فکر و نظر

رام دیو اور ان کے لوگوں نے پتنجلی گروپ پر قبضہ بنائے رکھنے کے لیے ٹیکس-فری خیراتی ادارے کا استعمال کیا

پتنجلی نے یوگا اور آیوروید کو فروغ دینے کے لیے ایک خیراتی ادارہ قائم کیا تھا۔ تاہم، اس نے برسوں تک کوئی چیریٹی کا کام نہیں کیا، بلکہ اس کا استعمال اس گروپ کے بڑھتے ہوئے کاروبار کو مضبوط کرنے کے لیے کیا گیا۔

(تصویر بہ شکریہ: patanjali.group)

(تصویر بہ شکریہ: patanjali.group)

نئی دہلی:  دی رپورٹرز کلیکٹو کی تحقیقات میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ بابا رام دیو اور ان کے معاونین فنڈز اور سرمایہ کاری کے لیے ٹیکس-فری خیراتی ادارے کا استعمال کرتے ہیں، جس میں پتنجلی کی دیوالیہ کمپنی روچی سویا کی سرمایہ کاری بھی شامل ہے۔

پتنجلی گروپ سے وابستہ لوگوں نے 2016 میں یوگ چھیم سنستھان نام سے ایک غیر منافع بخش چیریٹیبل کمپنی قائم کی تھی۔ اس کا مقصد یوگا اور آیوروید مراکز کا قیام اور فروغ تھا، جس کے باعث اسے ٹیکس- فری  اسٹیٹس دیا گیا۔ رپورٹرز کلیکٹو کی تحقیقات کے دوران کمپنی کے ریکارڈ سے پتہ چلتا ہے کہ اس غیر منافع بخش تنظیم نے چھ سال تک ایک روپیہ بھی عطیہ نہیں کیا۔ اسے صرف کروڑوں روپے کی سرمایہ کاری کے لیے استعمال کیا گیا، جس میں روچی سویا میں رام دیو کے قریبی لوگوں کی سرمایہ کاری بھی شامل تھی۔

ٹیکس قوانین کے مطابق، ایسے خیراتی اداروں کے لیے تجارتی سرمایہ کاری اور منافع کے لیے کاروبار کرنے پر پابندی ہے ، تاکہ ان اداروں کو ٹیکس ادا کیے بغیر منافع کمانے کے ذرائع کے طور پر استعمال نہ کیا جا سکے۔ اس سے قبل، معمولی خلاف ورزیوں کے لیےبھی ٹیکس حکام کئی غیر منافع بخش تنظیموں کی  چھان بین کر کے ان کے خلاف مقدمہ چلا چکے ہیں  ۔ لیکن رام دیو کی چیریٹیبل کمپنی تحقیقات سے بچی رہی، باوجود اس کے کہ اس نے چیریٹی کا کوئی ایسا کام نہیں کیا جو اسے کرنا چاہیے تھا، بلکہ کمپنی کااستعمال  صرف سرمایہ کاری کو ادھر سے ادھر کرنے کے لیے کیا گیا۔

اس سے پہلے کی جانچ میں ہم نے پایا تھا کہ پتنجلی گروپ نے ایسی کئی مشکوک کمپنیاں بنائی تھیں جن کی آمدنی صفر تھی۔ لیکن ان کمپنیوں کے توسط سے خفیہ طور پر ماحولیاتی لحاظ سے اہم اراولی کی جنگلاتی زمین کی خریدوفروخت ہوئی تھی۔ انہوں نے غلط کہا تھا کہ ان زمینوں پر آیورویدک ادویات اور مصنوعات بنانے کے کارخانے قائم کیے جانے تھے۔

تاہم، یہ بتانا مشکل ہے کہ ایسی مشکوک کمپنیاں کیوں بنائی جاتی ہیں جو اپنا مبینہ کام نہیں کرتیں۔ لیکن کچھ باتیں تو واضح ہیں، ان کمپنیوں کے ذریعے حقیقی ملکیت کے حقوق چھپائے جا سکتے ہیں۔ چونکہ پیسہ بہت سے اداروں سے ہوکر گزرتا ہے، اس لیے کم از کم ٹیکس ادا کرنے کا امکان بڑھ جاتا ہے۔ اکاؤنٹنٹ اسے ‘ٹیکس پلاننگ’ کہتے ہیں۔

یوگ چھیم سنستھان نے روچی سویا (اب پتنجلی فوڈز) میں کی گئی  سرمایہ کاری سے بہت زیادہ منافع کمایا اور اس پر ٹیکس بھی ادا کیا۔ لیکن کمپنی نے ان شرائط کو پورا نہیں کیا جن کی بنیاد پر اسے ٹیکس-فری اسٹیٹس دیا گیا تھا، اور اس کے باوجود کمپنی کا یہ اسٹیٹس واپس نہیں لیا گیا۔

ہم نے آچاریہ بال کرشن اور یوگ چھیم سنستھان کو سوالنامہ  بھیج کر پوچھا کہ کیوں اس غیر منافع بخش کمپنی نے کوئی چیریٹی نہیں کی اور صرف سرمایہ کاری کے لیے اس کا استعمال کیا گیا، لیکن ہمیں کوئی جواب موصول نہیں ہوا۔

رام دیو نے انڈین نیشنل کانگریس کی قیادت والی  پچھلی حکومت میں ہوئی بدعنوانی پر انگلی اٹھاتے ہوئے بھارتیہ جنتا پارٹی کی موجودہ حکومت کی حمایت  کی اور کئی مواقع پرمسلمانوں کے خلاف نفرت  پھیلا کراقتدار کی قربت حاصل کی ۔ انہوں نے اپنا امیج بدلا اور اپنے کاروبار کو بین الاقوامی کمپنیوں سے لڑنے والے محب وطن برانڈ کے طور پر پیش کیا۔

تاہم، رپورٹرز کلیکٹو کے ذریعے دیکھے گئے دستاویزوں سے پتہ چلتا ہے کہ رام دیو اور ان کے معاونین بھی اکاؤنٹنٹس اور وکلاء کی ٹیموں کی مدد سے قانون سے بچتے ہوئے اپنے منافع کو زیادہ سے زیادہ کرنے کے لیے اکثر وہی حکمت عملی اپناتے ہیں جو دوسرے کاروباریوں کا شیوہ  رہا ہے۔

یوگ چھیم سنستھان کو چلانے والی ایک اہم شخصیت، رام دیو کے قریبی، آچاریہ بال کرشن ہیں جن کا پتنجلی بزنس گروپ پر بھی مکمل کنٹرول ہے ۔

سال 2016 میں ایک صحافی کے ساتھ بات چیت میں بال کرشن  نے کہا تھا، ‘ہمیں لوگوں کی خدمت کرنے کے لیے پیسوں کی ضرورت ہے۔’ اسی سال، پتنجلی گروپ سے وابستہ چار افراد – آچاریہ پردیومنا، پھول چندر، سمن دیوی اور سویتا آریہ نے یوگ چھیم سنستھان کی بنیاد رکھی۔ اس غیر منافع بخش تنظیم کا ابتدائی سرمایہ چار لاکھ روپے تھا۔

پھول چندر اب سوامی پرمارتھ دیو کے نام سے جانے جاتے ہیں۔ اور اگرچہ وہ بظاہر ایک روحانی گرو بن چکے ہیں، لیکن کئی سالوں میں وہ  مینوفیکچرنگ کمپنی پلیزنٹ وہار پرائیویٹ لمیٹڈ اور پتنجلی نیچرل بسکٹ پرائیویٹ لمیٹڈ جیسے ایک درجن سے زیادہ منافع بخش کمپنیوں کےڈائریکٹر رہے ہیں۔

سمن دیوی اب سادھوی دیوپریہ ہیں۔ اپنے نئے نام سے وہ رام دیو کے کاروباری گروپ کی ایک اور کمپنی – ویدک براڈکاسٹنگ لمیٹڈ میں ڈائریکٹر ہیں ۔

منافع کمانے کے لیے رام دیو اور اس کے معاونین کے ذریعے چلائی جانے والی اکثر دیگر کمپنیوں کے برعکس، یوگ چھیم سنستھان کو باقاعدہ طور پر ایک غیر منافع بخش کمپنی کے طور پر قائم کیا گیا تھا۔

اس کے کارپوریٹ ریکارڈ بتاتے ہیں کہ کمپنی کا بنیادی مقصد معاشرے کے محروم طبقات کے لیے یوگا سینٹرز، اسکل ڈیولپمنٹ کے لیے تعلیمی ادارے اور صحت کے مراکز کا قیام اور فروغ ہے۔ اس کا یہ بھی کہنا ہے کہ کمپنی بچوں اور نوجوانوں میں ٹیلنٹ کو پروان چڑھائے گی تاکہ وہ اچھے شہری بنیں اور ان میں قائدانہ صلاحیتیں پیدا ہوں۔

اس کا ایک مقصد اسی طرح کے کام کرنے والی دوسری تنظیموں کو امداد اور عطیات فراہم کرنا بھی تھا۔ تو، کیا اس غیر منافع بخش ادارےنے اسے دی گئی ٹیکس چھوٹ کو جائز ٹھہراتے ہوئے معاشرے کے لیے خاطر خواہ فلاح وبہبود اور بھلائی کے کام کیے؟

اگر کمپنی کے قیام کے بعد سے اس کے مالیاتی ریکارڈ دیکھے جائیں، تو پتہ چلتا ہے کہ اس نے کبھی بھی محروم لوگوں  کے لیے کوئی یوگا یا صحت کے مراکز یا تعلیمی ادارے نہیں بنائے۔

اپنے قیام کے دوسرے سال سے ہی یوگ چھیم کا استعمال رام دیو کے لوگوں کی سرمایہ کاری کو گھمانے کے لیے کیا جانے لگا۔ سرکار کو سونپے گئے یوگ چھیم کے ریکارڈ میں کہا گیا ہے کہ 5 جنوری 2018 کو، اسے بال کرشن، (رام دیو کے ایک اور قریبی ساتھی)، آنجہانی سوامی مکتانند اور پتنجلی گروپ سے وابستہ چھ دیگر کمپنیوں سے ایک کارپس ڈونیشن ملا۔

یہ عطیہ پتنجلی آیوروید لمیٹڈ (پی اے ایل) کے 2.065 کروڑ شیئروں کی صورت میں تھا، جن کی قیمت 79.8 کروڑ روپے تھی۔ ان میں سے دو کروڑ شیئر اکیلے بال کرشن کے ذریعے  دیے گئے تھے، جن کے پاس پتنجلی آیوروید کی  98.54 فیصد حصہ داری ہے۔ آپریشن شروع ہونے  کے ایک دہائی کے اندر پی اے ایل مالی طور پر بہت مضبوط ہوگئی، اسی مالی سال میں 8136 کروڑ روپے کی فروخت کے ساتھ۔

جنوری 2018 میں، یوگ چھیم کو کارپس ڈونیشن کے طور پر پی اے ایل کے 2 کروڑ سے زیادہ شیئر حاصل ہوئے۔ (ماخذ: یوگ چھیم سنستھان کے مالیاتی ریکارڈ۔)

جنوری 2018 میں، یوگ چھیم کو کارپس ڈونیشن کے طور پر پی اے ایل کے 2 کروڑ سے زیادہ شیئر حاصل ہوئے۔ (ماخذ: یوگ چھیم سنستھان کے مالیاتی ریکارڈ۔)

پتنجلی آیوروید کے شیئر  دیے جانے کے بعد، یوگ چھیم کی پوری ملکیت پتنجلی سیوا ٹرسٹ کو دے دی گئی۔

اس وقت کی میڈیا  رپورٹس کے مطابق  یہ ایک اور ادارہ ہے جسے رام دیو اور اس کے لوگوں نے قائم کیا تھا۔ رام دیو یوگ چھیم سنستھان کے نامزد شیئر ہولڈر بن گئے اور ان کے نام پر ایک شیئر تھا۔

پی اے ایل کے شیئر دیے جانے کے بعد، رام دیو اور ان کے لوگوں نے یوگ چھیم سنستھان کا کنٹرول اپنے ہاتھ میں لے لیا۔ (ماخذ: یوگ چھیم سنستھان کا مالیاتی ریکارڈ۔)

پی اے ایل کے شیئر دیے جانے کے بعد، رام دیو اور ان کے لوگوں نے یوگ چھیم سنستھان کا کنٹرول اپنے ہاتھ میں لے لیا۔ (ماخذ: یوگ چھیم سنستھان کا مالیاتی ریکارڈ۔)

اس طرح، پتنجلی آیوروید کے شیئر گفٹ کرنے کے 24 گھنٹے کے اندر، بال کرشن نے رام دیو اور مکتانند کے ساتھ مل کر یوگ چھیم کا کنٹرول اپنے ہاتھ میں لے لیا۔

یوگ چھیم کے جو اصل مالک تھے، ان کے پاس شیئر نہیں رہے، حالانکہ وہ اگلے چند مہینوں تک کاغذات میں  ڈائریکٹر بنے رہے۔

عوامی طور پر، رام دیو نے اس اسٹریٹجک سرمایہ کاری کو ملک و قوم کی خدمت کی کوشش کے طور پر پیش کیا۔

اس وقت  ایک میڈیا رپورٹ میں کہا گیا، ‘یوگا گرو سے بزنس مین بنے بابا رام دیو نے کہا کہ پتنجلی آیوروید لمیٹڈ کو ایک ‘غیر منافع بخش’ یونٹ میں تبدیل کر دیا جائے گا کیونکہ وہ اپنے کاروبار سے ہونے والی کمائی سے چیریٹی کرنا چاہتے ہیں۔’

رپورٹ میں رام دیو کے حوالے سے کہا گیا ہے، ‘ہم پتنجلی کو اسٹاک ایکسچینج میں درج نہیں کریں گے۔ ہم لوگوں کے دلوں میں پتنجلی کو درج کریں گے۔ ہم پتنجلی کو ایک غیر منافع بخش تنظیم میں تبدیل کر رہے ہیں۔’

رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ پتنجلی سیوا ٹرسٹ پتنجلی گروپ کی تمام کمپنیوں کی مالک بن جائے گی۔

رام دیو کے بلند بانگ دعوے سچ ہو سکتے تھے اگر یوگ چھیم سنستھان اپنے طور پر کچھ چیریٹی کے کام کرتا۔ لیکن اس نے ایسا نہیں کیا۔ بلکہ، بال کرشن اور رام دیو کے دیگر ساتھیوں نے پتنجلی آیوروید میں اپنے شیئر پارک کرنے کے لیے اس غیر منافع بخش کمپنی کا استعمال کیا، جبکہ مؤثر طریقے سے انتہائی منافع بخش پتنجلی آیوروید لمیٹڈ کے اہم مالک بنے رہے۔ اور کاروبار کو چیریٹی میں تبدیل کرنے کے رام دیو کے دعوے دھرے کے دھرے رہ گئے۔

یوگ چھیم سنستھان نے ایک سال تک یوگا کو فروغ دینے کے لیے کچھ نہیں کیا اور پتنجلی آیوروید لمیٹڈ کے دو کروڑ شیئر لے کر بیٹھا رہا۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ دو مالی سالوں – 2017-18 اور 2018-19تک ، یوگ چھیم نے پی اے ایل  شیئروں کی شکل میں ملے کارپس ڈونیشن اپنے بہی کھاتوں میں دکھایا۔ لیکن پتنجلی آیوروید کے مالیاتی ریکارڈمیں  98.54 فیصد شیئروں کے مالک کے طور پر بال کرشن کو دکھایا گیا۔

ایک ہی شیئر کا دو اداروں کی ملکیت ہونا تکنیکی طور پر متضاد ہے۔ بالآخر دو مالی سالوں کے بعد گروپ کو اس تضاد کا جواب دینا پڑا۔

اس کا جواب کمپنی کی بیلنس شیٹ میں حیران کن تکنیکی باتوں کے درمیان پوشیدہ تھا۔ سادہ زبان میں اس کا خلاصہ یہ تھا کہ جو شیئر یوگ چھیم کو گفٹ کیے گئے تھے،انہی شیئروں کو بال کرشن نے لون لینے کے لیے بینکوں کے پاس بھی گروی رکھا تھا۔ گروی رکھی ہوئی جائیداد کو یوگ چھیم سنستھان کے حوالے کرنے سے بینک خوش نہیں تھے، کیونکہ ان کا اس ادارے سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ ‘

لہذا، مالی سال 2020-21 میں، بینکوں نے یوگ چھیم سنستھان کو شیئر ترک کرنے پر مجبور کیا اور قانونی خامیوں کا فائدہ اٹھا کر سرمایہ کاری کو کہیں اور منتقل کرنے کی پتنجلی گروپ کی کوشش ناکام ہوگئی۔

قرض دینے والے بینک پی اے ایل شیئروں کے کارپس ڈونیشن سے متفق نہیں تھے۔ اسے مالی سال 2020-21 میں واپس لے لیا گیا۔ (ماخذ: یوگ چھیم سنستھان کا مالیاتی ریکارڈ۔)

قرض دینے والے بینک پی اے ایل شیئروں کے کارپس ڈونیشن سے متفق نہیں تھے۔ اسے مالی سال 2020-21 میں واپس لے لیا گیا۔ (ماخذ: یوگ چھیم سنستھان کا مالیاتی ریکارڈ۔)

جب تک یوگ چھیم نے اس پیچیدہ عمل کو مکمل کیا، تب تک دسمبر 2019 میں پتنجلی گروپ نے متنازعہ طور پر روچی سویا کو حاصل کر لیا۔ یہ کمپنی اپنے نیوٹریلا برانڈ کے لیے معروف تھی۔

روچی سویا پر 12000 کروڑ روپے سے زیادہ کا قرض تھا جس کی وجہ سے کمپنی دیوالیہ ہوگئی تھی۔ دیوالیہ قانون کے تحت، بینکرز کے پاس دو اختیارات تھے – قرض کے کچھ حصے کی وصولی کے لیے خریدار تلاش کریں یا کمپنی کو ٹکڑے ٹکڑے کرکے فروخت کریں۔ رام دیو نے موقع کا فائدہ اٹھایا اور اڈانی گروپ کو پیچھے چھوڑتے ہوئے روچی سویا کو خرید لیا۔ اڈانی گروپ آخری وقت میں نیلامی سے دستبردار ہو گیا۔ ایس بی آئی اور یونین بینک جیسے بینکوں نے پتنجلی کنسورشیم کو اس کی خریداری کے لیے پیسے ادھار  دیے۔ دسمبر 2019 میں پتنجلی کی 4350 کروڑ روپے کی بولی کو منظوری مل گئی اور جون 2022 میں روچی سویا پتنجلی فوڈز بن گئی۔

اس کے بعد، روچی سویا میں کی گئی  رام دیو اور ان کے لوگوں کی سرمایہ کاری کو پارک کرنے میں یوگ چھیم نے اہم کردار ادا کیا۔

مالی سال 2020-21 میں پتنجلی آیوروید کے شیئروں  کو واپس کرنے کے بعد، یوگ چھیم کے سرمائے میں 79 کروڑ روپے کی کمی ہوئی۔ اسی سال، رام دیو کی ایک اور غیر منافع بخش تنظیم دیویہ یوگا مندر ٹرسٹ نے یوگ چھیم کو روچی سویا کے  42 کروڑ روپے کی مالیت کے 6 کروڑ شیئر گفٹ کیے۔ دیویہ یوگا مندر ٹرسٹ بھی روچی سویا کو حاصل کرنے والے پتنجلی کنسورشیم کا ہی حصہ تھا۔ اس کے ساتھ ہی یوگ چھیم کو روچی سویا میں 20.28 فیصد کی حصہ داری مل گئی۔

دریں اثنا، دیویہ یوگا مندر ٹرسٹ نے پتنجلی سیوا ٹرسٹ سے یوگ چھیم کے 60 فیصد شیئر خریدے اور اس غیر منافع بخش تنظیم کا سب سے بڑا حصہ (50 فیصد سے زیادہ) رکھنے والا شیئر ہولڈر بن گیا۔

روچی سویا کے شیئر یوگ چھیم سنستھان کو ڈونیٹ کرنے کے بعد، دیویہ یوگا مندر اس چیریٹیبل کمپنی میں 60فیصد کا مالک بن گیا۔ (ماخذ: یوگ چھیم سنستھان کا مالیاتی ریکارڈ۔)

روچی سویا کے شیئر یوگ چھیم سنستھان کو ڈونیٹ کرنے کے بعد، دیویہ یوگا مندر اس چیریٹیبل کمپنی میں 60فیصد کا مالک بن گیا۔ (ماخذ: یوگ چھیم سنستھان کا مالیاتی ریکارڈ۔)

منافع کمانے والی کسی کمپنی کے شیئر اس طرح ادھر سے ادھر ٹرانسفر کرنے سے کمپنی کے حقیقی مالکان اور فائدہ اٹھانے والوں کی شناخت کو چھپانے میں مدد ملتی ہے۔

یوگ چھیم سنستھان کی ملکیت تقریباً ہر سال بدلتی رہی۔ مالی سال 2020-21 میں دیویہ یوگا مندر کو کمپنی میں 60 فیصد حصہ داری ملنے کے ایک سال بعد، اس نے اسے ایک اور پتنجلی ٹرسٹ، پتنجلی ریسرچ فاؤنڈیشن ٹرسٹ کو منتقل کر دیا۔ بدلے میں، اس ٹرسٹ نے اگلے مالی سال میں اپنی حصہ داری ایک اور غیر منافع بخش کمپنی پتنجلی فوڈ اینڈ ہربل پارکس پرائیویٹ لمیٹڈ کو دے دی۔

رپورٹرز کلیکٹیو نے آچاریہ بال کرشن اور یوگ چھیم سنستھان کو ایک تفصیلی سوالنامہ ارسال کیا، جس میں پوچھا گیا کہ کیوں غیر منافع بخش ادارہ چیریٹی کرنے میں ناکام رہا، اس نے صرف سرمایہ کاری کیوں کی، اور اس کی ملکیت میں بار بار تبدیلی کیوں ہوئی جس سے اسے دوسری تنظیموں سے ڈونیشن ملتا رہا۔ اس کے علاوہ یوگ چھیم سنستھان کو پتنجلی آیوروید، پتنجلی فوڈز اور دیویہ یوگا مندر ٹرسٹ کی طرف سے ملے شیئروں  کے ڈونیشن اور اس کے بعد ادارے کی ملکیت میں تبدیلی کے بارے میں بھی سوال پوچھے گئے ہیں۔ اس کے علاوہ ان سب کی ای-میل کاپی رام دیو کے ترجمان اور آستھا ٹی وی کے قومی سربراہ ایس کے تجارا والا کو بھی بھیجی گئی۔ انہوں نے فون پر بات کی اور ان کے کہنے پر انہیں وہاٹس ایپ پر سوال بھی بھیجے گئے۔ تاہم، ابھی تک ان کی جانب سے کوئی جواب موصول نہیں ہوا۔

یوگ چھیم سنستھان کو ایک خیراتی ادارہ ہونے کی وجہ سے، ہندوستان کے انکم ٹیکس ایکٹ، 1961 کے تحت ٹیکس میں چھوٹ حاصل ہے۔ اس اصول کے تحت، اگر کمپنی اپنی آمدنی کا کم از کم 85 فیصد فلاحی کاموں میں خرچ کرتی ہے تو اسے انکم ٹیکس ادا کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ اگر ایسی غیر منافع بخش تنظیم کو کسی اور کمپنی کے شیئر ملتے  ہیں، تو اسے اسی مالی سال کے اندر ان شیئروں کو فروخت کرکے اس سے ملا پیسہ ٹیکس قانون کے بیان کردہ طریقہ کار کے مطابق جمع کرنا ہوگا۔

یوگ چھیم نے یوگا کو فروغ دینے کے لیے کچھ نہیں کیا۔ بلکہ، مالی سال 2022-23 میں روچی سویا کے شیئروں پر اسے 30 کروڑ روپے کا ڈیویڈنڈ ملا – یعنی کمائی ہوئی۔

اس مالی سال میں اس نے روچی سویا کے شیئروں سے حاصل ہونے والی آمدنی کا تقریباً 60 فیصد، یعنی 19.43 کروڑ روپے، نامعلوم تنظیموں کو عطیہ کرنے میں خرچ کیے۔

اس کے نتیجے میں اسے اس ڈیویڈنڈ پر 10.48 کروڑ روپے کا انکم ٹیکس ادا کرنا پڑا۔ لیکن، اس سے یوگ چھیم سنستھان کے استعمال میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ کمپنی کا دعویٰ ہے کہ یہ ایک خیراتی ادارہ ہے۔ اور حکومت نے اس کے ٹیکس فری اسٹیٹس کو جاری رکھا۔

کمپنی کے تازہ ترین مالیاتی ریکارڈ کے مطابق، روچی سویا (اب پتنجلی فوڈز) میں اس کی 16.52 فیصد حصہ داری بنی رہی۔

رام دیو کا کاروبار مسلسل پھل پھول رہا ہے۔ جبکہ یوگ چھیم سنستھان جیسی مشکوک کمپنیاں، جن کے بارے میں زیادہ لوگ نہیں جانتے، اس کامیابی کا اصل ذریعہ بنی ہوئی ہیں۔

( یہ رپورٹ دی رپورٹرز کلیکٹو نے شائع کی ہے۔)