نہیں کیا ہے۔

اپریل 2023 میں الیکشن واچ ڈاگ ایسوسی ایشن فار ڈیموکریٹک ریفارمز (اے ڈی آر) نے بھی 2023 کے اسمبلی انتخابات میں تمام وی وی پی اے ٹی کی گنتی کا مطالبہ کرتے ہوئے سپریم کورٹ میں ایک عرضی دائر کی تھی۔

ستمبر 2023 میں الیکشن کمیشن نے ایک حلف نامے میں عدالت کو بتایا تھا کہ ای وی ایم کی 100 فیصد تصدیق ایک ‘ رجعت پسندانہ ‘ قدم ہے اور اس کا مطلب کاغذی بیلٹ (بیلٹ پیپر) پر واپس جانا ہے۔ اس نے یہ بھی کہا کہ وی وی پی اے ٹی کے ذریعے اس بات کی تصدیق کرنے کا وٹروں کو کوئی ‘بنیادی حق’ نہیں ہے کہ ان کے ووٹ ‘کاسٹ کیے گئے ووٹوں کے طور پر درج کیے گئے’ اور ‘ریکارڈ کیے گئے ووٹ کے طور پر گنے گئے’۔

اپوزیشن جماعتوں نے بھی ای وی ایم کے استعمال پر سوال اٹھائے ہیں اور الیکشن کمیشن سے مداخلت کی اپیل کی ہے ۔

ارون گوئل کی تقرری

گوئل کے استعفیٰ نے سنگین سوالات کو جنم دیا ہے، لیکن ان کی تقرری بھی تنازعات سے خالی نہیں تھی۔ نومبر 2022 میں سپریم کورٹ نے اس ‘جلد بازی’ پر سوال اٹھایا تھا جس کے ساتھ گوئل کو الیکشن کمشنر مقرر کیا گیا تھا۔

پنجاب کیڈر کے آئی اے ایس افسر گوئل کو انڈین ایڈمنسٹریٹو سروس سے استعفیٰ دینے کے ٹھیک ایک دن بعد  19 نومبر 2022 کو الیکشن کمشنر مقرر کیا گیا تھا۔

عدالت عظمیٰ نے کہا کہ 1985 بیچ کے آئی اے ایس افسر کو صرف ایک دن میں سروس (وی آر ایس) سے رضاکارانہ ریٹائرمنٹ مل گئی، ان کی فائل کو مرکزی وزارت قانون نے راتوں رات منظوری دے دی، چار ناموں کا ایک پینل وزیر اعظم کے سامنے رکھا گیا اور 24 گھنٹوں کے اندر گوئل کے نام کوصدر سے منظوری مل گئی۔

تاہم، اگست 2023 میں سپریم کورٹ نے ان کی تقرری کو چیلنج کرنے والی پی آئل ایل کو مسترد کر دیا۔ فروری 2025 میں موجودہ سی ای سی راجیو کمار کے عہدہ چھوڑنے کے بعد گوئل اگلے سی ای سی بننے کی قطار میں تھے۔

چیف الیکشن کمشنر اور الیکشن کمشنرز کی تقرری کے لیے نیا قانون

گوئل اور پانڈے کے جانے کے بعد جو نئے الیکشن کمشنر مقرر کیے جائیں گے وہ 2023 کے سرمائی اجلاس کے دوران پارلیامنٹ کے منظور کردہ نئے قانون کے تحت پہلے ہوں گے۔

دسمبر میں، پارلیامنٹ نے اپوزیشن کی غیر موجودگی میں متنازعہ چیف الیکشن کمشنر اور دیگر الیکشن کمشنرز (تقرری، سروس کی شرائط اور عہدے کی مدت) بل 2023 منظور کیا جو چیف الیکشن کمشنر (سی ای سی) اور الیکشن کمشنرز (ای سی ) کی تقرری، تنخواہ اور اور ان کی برطرفی کا اہتمام کرتا ہے۔

نئے قانون کی شرائط کے تحت، حکومت کی بالادستی والی سلیکشن کمیٹی مرکزی کابینہ سکریٹری کی سربراہی میں سرچ کمیٹی کے ذریعے منتخب امیدواروں سے کمیشن میں خالی آسامیوں کو پُر کرے گی۔

بل کے مطابق،الیکشن کمشنروں کی تقرری صدر کے ذریعے وزیر اعظم، لوک سبھا میں اپوزیشن لیڈر اور چیف جسٹس آف انڈیا (سی جے آئی ) والی کمیٹی کے مشورے پر کی جانی چاہیے۔

نئے قانون میں کہا گیا ہے کہ سی ای سی اور ای سی (ای سی کی تعداد کا تعین صدر وقتاً فوقتاً کریں گے) کی تقرری  صدر سلیکشن کمیٹی کی سفارشات کی بنیاد پر کریں گے۔

کمیٹی میں وزیر اعظم، ایک کابینہ وزیر اور لوک سبھا میں اپوزیشن لیڈر (یا سب سے بڑی اپوزیشن پارٹی کے لیڈر) شامل ہوں گے۔

اس قانون نے الیکشن کمیشن پر حکومت کے کنٹرول کے حوالے سے سوال اٹھائے ہیں ۔

اشوک لواسا کا اختلاف

اگست 2020 میں الیکشن کمشنر اشوک لواسا نے اپریل 2021 میں چیف الیکشن کمشنر بننے سے چند ماہ قبل استعفیٰ دے دیا تھا ۔

ان کا استعفیٰ ایسے وقت میں آیا  تھا جب ایک سال قبل انہوں نے یہ فیصلہ دیا تھا کہ مودی نے 2019 کے عام انتخابات کی مہم کے دوران ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی کی تھی۔ یہ فیصلہ سنانے والے الیکشن کمیشن کے اس وقت کے تین الیکشن کمشنروں میں سے وہ واحد تھے۔

ان کا یہ مطالبہ کہ ماڈل ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی پر کمیشن کے احکامات میں اختلافی نوٹ درج کیے جائیں، اکثریت نے مسترد کر دیا۔

دی وائر نے اپنی رپورٹ میں بتایا تھاکہ لواسا کے اختلاف کے چند ہفتوں بعد ہی  ان کے نجی موبائل نمبر پیگاسس اسپائی ویئر کے ممکنہ اہداف کے لیک ڈیٹا بیس پر پائے گئے نمبروں کی فہرست میں رکھا گیا تھا ۔

سال 2019 میں ہی لواسا کی بیوی، بیٹے اور بہن مختلف تحقیقاتی ایجنسیوں کی زد میں آئے تھے۔ اپنے استعفیٰ سے چند ماہ قبل دسمبر 2019 میں انڈین ایکسپریس میں لکھتے ہوئے لواسا نے کہا تھا کہ ‘ایمانداری کی ایک قیمت ہوتی ہے’۔

(انگریزی میں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں ۔ )