مرکزی حکومت نے 2021 میں ملک میں پرائیویٹ اداروں کو سینک اسکول چلانے کی اجازت دی تھی۔ دی رپورٹرز کلیکٹو کے مطابق، 40 پرائیویٹ سینک اسکولوں میں کم از کم 62 فیصد اسکول ایسے تھے جو آر ایس ایس اور اس سے وابستہ تنظیموں، بی جے پی کے رہنماؤں، اس کے سیاسی اتحادیوں، ہندوتوا تنظیموں، افراد اور دیگر ہندو مذہبی تنظیموں سے وابستہ تھے۔
نئی دہلی: ملک کے اہم مذہبی شہروں میں شمار ورنداون میں ہندو قوم پرست مفکر سادھوی رتمبھرا لڑکیوں کے لیے سموید گروکلم گرلز سینک اسکول چلاتی ہیں۔ وشو ہندو پریشد (وی ایچ پی) کی خواتین شاخ درگا واہنی کی بانی رتمبھرا کا رام مندر کی تحریک میں بھی قائدانہ رول رہا ہے۔
گزشتہ سال جون میں اسکول میں پرسنلٹی ڈیولپمنٹ کیمپ کے دوران 60 سالہ سادھوی نے طالبات کو ‘احترام’، روایات اور رسم و رواج کے بارے میں خطاب کیا۔ اسکول کے فیس بک پیج پر شیئر کیے گئے ایک ویڈیو میں رتمبھرا کو اس بارے میں بھی بات کرتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے کہ کالج اور سوشل میڈیا پر لڑکیاں کس طرح ‘بے لگام’ ہو رہی ہیں۔
رتمبھرا نے کہا، ‘جب ہم کالجوں میں دیکھتے ہیں… لڑکیاں آدھی رات کو سگریٹ پھونکتی ہوئیں، جہاں آج کل ایجوکیشن کے ہب ہوگئے ہیں، شراب کی بوتلیں پھوڑتی ہوئیں… موٹر سائیکلوں پر اپنے بوائے فرینڈ کے ساتھ… گندہ ماحول بناتی ہوئیں…ہندوستان کی سرزمین کے لیے تو یہ تصورکبھی کیا ہی نہیں تھا کہ ہندوستان کی بیٹیاں اتنی خود مختار اور بے لگام ہو جائیں گی۔ سوشل میڈیا پر اپنی ماؤں—بہنوں کو گالیاں دیتے ہوئے ریل پوسٹ کر رہی ہیں، ننگی ہو کر فوٹو کھنچا رہی ہیں، کچھے اور بنیان میں اپنے جسم کی نمائش کر رہی ہیں، تو لگتا ہے کہ یہ لڑکیاں ذہنی مریض ہیں… وہ دماغی بیماری میں مبتلا ہیں… کیونکہ ان میں کوئی تہذیب نہیں ہے۔’
حال ہی میں ورنداون میں ان کا گرل اسکول اور ہماچل پردیش کے سولن میں راج لکشمی سموید گروکلم، کم از کم 40 ایسے اسکولوں کی فہرست میں شامل ہوا ہے،جنہوں نے سینک اسکول سوسائٹی (ایس ایس ایس) کے ساتھ معاہدے (ایم او یو) پر دستخط کیے ہیں۔
ایس ایس ایس وزارت دفاع کے تحت ایک خود مختار ادارہ ہے، جو پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ (پی پی پی) ماڈل کے تحت سینک اسکول چلاتا ہے۔
سال 2021 میں مرکزی حکومت نے نجی اداروں کو ملک میں سینک اسکول چلانے کی اجازت دی۔ اس سال کے سالانہ بجٹ میں حکومت نے پورے ہندوستان میں 100 نئے سینک اسکول قائم کرنے کے منصوبے کا اعلان کیا۔
جس بھی اسکول کے پاس ایس ایس ایس میں مذکور انفرااسٹرکچر مثلاً زمین، فزیکل اور آئی ٹی انفراسٹرکچر، مالی وسائل، عملہ وغیرہ ہوں ، انہیں نئے سینک اسکول کی پہچان دی جا سکتی ہے۔ منظوری کی پالیسی کے مطابق، بنیادی ڈھانچہ ہی واحد مخصوص معیار ہے،جس کی بنیاد پر اسکول کو منظوری دی جا سکتی ہے۔ اس وجہ سے سنگھ پریوار اور ہم خیال تنظیموں سے وابستہ اسکول درخواست دینے کے اہل ہو گئے۔
مرکزی حکومت کی پریس ریلیز اور رائٹ ٹو انفارمیشن (آر ٹی آئی) کے ذریعے جمع کی گئی جانکاری میں ایک تشویشناک رجحان سامنے آیا ہے۔ دراصل ہمارے اخذ کردہ نتائج سے پتہ چلتا ہے کہ اب تک ہوئے 40 سینک اسکول معاہدوں میں سے کم از کم 62 فیصد اسکول ایسے تھے جو راشٹریہ سویم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) اور اس سے وابستہ تنظیموں، بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے رہنماؤں، اس کے سیاسی اتحادیوں اور دوستوں، ہندوتوا تنظیموں، افراد اور دیگر ہندو مذہبی تنظیموں سے وابستہ تھے۔
اگرچہ حکومت کو امید ہے کہ پی پی پی کا یہ نیا ماڈل مسلح افواج میں شمولیت کے لیے ممکنہ امیدواروں کی تعداد میں اضافہ کرے گا، لیکن اس اقدام نے سیاسی کھلاڑیوں اور دائیں بازو کے اداروں کے ملٹری ایکو سسٹم میں داخل ہونے کے خدشات کو بھی جنم دیا ہے۔
ایجوکیشن سسٹم کی تاریخ میں پہلی بار حکومت نے نجی اداروں کو سینک اسکول کو ایس ایس ایس سے منسلک ہونے، ‘جزوی مالی امداد’ حاصل کرنے اور اپنی شاخیں چلانے کی اجازت دی۔ 12 اکتوبر 2021 کو وزیر اعظم نریندر مودی کی قیادت میں ایک کابینہ اجلاس میں اس تجویز کو منظوری دی،جس میں اسکولوں کو ‘وزارت دفاع کے موجودہ سینک اسکولوں سے الگ واضح طور پرایک خصوصی ورٹیکل (عمودی) کے طور پر چلانے کی بات کہی گئی تھی۔’
پالیسی دستاویز کے مطابق، حکومت ایس ایس ایس کے ذریعے ‘میرٹ اور معاشی حیثیت (میرٹ- کم مینس) کی بنیاد پر چھٹی جماعت سے 12ویں جماعت تک کے ہر کلاس کے 50 فیصد طلباء (50 فیصد طلباء کی بالائی حد تک)کے لیے 50فیصد رقم (40000/- سالانہ کی بالائی حد تک) ‘سالانہ فیس سپورٹ’ کے طور پر فراہم کرتی ہے۔ جس کا مطلب ہے کہ جن اسکولوں میں 12ویں تک کی کلاسیں ہیں، ایس ایس ایس ہر سال 1.2 کروڑ روپے کی مدد فراہم کرتا ہے۔ یہ رقم طلباء کو جزوی مالی امداد کے طور پر دی جاتی ہے۔
اسکولوں کو دیگر مراعات بھی دی جاتی ہیں، جیسے کہ 12ویں جماعت کے طلباء کو تعلیمی کارکردگی کی بنیاد پر سالانہ تربیتی گرانٹ کے طور پر 10 لاکھ روپے کی رقم دی جاتی ہے۔
حکومتی تعاون اور مراعات کے باوجود دی رپورٹرز کلیکٹو نے پایا کہ سینئر سیکنڈری تعلیم کے لیے سالانہ فیس 13800 روپے سالانہ سے 247900 روپے سالانہ تک ہے، جس سے پتہ چلتا ہے کہ نئے سینک اسکولوں کے فی اسٹرکچر میں کس قدر غیر برابری ہے۔
نئے سینک اسکول کون چلائے گا؟
نئی پالیسی آنے تک ملک میں ایس ایس ایس کے تحت 33 سینک اسکول تھے، جن میں 16000 کیڈٹ تھے۔ ایس ایس ایس وزارت دفاع کے تحت ایک خود مختار ادارہ ہے۔ کئی سرکاری رپورٹ نے دفاعی اداروں میں کیڈٹس بھیجنے میں سینک اسکولوں کی اہمیت کو اجاگر کیا ہے۔ دفاع سے متعلق اسٹینڈنگ کمیٹیوں نے اکثر نیشنل ڈیفنس اکیڈمی (این ڈی اے) اور انڈین نیول اکیڈمی کے لیے کیڈٹس کو تیار کرنے میں سینک اسکولوں کے کردار پر زور دیا ہے۔
غور طلب ہے کہ 2013-14 کی اسٹینڈنگ کمیٹی کے مطابق، سینک اسکول کے تقریباً 20 فیصد طلباء ہر سال این ڈی اے کے فوجی داخلہ امتحان میں کامیاب ہوتے ہیں۔ اس سال کے شروع میں راجیہ سبھا میں پیش کیے گئے اعداد و شمار کے مطابق، پچھلے چھ سالوں میں 11 فیصد سے زیادہ سینک اسکول کیڈٹس نے مسلح افواج میں شمولیت اختیار کی ہے۔ وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ نے 7000 سے زیادہ افسران کو مسلح افواج میں بھیجنے کا سہرا سینک اسکولوں کو دیا۔
رائل انڈین ملٹری کالج اور رائل انڈین ملٹری اسکولوں کے ساتھ سینک اسکول 25-30 فیصد سے زیادہ کیڈٹس کو ہندوستانی مسلح افواج کی مختلف تربیتی اکیڈمیوں میں بھیجتے ہیں۔
ایک ریٹائرڈ میجر جنرل نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر کہا، ‘پی پی پی ماڈل تھیوری میں اچھا ہے۔ لیکن جس طرح کے اداروں کو یہ ٹھیکے ملیں گے ، اس کے حوالے سے مجھے اندیشہ ہے۔ اگر زیادہ تر اسکولوں کی ملکیت بی جے پی سے وابستہ افراد/تنظیموں کے ہاتھ میں چلی جاتی ہے تو ان کا تعصب وہاں دی جانے والی تعلیم کو بھی متاثر کرے گا۔ موجودہ سینک اسکولوں کی طرح، اگر یہ طلبہ بھی مسلح افواج میں داخلے کے لیے این ڈی اے اور دیگر امتحانات کے لیے درخواست دیتے ہیں، تو جس طرح کی تعلیم انہوں نے حاصل کی ہے وہ یقینی طور پر مسلح افواج کے نقطہ نظر کو متاثر کرے گی۔’
آر ٹی آئی کے جوابات کے مطابق، کم از کم 40 اسکولوں نے 05 مئی 2022 سے 27 دسمبر 2023 کے درمیان سینک اسکول سوسائٹی کے ساتھ ایم او اے پر دستخط کیے ہیں۔
دی کلیکٹو کے عمیق جائزے سے پتہ چلتا ہے کہ ان 40 اسکولوں میں سے 11 یا تو براہ راست بی جے پی لیڈروں کی ملکیت ہیں یا ان کی سربراہی والے ٹرسٹ کے زیر انتظام ہیں، یا پھر یہ بی جے پی کے دوستوں اور سیاسی اتحادیوں سے تعلق رکھتے ہیں۔ آٹھ اسکولوں کا مینجمنٹ براہ راست آر ایس ایس اور اس سے وابستہ تنظیموں کے پاس ہے۔ مزید برآں، چھ اسکولوں کے ہندوتوا تنظیموں یا شدت پسند دائیں بازو کے رہنماؤں اور دیگر ہندو مذہبی تنظیموں سے قریبی تعلقات ہیں۔ منظور شدہ اسکولوں میں سے کوئی بھی عیسائی یا مسلم تنظیموں یا ہندوستان میں کسی مذہبی اقلیت کے ذریعے نہیں چلایا جاتا ہے۔
پارٹی ممبران اور قریبی لوگوں کو ملی منظوری
گجرات سے اروناچل پردیش تک ان نئے سینک اسکولوں کی ایک بڑی تعداد میں یا تو بی جے پی لیڈروں کی براہ راست شمولیت ہے یا یہ بی جے پی لیڈروں کی سربراہی والے ٹرسٹ کی ملکیت ہیں۔
اروناچل کے سرحدی شہر توانگ میں واقع توانگ پبلک اسکول ریاست کا واحد منظور شدہ فوجی اسکول ہے۔ اس اسکول کے مالک ریاست کے وزیر اعلیٰ پیما کھانڈو ہیں۔ اسکول مینجمنٹ کمیٹی کے سابقہ سکریٹری ہتیندر ترپاٹھی، جو اسکول کے پرنسپل کے طور پر کام کرتے ہیں، نے تصدیق کی کہ کھانڈو اسکول کمیٹی کے چیئرمین ہیں۔ توانگ کے بی جے پی ایم ایل اے اور کھانڈو کے بھائی تسیرنگ تاشی اسکول کے منیجنگ ڈائریکٹر ہیں۔
جب ہم نے ترپاٹھی سے پوچھا کہ کیا ان کے اسکول کو حکومت نے بی جے پی کے ساتھ روابط کی وجہ سے منتخب کیا تھا، تو انھوں نے کہا، ‘مجھے اس دعوے میں کوئی سچائی نظر نہیں آتی کیونکہ متعلقہ حکام نے اس کا تین بار باریک بینی سے معائنہ کیا تھا۔’ تاہم تاشی اور کھانڈو نے دی کلیکٹو کے سوالوں کا جواب نہیں دیا ہے۔
گجرات کے مہسانہ میں شری موتی بھائی آر چودھری ساگر سینک اسکول دودھ ساگر ڈیری سے منسلک ہے، جس کے صدرمہسانہ کے سابق بی جے پی جنرل سکریٹری اشوک کمار بھاؤ سنگ بھائی چودھری ہیں۔ پچھلے سال وزیر داخلہ امت شاہ نے اس اسکول کا آن لائن افتتاح کیا تھا۔ گجرات میں ایک اور اسکول، بناس کانٹھا میں بناس سینک اسکول، بناس ڈیری سے متعلق گلبا بھائی نانجی بھائی پٹیل چیریٹیبل ٹرسٹ کے زیر انتظام ہے۔ اس تنظیم کی قیادت تھراد کے بی جے پی ایم ایل اے اور گجرات اسمبلی کے موجودہ اسپیکر شنکر چودھری کر رہے ہیں۔
اتر پردیش کے اٹاوہ میں واقع شکنتلم انٹرنیشنل اسکول منا اسمرتی سنستھان چلاتا ہے۔ یہ ایک غیر منافع بخش تنظیم ہے جس کی صدر بی جے پی ایم ایل اے سریتا بھدوریا ہیں۔ اسکول کا کام ان کے بیٹے آشیش بھدوریا دیکھتے ہیں۔
آشیش نے کہا، ‘ہمارے پاس سینک اسکول چلانے کا کوئی تجربہ نہیں ہے۔ ہم اسے آنے والے سیشن سے شروع کریں گے۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ ‘انتخاب کا عمل بہت لمبا تھا’۔ جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا ان کی پارٹی سے وابستگی کی وجہ سے ان کی درخواست منظور ہوئی، تو انھوں نے کہا، ‘آپ کو یہ بات حکومت سے پوچھنی چاہیے۔’
ہماری تحقیقات میں ہم نے پایا کہ پی پی پی کے اس نئے ماڈل سے فائدہ اٹھانے والوں میں بی جے پی کے کئی رہنما بھی شامل ہیں۔ اس لمبی فہرست میں مختلف ریاستوں کے بی جے پی لیڈران ہیں۔
ہریانہ کے روہتک میں واقع شری بابا مست ناتھ رہائشی پبلک اسکول اب ایک سینک اسکول ہے۔ اس کی بنیاد سابق بی جے پی ایم پی مہنت چاندناتھ نے رکھی تھی اور فی الحال اسے ان کے جانشین مہنت بالک ناتھ یوگی چلا رہے ہیں، جو راجستھان کے تیجارا سے بی جے پی کے ایم ایل اے ہیں۔
سینک اسکولوں کا بھگوا کرن
اس فہرست میں صرف بی جے پی لیڈر ہی شامل نہیں ہیں۔ پرائیویٹ سینک اسکولوں کو چلانے کا اختیار آر ایس ایس کے اداروں اور اس سے وابستہ کئی ہندو دائیں بازو کے گروپوں کو بھی دیا گیا ہے۔ ودیا بھارتی آل انڈیا انسٹی ٹیوٹ آف ایجوکیشن (ودیا بھارتی) آر ایس ایس کا ایجوکیشنل ونگ ہے۔ ہندوستان بھر میں پہلے سے موجود سات ودیا بھارتی اسکولوں کو الحاق دیا گیا – ان میں سے تین بہار میں، اور ایک ایک مدھیہ پردیش، پنجاب، کیرالہ اور دادرا اور نگر حویلی میں واقع ہیں۔
آرایس ایس کی عوامی خدمت ونگ، راشٹریہ سیوا بھارتی سے منسلک بھاؤ صاحب بھسکٹے اسمرتی لوک نیاس بھی اس گروپ کا حصہ ہے جو اسکول چلاتا ہے۔ مدھیہ پردیش کے ہوشنگ آباد میں واقع ان کے سرسوتی گرام ادیہ ہائر سیکنڈری اسکول کو منظوری ملی ہے۔
ودیا بھارتی پر اکثر تاریخ کو دوبارہ لکھنے، برین واشنگ اور مسلم مخالف نصاب تیار کرنے کا الزام لگایا جاتا ہے۔ وہ اپنے مشن کی تعریف کے بارے میں بہت واضح ہیں۔
آر ایس ایس نے اپنے ماتحت آنے والے اسکولوں کی بڑھتی ہوئی تعداد کو چلانے کے لیے 1978 میں ودیا بھارتی کا قیام کیا تھا۔ اس کے پاس فی الحال 12065 رسمی اسکول ہیں جن میں 3158658 طلباء ہیں، جو اسے ہندوستان میں پرائیویٹ اسکولوں کے سب سے بڑے نیٹ ورکس میں سے ایک بناتے ہیں۔ جیسا کہ ان کی ویب سائٹ پر ذکر کیا گیا ہے، وہ ‘ایک ایسی نوجوان نسل کی تربیت کرنا چاہتے ہیں جو ہندوتوا کے لیے پرعزم ہو اور حب الوطنی کے جذبے سے لبریز ہو۔’
نئی پالیسی تبدیلیوں سے یہ تشویش بڑھ گئی ہے کہ سینک اسکول صرف ایک مخصوص نظریہ کے حامل نجی اداروں کے ذریعے ہی چلائے جائیں گے۔ سابق لیفٹیننٹ جنرل پرکاش مینن نے کہا، ‘واضح طور پر اس کے پیچھے خیال وہی ہے جسے (انگریزی میں) ‘کیچ دیم ینگ’ کہا جاتا ہے (یعنی بچوں کو بچپن سے ہی کسی خاص نظریے کی طرف موڑ دیا جائے)۔ یہ مسلح افواج کے لیے اچھا نہیں ہے۔’
مینن نے اتفاق کیا کہ ایسی تنظیموں کے ساتھ معاہدہ مسلح افواج کے کردار اور اخلاق کو متاثر کرے گا۔ مینن اس وقت تکشلا انسٹی ٹیوٹ میں اسٹریٹجک اسٹڈیز پروگرام کے ڈائریکٹر ہیں۔
ایک مضمون میں مینن نے مرکز اور پرائیویٹ پارٹیوں کے درمیان بڑھتے ہوئے گٹھ جوڑ کے ممکنہ خطرے پر روشنی ڈالی ہے، جس کی وجہ سے تعلیم میں ایک نظریاتی تعصب کو فروغ حاصل ہو رہا ہے جو کہ آئین میں درج اقدار سے بہت دور ہے۔
آر ایس ایس، اسکول ٹیکسٹس اینڈ دی مرڈر آف مہاتما گاندھی: دی ہندو کمیونل پروجیکٹ کتاب کے شریک مصنف آدتیہ مکھرجی اس بات پر حیران تھے کہ ایسے اسکولوں کو وزارت دفاع کی طرف سے کفالت اور سرکاری امداد حاصل ہے۔
مکھرجی نے دی کلیکٹو کو بتایا، ‘جمہوریت میں ودیا بھارتی جیسے اسکولوں کا وجود ہونا ہی نہیں چاہیے کیونکہ وہ اقلیتوں کے خلاف نفرت پھیلا رہے ہیں۔ لیکن کم از کم اب تک وہ صرف آر ایس ایس کے اسکول تھے۔ ان کو قومی اداروں بالخصوص دفاعی اداروں سے جوڑ کر حکومت ملک کو ناقابل بیان خطرات میں ڈال رہی ہے۔ اس کی وجہ سے دفاعی قوتوں کا اکثریتی، فرقہ وارانہ طرز عمل سے متاثر ہونا یقینی ہے۔’
ودیا بھارتی سینٹرل ایگزیکٹیو کمیٹی کے جنرل سکریٹری اونیش بھٹناگر نے دی کلیکٹو سے بات کرتے ہوئےکہا، ‘ہم ان درخواستوں کو مرکزی طور پر منظم نہیں کرتے ہیں۔ ہر اسکول انفرادی بنیاد پر درخواست دیتاہے۔ اسکول کمیٹی کو معلوم ہوگا کہ کیا ان کی طرفداری کی گئی تھی۔ میں اس کا جواب نہیں دے سکتا۔’
تاہم، ودیا بھارتی سینٹرل ایگزیکٹیو کمیٹی کے چیئرمین ڈی رام کرشنا راؤ نے بتایاکہ انہوں نے اس طرح کے مزید الحاق کے لیے درخواست کا منصوبہ بنایا ہے، راؤ نے کہا، ‘ابھی کے لیے صرف چند اسکولوں نے کوشش کی ہے، لیکن ہم مزید ودیا بھارتی اسکولوں کے لیے درخواست دینے اور ایس ایس ایس سے الحاق کرنے کا منصوبہ بنا رہے ہیں۔’
سینٹرل ہندو ملٹری ایجوکیشن سوسائٹی کے زیر انتظام ناگپور کے بھونسالہ ملٹری اسکول کو بھی سینک اسکول کے طور پر چلانے کی منظوری دی گئی ہے۔ اس اسکول کی بنیاد 1937 میں ہندو دائیں بازو کے مفکر بی ایس مونجے نے نے رکھی تھی۔ 2006 کے ناندیڑ بم دھماکوں اور 2008 کے مالیگاؤں دھماکوں کی تحقیقات کے دوران مہاراشٹر کے انسداد دہشت گردی اسکواڈ نے بھونسالہ ملٹری اسکول کی تفتیش کی تھی، جہاں دھماکے کے ملزمان کو مبینہ طور پر تربیت دی گئی تھی۔
بی ایم ایس کی طرح ہی بہت سے دوسرے ہندو مذہبی ٹرسٹوں کو اپنے موجودہ ڈھانچے میں سینک اسکول چلانے کی منظوری مل گئی ہے۔ ان میں سے کچھ جذبات کو بھڑکانے والے ہندوتوادیوں نے قائم کیے ہیں۔ اس میں ہندوتوا لیڈر سادھوی رتمبھرا کے مذکورہ دو اسکول بھی شامل ہیں۔
رتمبھرا دسمبر 1992 میں بابری مسجد کے انہدام کے دوران اپنی اشتعال انگیز تقریروں کے لیے مشہور ہیں۔ تاریخ دان تنیکا سرکار نے رتمبھرا اور ان کی تقریروں کو ‘مسلم مخالف تشدد بھڑکانے کا سب سے طاقتور ذریعہ’ قرار دیا ہے۔
ایودھیا میں بابری مسجد کے انہدام کی تحقیقات کرنے والے لبرہان کمیشن نے رتمبھرا سمیت 68 لوگوں پر ‘ملک کو فرقہ وارانہ فساد کے دہانے پر لے جانے’ کا الزام لگایا تھا۔ وہ سنگھ پریوار میں ایک اہم عہدے پر فائز ہیں اور بی جے پی کے کئی رہنماؤں کے قریب ہیں۔ مرکزی وزیر داخلہ امت شاہ دسمبر 2023 میں ان کی سالگرہ پر انہیں مبارکباد دینے ورنداون گئے تھے۔ جنوری میں وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ نے لڑکیوں کے لیے سموید گروکلم گرلز سینک اسکول کا افتتاح کیا تھا۔ اس تقریب میں انہوں نے رام مندر تحریک میں قائدانہ رول نبھانے کے لیے رتمبھرا کی تعریف کی تھی۔ خبر رساں ایجنسی پی ٹی آئی کے مطابق سنگھ نے کہا تھا، ‘دیدی ماں (رتمبھرا) نے رام مندر تحریک کے دوران اہم کردار ادا کیا تھا۔ انہوں نے سماج کو اپنا خاندان سمجھا ہے۔’
ہریانہ کے کوروکشیترا میں شریمتی کیسری دیوی لوہیا جئے رام پبلک اسکول، ہندو سنیاسیوں کی سوسائٹی، بھارت سادھو سماج (بی ایس ایس) کے قومی نائب صدر چلاتے ہیں۔ گجرات کے جوناگڑھ میں شری برہمانند ودیا مندر کو بھی سینک اسکول کی پہچان ملی ہے۔ اسے بھگوتی نند جی ایجوکیشن ٹرسٹ چلاتا ہے، جس کے مینیجنگ ٹرسٹی مکتانند ‘باپو’ 2019 سے بھارت سادھو سماج (بی ایس ایس ) کے صدر بھی رہے ہیں۔
ارناکلم، کیرالہ کے سری شاردا ودیالیہ کو ہندو مذہبی تنظیم آدی شنکرا ٹرسٹ چلاتا ہے، جو سرینگری سردا پیتم کی اکائی ہے۔ سرینگری شاردا پیٹھم ایک سناتن ہندو مٹھ ہے اور خیال کیا جاتا ہے کہ اسے آٹھویں صدی کے ہندو فلسفی اور مفکر آدی شنکراچاریہ نے قائم کیا تھا۔
جمعرات کو دی رپورٹرز کلیکٹو کی اس رپورٹ کے شائع ہونے کے بعد وزارت دفاع کی جانب سے ردعمل کی خبر ہے۔ کلیکٹو نے بتایا ہے کہ وزارت نے کوئی عوامی بیان جاری نہیں کیا ہے، بلکہ ذاتی طور پر ایک پریس نوٹ جاری کیا گیا ہے، جس کی بنیاد پر میڈیا میں اس حوالے سے خبریں دیکھنے کو ملی ہیں۔
اسی طرح کی ایک خبر این ڈی ٹی وی نے بھی شائع کی ہے، جس کے مطابق وزارت دفاع نے کہا ہے کہ ‘پریس کے کچھ حصوں میں ایسے مضامین شائع ہوئے ہیں جن میں کہا گیا ہے کہ نئے سینک اسکولوں کو ان کی سیاسی یا نظریاتی وابستگیوں کی بنیاد پر اداروں کو الاٹ کیا جا رہا ہے۔ ایسے الزامات بے بنیاد ہیں۔’
اس میں کہا گیا ہے کہ نئے سینک اسکولوں کو چلانے کے لیے اداروں کو حتمی شکل دینے کے لیے ایک سخت انتخابی عمل کی پیروی کی گئی۔ وزارت نے کہا، ‘نئے سینک اسکولوں کی منصوبہ بندی اچھی طرح سے کی گئی ہے۔ انتخاب کا عمل سخت ہے، اہداف کی مسلسل پابندی کو یقینی بنانے کے لیے چیک اینڈ بیلنس موجود ہیں، اور مستحق طلبہ کو مالی امداد فراہم کرنے کے لیے مضبوط ترغیبات موجود ہیں۔’
اس میں کہا گیا ہے کہ ‘درخواست گزار ادارے کی سیاسی یا نظریاتی وابستگی یا دوسری صورت انتخاب کے عمل کو متاثر نہیں کرتی ہے۔’
دی کلیکٹو کا کہنا ہے کہ وزارت دفاع کا پریس نوٹ ان کی رپورٹ میں مذکور کسی بھی حقائق کی تردید نہیں کرتا اور محض مالی امداد اور مراعات کے حوالے سے انہی نکات کو دہراتا ہے جو سینک اسکول سوسائٹی کی پالیسی میں موجود ہیں، جس کا حوالہ خود رپورٹرزکلیکٹو نے دیا ہے۔
Categories: فکر و نظر