گزشتہ 6 اپریل کو سری نگر کے نوہٹہ میں واقع جامع مسجد کی منتظمہ کمیٹی انجمن اوقاف جامع مسجد نے بتایا کہ جمعہ کے روز حکام نے مسجد کے دروازے بند کر دیے اور کہا کہ شب قدر پر مسجد میں تراویح یا شب خوانی کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ اندیشہ ہے کہ اس ہفتے عید کی نماز بھی ادا کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔
نئی دہلی: کشمیر میں حکام نے سنیچر (6 اپریل) کو سری نگر کی جامع مسجد میں شب قدر کے موقع پر عبادت کرنے کی اجازت نہیں دی۔ وہیں حریت چیئرمین میر واعظ عمر فاروق کو مبینہ طور پر پھر سےنظر بند کر دیا گیا ہے۔
رپورٹ کے مطابق، میرواعظ نے کہا کہ یہ کارروائی ‘جبر’ اور ‘کشمیری مسلمانوں کی مذہبی آزادی اور حقوق پر حملے’ کی طرح تھی۔
انہوں نے کہا، ‘کشمیری مسلمانوں پر یہ جبر اب ختم ہونا چاہیے۔’
دی وائر سے بات کرتے ہوئے میرواعظ نے کہا کہ کشمیر میں مسلمانوں کے مذہبی جذبات اور احساس کی توہین ‘ناقابل قبول اور انتہائی قابل اعتراض’ تھی۔
انہوں نے مزید کہا، ‘یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے کہ حکام سب سے بڑے مذہبی مقام کو کس طرح بار بار نشانہ بنا سکتے ہیں اور ایسے اہم وقت میں مجھے گھر میں نظر بند کرنے سے پریشانی ہو سکتی ہے اور لوگوں کے تکلیف کا باعث ہو سکتا ہے۔
واضح ہو کہ سری نگر کے نوہٹہ علاقے میں واقع 14ویں صدی کی مسجد کی منتظمہ کمیٹی انجمن اوقاف جامع مسجد نے 6 اپریل کو ایک بیان میں کہا تھا کہ حکام نے دروازے بند کر دیے اور نمازیوں کو سنیچر کی دوپہر کو مسجد کے احاطے کوخالی کرنے کو کہا۔بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ اوقاف کو مطلع کیا گیا کہ شب قدر کے مقدس موقع پر جامع مسجد میں تراویح یا شب خوانی کی اجازت نہیں دی جائے گی۔
عینی شاہدین نے بتایا کہ سری نگر کے نگین علاقے میں میر واعظ کی رہائش گاہ کے مین گیٹ کے باہر پولیس اور نیم فوجی دستوں کی بڑی تعداد بھی تعینات تھی۔ مسجد کی منتظمہ کمیٹی نے کہا کہ میرواعظ کو مبینہ طور پر گھر میں نظر بند کر دیا گیا ہے۔
بیان میں یہ بھی کہا گیا کہ انجمن اوقاف حکام کے اس فیصلے پر شدید مایوسی کا اظہار کرتی ہے اور اس جابرانہ اقدام کی شدید مذمت کرتی ہے۔
کشمیر کی سب سے بڑی جامع مسجد کے علاوہ جموں و کشمیر کی دیگر اہم مساجد اور مذہبی مقامات پر سنیچر کو شب قدر کی عبادت پرامن طریقے سے کی گئی اور اس میں ہزاروں مرد و خواتین نے شرکت کی۔
قبل ازیں جمعہ کو جامع مسجد جو کشمیر میں علیحدگی پسند جذبات کا مرکز تھی، حکام نے تحریری طور پر کوئی وجہ بتائے بغیر بند کر دیا تھا۔
قابل ذکر ہے کہ جمعۃ الوداع کو بھی نماز کی اجازت نہیں دی گئی تھی اور میرواعظ، جنہوں نے جموں و کشمیر ہائی کورٹ میں اپنی ‘غیر قانونی اور من مانی حراست’ کو چیلنج کیا ہے ، انہیں مبینہ طور پر سنیچر کودوبارہ گھر میں نظر بند کر دیا گیا۔
حکام نے میر واعظ کی جانب سے ان کی نظربندی اور جامع مسجد کی بندش کے ردعمل میں بلائی گئی پریس کانفرنس کو بھی روک دیا اور تقریب کی کوریج کے لیے جانے والے میڈیا والوں کو سیکورٹی اہلکاروں نے حریت رہنما کی رہائش گاہ سے لوٹا دیا۔
اس سے قبل کشمیر پر ہندوستان اور پاکستان کے درمیان ‘ٹریک ٹو ڈائیلاگ’ میں حصہ لینے والے میرواعظ نے اپنی حراست کو ‘انتہائی افسوسناک اور بدقسمتی’ قرار دیا تھا۔ انہوں نے کہا تھا کہ اس سے جموں و کشمیر کے لوگوں کو ‘بڑی پریشانی ہوئی ہے اور دکھ پہنچا ہے’۔
انہوں نے کہا تھا، ‘ہم… اس آمریت اور ہمارے مذہبی حقوق کی براہ راست خلاف ورزی پر احتجاج کرتے ہیں۔’
میرواعظ، جو کشمیر کے چیف عالم دین بھی ہیں، کو دفعہ 370 کی منسوخی کے بعد گزشتہ ماہ رمضان کے دوران پہلی بار جامع مسجد میں نماز جمعہ ادا کرنے کی اجازت دی گئی تھی۔ گزشتہ سال ستمبر میں رہائی کے بعد انہیں یہ چوتھی بار اجازت ملی تھی۔
دریں اثنا، حکام کی جانب سے جامع مسجد میں عید کی نماز کی اجازت دینے کا بھی امکان نہیں ہے، جو اگلے بدھ یا جمعرات کو منائی جائے گی۔
قابل ذکر ہے کہ 5 اگست 2019، جب سے جموں و کشمیر کو دو مرکز کے زیر انتظام علاقوں میں تقسیم کیا گیا ہے کے ، کے بعد سےاس مسجد میں کوئی بھی عید کی نماز نہیں ہوئی ہے۔
اس ماہ کے شروع میں مرکز کے زیر انتظام علاقے میں کچھ اہم مذہبی مقامات اور مساجد کے انتظامی ادارے جموں و کشمیر وقف بورڈ کے سربراہ درشن اندرابی نے کہا تھا کہ سری نگر میں عیدگاہ میدان آئندہ عید کی نماز کے لیے مناسب نہیں ہے۔
اندرابی نے کہا، ‘زمین خستہ حال ہے۔ ہمارے لوگوں نے اسے پچھلے چند برسوں میں برباد کر دیا ہے اور یہ کھیل کا میدان لگتا ہے۔ بحالی میں کافی وقت اور وسائل درکار ہوں گے۔ ایک نیا پلیٹ فارم بنایا جا رہا ہے اور ایک ٹینڈر پہلے ہی جاری کیا جا چکا ہے۔ لیکن جب زمین ہی ٹھیک نہیں تو وہاں (عید) کی نماز کیسے ادا کی جائے گی؟
Categories: خبریں