اتراکھنڈ کے کئی گاؤں فوجیوں کے گاؤں کے طور پر جانے جاتے ہیں۔ ریاست کی معیشت اور سماجی نظام کا ایک بڑا حصہ فوج سے وابستہ ہے۔ اگنی پتھ اسکیم کے آنے کے بعد یہ نظام بحران کا شکار ہے۔
دہرادون: چمولی ضلع کی پنڈر گھاٹی کا سواڑ گاؤں اپنی فوجی روایت کی وجہ سے ‘سینک گاؤں’ کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔تقریباً ایک ہزار کی آبادی والے اس گاؤں میں آج رائفل مین یا سپاہی سے لے کر صوبیدار میجر اور کیپٹن رینک تک کے تقریباً 350 سابق فوجی رہتے ہیں۔ ان کے علاوہ فوج کی 42 بیوائیں بھی ہیں۔ اس وقت اس گاؤں کے 135 ان-سروس فوجی گڑھوال رائفلز سے لے کرآرمی اور نیم فوجی دستوں میں ہیں۔ اس گاؤں کے 22 فوجیوں نے دوسری جنگ عظیم میں بھی حصہ لیا تھا۔
سواڑ کوئی واحد گاؤں نہیں ہے۔ اتراکھنڈ کے کئی گاؤں فوجیوں کے گاؤں کے طور پر جانے جاتے ہیں۔ ریاست کی معیشت اور سماجی نظام کا ایک بڑا حصہ فوج سے وابستہ ہے۔ اگنی پتھ اسکیم کے آنے کے بعد یہ نظام بحران کا شکار نظر آرہا ہے۔
وزیر مملکت برائے دفاع اجئے بھٹ کی جانب سے 17 مارچ 2023 کو لوک سبھا میں دی گئی جانکاری کے مطابق، اس وقت ملک میں کل 2998473 دفاعی پنشنرز ہیں۔ ان میں اتراکھنڈ کے دفاعی پنشنرز کی تعداد 164479 ہے۔ اس طرح، 2011 کی مردم شماری کے مطابق، اتراکھنڈ کی آبادی میں سابق فوجیوں کا فیصد 1.63 ہے، جو ہریانہ، پنجاب، مہاراشٹر، راجستھان، بہار، اور اتر پردیش جیسی ریاستوں سے کہیں زیادہ ہے۔ اتراکھنڈ میں سابق فوجیوں کا فیصد ہماچل پردیش (1.75) کے بعد ملک میں دوسرے نمبر پر ہے۔ اتراکھنڈ حکومت کے سینک کلیان ندیشالیہ کی ویب سائٹ پر دی گئی تفصیلات کے مطابق، ریاست کی کل آبادی کا 10 فیصد حصہ ان-سروس اور ریٹائرڈ فوجی اور ان کے خاندانوں کا ہے۔ اس طرح اگنی پتھ اسکیم کی ریاست کی معیشت پر پڑنے والے اثرات کا آسانی سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔
ایکس سروس مین لیگ (چمولی) کے صدر اور چمولی کے سابق ڈسٹرکٹ آرمی ویلفیئر آفیسر کرنل ڈی ایس برت وال کے مطابق، فوج پہاڑ کے لوگوں کی روزی روٹی کا بنیادی ذریعہ رہی ہے۔ اس ریاست میں دو بڑی آرمی رجمنٹ، گڑھوال اور کماؤں کے ہیڈ کوارٹر ہیں۔ یہ دونوں رجمنٹ گڑھوال اور کماؤں علاقوں کے لیے روزگار کا اہم ذریعہ رہی ہیں۔ لیکن 2019 کے بعد سے باقاعدہ بھرتیاں نہیں ہوئی ہیں۔ سب سےپہلے کووڈ آیا، اور پھر اس کے بعد باقاعدہ بھرتی کے بجائے اگنی ویروں کی بھرتی ہونے لگی۔ 2019-20 کی آخری باقاعدہ بھرتی میں ریاست سے 4366 امیدواروں کی تقرری کی گئی تھی، اس کے بعد فوج کی طرف سے دی گئی معلومات کے مطابق پچھلے دو سالوں میں صرف 3000 نوجوان ہی اگنی ویر بنے ہیں۔
بہادری اور قربانی کی روایت
برطانوی سلطنت کے دوران وکٹوریہ کراس جنگ میں بہادری کے لیے اعلیٰ ترین ایوارڈ تھا۔ ملک کے دو ابتدائی وکٹوریہ کراس گڑھوال کے فوجیوں کو ملے تھے – چمولی گڑھوال کے گاؤں کافرتیر میں پیدا ہوئے دربان سنگھ نیگی اور ضلع ٹہری کے چمبہ گاؤں کے گبر سنگھ نیگی کو۔
لیفٹیننٹ جنرل (سبکدوش) موہن چندر بھنڈاری کے مطابق، اگنی ویر اسکیم اتراکھنڈ کی شاندار روایت پر حملہ ہے۔ فوج نہ صرف اتراکھنڈ کے لوگوں کے لیے روزگار کا ذریعہ ہے بلکہ ریاست کی روایت اور ثقافت کا بھی ایک لازمی حصہ ہے۔
فوج میں شامل ہونے کے بعد نوجوان پہلے سپاہی یا رائفل مین بنتا ہے اور پھر لانس نایک سے شروع ہو کر اپنی اہلیت کے مطابق نایک، حوالدار، نائب صوبیدار، صوبیدار اور صوبیدار میجر تک کا سفر طے کرتا ہے۔ نیز، اعزازی یا آنریری لیفٹیننٹ یا کپتان بننے کے امکانات بھی ہوتے ہیں۔ اگنی ویر کے 4 سال فوجی کے لیے ترقی کے امکانات کو کم کر دیتے ہیں۔ جنرل بھنڈاری نے خدشہ ظاہر کیا کہ اگنی پتھ اسکیم سے پہلے سے ہی نقل مکانی کے مسئلے کا سامنا کر رہے اتراکھنڈ میں بے روزگاری کی وجہ سے نقل مکانی کے مسئلے میں مزید اضافہ ہو سکتا ہے۔
ایک فوجی گھرانے میں پیدا ہونے والے سینئر صحافی ارجن سنگھ بشٹ نے اگنی پتھ اسکیم کو اتراکھنڈ کی معیشت کے لیے ایک گہری چوٹ بتایا۔ ارجن سنگھ کے والد 1962 کی جنگ میں 6 ماہ تک چین میں جنگی قیدی رہے۔ وہ گھیس گاؤں کے رہنے والے ہیں، جہاں آج 60 سابق فوجی اور 25 ان-سروس فوجی ہیں۔
چمولی گڑھوال کے ایک اور فوج کی اکثریت والے گاؤں سیم سانکری کے سابق فوجی شیو سنگھ راوت اگنی پتھ اسکیم کو فوج اور خاص طور پر اتراکھنڈ جیسے زیادہ سے زیادہ فوجی دینے والے صوبوں کے لیے نقصاندہ سمجھتے ہیں۔ سابق فوجی شیو سنگھ کے خاندان کے ایک درجن سے زیادہ افراد اور رشتہ دار ان-سروس یا سابق فوجی ہیں۔ ان کے خاندان میں تین نسلوں سے بڑا بیٹا فوج میں جاتا رہا ہے۔ شیو سنگھ کے مطابق اگنی ویر نے گڑھوالی اور کماؤنی لوگوں کا روزگار چھیننے کے ساتھ ہی جذبہ بھی چھین لیا ہے۔
اتراکھنڈ کی فوجی روایت کو اس طرح سمجھیں کہ اس چھوٹی سی ریاست نے جنرل بی سی جوشی اور جنرل بپن راوت جیسے دو آرمی چیف، ایڈمرل ڈی کے جوشی جیسے بحریہ کے سربراہ اور بپن راوت اور انل چوہان جیسے دو سی ڈی ایس دیے ہیں۔ اس وقت اتراکھنڈ سے ایک درجن سے زیادہ لیفٹیننٹ جنرل، ایئر مارشل اور ایڈمرل ہیں۔ انڈین ملٹری اکیڈمی میں ہر چھ ماہ بعد ہونے والی پاسنگ آؤٹ پریڈ میں تقریباً 50 نوجوان فوجی افسران اتراکھنڈ کے ہوتے ہیں۔ کارگل جنگ میں کل 500 شہیدوں میں سے 75 کا تعلق اتراکھنڈ سے تھا۔ پہلی جنگ عظیم میں وکٹوریہ کراس کے دو فاتح بھی اتراکھنڈ سے تھے۔ اس ریاست میں زیادہ تر خاندانوں میں ایک ان-سروس یا ریٹائرڈ فوجی مل ہی جاتا ہے۔
چونکہ اتراکھنڈ کے لوگوں کی اقدار کو فوج نے سمت عطا کی ہے، اس لیے وہاں کے باشندے اگنی ویر کے حوالے سے شک و شبہ کا اظہار کرتے ہیں۔ ان کے بچے چار سال کی نوکری کے بعد کیا کریں گے؟ اس طرح اتراکھنڈ میں نقل مکانی کا مسئلہ مزید سنگین ہو سکتا ہے۔ اب تک اتراکھنڈ کے جوانوں کی آسانی سے شادی ہو جاتی تھی۔ لیکن اگنی پتھ اسکیم کی وجہ سے صورتحال بدل گئی ہے۔ اب منتخب اگنی ویر پورے 4 سال کی سروس تک شادی نہیں کر سکتے۔ بہت سے خاندان اب اگنی ویر سے شادی کرنے گریز کر رہے ہیں۔ پتھورا گڑھ ضلع کی ڈیڈیہاٹ تحصیل کے قریب پانچ سے زائد اگنی ویروں کی شادی کے رشتوں کو لڑکیاں ٹھکرا چکی ہیں ۔ اس خبر کے مطابق، سابق فوجی بھی اپنی بیٹیوں کی شادی اگنی ویر سے کرنے سے کترانے لگے ہیں۔
اتراکھنڈ بی جے پی کا مضبوط گڑھ رہا ہے۔ پارٹی تیسری بار پانچوں سیٹیں جیتنا چاہتی ہے۔ لیکن اگر بی جے پی اتراکھنڈ میں ایک بھی سیٹ ہارتی ہے (جس کا قوی امکان ہے) یا اسے اپنی سیٹ بچانے کے لیے سخت جدوجہد کرنی پڑتی ہے، خاص طور پر فوج کی اکثریت والے گڑھوال پارلیامانی حلقے میں، تو اگنی پتھ اسکیم کو اہم وجوہات میں شمار کیا جائے گا۔
(جئے سنگھ راوت آزاد صحافی ہیں۔)
Categories: فکر و نظر, گراؤنڈ رپورٹ