خبریں

پتنجلی: 14ممنوعہ مصنوعات کی فروخت جاری، کمپنی نے عدالت میں کہی تھی سپلائی بند ہونے کی بات

پتنجلی آیوروید لمیٹڈ نے منگل کو سپریم کورٹ میں کہا تھا کہ اس نے ان 14 مصنوعات کی فروخت پر روک لگا دی ہے، جن کے مینوفیکچرنگ لائسنس کو اتراکھنڈ اسٹیٹ لائسنسنگ اتھارٹی نے گزشتہ اپریل میں رد کر دیا تھا۔ تاہم، یہ مصنوعات پتنجلی کے کئی اسٹور پر فروخت ہو رہی ہیں۔

(علامتی تصویر بہ شکریہ: فیس بک)

(علامتی تصویر بہ شکریہ: فیس بک)

نئی دہلی: پتنجلی آیوروید ایک بار پھر سرخیوں میں ہے اور اس کی وجہ کمپنی کی وہ  14 ممنوعہ مصنوعات ہیں، جن کی فروخت اور اشتہار کو سپریم کورٹ نے بند کرنے کی ہدایت دی تھی۔

عدالت نے منگل (9 جولائی) کو پتنجلی آیوروید سے اس بات کا ثبوت پیش کرنے کو کہا تھا کہ کمپنی نے اپریل میں اتراکھنڈ اسٹیٹ لائسنسنگ ڈپارٹمنٹ کی طرف سے ممنوعہ 14 مصنوعات کی فروخت اور تشہیر روک دی ہے۔

ہندوستان ٹائمز کی  رپورٹ کے مطابق، سپریم کورٹ کمپنی کے اس دعوے کی تصدیق کرنا چاہتی تھی کہ  پتنجلی نے واقعتاً تمام اسٹور مالکان، اشتہاری آؤٹ لیٹس اور سوشل میڈیا پلیٹ فارموں سے پابندی کی پیروی کرنے کو کہا ہے یا نہیں۔

اس سلسلے میں اخبار نے منگل اور بدھ (10 جولائی) کو ملک کے چار بڑے شہروں نئی دہلی، لکھنؤ، پٹنہ اور دہرادون میں پتنجلی اسٹورز کا دورہ کیا اور پایا کہ پتنجلی کی ممنوعہ مصنوعات کی فروخت اب بھی جاری ہے۔ تمام 14 ممنوعہ مصنوعات کئی دکانوں پر دستیاب نہیں تھیں۔تاہم، اس کی وجہ اسٹاک کی کمی  تھی نہ کہ  سپلائی بند ہونا۔

کچھ دکانوں کے کاؤنٹر پر بیٹھے لوگوں نے زور دے کر کہا کہ یہ مصنوعات ایک ہفتے کے اندر دوبارہ خریدی جا سکتی ہیں۔ وہیں ، بین کی گئی  تمام 14 ممنوعہ مصنوعات کسی نہ کسی دکان پر آسانی سے دستیاب تھیں۔

جن ادویات کے مینوفیکچرنگ لائسنس معطل کیے گئے تھے ان میں ‘سوساری گولڈ’، ‘سوساری وٹی’، ‘برانچوم’، ‘سوساری پرواہی’، ‘سوساری اوالیہ’، ‘مکتا وٹی ایکسٹرا پاور’، ‘لیپیڈوم’، ‘بی پی گرٹ’، ‘مدھوگرڑ، ‘مدھوناشینی وٹی ایکسٹرا پاور’، ‘لیوامرت ایڈوانس’، ‘لیووگرٹ’، ‘آئی گرٹ گولڈ’ اور ‘پتنجلی درشٹی آئی ڈراپ’ شامل تھیں۔

اخبار کی ٹیم نے جب نئی دہلی کی نیو فرینڈز کالونی میں واقع پتنجلی اسٹور کا دورہ کیا تو وہاں کے دکاندار ان ادویات کے لائسنس رد ہونے کی خبر سے لاعلم تھے۔ یہاں اسٹاک میں14 میں سے سات ممنوعہ مصنوعات دستیاب تھیں۔

نیو فرینڈز کالونی کے بعد دہلی کے ایسٹ آف کیلاش علاقے کے پتنجلی اسٹور پر بھی دکاندار نے  کہا کہ ان کے پاس 14 میں سے 9 دوائیوں کا اسٹاک ہے، لیکن ان پر لگائی گئی پابندی کے بارے میں انہیں کوئی جانکاری نہیں ہے۔

انہوں نے اخبار کو بتایا، ’ہمارے پاس ایسٹ آف کیلاش، جی کے، جنگ پورہ، پنچ شیل پارک، گرین پارک اور دیگر علاقوں کے گاہک ہیں۔ وہ ہماری دوائیں باقاعدگی سے خریدتے ہیں۔ زیادہ تر گاہک بوڑھے مرد یا درمیانی عمر کے جوڑے  ہیں۔‘

پٹنہ کے لوک نائک بھون، ڈاک بنگلہ چوراہے کے پاس، پراگتی پتنجلی کے آشیش کیشری نے اخبار کو بتایا کہ انہیں کمپنی کی جانب سے اپنی آیورویدک مصنوعات کی فروخت روکنے کے بارے میں کوئی اطلاع نہیں ملی ہے۔

انہوں نے مزید کہا، ‘لوک سبھا انتخابات کے دوران سپلائی چین 10 دنوں کے لیے متاثر ہوئی تھی۔ اگر پتنجلی کی کسی بھی مصنوعات پر پابندی لگائی جاتی تو وہ سپلائی چین میں نہ ہوتی اور ہم انہیں فروخت نہیں کر رہے ہوتے۔‘ ان کے پاس سے 14 ممنوعہ ادویات میں سے 13 کا سٹاک ملا۔

اسی طرح اخبار کے رپورٹر نے لکھنؤ کے حضرت گنج پہنچ کر 9 جولائی کی شام 7.30 بجے پتنجلی آروگیہ کیندر سے تمام 14 دوائیں کل 3370 روپے میں حاصل کیں۔ دکان چلانے والے دکاندار نے بتایا کہ یہ تمام ادویات بڑی مقدار میں دستیاب ہیں۔ 10 سے زیادہ اسٹرپس بھی دی جا سکتی ہیں۔

معلوم ہو کہ پتنجلی آیوروید لمیٹڈ نے منگل کو سپریم کورٹ کو مطلع کیا تھا کہ کمپنی نے ان 14 مصنوعات کی فروخت روک دی ہے جن کے مینوفیکچرنگ لائسنس کو اپریل میں اتراکھنڈ اسٹیٹ لائسنسنگ اتھارٹی نے رد کر دیا تھا ۔

پتنجلی آیوروید لمیٹڈ نے جسٹس ہیما کوہلی اور جسٹس سندیپ مہتہ کی بنچ کو بتایا تھا کہ اس نے 5606 فرنچائز اسٹورز کو بھی ان مصنوعات کو واپس لینے کی ہدایات بھی جاری کی ہیں۔ ان سب کے علاوہ میڈیا پلیٹ فارموں سے ان 14 مصنوعات سے متعلق تمام اشتہارات واپس لینے کی ہدایات دی ہیں۔

بنچ نے پتنجلی آیوروید کو ہدایت دی کہ وہ دو ہفتوں کے اندر ایک حلف نامہ داخل کرے کہ آیا اشتہارات کو ہٹانے کے لیے سوشل میڈیا پلیٹ فارم پر کی گئی درخواستوں پر عمل درآمد کیا گیا ہے اور کیا ان 14 مصنوعات کے اشتہارات کو واپس لے لیا گیا ہے۔

عدالت نے کیس کی اگلی سماعت 30 جولائی کو مقرر کی ہے۔

اس سے قبل، اتراکھنڈ اسٹیٹ لائسنسنگ اتھارٹی نے عدالت کو بتایا تھا کہ پتنجلی آیوروید لمیٹڈ اور دیویہ فارمیسی کے 14 پروڈکٹس کے مینوفیکچرنگ لائسنس کو ‘فوری اثر سے رد’ کر دیا گیا ہے۔ سپریم کورٹ نے گمراہ کن اشتہار کے معاملے میں 14 مئی کو یوگا گرو رام دیو، ان کے ساتھی بال کرشن اور پتنجلی آیوروید لمیٹڈ کو جاری توہین عدالت نوٹس پر اپنا فیصلہ محفوظ کر لیا تھا۔

قابل ذکر ہے کہ یہ بات بھی سامنے آئی تھی کہ اتراکھنڈ اسٹیٹ لائسنسنگ اتھارٹی نے پتنجلی کے گمراہ کن اشتہارات کے خلاف کی گئی شکایتوں پر دو سال سے زیادہ عرصے سے تک کوئی کارروائی  نہیں کی تھی ۔

اسی معاملے میں آیوش کی وزارت نے عدالت میں ایک حلف نامہ داخل کرتے ہوئے کہا تھا کہ اتراکھنڈ اسٹیٹ لائسنسنگ اتھارٹی پتنجلی کے گمراہ کن اشتہارات کے خلاف کی گئی شکایتوں پر وارنن  دینے اور کمپنی کو اشتہارات بند کرنے کے لیے کہنے کے علاوہ دو سال سے زیادہ عرصے تک کوئی کارروائی نہیں کی۔

معلوم ہو کہ  کیرالہ کے ڈاکٹر کیوی بابو نے  کئی بار مرکزی حکومت کو خط لکھ کر پتنجلی کے گمراہ کن اشتہارات کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کیا تھا۔ گزشتہ فروری میں لکھے گئے ایک خط میں مرکز سے شکایت کرتے ہوئے اتراکھنڈ کے حکام پر  الزام لگایا گیا تھا کہ انہوں نے مرکز کی طرف سے کئی ہدایات اور وزیر اعظم کے دفتر کی مداخلت کے باوجود پتنجلی کی ہربل مصنوعات کے گمراہ کن اشتہارات کے سلسلے میں پتنجلی آیوروید کے خلاف کارروائی نہیں کی  ۔