خاص خبر

نریندر مودی کی نئی حکومت میں مسلمانوں پر حملے کا نیا سلسلہ

یہ خیال کرنا غلط ہوگا کہ انتخابی مہم کے دوران تشدد کے واقعات کم ہوگئے تھے۔ دراصل زبانی طور پر اور اشتعال انگیز تقریروں کے ذریعے تشدد کے واقعات رونما ہوئے، جنہیں وزیر اعظم اور بی جے پی کے دوسرے بڑے لیڈران انجام دے رہے تھے۔

(السٹریشن: پری پلب چکرورتی/دی وائر)

(السٹریشن: پری پلب چکرورتی/دی وائر)

نئی دہلی: لوک سبھا انتخابات میں نریندر مودی کی بی جے پی حکومت کو اکثریت نہ ملنے کے بعد مبصرین  کا خیال تھا کہ اب ان کے انتہا پسند حامی کمزور ہوں گے اور مسلمانوں پر حملے کم ہو جائیں گے۔ لیکن ایسا حقیقت میں ہوتا ہوانظر نہیں آ رہا ۔ انتخابی نتائج کے بعد ملک بھر میں مسلمانوں پر حملوں میں اضافے کا مشاہدہ کیا گیاہے۔ خصوصی طور پر اگر انتخابی مہم کاتجزیہ کیا جائے تو اُن دو مہینوں میں تشدد میں کے واقعات کم ہوئے تھے۔

دی وائر نے سال 2024 کو تین حصوں میں تقسیم کرکے مسلمانوں کے خلاف تشدد کا جائزہ لیا ہے؛

جنوری-مارچ

اپریل- مئی

چار  جون – 20 جون

وہ واقعات جو 4 جون سے 20 جون کے درمیان پیش آئے

چھتیس گڑھ میں گئو رکشکوں نے تین مسلم نوجوانوں کو مار ڈالا

چھتیس گڑھ کے رائے پورمیں 7 جون کو، دو مسلمانوں – چاند میاں  خان (23) اور گڈو خان (35) کو گئو رکشکوں  نے اس وقت پیٹ پیٹ کر ہلاک کر دیا، جب وہ ایک ٹرک میں بھینسوں کے ساتھ یوپی کے سہارنپور سے اڑیسہ جا رہے تھے ۔ ان کے ساتھی صدام قریشی (23) اس حملے میں بری طرح زخمی ہوئے اور 10 دن بعد ہسپتال میں ان کی موت ہوگئی ۔

چاند میاں  اور صدام سہارنپور کے رہنے والے تھے اور گڈو خان شاملی کے۔

چوری کے شبہ میں ایک شخص کو پیٹ پیٹ کرہلاک کر دیا گیا

علی گڑھ میں ایک 35 سالہ شخص محمد فرید عرف اورنگ زیب کو ہجوم نے مبینہ طور پر چوری کے الزام میں پیٹ پیٹ کر ہلاک کر دیا ۔ پولیس کے مطابق فرید پر اس وقت حملہ کیا گیا جب اسے مبینہ طور پر کپڑوں کے ایک تاجر کے گھر سے باہر نکلتے ہوئے دیکھا گیا۔ اس معاملے میں چار لوگوں کو گرفتار کیا گیا ہے۔

ہماچل پردیش میں بجرنگ دل اور  وشو ہندو پریشد کے ارکان نے مسلم دکاندار پر حملہ کیا

سوشل میڈیا پر وائرل ایک ویڈیو میں محمد عمر قریشی نامی شخص نے بجرنگ دل اور وشو ہندو پریشد (وی ایچ پی) کے لوگوں پر مار پیٹ کرنے کا الزام لگایا اور کہا کہ انہوں نے اس سے پیسے لوٹے اور انہیں جئے شری رام کا نعرہ لگانے پر مجبور کیا۔

متاثرہ قریشی، جو یوپی کے میرٹھ کے رہنے والے ہیں اور ایک ریہڑی لگاتے  ہیں، نے بتایا کہ حملہ آوروں نے انہیں پیٹتے ہوئے کہا، ‘اب ہماری سرکار آگئی ہے۔ مسلمانوں کا اب وجود نہیں رہنے دیا جائے گا۔’

قریشی نے الزام لگایا کہ شکایت کے باوجود پولیس نے ایف آئی آر درج نہیں کی۔

تلنگانہ کے میڈک ضلع میں دائیں بازو کے ہجوم نے مدرسے پر حملہ کیا

خبروں کے مطابق،  بقرعید  کے موقع پر منہاج العلوم مدرسہ انتظامیہ کی جانب سے مویشی خریدنے کے بعد دائیں بازو کی تنظیموں کے ارکان نے مدرسے پر حملہ کردیا۔ اس میں کئی لوگ زخمی ہوئے جنہیں علاج کے لیے مقامی اسپتال میں داخل کرایا گیا۔ بعد میں ہجوم نے اسپتال پر بھی حملہ کیا اور پتھراؤ کیا۔

مدھیہ پردیش میں فریج میں بیف ملنے پر پولیس نے مکانات کو منہدم کیا

ایم پی کے ایک پولیس افسر کے مطابق، گائے کے گوشت کی غیر قانونی تجارت کے خلاف کریک ڈاؤن کے تحت قبائلی اکثریتی منڈلا میں’سرکاری زمین’پر 11 لوگوں کے بنائے ہوئے مکانات مسمار کر دیے گئے ۔

منڈلا سپرنٹنڈنٹ آف پولیس نے پی ٹی آئی کو بتایا کہ خفیہ اطلاع ملی تھی کہ نین پور کے بھینواہی علاقے میں بڑی تعداد میں گائے کو ذبح کرنے کے لیے یرغمال بنایا گیا ہے، جس کے بعد کارروائی کی گئی۔ انہوں نے بتایا کہ تمام 11 ملزمان کے گھروں  سے گائے کا گوشت برآمد کیا گیاتھا۔

ہماچل پردیش میں ہندوتوا ہجوم نے پولیس کی موجودگی میں مسلمانوں کی دکان میں لوٹ پاٹ کی

گزشتہ 19 جون کو ہماچل پردیش کے شہر ناہن میں مسلمان کے کپڑے کی دکان میں اس لیے توڑ پھوڑ اور لوٹ پاٹ کی گئی کہ اس شخص نے اپنے وہاٹس ایپ اسٹیٹس پر قربانی کے جانوروں کی تصویریں پوسٹ کی تھیں۔ مشتعل بھیڑ نے دعویٰ کیا کہ یہ گائے کا گوشت ہے۔

رپورٹ کے مطابق،  واقعے کے دوران پولیس خاموش تماشائی بنی رہی جبکہ ہجوم میں موجود سینکڑوں لوگ ‘ایک ہی  نعرہ،ایک ہی  نام، جئے شری رام’ کے نعرے لگا رہے تھے۔

کئی سالوں سے ناہن میں کاروبار کر رہے دکان کے مالک جاوید سہارنپور کے رہنے والے ہیں۔

قابل ذکر ہے کہ اس کے بعد پولیس کی جانچ میں ثابت ہوا کہ وہ تصویریں گائے کی نہیں تھیں۔

مغربی بنگال میں مندر کے قریب گوشت پھینکنے پر ہجوم نے مسلم نوجوان کو زدوکوب کیا

گزشتہ 17 جون کو عید کے دن مغربی بنگال کے بیرہم ضلع کے نوآپورہ گاؤں میں ہجوم نے مسلم نوجوان طوفان شیخ (19) کو ایک مندر کے قریب گوشت پھینکنے کے شبہ میں ستون سے باندھ کر بے دردی سے پیٹا ۔

اس معاملے میں نامعلوم افراد کے خلاف ایف آئی آر درج کی گئی اور 9-10 لوگوں کو گرفتار کیا گیا۔

متاثرہ کے بڑے بھائی نے بتایا کہ شیخ موٹر سائیکل پر قربانی کا حصہ بانٹنے کے لیےاپنے ایک رشتہ دار کے گھر جا رہا تھا جب  تھیلے سے گوشت کا ایک پیکٹ سڑک پر گر گیا۔ جب  اس نے اس کو اٹھانے کے لیے یو ٹرن لیاتو ہجوم نے اسے گھیر لیا اور جان بوجھ کر مندر کے سامنے گوشت پھینکنے کا الزام لگایا۔

ان معاملوں کے علاوہ گزشتہ ایک ماہ کے دوران مسلمانوں پر مظالم کے کئی اور واقعات سامنے آئے۔

لوک سبھا انتخابات کے نتائج کے بعد مسلمانوں کے خلاف تشدد میں اچانک اضافے کی وجوہات کے بارے میں مسلمانوں پر مظالم کا ریکارڈ رکھنے والی ویب سائٹ ہندوتوا واچ کے بانی رقیب نائیک نے کہا کہ مودی حکومت کے کمزور ہونے  کی وجہ سے مسلمانوں پر ہونے والے میں مظالم گراوٹ واقع ہوگی ، اس کا امکان بہت کم ہے۔ اس طرح کے جرائم اسی وقت کم ہوں گے جب تمام ریاستوں سے بی جے پی کا خاتمہ ہوگا۔

انہوں نے مزید کہا کہ ایسا ہونے کا امکان کم ہے کیونکہ مسلمانوں کے خلاف نفرت سماج کی جڑوں تک پھیل چکی ہے اور یہ نہیں کہا جا سکتا کہ اسے ٹھیک ہونے میں کتنا وقت لگے گا۔

جرائم میں اچانک اضافہ پر انہوں نے کہا، ‘انتخابات میں بی جے پی کے اچھامظاہرہ نہ کرنے کا ذمہ دار مسلمانوں کو ٹھہرایا جا رہا ہے۔ ایک طرف ہندوتوا کے حامی کہتے ہیں کہ وہ مسلمانوں کا ووٹ نہیں چاہتے تو دوسری طرف بی جے پی کو ووٹ نہ دینے پر انہیں ہراساں کرتے ہیں۔’

ان کا یہ بھی ماننا ہے کہ انتخابی مہم کے دوران پی ایم مودی جیسے بڑے لیڈر کی طرف سے کی گئی فرقہ وارانہ بیان بازی تشدد کرنے والوں کے حوصلے بلند کرتی ہے۔

اپریل اور مئی میں مسلمانوں پر حملے نسبتاًکم ہوئے

دی وائر نے ان دو مہینوں میں شائع ہونے والی خبروں کا جائزہ لیاتو پایا کہ عام انتخابات کے دوران اپریل مئی میں ملک بھر میں مسلمانوں پر حملے نسبتاً کم ہوئے۔

کیمپس میں ہندو دوستوں کے ساتھ گھومتے مسلمان طالبعلم کی پٹائی

نیوز لانڈری کی ایک رپورٹ کے مطابق ، 7 اپریل کو ساوتری بائی پھولے پونے یونیورسٹی کے سال اول کے طالبعلم جنید جمعدار اور اس کے ساتھ گھوم رہے لوگوں (ایک مرد اور دو خواتین) کو کچھ غنڈوں نے روکا اور  شناختی کارڈ دکھانے کو کہا۔ شناختی کارڈ دیکھنے کے بعد ان  غنڈوں نے جنید کی طرف رخ کیا۔

جنید نے بتایا کہ انہوں نے پوچھا کیا میں مسلمان ہوں؟ جب میں نے ہاں کہا تو انہوں نے پوچھا ‘تم یہاں ہندو لڑکیوں کے ساتھ کیا کر رہے ہو؟ لو جہاد کرنے آئے ہو؟ ‘اس سے پہلے کہ جنید کچھ جواب دے پاتا، انہوں نے انہیں  مارنا شروع کر دیا اور  کہا کہ کالج چھوڑ دو ورنہ جان سے مار ڈالیں گے۔

دعویٰ ہے کہ وہ لوگ وی ایچ پی کے رکن تھے، جنہوں نے جنید کے ساتھ موجود دو لڑکیوں کو بھی مسلمان لڑکوں سے دور رہنے کی دھمکی دی تھی…

مویشی کے تاجروں کے ساتھ مار پیٹ

 اڑیسہ کے بابلیشور میں بندے نواز نامی شخص پر وجئے پورہ سے بابلیشور مویشیوں کو لے جانے کے دوران بجرنگ دل کے 10-15 ارکان نے گائے کی اسمگلنگ کے الزام میں حملہ کرکے بری طرح زخمی کردیا ۔

ہندوتوا ویب سائٹ کے ذریعے نشانہ بنائے جانے کے بعد ممبئی کی پرنسپل کو برخاست کیا گیا

ممبئی کے ایک نجی اسکول کی پرنسپل پروین شیخ کو فلسطین کی حمایت میں ایک پوسٹ لائیک کرنے کی وجہ سے اسکول سے نکال دیا گیا ۔

گزشتہ 24 اپریل کو او پ انڈیا نام کی ایک  ویب سائٹ نے شیخ کے خلاف ایک اسٹوری چلائی تھی، جس میں شیخ کے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس  پر لائیک کی گئی پوسٹ کی بنیاد پر ‘حماس کی حمایتی’، ‘ہندو مخالف’ اور ‘اسلامسٹ عمر خالد’کا  حامی ہونے کا الزام لگایا گیا تھا۔

اوپ انڈیا نے سوشل میڈیا پر اسکول پرنسپل کے خلاف مہم بھی چلائی، جس کے بعد اسکول انتظامیہ نے انہیں اسکول سے نکال دیا۔

گجرات میں گئو رکشکوں کے ذریعے ایک مسلمان شخص  کی لنچنگ

اسی طرح 22 مئی کو گجرات کے بناس کانٹھا میں ایک  ڈرائیور کے ساتھ بھینسیں لے جا رہے مشری خان بلوچ نامی ایک مسلمان شخص کو گئو رکشکوں  نے مبینہ طور پر پیٹ پیٹ کر ہلاک کر دیا ۔

بلوچ کے بھائی نے بتایا کہ گئو رکشکوں  نے گاڑی کا تعاقب کیا اور انہیں روکا، 2 لاکھ روپے کا مطالبہ کیا اور ان کے ساتھ  مار پیٹ شروع کردی، ڈرائیور کسی طرح فرار ہونے میں کامیاب ہوگیا لیکن ہجوم نے بلوچ کو بے دردی سے مارا جس سے ان کی موت ہو گئی۔

رقیب نائیک کے مطابق ،انتخابات کے دوران تشدد میں کمی کی سب سے اہم وجہ یہ تھی کہ اس دوران بجرنگ دل، وی ایچ پی اور دیگر ہندوتوا تنظیمیں انتخابات میں مصروف تھیں۔ ایک وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ انتخابات کے دوران ملک بھر میں ضابطہ اخلاق کا نفاذ ہوتا ہے، اس دوران جرائم کرتے ہوئے پکڑے جانے کے امکانات زیادہ ہوتے ہیں، اسی خدشے کی وجہ سے تشدد کے واقعات کم  ہوئے۔

جنوری تا مارچ

جنوری -فروری کے مہینے میں ملک بھر میں مسلمانوں پر مظالم کے کئی واقعات رپورٹ ہوئے۔ کئی ایسے واقعات سامنے آئے جہاں پولیس نے مسلمانوں کو تشدد کا نشانہ بنایا۔

بدایوں میں گائے ذبیحہ کے شبہ میں پولیس نے مسلم نوجوان کو نشانہ بنایا

یوپی کے بدایوں شہر میں، ایک چوکی کے انچارج سمیت پانچ پولیس اہلکاروں پر گئو کشی کے الزام میں مسلم نوجوان کے ساتھ  مبینہ طور پر مار پیٹ کرنے کا الزام لگا تھا، بعد میں خبروں سے پتہ چلا کہ پولیس نے متاثرہ شخص  کوکوئی  اور شخص سمجھ کر  اٹھایا تھا۔

بائیس  سالہ متاثرہ کی والدہ نے الزام لگایا کہ پولیس نے ایک سب انسپکٹر کی سربراہی میں اس کے بیٹے کے ساتھ غیر انسانی سلوک کیا، جس میں جسم کے حساس حصوں میں چھری  ڈالنا اور بار بار بجلی کے جھٹکے دینا شامل تھا۔

ممبئی کے میرا روڈ میں مسلمانوں کی دکانیں توڑی گئیں

وہیں ،21 اور 22 جنوری کو رام مندر کی پران-پرتشٹھا کی تقریبات کےحوالے سے منائے جا رہے جشن کے  دوران ممبئی سے متصل میرا روڈ پر اور ریاست کے کئی دیگر حصوں میں مسلم مخالف نعرے لگائے گئے اور جھڑپیں ہوئیں۔ پولیس نے مبینہ طور پر ہندوؤں کی ایک ریلی کو مسلم علاقے میں داخل ہونے سے روکنے کی کوشش کی، جس کے نتیجے میں دونوں فریقوں کے درمیان کشیدگی اور جھڑپیں ہوئیں۔ ریلی میں اشتعال انگیز اور نسل کشی کے نعرے لگائے گئے تھے۔

تشدد کے بعد میرا بھیندر میونسپل کارپوریشن (ایم بی ایم سی) نے میرا روڈ پر نیا نگر میں مبینہ غیر قانونی ڈھانچوں،  جو مسلمانوں کی ملکیت تھیں ، کے  خلاف بلڈوزر کارروائی کی۔

مسلم نوجوان کی برہنہ پریڈ، پرائیویٹ پارٹ میں آگ لگانے کی کوشش

تلنگانہ کے کومودی میں ایک مسلم نوجوان کو مبینہ طور پر سوشل میڈیا پر بھگوا جھنڈےکی توہین کرنے والی ریل پوسٹ کرنے کے الزام میں پیٹا گیا اور برہنہ پریڈ کرائی گئی۔ الزام ہے کہ اس کے پرائیویٹ پارٹس کو جلانے کی کوشش بھی کی گئی۔

پولیس نے مسلم نوجوان کی جان لی ،  انکاؤنٹر بتایا

وہیں ، 16 جنوری کو مظفر نگر کے کھتولی کے رہنے والے ایک مسلمان شخص کو پولیس نے مبینہ طور پر قتل کر دیا ۔ پولیس کا کہنا ہے کہ وہ چور تھا اور اسے انکاؤنٹر میں مارا گیا جبکہ اہل خانہ کا کہنا ہے کہ اس کا چوری سے کوئی لینا دینا نہیں تھا اور اسے بے رحمی سے قتل کیا گیا۔

یہ واقعہ اس وقت پیش آیا جب 23 سالہ متین اپنے ٹھیلےکے لیے سبزی خریدنے نکلا تھا۔ اہل خانہ کے مطابق، دوپہر میں متین نے انہیں نامعلوم نمبر سے فون کیا اور کہا کہ اسے پولیس نے گولی مار دی ہے اور وہ میرٹھ کے میڈیکل اسپتال میں ہیں۔ ہسپتال پہنچنے پر اہل خانہ نے متین کو شدید زخمی حالت میں پولیس اہلکاروں کے گھیرے میں پایا۔ پولیس نے انہیں متین سے ملنے کی اجازت نہیں دی اور اس نے  دم توڑ  دیا۔

ہلدوانی: مدرسہ اور مسجد میں توڑ پھوڑ کے بعد چھ مسلمانوں کی موت

اتراکھنڈ کے ہلدوانی کے بن بھول پورہ علاقے میں ایک مدرسہ اور مسجد پر بلڈوزر کارروائی کے بعد مظاہرین اور پولیس کے درمیان جھڑپوں کے درمیان وزیر اعلیٰ پشکر سنگھ دھامی کے دیے گئے  شوٹ ایٹ سائٹ  کےآرڈر کے بعد چھ افراد کی گولی لگنے سے موت ہو گئی۔

بلڈوزر کی کارروائی کے بعد علاقے میں افراتفری مچ گئی تھی اور اطلاعات کے مطابق پولیس نے لوگوں کو گولی مارنے کے لیے مشین گن کا استعمال کیا تھا، مقامی لوگوں کے مطابق، ہندو ہجوم نے بھی پولیس کے ساتھ مل کر پرتشدد واقعات کو انجام دیا۔

رقیب نائیک نے اس وقت مسلمانوں کے خلاف ہونے والے تشدد کو رام مندر کے پران-پرتشٹھا کی تقریب سے جوڑا۔ انہوں نے کہا، ‘جب بھی ایسی مذہبی سرگرمیاں ہوتی ہیں، مذہب کی بنیاد پر تشدد میں اضافہ دیکھا جاتا ہے۔

‘ایک اور وجہ یہ  ہو سکتی ہے کہ ان مہینوں میں لوک سبھا انتخابات کی تیاریاں عروج پر تھیں اور کچھ سیاسی پارٹیاں برادریوں کے درمیان ماحول خراب کر کے اپنی روٹی  سینکتی ہیں۔ اس لیے مسلمانوں کے خلاف تشدد میں اضافے کو انتخابات سے بھی جوڑا جا سکتا ہے۔’

نیوز ویب سائٹ مسلم مرر نے مارچ میں ایک رپورٹ جاری کی تھی، جس میں مذکورہ تقریب کے بعد ملک بھر میں مسلمانوں کے خلاف تشدد کے واقعات میں اضافے کا ذکر کیا گیا تھا۔

تاہم، ابھی تک کوئی سرکاری اعداد و شمار دستیاب نہیں ہیں، لیکن اخبارات اور نیوز پورٹلز میں دستیاب رپورٹس بتاتی ہیں کہ جنوری سے مارچ تک مسلمانوں کے خلاف تشدد کے متعدد واقعات پیش آئے۔ اپریل اور مئی میں ایسے معاملات میں کمی آئی اور جون کے مہینے میں اس میں تیزی سے اضافہ دیکھا گیا۔

دہلی یونیورسٹی کے پروفیسر اپوروانند کا کہنا ہے کہ انتخابات کے دوران پرتشدد سرگرمیوں کو انجام دینے والے لوگ مصروف تھے، انتخابات ختم ہونے کے بعد وہ پھر سے اپنی فطری سرگرمیوں میں مشغول ہوگئے، جس کے بعد تشدد کے واقعات میں اضافہ ریکارڈ کیا گیا۔

انتخابات کے دوران کم تشدد کے بارے میں انہوں نے کہا، ‘ہمیں یہ نہیں سمجھنا چاہیے کہ تشدد میں کمی آئی ہے، انتخابات کے دوران تشدد مختلف طریقے سے ہوا۔ اور یہ تشدد وزیر اعظم اور بی جے پی کے دوسرے بڑے لیڈر زبان کے ذریعے کر رہے تھے۔ وہ لوگ کھلے عام مسلمانوں کے خلاف اشتعال انگیز تقریریں کر رہے تھے، یہ بھی تشدد کی ایک قسم ہے۔’

انہوں نے مزید کہا کہ آنے والے وقتوں میں مسلمانوں کے خلاف تشدد کے واقعات میں اضافہ ہوگا۔ کیونکہ بی جے پی کے حامیوں کو لگتا ہے کہ مسلمانوں نے بی جے پی کو کمزور کیا ہے، اس لیے انہیں سزا  دی جائے  گی۔