خبریں

دہلی: ایل جی نے چودہ سال پرانے معاملے میں ارندھتی رائے کے خلاف یو اے پی اے کے تحت کیس چلانے کی اجازت دی

معروف ادیبہ اور سماجی کارکن ارندھتی رائے اور کشمیر سینٹرل یونیورسٹی کے سابق پروفیسر شیخ شوکت حسین کے خلاف یو اے پی اے کا یہ معاملہ 2010 میں ایک پروگرام میں دیے گئے بیان سے متعلق ہے۔ لیفٹیننٹ گورنر کے اس فیصلے کو بڑے پیمانے پر تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔

ارندھتی رائے۔ (تصویر: دی وائر)

ارندھتی رائے۔ (تصویر: دی وائر)

نئی دہلی: دہلی کے لیفٹیننٹ گورنر وی کے سکسینہ نے معروف ادیبہ  اور سماجی کارکن ارندھتی رائے اور کشمیر سینٹرل یونیورسٹی کے سابق پروفیسر شیخ شوکت حسین کے خلاف غیر قانونی سرگرمیوں کی روک تھام ایکٹ (یو اے پی اے) کی دفعہ 45 کے تحت مقدمہ چلانے کی منظوری دے دی ہے ۔

قابل ذکر ہے کہ 29 نومبر 2010 کو رائے اور حسین کے خلاف اشتعال انگیز تقریر کے معاملے میں ایف آئی آر درج کی گئی تھی، حالیہ  اجازت اسی سلسلے میں دی گئی ہے۔

دہلی پولیس نے پہلے بھی مانگی تھی اجازت

دہلی پولیس نے پہلے بھی رائے اور حسین کے خلاف آئی پی سی کی دفعہ 153اے، 153بی، 504، 505 اور یو اے پی اے کی دفعہ 13 کے تحت مقدمہ چلانے کی منظوری مانگی تھی، لیکن گزشتہ سال اکتوبر میں ایل جی نے صرف آئی پی سی کی دفعات کے لیے منظوری دی تھی ۔

اس بار انہوں نے یو اے پی اے کی دفعات کے تحت بھی مقدمہ چلانے کی منظوری دی ہے۔

کیا تھی شکایت

یہ شکایت دہلی کے تلک مارگ پولیس اسٹیشن کے انچارج کو کشمیر کے ایک سماجی کارکن سشیل پنڈت نے 2010 میں درج کرائی تھی، جنہوں نے الزام لگایا تھا کہ اسی سال 21 اکتوبر کو سیاسی قیدیوں کی رہائی کے لیے بنائی گئی کمیٹی کے زیر اہتمام’آزادی’ کے عنوان سے منعقدہ  کانفرنس میں مقررین نے ‘اشتعال انگیز تقاریر’ کی تھیں اور ان مسائل پر بات کی تھی جن کا مقصد ‘کشمیر کو ہندوستان سے الگ کرنا’ تھا۔

ان کے مطابق،  یہ تقریر اپنی نوعیت کے لحاظ سے ‘اشتعال انگیز’تھی، جس سے عوامی امن و سلامتی کو خطرہ لاحق تھا۔

شکایت کنندہ نے اس پروگرام کی تقریروں کی ریکارڈنگ بھی فراہم کی تھی۔ پروگرام میں مرحوم حریت رہنما سید علی شاہ گیلانی، دہلی یونیورسٹی کے پروفیسر مرحوم ایس اے آر گیلانی اور شاعر وراورا راؤ نے بھی شرکت کی تھی۔ ایس اے آر گیلانی نے اس کانفرنس کی نظامت کی تھی۔

شکایت کنندہ کے مطابق، رائے اور حسین نے پروپیگنڈہ کیا تھا کہ کشمیر کبھی بھی ہندوستان کا حصہ نہیں تھا اور اس پر ہندوستانی فوج نے زبردستی قبضہ کیا تھا، اور کشمیر کی آزادی کے لیے ہر ممکن کوشش کی جانی چاہیے۔