وزیر اعظم نریندر مودی کی حکومت انتخابات کے آغاز کے اعلان سے پہلے سرکاری اخراجات پر بڑے پیمانے پر انتخابی مہم چلا چکی ہے۔ اس طرح وہ اس ریس میں پہلے ہی دوڑنا شروع کر چکی تھی جبکہ اپوزیشن جماعتیں اس کے آغاز کے اعلان کا انتظار کر رہی تھیں۔
کامیڈی فلم ‘دی ڈکٹیٹر’ (2012) کا ایک مشہور زمانہ سین ہے ۔ ڈکٹیٹر 100 میٹر ریس میں حصہ لے رہا ہے۔ ریس کی شروعات کا اعلان کرنے والی پستول اسی کے پاس ہے۔ وہ خود دوڑنا شروع کر دینے کے بعد اسے فائر کرتا ہے۔ پھر وہ ایک ایک کر کے دوسرے رنرز کو گولی مارتا ہوا بھاگتا ہے۔ وہ گرتے رہتے ہیں۔ اس طرح وہ اکیلا دوڑنے والا رہ جاتا ہے۔ ریس کے آخری مقام پر فیتہ لے کر کھڑے لوگ فیتہ لے کر آگے آ جاتے ہیں۔ وہ اس فیتے کو عبور کرلیتا ہے اور ریس جیت جاتا ہے۔ اس طرح ڈکٹیٹر اپنے ہی اولمپکس میں 14 تمغے جیت لیتا ہے۔
ہندوستان میں 18ویں لوک سبھا کے انتخابات کے اعلان کے بعد ‘دی ڈکٹیٹر’ کا یہ سین سوشل میڈیا پر کافی مقبول ہوگیا ہے ۔ لوگ لکھ رہے ہیں کہ ہندوستان میں یہی ہو رہا ہے۔ اور ایسا کہنے کی وجہ ہے۔
ہندوستان کو رسمی طور پر تاناشاہی نہیں کہا جائے گا۔ لیکن انتخابات سے پہلے جو کچھ ہو رہا ہے وہ کسی حد تک اس دوڑ سے مماثل ہے۔ وزیر اعظم نریندر مودی کی حکومت انتخابی دوڑ شروع ہونے کے اعلان سے پہلے سرکاری اخراجات پر بڑے پیمانے پر اپنی مہم چلا چکی تھی۔ اس طرح وہ پہلے ہی دوڑنا شروع کر چکی تھی جبکہ اپوزیشن جماعتیں انتخابات کے اعلان کا انتظار کر رہی تھیں۔
انتخابات کے اعلان سے عین قبل حکومت نے انتخابات کی نگرانی کرنے والے الیکشن کمیشن کے ارکان کے انتخاب کے اصول کو تبدیل کر دیا۔ سلیکشن کمیٹی میں پہلے وزیر اعظم اور اپوزیشن لیڈر کے ساتھ چیف جسٹس آف انڈیا بھی شامل تھے۔ حکومت نے اصول میں تبدیلی کرتے ہوئے چیف جسٹس کو کمیٹی سے ہٹا کر ان کی جگہ سرکار کے ہی ایک وزیر کو رکھ لیا۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ اب الیکشن کمیشن کے انتخاب میں حکومت کی رائے ہی سب سے اہم ہوگی۔ یہ ایسے ہی ہے جیسے کسی کھیل میں شریک کئی ٹیموں میں سے صرف ایک ٹیم کا کپتان ہی امپائر مقرر کرے۔ اس کی غیر جانبداری کے بارے میں کہنے کو پھر کیا رہ جاتا ہے!
انتخابات کے اعلان کے ساتھ ہی دہلی کے وزیر اعلیٰ اور اپوزیشن پارٹی عام آدمی پارٹی کے سب سے بڑے لیڈر اروند کیجریوال کو گرفتار کر لیا گیا۔ اس سے ایک ماہ قبل جھارکھنڈ کے وزیر اعلیٰ ہیمنت سورین کو گرفتار کیا گیا تھا۔ تلنگانہ کے بھارت راشٹر سمیتی لیڈر کے کویتا کو پہلے ہی جیل میں ڈال دیا گیا ہے۔
عام آدمی پارٹی کے تین اور رہنما – دہلی کے سابق نائب وزیر اعلیٰ منیش سسودیا، سابق وزیر صحت ستیندر جین اور راجیہ سبھا کے رکن سنجے سنگھ پہلے ہی جیل میں تھے۔ سنجے سنگھ کو حال ہی میں سپریم کورٹ نے دہلی ہائی کورٹ کے فیصلے کو پلٹتے ہوئے ضمانت دی ہے۔
یہ دلچسپ بات ہے کہ جس جج نے سنجے سنگھ کی ضمانت کی درخواست مسترد کی تھی اسی جج نے اروند کیجریوال کی گرفتاری کو درست قرار دیا ہے۔ اروند کیجریوال کی گرفتاری کا جواز پیش کرنے کے لیے انہوں نے وہی دلائل دہرائے ہیں جنہیں سپریم کورٹ نے مسترد کرتے ہوئے سنجے سنگھ کو ضمانت دی ہے۔
ہائی کورٹ نے اروند کیجریوال کے وزیر اعلیٰ اور ایک اہم سیاستدان ہونے کی وجہ سے انہیں رعایت دینے سے انکار کر دیا۔ لیکن انہی جج نے ابھی ایک اور سیاستدان دلیپ رے کی سزا کو یہ کہتے ہوئے ملتوی کر دیا کہ وہ ایک اہم سیاستدان ہیں اور انہیں الیکشن لڑنا ہے۔ خیال رہے کہ دلیپ رے کو سزا ہو چکی ہے اور اروند کیجریوال کے معاملے کی تفتیش ابھی تک مکمل نہیں ہوئی ہے۔ لوگوں کی قیاس آرائیاں ہیں کہ دلیپ رے بی جے پی سے الیکشن لڑیں گے یا ان کی حمایت کریں گے۔ جج کے اس کھلے تعصب کو سب نے نوٹ کیا۔
ان گرفتاریوں سےاپوزیشن کی انتخابی مہم پر اثر پڑنا لازمی ہے۔ ان کے علاوہ مختلف سرکاری ایجنسیاں اپوزیشن جماعتوں کے دیگر رہنماؤں کو مختلف معاملات میں نوٹس بھیج رہی ہیں۔ بہار کے سابق وزیر اعلیٰ اور اپوزیشن لیڈر لالو یادو کو تقریباً 25 سال پرانے معاملے میں مدھیہ پردیش سے گرفتاری کا وارنٹ بھیجا گیا ہے۔ اس سے صاف ظاہر ہے کہ حکومت کی یہ جانچ ایجنسیاں اپوزیشن لیڈروں کو کسی نہ کسی طرح الجھائے رکھنا چاہتی ہیں تاکہ وہ پوری توجہ اور توانائی انتخابی مہم پر صرف نہ کر سکیں۔
اروند کیجریوال کی گرفتاری کے ساتھ ہی ملک کی سب سے بڑی اپوزیشن پارٹی کانگریس پارٹی کو محکمہ انکم ٹیکس نے تقریباً 1800 کروڑ روپے کے واجبات ادا کرنے کا نوٹس بھیجا ہے۔ اس سے پہلے انہیں بتائے بغیر حکومت نے ان کے کھاتوں سے 135 کروڑ روپے نکال لیے۔ یہی نہیں ان کے تمام بینک اکاؤنٹس بھی فریز کر دیے گئے ہیں۔ کانگریس پارٹی یہ کہنے میں حق بجانب ہے کہ حکومت نے یہ ٹھیک اس وقت اس لیے کیا ہے کہ وہ پیسے کی کمی کی وجہ سے انتخابی مہم چلا ہی نہ سکے۔
ان سب کے ساتھ ہر روز کسی نہ کسی اپوزیشن پارٹی کے لیڈر کے بی جے پی میں شامل ہونے کی خبریں آتی رہتی ہیں۔ یہ ایک کھلا راز ہے کہ یہ سبھی سرکاری تفتیشی ایجنسیوں کے خوف سے اپنی پارٹی چھوڑ کر بی جے پی میں شامل ہو رہے ہیں۔ مثال کے طور پر حال ہی میں عام آدمی پارٹی کے ایک لیڈر نے پارٹی چھوڑ دی ہے۔ ای ڈی نے حال ہی میں ان کے یہاں چھاپے ماری کی تھی۔ مہاراشٹر کے سابق وزیر اعلیٰ اور کانگریس لیڈر اشوک چوہان اور سابق نائب وزیر اعلیٰ اور نیشنلسٹ کانگریس پارٹی کے لیڈر اجیت پوار کو خود وزیر اعظم نے جیل بھیجنے کی دھمکی دی تھی۔ آج دونوں بی جے پی میں ہیں۔
انڈین ایکسپریس نے بی جے پی میں شامل ہونے والے اپوزیشن پارٹی کے 25 ایسے لیڈروں کے ریکارڈ کا جائزہ لینے کے بعد بتایا ہے کہ بی جے پی میں شامل ہونے کے بعد ان میں سے 23 کے خلاف مقدمات بند کر دیے گئے ہیں۔ اس طرح اپوزیشن جماعتوں کو کھوکھلا کیا جا رہا ہے۔ اس سے عوام میں یہ وہم بھی پیدا ہوتا ہے کہ اپوزیشن جماعتیں شکست کے خوف سے گھبراہٹ کا شکار ہیں اور وہ کچھ سنبھال نہیں پا رہی ہیں۔
اگر اس وقت بڑے میڈیا کے کردار پر نظر ڈالی جائے تو وہ کھلے عام بی جے پی اور نریندر مودی کی تشہیر کرتا نظر آتا ہے۔ انتخابات کے اعلان کے بعد میڈیا پلیٹ فارم ایسے پروگرام ترتیب دے رہے ہیں جن میں وزیراعظم اور حکومت کے دیگر وزراء کو انتخابی مہم چلانے کا پورا موقع ملے۔ میڈیا عوام میں یہ خیال بھی پھیلا رہا ہے کہ اپوزیشن کمزور ہے، وزیراعظم مقبول بنے ہوئے ہیں اور ان کا کوئی متبادل نہیں ہے۔
اس بڑے میڈیا کے متوازی جو میڈیا ہے اس کو کسی نہ کسی بہانے حکومت بند کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ بہت سے مقبول اور حکومت کی تنقید کرنے والے یوٹیوب چینلوں کو نوٹس دیے جا رہے ہیں یا بند کیا جا رہا ہے۔ اس طرح عوام کے پاس حکومت کے علاوہ کسی پارٹی کی رائے جاننے کا کوئی طریقہ نہیں رہ جائے گا۔
انتخابی مہم کے پہلے ہی دن سے وزیر اعظم سمیت بی جے پی کے پرچارکوں نے ووٹروں کو فرقہ وارانہ خطوط پر تقسیم کرنا شروع کر دیا ہے۔ نریندر مودی نے کہا کہ کانگریس پارٹی کے انتخابی منشور کے ہر صفحے پر مسلم لیگ کی چھاپ ہے۔ اس کے علاوہ وہ اپوزیشن جماعتوں کو رام مخالف قرار دے رہے ہیں اور عوام سے انہیں سبق سکھانے کو کہہ رہے ہیں۔ انتخابی ضابطہ اخلاق کی کھلم کھلا خلاف ورزی کر رہے ہیں۔ لیکن کیا ان کا مقرر کردہ الیکشن کمیشن ان پر پابندی لگا سکے گا؟
باہر کے ممالک یہ سب کچھ دیکھ رہے ہیں۔آزاد ہندوستان کی تاریخ میں یہ پہلا موقع ہے کہ اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل کے نمائندے نے یہ بیان دینا ضروری سمجھا ہے کہ وہ امید کرتے ہیں کہ ہر ایک کے شہری اور آئینی حقوق کا تحفظ کیا جائے گا۔ اور تمام لوگ آزادانہ طور پر انتخابات میں حصہ لے سکیں گے۔ کیا ان کی یہ تشویش بے جا ہے؟
یہ الیکشن ہندوستان میں جمہوریت کے مستقبل کے لیے بہت اہم ہے۔واضح رہے کہ اس وقت ہندوستان کے تمام آئینی اداروں نے فیصلہ کیا ہے کہ وہ بی جے پی کی جانب سے کام کریں گے اور میڈیا نے اس کے پروپیگنڈہ کا کردار سنبھال لیا ہے۔ اپوزیشن جماعتوں کے ہاتھ پاؤں باندھے جا رہے ہیں۔ ایسے میں امید صرف عوام سےہے کہ وہ یہ سب کچھ سمجھے گی اور اپنا کردار ادا کرے گی۔
(اپوروانند دہلی یونیورسٹی میں پڑھاتے ہیں۔)
Categories: الیکشن نامہ, فکر و نظر