خبریں

گجرات: مویشی لے جا رہے مسلمان شخص کو گئو رکشکوں نے مبینہ طور پر پیٹ-پیٹ کر مار ڈالا

یہ واقعہ گجرات کے بناس کانٹھا ضلع میں پیش آیا۔ پولیس کے مطابق، جمعرات کو پانچ افراد کے ایک گروپ نے مبینہ طور پر 40 سالہ مشری خان بلوچ کو اس وقت پیٹ-پیٹ کر ہلاک کر دیا، جب وہ دو بھینسوں کو پک اپ وین میں مویشی بازار لے جا رہے تھے۔

(السٹریشن : پری پلب چکرورتی/ دی وائر)

(السٹریشن : پری پلب چکرورتی/ دی وائر)

نئی دہلی: خبروں کے مطابق، گجرات کے بناس کانٹھا میں جمعرات (23 مئی) کو گئو رکشکوں نے ایک شخص کو مبینہ طور پر پیٹ-پیٹ کر ہلاک کر دیا۔

ٹائمز آف انڈیا نے مقامی پولیس کے حوالے سے رپورٹ کیا ہے کہ پانچ لوگوں کے ایک گروپ نے جمعرات کی صبح 40 سالہ مشری خان بلوچ کو مبینہ طور پر اس وقت پیٹ-پیٹ کر ہلاک کر دیا، جب وہ دو بھینسوں کو ایک پک اپ وین میں مویشی بازار لے جار ہے تھے۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ مشری خان کے ساتھ حسین خان بلوچ نامی شخص بھی تھا جو حملہ آوروں سے بچ کر نکل گیا اور وہی اس کیس میں شکایت کنندہ ہے۔

اس میں کہا گیا ہے کہ پولیس نے ملزمان کے خلاف قتل، غلط طریقے سے روکنے، فساد اور مہلک ہتھیاروں کے ساتھ دنگا کرنے کی دفعات کے تحت مقدمہ درج کیا ہے۔

انڈین ایکسپریس نے حکام کے حوالے سے بتایا کہ اس معاملے کے ملزمین میں اکھراج سنگھ پربت سنگھ واگھیلا نام کا ایک شخص ہے، جو گزشتہ سال جولائی میں گئو رکشکوں سے متعلق تشدد کے ایک اور واقعے میں ملزم تھا اور وہ جیل میں بھی رہا ہے۔

انہوں نے یہ بھی کہا کہ گجرات ہائی کورٹ نے پہلے معاملے میں واگھیلا کی حراست کےفیصلے کو رد کر دیا تھا۔

اخبار نے اطلاع دی ہے کہ پولیس نے پانچ میں سے دو ملزمین کو گرفتار کر لیا ہے اور باقی تین کی تلاش جاری ہے۔

ٹائمز آف انڈیا کی رپورٹ کے مطابق، جمعرات کے واقعے پر مقامی پولیس نے اس بات کی تردید کی کہ بلوچ کا قتل ماب لنچنگ کا ایک واقعہ تھا – انہوں نے کہا کہ  یہ متاثرین اور ملزمین کے درمیان پرانے تنازعہ کی وجہ سے ہوا۔

سال 2018 کے ایک فیصلے میں سپریم کورٹ نے کہا تھا کہ یہ ریاست کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس بات کو یقینی بنائے کہ اس طرح کے واقعات رونما نہ ہوں اور اس نے ریاستی حکومتوں کو ہجومی تشدد کے معاملات میں احتیاطی اور تدارک کے اقدامات پر عمل کرنے کی ہدایت کی تھی۔

کچھ لوگوں کا الزام ہے کہ کچھ ریاستوں میں پولیس عدالت عظمیٰ کے 2018 کے فیصلے کے تحت اپنی ذمہ داریوں سے بچنے کے لیے ہجومی تشدد کے مقدمات کو تنازعات یا حادثات کے طور پر درج کرتی ہے ۔

کئی لوگوں نے گئو رکشکوں کے تشدد کا خمیازہ مسلمانوں اور دلتوں کے بھگتنے  پر تشویش کا اظہار کیا ہے ۔ گئو رکشکوں میں سے کئی بی جے پی سے وابستہ انتہا پسند ہندو گروپوں سے منسلک ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں۔

ہندوستانی قانون خاص طور پر ماب لنچنگ کے لیے سزا کا اہتمام نہیں کرتا ہے، لیکن بھارتیہ نیایے سنہتا – جو گزشتہ سال ایکٹ کے طور پر پیش کیا گیا تھا اور جولائی میں نافذ ہو جائے گا – میں ‘نسل، ذات یا برادری، جنس، جائے پیدائش، زبان، ذاتی عقیدہ یا اسی طرح کی کسی اور بنیاد پر’ جب پانچ یا اس سے زیادہ افراد کا گروہ اجتماعی طور پر تشدد کرتا ہے، تو عمر قید یا سزائے موت کا اہتمام ہے۔

تاہم، اس واقعہ کو ‘ماب لنچنگ’ قرار دیتے ہوئے اقلیتوں کے مسائل کی وکالت کرنے والی ایک رضاکار تنظیم، اقلیتی رابطہ کمیٹی نے گجرات کے ڈائریکٹر جنرل آف پولیس وکاس سہائے کو خط لکھا ہے، جس میں ایسے لوگوں کے خلاف کارروائی کے لیے سپریم کورٹ کے رہنما خطوط پر عمل کرنے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔

تاہم، بناس کانٹھا ضلع کے پولیس سپرنٹنڈنٹ اکشے راج مکوانہ نے زور دے کر کہا کہ یہ واقعہ ہجومی تشدد کا نہیں ہے۔ انہوں نے کہا، ‘اس واقعہ کو ماب لنچنگ قرار دینے کے لیے کچھ فرقہ وارانہ پہلو ہونا چاہیے۔ ایسا لگتا ہے کہ یہ واقعہ سابقہ واقعہ (جولائی 2023 سے) کی وجہ سے ہوا ہے اور ایسا لگتا ہے کہ ملزمین کا مقصد قتل کرنا نہیں تھا بلکہ مقتول کو ڈرانا تھا۔’

انہوں نے بتایا کہ جگت سنگھ اور ہمیر بھائی ٹھاکور کو حراست میں لیا گیا ہے اور باقی ملزمین کی تلاش جاری ہے۔