الیکشن نامہ

بہار: جے ڈی یو ایم پی بولے – یادو اور مسلمانوں کے لیے کام نہیں کروں گا، انھوں نے مجھے ووٹ نہیں دیا

بہار کے سیتامڑھی سے جنتا دل (یونائیٹڈ) کے نو منتخب ایم پی دیویش چندر ٹھاکر نے کہا کہ یادو اور مسلمان ہمارے یہاں آتے ہیں تو ان کا استقبال ہے۔ چائے پیئیں، مٹھائی کھائیں۔ لیکن کسی مدد کی امید نہ کریں، میں ان کا کوئی کام نہیں کروں گا۔

جے ڈی یو ایم پی دیویش چندر ٹھاکر (تصویر بہ شکریہ: X/@deveshMLCbihar)

جے ڈی یو ایم پی دیویش چندر ٹھاکر (تصویر بہ شکریہ: X/@deveshMLCbihar)

نئی دہلی: بہار کے سیتامڑھی سے جنتا دل (یونائیٹڈ) کے نومنتخب رکن پارلیامنٹ دیویش چندر ٹھاکر نے سوموار کو دعویٰ کیا کہ مسلمانوں اور یادووں نے انہیں لوک سبھا انتخاب میں ووٹ نہیں دیا، انہوں نے کہا کہ وہ ان کے لیے کوئی کام نہیں کریں گے۔

انڈین ایکسپریس کی رپورٹ کے مطابق، حال ہی میں بہار قانون ساز کونسل کے چیئرمین کے عہدے سے استعفیٰ دینے والے ٹھاکر کے ریمارکس پر حریف آر جے ڈی نے نہ صرف سخت تنقید کی بلکہ ان کی اپنی پارٹی کے بانکا ایم پی نے بھی معافی مانگنے کا مطالبہ کیا۔

سیتامڑھی میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے ٹھاکر نے کہا کہ یادو اور مسلمانوں نے انہیں انتخاب میں ووٹ نہیں دیا۔ ٹھاکر نے سیتامڑھی پارلیامانی حلقہ میں آر جے ڈی کے ارجن رائے کو شکست دی تھی، جو یادو کمیونٹی سے آتے ہیں۔

اس پروگرام کا ایک ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل  ہے، جس میں جے ڈی یو ایم پی  اسمبلی سیتامڑھی کے یادو اور مسلم برادریوں کے تئیں ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے نظر آ رہے ہیں۔

انہوں نے کہا، ‘ یادو اور مسلمان ہمارے یہاں آتے ہیں تو ان کا استقبال ہے۔ چائے پیئیں، مٹھائی کھائیں۔ لیکن کسی مدد کی امید نہ رکھیں، میں ان کے لیے کوئی کام نہیں کروں گا۔’

بعد میں نامہ نگاروں سے بات کرتے ہوئے ٹھاکر نے کہا، ‘میں نے جو کہا میں اس پر قائم ہوں۔ میں یہ بات کچھ عرصے سے کہہ رہا ہوں۔ میں گزشتہ 25 سال سے بلا تفریق عوام کے لیے کام کر رہا ہوں۔’

ٹھاکر نے ہندوستان ٹائمز سے کہا ، ‘اگر مسلمانوں اور یادووں نے تیر (جے ڈی یو کے انتخابی نشان) کو صرف اس لیے ووٹ نہیں دیا کہ انھوں نے ہمارا انتخابی نشان دیکھتے ہی نریندر مودی کا چہرہ دیکھا…جب کوئی ان برادریوں سے میرے پاس آتا ہے، تو میں ان کے چہرے پرلالو پرساد اور لالٹین (آر جے ڈی کا انتخابی نشان) کا چہرہ بھی دیکھ سکتا ہوں… تالی دونوں ہاتھوں سے بجتی ہے۔’

یہ پوچھے جانے پر کہ انہوں نے صرف یادووں اور مسلمانوں کو کیوں نشانہ بنایا، ٹھاکر نے کہا کہ ان کا بیان شخصی مدد کی درخواستوں تک محدود ہے، جیسے کہ ایمس میں علاج کے لیے کچھ کہنا یا پولیس کو فون کرنا۔ انہوں نے کہا، ‘معاشرے سے متعلق کسی بھی کام کے لیے ان کا استقبال ہے، لیکن کسی ذاتی کام کے لیے نہیں۔’

انھوں نے اس بارے میں کوئی وضاحت نہیں کی کہ انھوں نے یہ نتیجہ کیسے نکالا کہ یادو اور مسلمانوں نے انھیں ووٹ نہیں دیا۔

ٹھاکر نے خود کو ایک ایسا سیاستدان بتایا جو ذات پات اور مذہب سے بالاتر ہو کر کام کرتا ہے، لیکن وہ مایوس ہیں۔ انہوں نے کہا، ‘کچھ لوگ ایسا کریں گے، لیکن ایسا نہیں کہیں گے، میں نے کھل کر کہا ہے، جیسا کہ میں نے جیت کے مارجن کا تجزیہ کرتے ہوئے پایا۔’

انہوں نے کہا، ‘میں تین دہائیوں سے زیادہ عرصے سے سرگرم سیاست میں ہوں اور مجھے لگتا ہے کہ میں نے ہمیشہ یادووں اور مسلمانوں کی مدد کی ہے اور اس لیے مجھے تکلیف ہوتی ہے۔ یہ میرے لیے سبق ہے اور دوسروں کے لیے بھی سبق ہونا چاہیے۔’

اپوزیشن نے مذمت کی

ٹھاکر کے تبصرے کا جواب دیتے ہوئے آر جے ڈی کے ترجمان مرتیونجے تیواری نے کہا، ‘ہم ٹھاکر کے تبصرے کی مذمت کرتے ہیں۔ ان کا تبصرہ توہین آمیز، ذات پات  پر مبنی اور مذہب مخالف ہے۔ اس سے ٹھاکر کا جاگیردارانہ رویہ ظاہر ہوتا ہے۔’

دریں اثنا، جے ڈی یو بانکا کے ایم پی گری دھری یادو نے کہا، ‘میں ٹھاکر کے بیان کی مذمت کرتا ہوں اور ان سے فوراً معافی مانگنے کا مطالبہ کرتا ہوں۔’

اس کے علاوہ بی جے پی او بی سی مورچہ کے قومی جنرل سکریٹری نکھل آنند نے بھی ٹھاکر کا نام لیے بغیر سخت الفاظ میں بیان دیا۔

آنند نے کہا، ‘ ذات پات کے تعصب کی بو آنے پر اپنی مایوسی کا اس طرح سے اظہار کرنا سیاست میں شرمناک اور قابل مذمت ہے۔ بی جے پی تمام سماجی طبقات کو ساتھ لے کر چلتی ہے۔ کوئی بھی سیاسی پارٹی بہار میں کامیاب نہیں ہو سکتی اگر وہ یادووں کو حاشیہ پر دھکیلنے کی کی کوشش کرے، جو کل آبادی کا 14 فیصد ہیں۔’