کچھ معاملوں میں ای وی ایم ووٹوں کی گنتی ای وی ایم میں ڈالے گئے ووٹوں کی تعداد سے کم ہے۔ حالاں کہ، اس کے پیچھےکی وجوہات کو بیان کرنے کے لیے وضاحت پیش کی گئی ہے، لیکن بعض معاملوں میں شمار کیے گئے ووٹوں کی تعداد میں فرق متعلقہ سیٹ پر جیت کے مارجن کا تقریباً نصف ہے۔
نئی دہلی: 2024 کے لوک سبھا انتخابات کے نتائج آ چکے ہیں، لیکن انتخابی عمل کو لے کر تنازعہ اب بھی جاری ہے۔
سال 2019 کے لوک سبھا انتخابات میں، میں نے سب سے پہلے دی کوئنٹ کے لیے اپنی رپورٹ میں ای وی ایم میں ڈالے گئے ووٹوں اور ای وی ایم میں شمار کیے گئے ووٹوں کے ڈیٹا میں پائے جانے والے تضادات کے بارے میں بتایا تھا۔
پانچ سال بعد ایسوسی ایشن فار ڈیموکریٹک ریفارمز کی طرف سے 2019 میں دائر کی گئی درخواست کی بنیاد پر اس معاملے کی شنوائی 2024 میں سپریم کورٹ میں بھی ہوئی۔
شنوائی کے دوران الیکشن کمیشن (ای سی) نے 2019 کے انتخابات کے دوران متعدد پارلیامانی حلقوں (پی سی) میں پائے جانے والے تضادات کے تمام دعووں کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ درخواست گزاروں اور میڈیا نے الیکشن کمیشن کی ایپ پر شائع ہونے والے پول کی تخمینہ تعداد پر غور کیا تھا، یہی وجہ ہے کہ ان کا ڈیٹا گنتی کیے گئے ووٹوں کی حقیقی تعداد سے میل نہیں کھاتا۔
سال 2024 کے لوک سبھا انتخابات کے اعداد و شمار میں تقریباً تمام پارلیامانی حلقوں میں تضادات نظر آ رہے ہیں۔ 543 پارلیامانی حلقوں کے الیکشن کمیشن کے اعداد و شمار پر گہری نظر ڈالنے سے پتہ چلتا ہے کہ دمن دیو، لکشدیپ اور کیرالہ کے اتنگل جیسے چند پارلیامانی حلقوں کو چھوڑ دیں تو گنتی کیے گئے ای وی ایم ووٹوں کی تعداد ای وی ایم میں ڈالے گئے ووٹوں کی تعداد سے الگ ہے۔
غور طلب ہے کہ 140 سے زیادہ لوک سبھا حلقوں میں، ای وی ایم میں شمار کیے گئے ووٹوں کی تعداد ای وی ایم میں ڈالے گئے ووٹوں کی تعداد سے زیادہ تھی۔ فرق 2 ووٹوں سے لے کر 3811 ووٹوں کے بیچ تھا۔
ایسے معاملے بھی ہیں جہاں پولنگ کے مقابلے کم ووٹوں کی گنتی کی گئی۔ ان لوک سبھا حلقوں میں جہاں گنتی کیے گئے ای وی ایم ووٹوں کی تعداد ڈالے گئے ای وی ایم ووٹوں کی تعداد سے کم تھی، وہاں سب سے زیادہ فرق -16791 ووٹوں کا پایا گیا۔
یہاں ٹاپ تھری (3) لوک سبھا حلقے بتائے گئے ہیں جہاں شمار کیے گئے ووٹوں کی تعداد ڈالے گئے ووٹوں کی تعداد سے زیادہ رہی۔
یہاں ٹاپ تھری لوک سبھا حلقے بتائے گئے ہیں جہاں شمار کیے گئے ووٹوں کی تعداد ڈالے گئے ووٹوں کی تعداد سے کم رہی۔
الیکشن کمیشن نے گنتی کیے گئے ای وی ایم ووٹوں کی تعداد اور پوسٹل ووٹوں کی تعداد کا الگ الگ ذکر کیا ہے۔ مثال کے طور پر، یہاں الیکشن کمیشن کی ویب سائٹ سے دمن دیو کے انتخابی نتائج کا اسکرین شاٹ دیا جا رہا ہے؛
اس کے علاوہ، الیکشن کمیشن نے 2024 کے انتخابات میں ڈالے گئے ای وی ایم ووٹوں کی مجموعی تعداد سیاسی جماعتوں اور سول سوسائٹی کے ارکان کے زبردست احتجاج کے بعد جاری کی تھی۔ انتخابات کے پہلے پانچ مراحل کے لیے، الیکشن کمیشن نے صرف ایک حلقے میں ڈالے گئے ووٹوں کا فیصد (ووٹرز کی کل تعداد) جاری کیا تھا۔
قابل ذکر ہے کہ 25 مئی کو الیکشن کمیشن نے پہلے پانچ مرحلوں میں ای وی ایم سے ڈالے گئے ووٹوں کی تعداد کے اعداد و شمار جاری کرتے ہوئے کہا تھا کہ ‘ ڈالے گئے ووٹوں کی تعداد میں کوئی تبدیلی ممکن نہیں ہے۔’
پریس ریلیز میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ اعداد و شمار میں پوسٹل بیلٹ کی تعداد شامل نہیں ہے۔
کچھ دن پہلے، جب ایکس (سابقہ ٹوئٹر) پر شمار کیے گئے ووٹوں کی تعداد میں کمی کو لے کر بات شروع ہوئی، تو اتر پردیش کے چیف الیکٹورل آفیسر نے کہا کہ کمیشن کے اعداد و شمار میں گنتی کیے گئے ووٹوں کی تعداد میں کمی نظرآسکتی ہے۔ کیوں کہ بعض صورتوں میں بعض پولنگ اسٹیشنوں پر ڈالے گئے ووٹوں کی گنتی’کمیشن کی جانب سے جاری کردہ موجودہ پروٹوکول جو کہ مختلف دستورالعمل اور ہینڈ بک میں دیے جاتے ہیں’ کے مطابق نہیں کی جاتی ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ ‘جن پولنگ بوتھوں پر ڈالے گئے ووٹوں کو شمار نہیں کیا جاتا وہ دو زمروں میں آتے ہیں’؛
پہلا، جہاں پریزائیڈنگ آفیسرحقیقی پول شروع کرنے سے پہلے غلطی سے کنٹرول یونٹ سے ماک پول ڈیٹا کو صاف کرنے ناکام رہتے ہیں یا وہ حقیقی پول شروع کرنے سے پہلے وی وی پی اے ٹی سے ماک پول پرچیوں کو ہٹانے میں ناکام رہتے ہیں۔
دوسرا، کنٹرول یونٹ میں ڈالے گئے کل ووٹ پریزائیڈنگ آفیسر کے تیار کردہ فارم 17-سی میں درج ووٹوں کے ریکارڈ سے میل نہیں کھاتے ہیں اور پریزائیڈنگ آفیسر غلطی سے غلط نمبر درج کر دیتا ہے۔
ووٹوں کی گنتی آخر میں صرف اسی صورت میں کی جاتی ہے جب ایسے تمام پولنگ بوتھوں میں ڈالے گئے ووٹوں کاجوڑ پہلے اور دوسرے امیدواروں کے درمیان کے فرق کے برابر یا اس سے زیادہ ہو۔ اگر یہ فرق سے کم ہے تو ووٹوں کو بالکل بھی شمار نہیں کیا جاتا ہے اور اس لیے ای وی ایم کے ذریعے ڈالے گئے ووٹوں اور گنتی کیے گئے ووٹوں کے درمیان فرق پیدا ہوتا ہے۔’
لیکن الیکشن کمیشن نے اس بارے میں کوئی وضاحت پیش نہیں کی ہے کہ 150 سے زیادہ لوک سبھا حلقوں میں زیادہ ووٹوں کی گنتی کیسے ہوئی۔ ووٹنگ ختم ہونے کے بعد ای وی ایم میں جادوئی طریقے سے زیادہ ووٹ کیسے درج ہوگئے؟
گنتی کیے گئے ای وی ایم ووٹوں کی کی تعداد ڈالے گئے ای وی ایم ووٹوں کی تعدادسے کم کیوں رہی، اس بارے میں الیکشن کمیشن کی یہ وضاحت پوری طرح سے تسلی بخش نہیں ہے۔ لیکن پہلے ان چار لوک سبھا حلقوں پر غور کریں جہاں جیت کا مارجن بہت کم تھا۔
پہلا، مہاراشٹر کے ممبئی نارتھ ویسٹ میں، 951580 ای وی ایم ووٹ ڈالے گئے، لیکن 951582 ای وی ایم ووٹوں کی گنتی ہوئی،یعنی دو اضافی ووٹوں کی گنتی ہوئی۔ شیوسینا کے رویندر دتارام وائیکر نے سب سے کم 48 ووٹوں سے جیت حاصل کی اور شیوسینا (یو بی ٹی) کے امیدوار امول گجانن کو شکست دی۔
دوسرا ، راجستھان کے جئے پور دیہی میں1238818 ای وی ایم ووٹ ڈالے گئے، لیکن 1237966 ای وی ایم ووٹوں کی گنتی ہوئی، یعنی 852 ووٹوں کی گنتی نہیں ہوئی۔ بی جے پی کے راؤ راجندر سنگھ نے یہ سیٹ 1615 ووٹوں کے معمولی فرق سے جیتی۔
تیسرا ، چھتیس گڑھ کے کانکیرمیں 1261103 ای وی ایم ووٹ ڈالے گئے، لیکن 1260153 ای وی ایم ووٹوں کی گنتی ہوئی، یعنی 950 ووٹوں کی گنتی نہیں ہوئی۔ بی جے پی کے بھوج راج ناگ نے یہ سیٹ 1884 ووٹوں کے معمولی فرق سے جیتی۔
چوتھا ، اتر پردیش کے فرخ آبادمیں 1032244 ای وی ایم ووٹ ڈالے گئے لیکن 1031784 ای وی ایم ووٹوں کی گنتی ہوئی، یعنی 460 ووٹوں کی گنتی نہیں ہوئی۔ بی جے پی کے مکیش راجپوت نے یہ سیٹ 2678 ووٹوں کے فرق سے جیتی۔
ایک رائے یہ بھی ہے کہ ان نشستوں اور دیگر نشستوں، جہاں جیت مارجن بہت کم تھا، اس پر ہارنے والے امیدواروں کو سو فیصدی ووٹوں کی گنتی کا مطالبہ کرنا چاہیے۔ اگر ای وی ایم میں کوئی خرابی پائی جاتی ہے یا پریزائیڈنگ آفیسر نے کوئی کلیریکل غلطی کی ہے تو وی وی پی اے ٹی پرچیوں کو شمار کیا جانا چاہیے۔
گنتی کیے گئے ووٹوں کی تعداد میں کمی پر اتر پردیش کے چیف الیکٹورل آفیسر کے تبصرے کے باوجود دیگر اہم سوالوں کے جوابات دیے جانے کی ضرورت ہے؛
پہلا، الیکشن کمیشن اضافی ووٹوں کی گنتی کیسے کر سکتا ہے، یعنی ڈالے گئے ووٹوں سے زیادہ ووٹوں کو شمار کیا گیا؟
دوسرا، الیکشن کمیشن پارلیامانی حلقہ وار گنتی کیے گئے ای وی ایم ووٹوں کی کمی یا زیادہ کے بارے میں کیوں وضاحت پیش نہیں کر رہا ہے، بجائے اس کے وہ عام بیان دے؟
تیسرا، وہ اس نتیجے پر کیسے پہنچے کہ ڈالے گئے اور گنتی کیے گئے ووٹوں میں فرق ماک پول کے اعداد و شمار کو نہ ہٹانے کی وجہ سےہے؟
چوتھا، کیا الیکشن کمیشن اس بات کو تسلیم کر رہا ہے کہ فارم 17سی میں درج پولنگ ووٹوں کی تعداد اور کچھ پولنگ بوتھوں کے کنٹرول یونٹ میں درج ووٹوں کی تعداد میں تضاد تھا؟
پانچواں، اوسطاً، ایک ای وی ایم فی پولنگ بوتھ پر 700 سے 800 ووٹ درج کرتی ہے۔ پھر کچھ معاملوں میں ووٹوں کی تعداد 20-30 ووٹوں جتنی کم کیوں ہے؟
چھٹا، الیکشن کمیشن نے ای وی ایم سے ڈالے گئے تمام ووٹوں کی گنتی کیوں نہیں کی، اگر ضرورت پڑتی تو ان جگہوں پر وی وی پی اے ٹی پرچیوں کی گنتی کی جاسکتی تھی جہاں جیت کا مارجن بہت کم تھا؟
ساتوں، کیا الیکشن کمیشن عوام کو بتائے گا کہ کتنی ای وی ایم مشینیں گنتی کے عمل سےالگ کر دی گئیں اور کیوں؟
الیکشن کمیشن کی ایمانداری 2024 کے لوک سبھا انتخابات کے دوران اپنی کمترین سطح پر پہنچ گئی تھی، خاص طور پر جب اس نے ڈالے گئے ووٹوں کی کل تعداد کو شیئر کرنے میں ہچکچاہٹ کا مظاہرہ کیا۔
میں نے الیکشن کمیشن سے ای میل اورایکس (سابقہ ٹوئٹر) کے ذریعے ڈالے گئے ای وی ایم ووٹوں اور گنتی کیے گئے ای وی ایم ووٹوں کے درمیان تضاد کے بارے میں پوچھا ہے ، لیکن ابھی تک کوئی جواب موصول نہیں ہوا ہے۔ الیکشن کمیشن کا جواب موصول ہونے پر اس رپورٹ کو اپڈیٹ کیا جائے گا۔
(پونم اگروال آزاد صحافی ہیں۔)
انگریزی میں پڑھنے کے لیےیہاں کلک کریں ۔
Categories: الیکشن نامہ, فکر و نظر