خبریں

الیکشن کمیشن کے سیاسی پوسٹ ہٹانے کے احکامات کی تعمیل کرتے ہوئے ایکس نے کہا، اس کارروائی سے متفق نہیں ہیں

الیکشن کمیشن نے 2 اور 3 اپریل کو ایکس کو ماڈل کوڈ آف کنڈکٹ کی خلاف ورزی کا حوالہ دیتے ہوئے کچھ پوسٹ ہٹانے کو کہا تھا۔ ان میں وائی ایس آر کانگریس، عام آدمی پارٹی، این چندر بابو نائیڈو اور بی جے پی لیڈر اور بہار کے نائب وزیر اعلیٰ سمراٹ چودھری کے پوسٹ شامل ہیں۔

(کریڈٹ: ایکس)

(کریڈٹ: ایکس)

نئی دہلی: سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس (سابقہ  ٹوئٹر) نے ایک بیان جاری کیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ اس نے الیکشن کمیشن آف انڈیا (ای سی آئی) کے قانونی احکامات کی تعمیل میں اپنی ویب سائٹ سے چار پوسٹ کو ہٹا دیا ہے، لیکن وہ ‘اس کارروائی سے متفق نہیں ہے۔’

رپورٹ کے مطابق، ایکس کی گلوبل گورننس افیئرز ٹیم نے کہا، ‘الیکشن کمیشن نے منتخب رہنماؤں، سیاسی جماعتوں اور امیدواروں کی جانب سے شیئر کیے گئے سیاسی پوسٹ کو ہٹانے کا حکم دیا ہے۔ اس حکم کی تعمیل کرتے ہوئے ہم نے انتخابی مدت تک ان پوسٹوں پر پابندی لگائے رکھنے کا فیصلہ کیا ہے۔ حالاں کہ، ہم اس کارروائی سے متفق نہیں ہیں اور سمجھتے ہیں کہ اظہار رائے کی آزادی کا اطلاق ان پوسٹوں اور سیاسی بیانات پر یکساں طور پر ہونا چاہیے۔’

معلوم ہو کہ الیکشن کمیشن نے ایکس کو 2 اور 3 اپریل کو ان پوسٹوں کو ہٹانے کے احکامات جاری کیے تھے اور انہیں ماڈل ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی قرار دیا تھا۔ کمیشن نے جن پوسٹ کو ہٹانے کی ہدایت دی تھی ان میں وائی ایس آر کانگریس، عام آدمی پارٹی، این چندر بابو نائیڈو اور بھارتیہ جنتا پارٹی کے لیڈر اور بہار کے نائب وزیر اعلیٰ سمراٹ چودھری کے پوسٹ شامل ہیں۔

الیکشن کمیشن نے اس حکم نامے کے پیچھے ماڈل کوڈ آف کنڈکٹ کے پارٹ 1 کی شق 2 کا حوالہ دیا ہے، جس میں کہا گیا ہے کہ پارٹیوں اور امیدواروں کو دوسری جماعتوں کے رہنماؤں یا کارکنوں کی ذاتی زندگی کی بنیاد پر سیاسی جماعتوں کو تنقید کا  نشانہ بنانے سے گریز کرنا چاہیے۔ اس کے علاوہ ‘غیر مصدقہ الزامات یا مسخ شدہ بیانات’ جن کی کوئی بنیاد نہیں ہے، یہ حکم ان پربھی پابندی عائد کرتا ہے۔

کمیشن نے اس حوالے سے گزشتہ ماہ تمام سیاسی جماعتوں کو ایک ایڈوائزری بھی جاری کی ہے، جس میں سیاسی کارکنوں سے بھی ایسے ہی مطالبات کیے گئے تھے۔

اب،ایکس نے کہا کہ وہ ‘شفافیت کے مفاد میں’ ان پوسٹوں کو ہٹانے کے حکم  کو شائع کر رہا ہے اور متعلقہ صارفین کو بھی اس سے آگاہ کر دیا گیا ہے۔ ایکس نے مزید کہا، ‘ہم الیکشن کمیشن سے بھی مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ ہٹائے گئے تمام پوسٹوں سے متعلق احکامات شائع کرے۔’

ایکس کو ایک ای میل میں کمیشن نے یہ بھی کہا کہ سوشل میڈیا پلیٹ فارم نے رضاکارانہ ضابطہ اخلاق کی پابندی کرنے پر رضامندی ظاہر کی ہے، جس کے تحت اسے الیکشن کمیشن سے قانونی درخواستوں کا فوری جواب دینے اور اپنے پلیٹ فارم کے غلط استعمال کو روکنے کی ضرورت ہے۔

اس سے قبل فروری میں ایکس نے کہا تھا کہ حکومت نے کچھ اکاؤنٹس اور پوسٹس کو ہٹانے کو کہا ہے، جس کے بعد یہ پوسٹس ہندوستان میں نظر نہیں آئیں گے۔ تب بھی ایکس نے کہا تھا کہ وہ حکومت کے اس اقدام سے متفق نہیں ہیں، لیکن ان کے حکم پر عمل کریں گے۔

احکامات کی تعمیل میں ایکس نے کہا، ‘ہم ان تمام اکاؤنٹس اور پوسٹس کو صرف ہندوستان میں ہی بلاک کریں گے۔ تاہم، ہم ان اقدامات سے متفق نہیں ہیں اور سمجھتے ہیں کہ اظہار رائے کی آزادی کا اطلاق ان پر بھی ہونا چاہیے۔

ایکس نے مزید کہا کہ قانونی پابندیاں ہندوستانی حکومت کے احکامات کو شائع کرنے سے ایکس کو روکتی ہیں، اس کے باوجود سائٹ کا ماننا ہے کہ انہیں شائع کیا جانا چاہیے۔ اس میں یہ نہیں بتایا گیا ہے کہ پابندیاں کیا ہیں۔

غور طلب ہے کہ یہ پوسٹ ملک گیر خدشات کے درمیان سامنے آیا ہے، جب ایک درجن سے زیادہ ایکس اکاؤنٹس، جو کسان تنظیموں اور یونینوں کے ان کے ‘دہلی چلو’ احتجاج سے پہلے ان کے آفیشل پیجز کے طور پر کام کرتے تھے، ان کو ہندوستان میں بلاک کر دیا گیا ہے۔

قابل ذکر ہے کہ گزشتہ سال اپریل میں بی بی سی کو دیے گئے ایک انٹرویو میں مسک نے کہا تھا کہ وہ ٹوئٹر ملازمین کو جیل بھیجے جانے کی صورت حال کا سامنا کرنے کے بجائے ہندوستانی حکومت کی جانب سے جاری کردہ بلاکنگ آرڈرز کی تعمیل کریں گے ۔