فکر و نظر

نریندر مودی کا یہ دعویٰ غلط ہے کہ الیکٹورل بانڈ کے توسط سے انہوں نے سیاسی فنڈنگ ​​کے ذرائع اجاگر کیے

وزیر اعظم نریندر مودی نے ایک چینل کو انٹرویو دیتے ہوئے دعویٰ کیا ہے کہ ان کی جانب  سے لائی گئی الیکٹورل بانڈ اسکیم کی وجہ سے ہی سیاسی چندے کے ذرائع کے نام سامنے آئے ہیں۔ تاہم، حقیقت یہ ہے کہ مودی حکومت نے چندہ دینے والوں کے نام چھپانے کی ہر ممکن کوشش کی تھی۔

وزیر اعظم نریندر مودی 31 مارچ کو تمل نیوز چینل تھانتھی ٹی وی کے ساتھ ایک انٹرویو کے دوران۔ (تصویر بہ شکریہ: یوٹیوب اسکرین شاٹ)

وزیر اعظم نریندر مودی 31 مارچ کو تمل نیوز چینل تھانتھی ٹی وی کے ساتھ ایک انٹرویو کے دوران۔ (تصویر بہ شکریہ: یوٹیوب اسکرین شاٹ)

نئی دہلی: سپریم کورٹ کی جانب سے مرکز کی الیکٹورل بانڈ اسکیم کو ‘غیر آئینی‘ اور رائے دہندگان کے معلومات کے حق کی خلاف ورزی قرار دینے کے ڈیڑھ ماہ بعد، وزیر اعظم نریندر مودی نے اپنی خاموشی توڑتے ہوئے کہا کہ اس اسکیم کی وجہ سے ہی ممکن ہو سکا کہ چندے کے ذرائع کا پتہ لگایا جا سکے ، اور جو لوگ اس معاملے پر ناچ رہے ہیں اور فخر کر رہے ہیں وہ افسوس کرنے والے ہیں۔

ان خیالات کا اظہار انہوں نے اتوار کو تھانتھی ٹی وی کو انٹرویو دیتے ہوئے کیا۔

انہوں نے کہا، ‘ ایسا کیا کیا ہے جس کی وجہ سے مجھے سیٹ بیک ہو، میں پختہ یقین رکھتا ہوں کہ جو لوگ اس معاملے پر ناچ رہے ہیں… فخر کر رہے ہیں… وہ افسوس کرنے والے ہیں۔ میں پوچھنا چاہتا ہوں کہ 2014 سے پہلے ہونے والے تمام انتخابات میں کون سی ایجنسی ہے جو بتا سکتی ہے کہ پیسہ کہاں سے آیا تھا، کہاں گیا اور کس نے خرچ کیا؟ یہ مودی کا الیکٹورل بانڈ تھا، جس کی وجہ سے آج آپ یہ معلوم کر رہے ہیں کہ بانڈ کس نے دیا اور کس نے لیا۔ پہلے تو کوئی سراغ ہی نہیں ملتا تھا… آج آپ کو ٹریل (ذرائع) مل رہا ہے کیونکہ وہاں الیکٹورل بانڈ تھا۔ کوئی بھی نظام پرفیکٹ نہیں ہوتا، اس میں خامیاں ہوسکتی ہیں، ان کوتاہیوں کو دور کیا جاسکتا ہے، الیکٹورل بانڈ ہے تو کم از کم آپ کو جانکاری تو ہے کہ یہاں سے یہاں گیا۔’

جہاں مودی نے دعویٰ کیا ہے کہ 2018 میں ان کی حکومت کی جانب سے لائی گئی اسکیم کی وجہ سے اب منی ٹریل قائم کیا جا سکتا ہے، وہیں عدالت کے اندر اور باہر دونوں جگہ ان کی حکومت کی جانب سے اس سکیم کے مسلسل دفاع پر ایک نظر ڈالنے سے پتہ چلتا ہے کہ بی جے پی حکومت نے ذرائع کو چھپانے کی ہر ممکن کوشش کی تھی، وہ تو سپریم کورٹ نے اس اسکیم کو رد کر دیا، جس کے بعد اسٹیٹ بینک آف انڈیا (ایس بی آئی) اور الیکشن کمیشن آف انڈیا (ای سی آئی) کو ان تفصیلات کو عام کرنے کے لیےمجبور ہونا پڑا۔

سپریم کورٹ نے 15 فروری کو الیکٹورل بانڈ اسکیم کو ختم کرتے ہوئے اپنے فیصلے میں قابل ذکر  طور پر کہا تھا، ‘اس بات کا بھی اندیشہ  ہے کہ کسی سیاسی پارٹی کو مالی تعاون دینے سے پیسے اور سیاست کے درمیان قریبی ملی بھگت کی وجہ سے لین دین کا نظام بنا ہو۔’

غور طلب ہے کہ 2017-2018 اور 2022-2023 کے درمیان فروخت کیے گئے 12008 کروڑ روپے کے کل الیکٹورل بانڈ میں سے بی جے پی کو تقریباً 55 فیصد یا 6564 کروڑ روپے کے بانڈ ملے۔

ای سی آئی کی جانب سے اپنی ویب سائٹ پر اپریل 2019 اور جنوری 2024 کے درمیان سیاسی جماعتوں کے ذریعے خریدے گئے اور کیش کرائے گئے بانڈ کے یونک نمبرسمیت سپریم کورٹ کی جانب سے لازمی ڈیٹا شائع کرنے کے بعد دی وائر نے اپنی رپورٹ میں بتایا تھا کہ سر فہرست پانچ چندہ دینے والی کمپنیوں میں سے تین نے چندے کی سب سے زیادہ رقم  بی جے پی کو دی تھی۔ اعداد و شمار سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ 2019 کے لوک سبھا انتخابات سے پہلے بی جے پی کو 93 فیصد بانڈ ملے تھے ۔

الیکٹورل بانڈ اسکیم کو جنوری 2018 میں مطلع کیا گیا تھا، جس نے ہندوستان میں کمپنیوں اور افراد کو سیاسی جماعتوں کو گمنام چندہ دینے کی اجازت دی تھی۔ اس اسکیم کے تحت پبلک سیکٹر کے سب سے بڑے بینک ایس بی آئی  کو بانڈ فروخت کرنے کا اختیار دیا گیا تھا۔ جن سیاسی پارٹیوں نے انہیں  کیش کرایا، انہیں بھی ایس بی آئی کی کسی بھی مجاز برانچ میں اپنے تصدیق شدہ کھاتوں سے ایسا کرنا پڑا۔

اس اسکیم نے قانون میں درج پہلے کی اس ضرورت کو ختم کر دیا، جس میں کسی بھی سیاسی جماعت کو 2000 روپے یا اس سے زیادہ کا سیاسی چندہ دینے والے شخص یا تنظیم کو اپنے بارے میں معلومات فراہم کرنے کی ضرورت تھی۔ اس اسکیم کے تحت کسی بھی سیاسی جماعت کو اس کی شناخت ظاہر کیے بغیر 1000 روپے سے 1 کروڑ روپے تک کے سیاسی چندہ دینے کی اجازت تھی۔  ایک سیاسی جماعت کو الیکٹورل بانڈ کے ذریعے جمع کیے گئے چندے کی رقم کا اعلان کرنا ضروری  تھا۔

بتادیں کہ الیکٹورل بانڈ متعارف کرانے کے لیے مودی حکومت نے 2017 میں کئی قوانین میں ترمیم بھی کی تھی ۔

ان ترامیم نے غیر ملکی کمپنیوں کو سیاسی پارٹیوں کو چندہ دینے کی اجازت دے دی، جن کی  ہندوستانی کمپنیوں میں زیادہ حصے داری ہے۔ اس سے قبل، ایف سی آر اے اور فارن ایکسچینج مینجمنٹ ایکٹ 1999 کے تحت غیر ملکی کمپنیوں کو سیاسی جماعتوں کو چندہ دینے پر پابندی تھی۔

فنانس ایکٹ 2017 نے انکم ٹیکس ایکٹ میں ترمیم کی اور سیاسی جماعتوں کو الیکٹورل بانڈ کے ذریعے موصول ہونے والے چندےکے تفصیلی ریکارڈ رکھنے سے مستثنیٰ قرار دیا۔ حکومت نے عوامی نمائندگی ایکٹ 1951 میں بھی ترمیم کی، جس کے تحت سیاسی جماعتوں کو کنٹریبیوشن رپورٹ میں الیکٹورل بانڈ کے ذریعے موصول ہونے والے عطیات کو شائع کرنے سے مستثنیٰ قرار دیا گیا۔

ریزرو بینک آف انڈیا ایکٹ میں بھی ترمیم کی گئی، جس نے مرکزی حکومت کو کسی بھی شیڈول بینک کو الیکٹورل بانڈ جاری کرنے کا اختیار دیا۔ اس کے علاوہ کوئی کمپنی کسی سیاسی جماعت کو کتنا چندہ  دے سکتی ہے، اس کی اوپری حد کو ختم کرنے کے لیے کمپنی ایکٹ 2013 میں بھی ترمیم کی گئی۔

ارون جیٹلی نے عطیہ دہندگان کی پہچان کو گمنام رکھنے کے نظام کا دفاع کیا تھا

سال 2018 میں ایک فیس بک پوسٹ میں سابق وزیر خزانہ آنجہانی ارون جیٹلی نے سال 2017-18 کے لیے اپنی بجٹ تقریر کا حوالہ دیا اور کہا کہ ‘الیکٹورل بانڈ اسکیم کا اعلان صاف پیسہ لانے اور سیاسی فنڈنگ کے نظام میں مناسب شفافیت لانے کے لیے کیا گیا ہے۔’

اسکیم کا دفاع کرتے ہوئے انہوں نے کہا تھا کہ عطیہ دہندگان کی شناخت کو خفیہ رکھنا ضروری ہے کیونکہ ‘ماضی کے تجربے’ بتاتے ہیں کہ اس کے بغیر عطیہ دہندگان کو یہ اسکیم پرکشش نہیں لگے گی۔

ان کا کہنا تھا، ‘ ہر ڈونر نے ایک سیاسی جماعت کو کتنا عطیہ دیا ہے،  یہ صرف عطیہ دہندہ کو ہی پتہ ہوگا۔’

اپریل 2019 میں جیٹلی نے ایک بلاگ پوسٹ میں ڈونر اور پارٹی کے درمیان پہچان کی کڑی کو چھپانے کی ضرورت کے بارے میں لکھا تھا۔

اس وقت کے وزیر خزانہ پرنب مکھرجی کی جانب سے 2010 میں متعارف کرائی گئی الیکٹورل ٹرسٹ اسکیم کا حوالہ دیتے ہوئے جیٹلی نے لکھا تھا، ‘چندہ دینے والوں کو ڈر رہتا ہے کہ ان کی یہ شناخت اجاگر ہونے پر کہ انہوں نے کس سیاسی پارٹی کو عطیہ دیا، انہیں نتائج کا سامنا کرنا پڑے گا۔ انہوں نے (مکھرجی) نے بہت سمجھداری سے 2010 میں پاس تھرو الیکٹورل ٹرسٹ بنا کر پہچان چھپا لی تھی۔’

جیٹلی نے مزید کہا تھا، ‘2017 میں پارٹی اور ڈونر کے درمیان پہچان کی کڑی  کو چھپانے کے اصول کی بنیاد پر این ڈی اے حکومت الیکٹورل بانڈ اسکیم لائی ہے۔’

عدالت میں حکومت کی جانب سے عطیہ دہندگان کی شناخت کو خفیہ رکھنے کا دفاع

مودی کے دعوے کے برعکس اسکیم کو چیلنج کرنے والی عرضیوں پر سپریم کورٹ میں سماعت کے دوران مرکزی حکومت نے عطیہ دہندگان اور ان سے بانڈ حاصل کرنے والے فریقوں کی شناخت چھپانے کا مسلسل دفاع کیا تھا۔

سپریم کورٹ نے فروری 2024 کے اپنے فیصلے میں کہا تھا کہ یہ اسکیم آرٹیکل 19(1)(اے) کے تحت شہریوں کے معلومات کے حق کی خلاف ورزی ہے۔

اکتوبر 2023 میں مرکز نے عدالت کو بتایا کہ شہریوں کو سیاسی فنڈنگ کے ذرائع جاننے کا بنیادی حق نہیں ہے ۔ اٹارنی جنرل آر وینکٹ رمنی نے کہا تھا کہ ‘جاننے کا حق’ معقول پابندیوں کے تابع ہونا چاہیے اور اسے مخصوص مقاصد کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔

نومبر 2023 میں سالیسٹر جنرل تشار مہتہ نے ایک بار پھر ‘عطیہ دہندگان کی مخالفت’ اور ان کی شناخت کے تحفظ کا ذکر کیا اور تجویز پیش کی کہ اسکیم کے خفیہ پہلو کو ختم کرنے سے یہ غیر مؤثر ہو جائے گا اور ممکنہ طور پر نقد پر مبنی سیاسی چندے کی روایت شروع ہو سکتی ہے۔

مہتہ نے دلیل دی تھی کہ جس طرح سے الیکٹورل بانڈ بنائے گئے ہیں، حکمراں پارٹی انہیں لین دین کے انتظامات کے لیے استعمال نہیں کر پائے گی کیونکہ وہ یہ نہیں جان سکے گی کہ کون کس کو چندہ دے رہا ہے۔

اس پر سی جے آئی چندر چوڑ نے کہا تھا، ‘اسکیم کے ذریعے لین دین کے انتظام سے گریز نہیں کیا جا سکتا۔ میں آپ کو سادہ وجہ بتاتا ہوں۔ اب ترمیم شدہ کمپنی ایکٹ کے تحت، کسی  کمپنی کو یہ بتانے کی ضرورت نہیں ہے کہ اس نے کس سیاسی جماعت کو چندہ دیا ہے۔ لیکن اسے یہ دکھانا ہوگا کہ اس نے کتنا تعاون کیا ہے۔ اسی لیے ایک کمپنی کہتی ہے کہ میں نے اس مالی سال میں 400 کروڑ روپے کا تعاون دیا ہے۔ اب حکمران جماعت جانتی ہے کہ اسے اس کمپنی سے الیکٹورل بانڈ کے طور پر کتنا پیسہ آیا ہے۔’

ایس جی مہتہ نے کہا تھا، ‘یہ کبھی نہیں جانا جا سکتا’۔ اس پر سی جے آئی نے کہا تھا، ‘نہیں، پارٹی یقینی طور پر جانتی ہے۔ ‘

فروری کے آخری فیصلے میں سپریم کورٹ نے یہ بھی کہا تھا کہ ‘بانڈ مالی طور پر وسائل رکھنے والوں کو عوام کے سامنے منتخب گمنامی فراہم کرتے ہیں، نہ کہ کسی سیاسی پارٹی کے سامنے۔’

دی وائر نے بھی اپنی رپورٹ میں بتایا ہے کہ سپریم کورٹ کی ہدایات کے بعد اپ لوڈ کیے گئے الیکٹورل بانڈ ڈیٹا سے پتہ چلتا ہے کہ سرفہرست عطیہ دہندگان میں وہ کمپنیاں شامل ہیں جن پر انکم ٹیکس ڈپارٹمنٹ اور انفورسمنٹ ڈائریکٹوریٹ سمیت مرکزی ایجنسیوں نے چھاپے مارے تھے یا  وہ جانچ کے دائرے میں تھیں۔

دوسری خبروں میں یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ کچھ کمپنیوں نے اپنے سالانہ منافع سے کہیں زیادہ مالیت کے الیکٹورل بانڈ خریدے تھے۔

گمنام بنائے رکھنے  میں ایس بی آئی کا کردار

ایس بی آئی نے پہلے تو بانڈ کی تفصیلات کو عام کرنے کے لیے عدالت کی طرف سے دی گئی آخری تاریخ کی  پروا  نہیں کی اور پھر ڈیٹا فراہم کرنے کے لیے لوک سبھا انتخابات کے بعد تک کا وقت مانگا ۔ بعد میں عدالت عظمیٰ کی سرزنش کے بعد اس نے ڈیٹا جاری کیا۔

اس پیش رفت نے ملک کے سب سے بڑے پبلک سیکٹر بینک کے ارادوں پر سوال اٹھائے ہیں کہ کیا وہ چندہ دینے والوں اور اسے حاصل کرنے والوں کی تفصیلات کو چھپانے کی کوشش کر رہا ہے۔

شفافیت کے معاملے کو اٹھانے والی سماجی  کارکن انجلی بھاردواج نے بتایا ہے کہ اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ ہر بانڈ سلپ پر غیر مرئی الفا نیومیرک کوڈ کو ایس بی آئی کی جانب سے ٹریک کیا گیا تھا – جو مودی حکومت کے دعووں کے بالکل برعکس ہے۔

سابق فنانس سکریٹری سبھاش چندر گرگ نے انڈین ایکسپریس کو بتایا تھا کہ عطیہ دہندگان کو فروخت کیے گئے اور سیاسی پارٹیوں کے ذریعے کیش کرائے گئے بانڈ کے کوڈ کو ریکارڈ کرکے، بینک نے ‘حکومت کی طرف سے لائی گئی اسکیم کی بنیادی خصوصیت پر حملہ کیا تھا’ جو گمنام  چندے کی بات کرتی ہے۔

عطیہ دہندگان کی شناخت کو خفیہ رکھنا کالے دھن کو روکنے کے مفاد میں ہے

ہف پوسٹ انڈیا کی ایک رپورٹ کے مطابق مودی حکومت نے اس اسکیم کو آگے نہ بڑھانے کی ریزرو بینک آف انڈیا کی سفارش کو نظر انداز کر دیا تھا ۔

رپورٹ میں دستاویزوں کا حوالہ دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ آر بی آئی نے کہا تھا کہ ریزرو بینک آف انڈیا ایکٹ میں ترمیم ایک ‘غلط مثال’ قائم کرے گی اور منی لانڈرنگ کی حوصلہ افزائی کرے گی۔

الیکشن کمیشن نے حکومت کو یہ بھی خبردار کیا تھا کہ الیکٹورل بانڈ سیاسی جماعتوں کو غیر ملکی ذرائع سے ملنے والے غیر قانونی عطیات کو چھپانے میں مدد کریں گے اور ‘شیل کمپنیوں کے ذریعے سیاسی فنڈنگ کے لیے کالے دھن کے استعمال میں اضافہ بھی ہو سکتا ہے۔’

تاہم، الیکشن کمیشن نے 2021 میں اپنا موقف تبدیل کرلیا تھا۔

ایس سی آبزرور کے مطابق، سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں کہا تھا کہ مرکزی حکومت کا کہنا ہے کہ اسکیم کے نفاذ کے بعد سے 47 فیصد سیاسی شراکت قانونی ذرائع سے آئی تھی، لیکن عدالت نے پایا کہ یہ بیان غلط طریقے سے اس خیال کی عکاسی کرتا ہے کہ معلومات کا انکشاف نہیں  کرنے کا منطقی تعلق  کالے دھن کو روکنےسےہے۔

(انگریزی میں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں ۔ )