خبریں

کرناٹک: بی جے پی ایم پی تیجسوی سوریہ بینک گھوٹالے کے متاثرین کے سوالوں کو ٹال کر پروگرام بیچ میں ہی چھوڑ کر بھاگے

کرناٹک سے بی جے پی ایم پی تیجسوی سوریہ بسون گڈی کے ایم ایل اے روی سبرامنیا کے ساتھ شری گرو راگھویندر کوآپریٹیو بینک کے متاثرین کی ایک میٹنگ میں پہنچے تھے۔ تیجسوی اپنے انتخابی اجلاس میں بے ضابطگیوں کے الزامات کے بعد بین ہوئے اس بینک میں پیسہ جمع کرنے والوں کو انصاف دلانے کی بات کر رہے ہیں۔

تیجسوی سوریہ۔ تصویر بہ شکریہ: X/@Tejasvi_Surya

تیجسوی سوریہ۔ تصویر بہ شکریہ: X/@Tejasvi_Surya

نئی دہلی: بنگلورو ساؤتھ سیٹ سے لوک سبھا ایم پی تیجسوی سوریہ اپنے چچا اور بسون گڈی کے ایم ایل اے روی سبرامنیا کے ساتھ سنیچر (13 اپریل) کو میٹنگ درمیان میں ہی چھوڑ کر نکل گئے۔ یہ عوامی میٹنگ شری گرو راگھویندر کوآپریٹیو (ایس جی آر سی) بینک کے متاثرین کی تھی، جس میں بینک کے معاملے پر ان کے ساتھ تبادلہ خیال کیا جانا تھا۔

رپورٹ کے مطابق، اس ‘سہکار سماگم’ میٹنگ میں پہنچے لوگوں کا خیال تھا کہ یہ پروگرام بینک کی بحالی کے بارےمیں ہے۔ تاہم، جب وہ پروگرام میں پہنچے، تو انہوں نے محسوس کیا کہ تیجسوی اور روی سبرامنیا دونوں اپنی انتخابی مہم کے تحت اس میٹنگ کی میزبانی کر رہے تھے۔

اتوار کو سامنے آئے پروگرام کے ایک ویڈیو میں ایک خاتون روی سبرامنیا سے سوال کرتی دکھائی دے رہی ہیں، جسے سبرامنیا خارج کر رہے ہیں اور جب خاتون ان تک پہنچنے کی کوشش کر رہی تھی، تو اس کا ہاتھ پیچھے کی طرف دھکیل دیا۔

ایک اور ویڈیو میں تیجسوی سوریہ کو غصے میں پروگرام سے باہر جاتے ہوئے دیکھا گیا، جبکہ ہجوم کو یہ کہتے ہوئے سنا جا سکتا ہے کہ ‘ان کے سوالوں کا جواب دو۔’

واضح ہو کہ ایس جی آر سی بینک گھوٹالے سے 20 ہزار سے لوگ متاثر ہوئے ہیں۔ الزام ہے کہ 1000 کروڑ روپے سے زیادہ کی رقم کا غلط استعمال کیا گیا ہے۔ اس کیس کی تحقیقات اینٹی کرپشن بیورو اور کرمنل انویسٹی گیشن ڈپارٹمنٹ نے کی ہے۔ ریاستی حکومت کی جانب سے گزشتہ سال یہ کیس انفورسمنٹ ڈائریکٹوریٹ (ای ڈی) کے حوالے کرنے کے بعد فی الحال اس کی جانچ سی بی آئی کر رہی ہے۔

متاثرین کے مطابق، روی سبرامنیا تقریب میں دیر سے پہنچے اور بینک کی بحالی کے منصوبے کے بارے میں سوالوں کو انہوں نے ٹال دیا۔ تاہم، انہوں نے گزشتہ سال مئی میں اپنی انتخابی مہم کے دوران اسے حل کرنے کا وعدہ کیا تھا۔ جن متاثرین نے جواب کے لیے دباؤ ڈالا، ان کے ساتھ بدسلوکی کی گئی۔ کشیدگی اس وقت مزید بڑھ گئی جب اجلاس کو ‘انتخابی اجلاس’ قرار دینے کا اعلان کیا گیا اور کہا گیا کہ یہاں سوال پوچھنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔

اس پروگرام میں شامل ہونے والے ایک شخص نے دی نیوز منٹ کو بتایا، ‘روی نے وعدہ کیا تھا کہ وہ اسمبلی انتخابات کے بعد بینک کی بحالی کے مکمل خاکہ کے ساتھ ایک پاور پوائنٹ پریزنٹیشن دیں گے۔ لیکن جب خاتون (ویڈیو میں) نے ان سے اس بارے میں پوچھنے کی کوشش کی تو انہوں نے کوئی مناسب جواب نہیں دیا۔ بعد میں ہمیں بتایا گیا کہ یہ ایک انتخابی میٹنگ تھی نہ کہ شکایت کے ازالے کی میٹنگ۔ ہمیں کہا گیا کہ ہم ایم ایل اے اور ایم پی کی تقریریں سنیں اور کسی کو بھی سوال کرنے کی اجازت نہیں ہے۔’

پروگرام میں شامل متاثرین اور ایم ایل اے کے حامیوں کے درمیان جھگڑا شروع ہوگیا اور حالات کو بگڑنے سے روکنے کے لیے پولیس کو مداخلت کرنا پڑی۔

ایک شخص نے کہا کہ جب تک تیجسوی سوریہ پروگرام میں پہنچے، تب تک ان کے حامیوں نے بزرگ شہریوں سمیت اکثر متاثرین کو پروگرام سے باہر کر دیا تھا۔

متاثرہ شخص کے مطابق، ‘ایم پی نے لوگوں کے کسی بھی سوال کا جواب نہیں دیا۔ انہوں نے تو بس جھوٹ کی جھڑی لگا دی۔ انہوں نے کہا کہ انہوں نے یہ کیا، وہ کیا اور لوگوں کی جانب سے پوچھے گئے کسی بھی سوال کا جواب نہیں دیا۔ ان کے کچھ حامیوں نے زوردار تالیاں بجائیں۔ یہاں تک کہ انہوں نے بینک کی ناکامی کے لیے  متاثرین کو ہی ذمہ دار ٹھہرایا اور یہ کہہ کر میٹنگ سے بھاگ گئے کہ بینک کی بحالی صرف ان کی پارٹی اور وہ خود ہی کر سکتے ہیں۔’

یہ ویڈیو تیجسوی سوریہ کے لیے شرمندگی کا باعث ہے، جو اس مسئلے کو اپنی انتخابی مہم کے لیے استعمال کر رہے ہیں اور 85 فیصد متاثرین کو پیسہ لوٹانے کا کریڈٹ لینے کا دعویٰ کر رہے ہیں۔

اپنی انتخابی مہم کے ایک ویڈیو میں انہوں نے کہا تھا، ‘میں نے متاثرین کے لیے عدالت کے اندر ایک وکیل اور پارلیامنٹ میں ایم پی  کے طور پر ان کی نمائندگی کرتے ہوئے لڑائی لڑی۔ بینکنگ ریگولیشن ایکٹ میں ترمیم کی گئی، تمام کوآپریٹو بینکوں کو آر بی آئی کی نگرانی میں لایا گیا۔’

دریں اثنا، کانگریس نے مبینہ طور پر متاثرین  کے ساتھ مار پیٹ کرنے اور اس واقعہ کو ریکارڈ کرنے والے انتخابی عہدیداروں پر حملہ کرنے کے لیے تیجسوی سوریہ اور روی سبرامنیا کے خلاف الیکشن کمیشن آف انڈیا میں شکایت درج کرائی ہے۔

اس بینک کے سلسلے میں بناس واڑی پولیس نے 7 فروری 2020 کو دھوکہ دہی، مجرمانہ سازش، اعتماد کی مجرمانہ خلاف ورزی سے متعلق آئی پی سی کی دفعات اور کرناٹک پروٹیکشن آف ڈپازٹرز کے مفادات کی سیکورٹی ایکٹ کی دفعہ 9 کے تحت مقدمہ درج کیا تھا۔

ای ڈی نے پایا ہے کہ بینک کے افسران اور ملازمین نے پیسے کی ہیراپھیری کی ہے۔ ڈپازٹرز کو راغب کرنے کا ایک طریقہ یہ تھا کہ ان سے سود کی شرح موجودہ مارکیٹ ریٹ سے زیادہ دینے کا وعدہ کیا جائے۔ ای ڈی نے کہا تھا کہ بینک ملازمین اور عہدیداروں نے بغیر مناسب دستاویزوں کے فرضی لون اکاؤنٹس کھولے اور بینک کو مالی طور پر مضبوط دکھانے کے لیے رقم کو اوور ڈیو لون اکاؤنٹس میں منتقل کر دیا۔ فروری میں ای ڈی نے عدالت کو بتایا تھا کہ اسے 1544 کروڑ روپے کے 2000 سے زیادہ قرضوں کے لیے کوئی دستاویز نہیں ملا۔

اس معاملے میں گرفتار ہونے والوں میں سے ایک راجیش وی آر ہیں، جو اپنی بیوی ناگولی بی ایس کے ساتھ دوسرے بینکوں میں اسی طرح کے کئی معاملات میں ملزم ہیں۔

جنوری 2020 میں ریزرو بینک آف انڈیا (آر بی آئی ) نے اس بینک پر پابندی لگا دی تھی۔ بینک کو آر بی آئی کی پیشگی منظوری کے بغیر نئے قرض جاری کرنے یا نئی سرمایہ کاری کرنے سے روک دیا گیا تھا۔ اس کے بعد کسی بھی جمع کنندہ کے کھاتے سے 35 ہزار روپے سے زیادہ نکالنے پر بھی پابندی لگا دی گئی۔ بعد میں رقم نکالنے کی حد بڑھا کر ایک لاکھ روپے کر دی گئی۔

(انگریزی میں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں ۔ )