خبریں

سپریم کورٹ نے مدرسہ ایکٹ کو منسوخ کرنے کے الہ آباد ہائی کورٹ کے فیصلے پر روک لگائی

گزشتہ 22 مارچ کو الہ آباد ہائی کورٹ نے اتر پردیش مدرسہ ایکٹ 2004 کو منسوخ کرتے ہوئے اسے غیر آئینی قرار دیا تھا۔ سپریم کورٹ نے کہا کہ اگر تشویش اس بات کو یقینی بنانے کی ہے کہ مدارس کے طلباء کو معیاری تعلیم ملے تو اس کا حل ایکٹ کو منسوخ کرنا نہیں ہے۔

(فوٹو : دی وائر)

(فوٹو : دی وائر)

 نئی دہلی: سپریم کورٹ نے جمعہ (5 اپریل) کو اتر پردیش کے مدرسہ ایکٹ کو منسوخ کرنے کے الہ آباد ہائی کورٹ کے فیصلے پر عبوری روک لگا دی ہے ۔

اس سے قبل دی وائر نے ایک رپورٹ میں بتایا تھا کہ کس طرح ہائی کورٹ کے 22 مارچ کے فیصلے، جس میں اتر پردیش مدرسہ ایکٹ، 2004 – جس کے تحت ریاست میں مدارس چلائے جاتے ہیں – کو غیر آئینی قرار دیا گیا ہے— سے مدارس کے تقریباً 10000 اساتذہ اور 26 لاکھ سے زیادہ مدارس کے طالبعلموں کا مستقبل غیر یقینی صورتحال کا شکار ہو گیا۔

ہائی کورٹ کے فیصلے کو چیلنج کرتے ہوئے پانچ عرضیاں دائر کی گئی تھیں۔

لائیو لاء کی رپورٹ کے مطابق، چیف جسٹس آف انڈیا ڈی وائی چندرچوڑ، جسٹس جے بی پاردی والا اور جسٹس منوج مشرا کی بنچ نے کہا کہ فیصلے کے خلاف عرضیوں میں اٹھائے گئے معاملے ‘باریک بینی سے غور کیے جانے کے مستحق ہیں۔’

عدالت نے کہا کہ ‘تقریباً 17 لاکھ طلبہ کی مستقبل کی تعلیم متاثر ہوگی’۔

عدالت نے اس بات پر بھی روشنی ڈالی کہ ہائی کورٹ نے بھی اس ایکٹ کو ڈھنگ سے نہیں دیکھا ہے۔ جیسا کہ دی وائر نے ایک خبر میں بتایا تھا کہ  ہائی کورٹ نے اپنے 86 صفحات پر مشتمل فیصلے میں کہا تھا کہ مدرسہ ایکٹ ‘سیکولرازم کے اصول کی خلاف ورزی ہے، جو کہ آئین کے بنیادی ڈھانچے کا ایک حصہ ہے۔’

سپریم کورٹ نے وضاحت پیش کی

لائیو لاء کے مطابق، بنچ نے کہا، ‘قانون کو رد کرتے ہوئے ہائی کورٹ نے پہلی نظر میں ایکٹ کی دفعات کو غلط سمجھا۔ ایکٹ کسی مذہبی ہدایات کا اہتمام نہیں کرتا۔ قانون کا مقصد اپنی نوعیت میں ریگولیٹری ہے۔’

عدالت نے قابل ذکر طور پر یہ بھی کہا کہ اگر مدارس کے طلباء کو معیاری تعلیم کی فراہمی کو یقینی بنانا ہے تو اس کا حل ایکٹ کو ختم کرنا نہیں ہے بلکہ طلباء کو معیاری تعلیم حاصل کرنے کو یقینی بنانے کے لیے مناسب ہدایات جاری کرنا ہوں گی۔

ہندوستان ٹائمز کی رپورٹ کے مطابق، عدالت عظمیٰ نے ہزاروں طلباء کو لازمی طور پر دوسرے اسکولوں میں منتقل کرنے اور ان کی تعلیمی سرگرمیوں کو درمیان میں خلل سے بچانے کی کوشش میں مدرسے کے طلباء کو ریگولر اسکولوں میں منتقل کرنے کے لیے ریاستی حکومت کو دیے گئے ہائی کورٹ کے حکم کو پر بھی روک لگا دی ہے۔

سپریم کورٹ نے مدارس میں پڑھنے والے طالبعلموں کو ریگولر اسکولوں میں ایڈجسٹ کرنے کے لیے ریاستی حکومت کو دی گئی ہائی کورٹ کی ہدایت میں بھی غلطی پائی ۔

عدالت نے کہا، ‘ہائی کورٹ کی طرف سے دی گئی ہدایات سے ان تعلیمی اداروں میں پڑھنے والے تقریباً 17 لاکھ طلباء کے مستقبل کی تعلیم پر منفی اثر پڑے گا۔ اگرچہ یہ پوری طرح سے طلباء اور والدین کا انتخاب ہے کہ وہ کس ادارے میں اپنی تعلیم حاصل کرنا چاہتے ہیں، تاہم ہائی کورٹ کی طرف سے طلبا کی منتقلی کی ہدایت صحیح نہیں تھی۔’

عدالت نے اس معاملے میں ریاستی اور مرکزی حکومتوں کو نوٹس جاری کرتے ہوئے 31 مئی تک حلف نامہ داخل کرنے کو کہا ہے۔

اس کے بعد یوپی مدرسہ تعلیمی بورڈ کے چیئرمین افتخار علی جاوید نے فیصلے کا خیر مقدم کیا۔

انہوں نے کہا، ‘میں اس فیصلے کا خیر مقدم کرتا ہوں اور اس کیس سے جڑے تمام لوگوں کو مبارکباد دیتا ہوں۔ بورڈ عربی، فارسی وغیرہ زبانوں کی تعلیم اور فروغ کے لیے ہے نہ کہ مذہبی تعلیم کے لیے۔ پہلے ہم سوچ رہے تھے کہ اگر طالبعلموں کو شفٹ کرنا پڑے تو کیا ہوگا؟ یہ کوئی آسان کام نہیں ہوتا۔ مسلم کمیونٹی میں لڑکیوں کی تعلیم قدرے کم ہے۔ اگرچہ لڑکوں کو دوسرے اسکولوں میں منتقل کیا جاسکتا ہو، لیکن حجاب کے بغیر لڑکیوں کو دوسرے اسکولوں میں بھیجنا ممکن نہیں ہوتا۔’