یہ دیکھتے ہوئے کہ یونیورسٹی گرانٹس کمیشن کے چیئرمین ایم جگدیش کمار نیشنل ٹیسٹنگ ایجنسی کے پروموٹر ان چیف ہیں، این ٹی اے کی تحقیقات کرنے والی کسی بھی کمیٹی کو ان کی اوریو جی سی میں ان کے کردار کی بھی لازمی طور پر جانچ کرنی چاہیے۔
اب جبکہ این ٹی اے (نیشنل ٹیسٹنگ ایجنسی) کے سلسلے میں ایک ریویو پینل کا قیام عمل میں آ چکا ہے، ہمارا مطالبہ ہے کہ این ٹی اے کے تمام پہلوؤں کی جامع تحقیقات کی جانی چاہیے، جس میں یو جی سی (یونیورسٹی گرانٹس کمیشن) اور خصوصی طور پر اس کے چیئرمین مامی ڈالا جگدیش کمار کے کردار کی جانچ بھی لازمی طور پر کی جانی چاہیے۔
میں نے سابقہ پوسٹ میں ذکر کیا تھا کہ اگرچہ این ٹی اے کو حکومت ہند کا نشان استعمال کرنے کی اجازت دی گئی ہے، لیکن یہ ایک پرائیویٹ باڈی/سوسائٹی ہے (اسکرین شاٹ میں پھر سے رجسٹریشن سرٹیفکیٹ ملاحظہ کیجیے) اور تمام سرکاری محکمے اور دیگر ادارے کو رجسٹرار آف سوسائٹیز کی جانب سے مشورہ دیا جاتا ہے کہ ‘وہ ان کے ساتھ کسی بھی معاہدے/اسائنمنٹ میں قدم بڑھانے سے پہلے اپنے اثاثوں اور واجبات کی لازمی تصدیق (خود)کریں۔’
اس کو دیکھتے ہوئے ہمیں اس بارے میں غور کرنا چاہیے کہ این ٹی اےجن مختلف اداروں کے لیے امتحانات کا انعقاد کرتا ہے،وہ گزشتہ دو سالوں میں ہر سال این ٹی اے کے ساتھ اس معاہدے میں کیسے شامل ہوئے ہیں۔ کیا وہ اس کے اثاثوں (جو پراسرار طور پر پبلک ڈومین میں نہیں ہیں) کے متعلق اپنی طرف سےتن دہی اور مستعدی سے کام کرتے ہیں، کیا ہر سال معاہدے کی تجدید کی جاتی ہے اور دستخط کیے جاتے ہیں ، اورکیا اس سے بھی پہلے یہ فیصلہ ادارے کی قانونی اتھارٹی کی جانب سے منظور کیا جاتا ہے؟
میں یہ اس لیے پوچھ رہی ہوں کہ ہم جے این یو کے وقت سے جانتے ہیں- جس کے داخلے کے عمل کو اس وقت کے وائس چانسلر ایم جگدیش کمار نے این ٹی اے کا استعمال کرتے ہوئے ہر طرح سےسبوتاژ کر دیا تھا اور جو اس وقت یو جی سی کے چیئرمین ہیں- کہ ڈیو پروسس کا بہت کم مشاہدہ کیا گیا تھا۔
ہمارے ساتھی اور جے این یو ٹی اے کے موجودہ صدر موسمی بسو نے 2020 سے مسلسل آر ٹی آئی کے ذریعے اس سلسلے میں جانکاری طلب کی ہے، یہ جاننے اور پتہ لگانے کی کوشش میں کہ کیسے اچانک این ٹی اے کے لیے یہ محبت پیدا ہوگئی۔
آپ (دوسرے) اسکرین شاٹ میں ان سنگین خلاف ورزیوں کی کہانی پڑھ سکتے ہیں جو ہوئی ہیں۔ یہ اسکرین شاٹ 1 مارچ 2021 کو جے این یو ٹی اے کے جاری کردہ ایک پریس نوٹ سے لیا گیا ہے، لیکن اس کا لب لباب یہ ہے کہ؛ ایم جگدیش کمار نے جے این یو کے وائس چانسلر کے طور پر اپنی حیثیت میں اس کے قانونی عمل کی ہر ممکن خلاف ورزی کرتے ہوئے اور مفادات کے تصادم – کیونکہ وہ این ٹی اے کی گورننگ باڈی کے ممبر بھی تھے – کے باوجود جے این یو پر این ٹی اے کو مسلط کیا ۔
ایسا لگتا ہے کہ جے این یو اور این ٹی اے کے درمیان کوئی ایم او یو یا معاہدہ نہیں ہوا ، اور یہ بھی معلوم نہیں ہے کہ این ٹی اے نے امتحان کے انعقاد کے لیے جے این یو سے کتنے پیسے لیے تھے۔ تاہم، اس سے جے این یو کو جو حاصل ہوا وہ ہے — ریونیو کا نقصان اور طلباء کے تنوع اور معیار کو شدید نقصان ۔
یقیناً، اس عمل میں این ٹی اے کو تجربہ اور وقار کے علاوہ بہت کچھ حاصل ہوا، کیونکہ اس کے چیف پروموٹر ایم جگدیش کمار کو جے این یو میں اپنا دور (جو کہ طلبہ اور اساتذہ کے خلاف منظم تشدد اور سنگین بدانتظامیوں کے لیے جانا جاتا ہے) مکمل کرنے کے فوراً بعد یو جی سی کے چیئرمین کے عہدے سے نوازا گیا۔
چار فروری 2022 کویو جی سی کے چیئرمین کے طور پر چارج سنبھالنے کے دو ماہ سے بھی کم وقت میں یو جی سی نے21 مارچ 2022 کو سی یو ای ٹی –یوجی کو قومی داخلہ امتحان کے طور پر مطلع کیا۔
تو آخر مامی ڈالا کی آمد کے پانچ چھ ہفتوں کے اندر یو جی سی میں یہ فیصلہ کیسے لیا گیا؟ کیایو جی سی کمیشن نے این ٹی اے کے ذریعے تیار کردہ اور زیر انتظام کامن انٹرنس امتحان کے لیے این ای پی کی تجاویز کو نافذ کرنے کے طریقے پر تبادلہ خیال کرنے کے لیے کوئی میٹنگ کی تھی؟ کیاایسی کسی میٹنگ میں21 مارچ کو یونیورسٹیوں کو خط لکھنے سے پہلےاین ٹی اے کی ساکھ اور پروٹوکول کی جانچ کی گئی تھی؟
پچھلے 24 گھنٹوں میں یو جی سی کی سائٹ پر دستیاب کمیشن کی میٹنگوں کے منٹس کو کھنگالنے کے بعد مجھے یہ تسلیم کرنا ہوگا کہ میں حیران محض ہوں۔کمیشن کی دو میٹنگ فروری اور مارچ میں ہوئی تھی، لیکن ان میں سے کسی میں بھی این ٹی اے اور سی یو ای ٹی –یو جی کے بارے میں کوئی بات نہیں ہوئی۔
تجسس کے باعث میں نے پہلے اس بات کی تحقیق کی کہ کیا یہ کوئی پرانا فیصلہ تھا جسے ایم جگدیش کمار نے صرف نافذ کیا، لیکن ایسا نہیں ہے۔
بعد کی بیٹھکوں میں بھی این ٹی اے کی کوئی جانچ نہیں کی جاتی، ماہرین یا مراکز کے انتخاب کے حوالے سے اسے کبھی کوئی رہنما خطوط جاری نہیں کیے جاتے، کسی معاہدے کا ذکر نہیں کیا جاتا، اس کے اثاثوں یا واجبات پر کوئی بات نہیں کی جاتی۔
اس کے بجائے،یو جی سی نے 22 ستمبر کو این ٹی اے کے لیے اپنی تعریف صرف ‘کسی اور مد’ میں درج کی ، جس کے بارے میں ہم جے این یو والے جانتے ہیں کہ یہ ایم جگدیش کمار کے مسلط کردہ تمام احکامات کو درج کرنے کا پسندیدہ نقطہ ہے۔
بیٹھکوں کے بے شمار بورنگ منٹس کو پڑھنے کے بعد بھی پورایو جی سی کہیں بھی امتحان منعقد کرانے والے ایک وینڈر کے طور پر این ٹی اے کی موزونیت اور اہلیت یا سی یو ای ٹی یا یو جی سی-نیٹ امتحانات کی ذمہ داری اسے دینےکے لیے اس کی کارکردگی کے بارے میں تبادلہ خیال کرتا نظر نہیں آتا ہے۔ درحقیقت، یو جی سی-نیٹ کو پی ایچ ڈی کا داخلہ ٹیسٹ قرار دینے والی بیٹھک میں بھی کمیشن کی طرف سے لیے گئے فیصلے کو درج نہیں کیا گیا ہے، بلکہ صرف پہلے سے کی گئی کارروائی کی تصدیق کے طور پر درج کیا گیا ہے۔
اگر آپ بھی میری طرح شکوک و شبہات میں مبتلا ہیں تو براہ کرم آخری دو اسکرین شاٹ ملاحظہ کریں اور یہ بھی نوٹ کریں کہ اس 578ویں میٹنگ میں مکمل کمیشن کے صرف چار ممبران اور دو خصوصی طور پر مدعو ممبران شامل ہوئے تھے۔
یو جی سی سی یو ای ٹی کے بغیر این ٹی اے اتنا برباد نہ ہوا ہوتا، جتنا ہوگیا ہے۔ وہیں،یو جی سی کی ساکھ بھی مامی ڈالا کے اس ادارے میں آئے بغیر بنی رہتی۔ یہ دیکھتے ہوئے کہ وہ این ٹی اے کے پروموٹر ان چیف ہیں، این ٹی اے کی تحقیقات کرنے والی کسی بھی کمیٹی کو جگدیش کمار اوریو جی سی میں ان کے کردار کی بھی لازمی طور پرجانچ کرنی چاہیے۔
(عائشہ قدوائی جے این یو میں پروفیسر ہیں۔)
(انگریزی میں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں ۔ )
Categories: فکر و نظر