فکر و نظر

الیکٹورل بانڈ کی حقیقی قیمت کون ادا کر رہا ہے؟

الیکٹورل بانڈ کے توسط سے سیاسی پارٹیوں کو چندہ دینے والوں میں سڑک، کان کنی اور انفراسٹرکچر سے متعلق بڑی کمپنیوں کا شامل ہونا ظاہر کرتا ہے کہ بھلے چندے کی رقم سیاسی جماعتوں کو مل رہی ہو، لیکن ان کی حقیقی قیمت عام آدی واسی اور محنت کش طبقے کو ادا کرنی پڑ رہی ہے، جن  کے وسائل کو سیاسی طبقے نے چندے کے عوض ان کمپنیوں کے ہاتھوں میں دے دیا ہے۔

(علامتی تصویر: منوج سنگھ/دی وائر)

(علامتی تصویر: منوج سنگھ/دی وائر)

سپریم کورٹ کی سرزنش اور سخت ہدایات کے بعد بالآخر اسٹیٹ بینک اور الیکشن کمیشن نے ڈیٹا پبلک کر دیا ہے، جس سے انکشاف ہوا کہ کن کمپنیوں اور افراد نے الیکٹورل بانڈ خریدے تھے اور کروڑوں روپے کی ادائیگی کی تھی۔ اس مضمون میں ان اعداد و شمار کی روشنی میں تجزیہ کیا گیا ہے کہ سیاسی سودے بازی اور چندے کی آڑ میں حقیقی یا اصل قیمت ان کمپنیوں کو نہیں بلکہ کسی اور کو ادا کرنی پڑتی ہے۔

ان اعداد و شمار کے تجزیے میں ایک واضح پیٹرن ابھرتا ہے کہ بنیادی طور پر کان کنی، سڑک اور دیگر پبلک ورکس کمپنیاں اور بنیادی ڈھانچے کی تعمیر اس چندہ  گیری میں ملوث ہیں۔ اس ملی بھگت میں یعنی سیاسی حکمراں طبقے اور ان کمپنیوں کا جو گٹھ جوڑ اجاگر ہوا ہے اس کا اصل مطلب یہ ہے کہ عوامی وسائل کے تحفظ کی جدوجہد میں محافظ اور چوروں کے اتحاد کی وجہ سے ‘جل، جنگل اور زمین’ کی تحریک  اور زیادہ غیر مساوی ہو جاتی ہے۔

دوسرے لفظوں میں، سیاسی چندے کی شکل میں دی گئی رقم بظاہر ان کمپنیوں کے ذریعے سیاسی پارٹیوں کو ادا کی گئی ہے لیکن اس کی اصل قیمت ان غریب عوام الناس، آدی واسی اور محنت کشوں کو ادا کرنا پڑ رہی ہیں ،  جو صدیوں سے ان جنگلوں اور زمینوں اور دوسرے وسائل پر انحصارکرتے آ رہے ہیں اور جن سے ان کا گہرا ناطہ ہے، لیکن عطیات کی شکل میں اس رشوت کے عوض سیاسی طبقے نے ان وسائل کا سودا  ان کمپنیوں کے ہاتھوں کر لیا۔ کبھی یہ پالیسیوں میں نرمی کی صورت میں نظر آئے گا، کبھی ماحولیاتی کلیئرنس میں رعایت اور بلاوجہ عجلت میں۔

الیکٹورل بانڈ کے اس مسئلے یعنی  سیاسی بدعنوانی کو قانونی جامہ  پہنانے کی کوشش کے طور پر دیکھنا ایک اہم نقطہ نظر ہے، لیکن یہ کافی نہیں ہے اس کے کئی اور پہلو ہیں جن کو مزید گہرائی کے ساتھ سمجھنا چاہیے۔ اعداد و شمار کا تفصیلی تجزیہ ہونا ابھی باقی ہے اور الیکشن کمیشن کو  بھی بانڈ کی خریداری اور سیاسی جماعتوں خصوصاً حکمراں جماعت کو اس سے حاصل ہونے والے فائدے کے اعداد و شمار کو ابھی  واضح طور پر سامنے آنا ہے، اس کے باوجود متعدد سنسنی خیز انکشافات تو ہو ہی رہے ہیں- مثلاً آن لائن گیمنگ کمپنی کا سب سے بڑا عطیہ دہندہ ہونا، کووڈ ویکسین کمپنی کا بڑا عطیہ دہندہ ہونا، وغیرہ براہ راست اس تعلق کو ظاہر کرتے ہیں – ان کا تجزیہ ہونا ہی چاہیے۔

لیکن اس کے ساتھ ہم کچھ خاص پیٹرن کا بھی مشاہدہ کررہے ہیں جن پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ اگر ہم ادائیگی کرنے والی اکائیوں کے اہم شعبوں پر نظر ڈالیں تو صاف نظر آتا ہے کہ کان کنی، کنسٹرکشن، انفراسٹرکچر، انٹرنیٹ بیسڈ انفراسٹرکچر کے شعبوں میں کام کرنے والی کمپنیاں ان مشتبہ جبراً وصولی میں ملوث ہیں جنہیں نامعلوم وجوہات کی بنا پر ‘عطیہ’ کہا جا رہا ہے۔ یعنی، اکثر معاملوں میں، جو ادائیگی کی جا رہی ہے وہ ان کمپنیوں نے یا تو ان پرائمری کامن پراپرٹی ریسورسز (سی پی آر ایس) کو حاصل کرکے کمائی  ہے یا ادائیگی کے عوض میں مستقبل میں کمانے والی ہیں۔ لہٰذا اسے صرف کاروباری اداروں کی ادائیگی مان کر معمولی واقعہ  ثابت کرنے کے بجائے اس طرح  دیکھنا چاہیے کہ بھلے ہی ادائیگی کوئی کر رہا ہو، اصل قیمت ان مشترکہ وسائل کی لوٹ مار سے حاصل ہو رہی ہے۔

اس طرح کی  اصل ادائیگی کئی گنا اور وہ سب مشترکہ طور پر برداشت کرنی پڑ رہی ہے، خصوصی طور پر اس طبقے کو جو روایتی طور پر ان مشترکہ وسائل پر انحصار کرتے رہے ہیں – آدی واسی، محنت کش اور اس ملک کے غریب شہری۔

جب ہم ایک سسٹم کے طور پر سیاسی نظام اور سرمایہ دار طبقے کے درمیان کے نال کے رشتہ (حبل سری) کو ملک کی خود مختار رازداری کے لبادے کا تحفظ عطا کر  دیتے ہیں، جیسا کہ ان الیکٹورل بانڈ کے معاملے میں کیا گیا ہے، تو اس سے کئی سطحوں پر نقص اور خرابی پیدا ہوتی ہےجنہیں سنجیدگی سے سمجھنے کی ضرورت ہے ورنہ یہ ایک معمولی انحراف کی طرح نظر آئے گا جو بدقسمتی سے اس منحوس قانونی خول کی وجہ سے جرم بھی تصورنہیں کیا جائے گا۔

پہلی خرابی تو یہی ہے کہ ملی بھگت کی وجہ سے ایسا لگنے لگتا ہے جیسے یہ سیاسی طبقے اور سرمایہ داروں کے بیچ کا مسئلہ ہے اور وہ فریق اس معاملے سے بالکلیہ معدوم ہوجاتا ہے جو دراصل اس سودے کی اصل قیمت ادا کرتا ہے— یعنی عوام الناس، عام شہری، آدی واسی۔اس لیے جمہوریت کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ اسے کم از کم تین متغیرات کی مساوات کے طور پر دیکھا جائے۔ سرمایہ دار طبقہ، سیاسی طبقہ اور عام غریب شہری۔ فطری طور پر، حقیقی منظر نامہ اس سے بھی زیادہ پیچیدہ ہے، لیکن کم از کم مطلوب یہی ہے کہ اسے سہ فریقی پیچیدہ مساوات کے طور پر تو دیکھنا ہی چاہیے۔

آج کل معاشیات اور ریاضی میں اس تجزیے کے لیے گیم تھیوری مستعمل ہے، ہم اسی طریقہ کار  سے اس کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں—

ہماری یہ گیم تھیوری کی بحث ایک اسٹریٹجک فیصلہ سازی کے عمل پر مبنی ہے، جس میں تین بڑے کردار ہیں؛ سرمایہ کار (کاروباری)، سیاستداں، اور رائے دہندگان۔ ہر کوئی اپنے فیصلے خود لیتا ہے، جو ایک دوسرے سے گہرا تعلق رکھتے ہیں۔

سرمایہ دار (کاروباری)

یہ لوگ سب سے پہلے فیصلہ کرتے ہیں کہ کیا انہیں سیاسی جماعتوں کو چندہ دینا چاہیے۔ اس فیصلے کا انحصار اس بات پر ہے کہ کیا وہ اس چندے کے بدلے میں حکومت سے اپنے مفاد میں پالیسیاں بنانے میں کامیاب ہو پائیں گے یا وہ اپنی بداعمالیوں کو پوشیدہ رکھ پائیں گے۔

سیاستداں یا پارٹی

جب انہیں چندہ ملتا ہے، تو ان کے پاس دو راستے ہوتے ہیں؛ یا تو وہ اس کے بدلے میں سرمایہ داروں کو فائدہ پہنچانے والی پالیسیاں بنائیں (چندہ کے عوض فائدہ پہنچائیں) یا پھر بغیر کسی خاص رعایت  اورسہولت کے چندہ قبول کریں (چندہ قبول کریں لیکن فائدہ  نہ پہنچائیں)۔

رائے دہندگان  (ووٹر)

آخر میں، ووٹر اپنا ووٹ ڈالتے ہیں، جو ان واقعات اور نتائج پر مبنی ہوتے ہیں جو انہوں نے مشاہدہ کیا ہے۔ اگر میڈیا کے ذریعے سرمایہ داروں اور سیاستدانوں کے گٹھ جوڑ کو اجاگر کیا جاتا ہے ، تو ووٹر باخبر ہو سکتے ہیں۔ لیکن اگر یہ گٹھ جوڑ پوشیدہ رہے تو پالیسیاں امیروں کے مفاد میں بنائی جاتی ہیں، اس طرح معاشرے کے کمزور طبقوں کی بھلائی ایک خیال محض بن کر  رہ جاتا ہے۔

اس کھیل کے بہترین نتائج تب آتے ہیں جب کوئی چندہ  نہیں دیا جاتا اور معاشرے کے اعلیٰ ترین مفاد میں پالیسیاں بنائی جاتی ہیں۔

اس تجزیے سے یہ سمجھنے میں مدد ملتی ہے کہ مختلف کرداروں کے فیصلے معاشرے پر کس طرح وسیع اثرات مرتب کر سکتے ہیں، اور ایک مثالی معاشرے کی تشکیل کے لیے شفافیت اور اخلاقیات کس طرح اہم ہیں۔

اگر ہم الیکٹورل بانڈ کو اس نظریے سے دیکھیں تو یہ ایک ایسا منصوبہ معلوم ہوتا ہے جو عام ووٹروں، خصوصی طور پر محروم طبقات کے لوگوں کو بے بس کرنے کی نیت سے عمل میں لایا گیا ہے۔ سب سے پہلے اگر ہم رازداری کے اہتماموں پر نظر ڈالیں تو یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ پہلے سے موجود اس غیر مساوی مساوات میں عام ووٹر جانکاری کے فقدان میں  اپنے انتخابی فیصلے میں عقلی فیصلے سے محروم رہتا ہے، جبکہ زیادہ پیسے حاصل کر کے جارحانہ انتخابی مہم چلا کر اہل حکمران طبقہ اس کے فیصلوں کو اپنے مفادات کے مطابق موڑنے میں کامیاب ہو جاتا ہے۔

اس طرح انتخابی چندے کے نام پر رائے دہندگان کو بے زبان  بنا دینے کی سازش یہاں صاف نظر آتی ہے۔ یہ رازداری یقینی بناتی ہے کہ جمہوریت میں سیاستداں اور سرمایہ دار کاروباری اپنی کم تعداد کے باوجود انتہائی طاقتور بن جاتے ہیں۔

اسی تسلسل میں یہ بات بھی ذہن میں رکھنی چاہیے کہ یہ انتہائی معصوم رائے ہوگی کہ کاروباری  اپنی جیب سے ادائیگی کرتا ہے، سچ یہ ہے کہ زمین، کان کنی، پانی، جنگل، سڑک وغیرہ کے ٹھیکوں کی لوٹ مار سے ان کی اصل ادائیگی بھی مشترکہ املاک کے وسائل یعنی کامن پراپرٹی ریسورسز (سی پی آر) کے ذریعے انہی عام لوگوں کو کرنی پڑ رہی ہے، جنہیں یہ ملی بھگت بے زبان بناکر جمہوریت سے بے دخل اور غیر متعلق بنا دیتی ہے۔

(وجیندر سنگھ چوہان اور شیریں اختر، دہلی یونیورسٹی کے ذاکر حسین دہلی کالج میں ایسوسی ایٹ پروفیسر ہیں۔)