پولیس کا کہنا ہے کہ کچھ لوگوں نے جان بوجھ کر دکانوں کے نام ایسے رکھے جن سے کانوڑیوں کو بھرم ہوگیا۔ کیا پولیس کو ایسا کوئی کیس ملا ،جس میں کانوڑیوں کو مسلمانوں نے مومو میں بند گوبھی کی جگہ قیمہ کھلا دیا ہو؟ کیا کانوڑیے سبزی کا مطالبہ کر رہے تھے اور انہیں گوشت کی کوئی چیز بیچ دی گئی؟
ساون آ گیا ہے۔ اتر پردیش پولیس کی ریلیز سے معلوم ہوا۔ ریلیز ساون کے بارے میں نہیں، کانوڑ یاترا کے بارے میں ہے۔ یہ ٹھیک بھی ہے کیونکہ اب شمالی ہندوستان میں، خاص طور پر اتر پردیش اور اتراکھنڈ میں ساون کا مطلب کانوڑ یاترا ہو گیا ہے۔ اور کانوڑ یاترا بھی جتنا شیو بھکتی کے بارے میں نہیں ہے، اتنا ایک خاص طرح کے ہندوؤں کے دبدبے کے بارے میں ہے۔ اور ہندوؤں کےدبدبے کا مطلب ہے مسلمانوں کو مختلف طریقوں سے دبانا اور ان پر تشدد کرنا۔ پولیس مسلمانوں کے خلاف اس ہندو دبدبے کو قائم کرنے کاوسیلہ بن گئی ہے۔
اب پولیس ایک قدم آگے بڑھ کر مذہب کی بنیاد پر چھوا-چھوت کو فروغ دے رہی ہے۔
سب سے پہلے مظفر نگر کے سینئر سپرنٹنڈنٹ آف پولیس نے میڈیا کو مطلع کیاکہ ہمارے علاقے میں، جو تقریباً 240 کلو میٹرپر محیط ہے، تمام کھانے پینے کی دکانوں کو، ہوٹلوں، ڈھابوں اورٹھیلوں کو ہدایت دی گئی ہے کہ اپنی دکانوں پر وہ مالکان کا نام نمایاں طور پر آویزاں کریں۔ یہی نہیں، انہیں اپنے یہاں کام کرنے والوں کے نام بھی ظاہر کرنے ہوں گے۔ وہ بھی اس طرح کہ ان کے مذہب کا پتہ چلے۔ صرف وکیل لکھنے سے کام نہیں چلے گا، وکیل احمد یا انصاری لکھنا ہوگا۔ ایسا اس بات کو یقینی بنانے کے لیے کیا جا رہا ہے کہ کانوڑیوں کو کوئی بھرم اور دھوکہ نہ ہو اور مستقبل میں کوئی ایساالزام نہ لگایا جائے، جس سے امن و امان کا مسئلہ پیدا ہو۔ ہر کوئی اپنی مرضی سے اس کی پیروی کر رہا ہے۔
اس کے بعد اتراکھنڈ کے ہری دوارمیں پولیس نے ایسی ہی ہدایات جاری کی ہیں۔
بھلے آدمیوں سے پوچھا جائے کہ اپنی مرضی کا کیا مطلب ہےجب پولیس ایسا کرنے کی ہدایت دے رہی ہے۔ کس کی مجال کہ وہ پولیس کی حکم عدولی کرے! تاہم، پولیس جو کر رہی ہے وہ براہ راست آئین کی خلاف ورزی ہے۔ معاشرے میں سرکاری طور پر تفرقہ پیدا کرنا ہے۔
اس ہدایت پر کئی سیاسی جماعتوں کے بیان آچکے ہیں۔ ایم پی اسد الدین اویسی نے کہا؛ ‘اتر پردیش پولیس کے حکم کے مطابق، اب ہر کھانے والی دکان یا ٹھیلے کے مالک کو بورڈ پر اپنا نام لکھنا ہوگا تاکہ کوئی کانوڑیا غلطی سے کسی مسلمان دکان سے کچھ نہ خرید لے۔ اسے جنوبی افریقہ میں نسل پرستی اور ہٹلر کے جرمنی میں ‘جوڈین بائیکاٹ’ کہا جاتا تھا۔‘
جب سوشل میڈیا پر اس پر اعتراضات کیے جانے لگے تو اتر پردیش پولیس کی جانب سے ایک اور بیان سامنے آیا، جس میں واضح کیا گیا کہ یہ حکم مذہب کی بنیاد پر تفریق کے لیے نہیں ہے، بلکہ صرف کانوڑیوں کی حساسیت کا خیال رکھنا کے لیے ہے،جو دکانوں کے مذہبی ناموں سے دھوکہ کھا سکتے ہیں اور غلط قسم کی دکانوں یا کھانے پینے کی دکانوں پر خریداری کرنے سے ناپاک ہو سکتے ہیں۔ یہ وضاحت درحقیقت تفریق اورامتیاز کو اور زیادہ واضح کر دیتی ہے۔
پولیس جانتی ہے کہ یہ واضح طور پر مذہبی تفریق ہے لیکن ابھی بھی ہندوستان اس حال میں نہیں پہنچا جب سرکاری طور پر یہ کہنا ٹھیک اورمہذب گردانا جائے۔ لیکن اس ریلیز میں ہی پولیس کا نقطہ نظرجھلک اٹھتا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ حال ہی میں کچھ دکانوں کے نام ایسے تھے کہ کانوڑیوں کو بھرم ہو گیا۔ کس طرح کا بھرم ؟ کس بھرم کو دور کرنا ہے؟ جو پولیس نہیں کہہ رہی، لیکن جو سب پڑھ رہے ہیں وہ یہ ہے کہ کانوڑیوں کو صاف صاف معلوم ہونا چاہیے کہ دکان کہیں کسی مسلمان کی ملکیت تونہیں!
یاترا کے راستے کی دکانوں کے مالکان بھی اپنے کاروبار کو لے کر پریشان ہیں۔ اگر کانوڑیوں کے ساتھ کاروبار کرناہےتو فروخت کے لیے اشیاء ان کے مطابق ہی ہوں گی۔ پھر دکان کے سائن بورڈ پر پنٹو لکھا ہو تو کنفیوژن کاہے کا؟ لیکن پولیس کہہ رہی ہے کہ ایسے ناموں سے دھوکہ کھاکربیچارے کانوڑیے ایسی دکانوں سے بھی چیزیں خرید لیتے ہیں جو ‘مقدس دکانیں’ نہیں ہیں۔ وہ کن کی دکانیں ہو سکتی ہیں، کیا اس پر کسی بحث کی ضرورت ہے؟
پولیس اس بیان میں کہہ رہی ہے کہ کچھ لوگوں نے جان بوجھ کر ایسے نام رکھے جن سے یہ جاننا مشکل تھا کہ وہ ‘مقدس’ ہیں یا ‘ناپاک’ اور کانوڑیوں کو بھرم ہوگیا اور انہوں نے ان سے چیزیں لے لیں۔
کانوڑیوں کو بھرم ہونے سے امن و امان کا مسئلہ پیدا ہوگیا۔ اس کا کیا مطلب ہے؟ کیا انہوں نے یہ معلوم ہو جانے کے بعد کہ دکان ناپاک ہے یعنی مسلمانوں کی ملکیت ہے ،ہنگامہ کیا؟یہ کس کا جرم ہے؟ جرم ظاہر ہے کانوڑیوں کا ہے۔ وہ مذہبی بنیادپر امتیازی سلوک کر رہے ہیں۔ تو پابند کسے کیا جانا چاہیے؟ کانوڑیوں کو یا دکانداروں کو؟ کیا ساون کے مہینے یا کانوڑ یاترا کے دوران مسلمانوں کے ہاتھ کا چھوا ہوا کھانا منع ہے؟
کیا پولیس کو ایسا کوئی معاملہ ملا جس میں کانوڑیوں کومسلمانوں نے ‘شنکر ڈھابہ’ نام رکھ کر مومو میں بند گوبھی کے بجائےقیمہ کھلادیا؟ کیا کانوڑیے سبزی کا مطالبہ کر رہے ہیں اور انہیں گوشت کی کوئی چیز بیچ دی؟ اگر ایسا نہیں ہوا ہےتو پھر بھرم کیا ہے؟ فرض کریں کہ پنٹو ٹھیلے سے سامان خریدنے کے بعد پتہ چلا کہ یہ ملک شیخ کا ہے، تو دھوکہ کیا ہو گیا؟
یا پولیس یہ کہنا چاہتی ہے کہ کانوڑیوں کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ کسی مسلمان کی دکان پر نہ جائیں اور اس لیے ان کی پہچان ضروری ہے؟ تو کیا پولیس براہ راست مسلمانوں کے معاشی بائیکاٹ کو فروغ نہیں دے رہی ہے؟ براہ کرم نوٹ کریں کہ وہ صرف مالکان کے نام نہیں پوچھ رہی ہے، وہ یہ کہہ رہی ہے کہ کام میں شامل تمام لوگوں کے نام وہاں ظاہر کیے جائیں۔ یعنی اگرایک ہندو کی دکان میں کوئی مسلمان کام کررہا ہے تو وہ دکان مشکوک ہوجاتی ہے۔ ایسا کرکے پولیس ہندوؤں سے کہہ رہی ہے کہ اگر وہ کانوڑیوں کے ساتھ کاروبار کرنا چاہتے ہیں تو وہ کسی مسلمان کو ملازمت پر نہ رکھیں۔
یہ مسلمانوں کی معاشی سرگرمیوں کو سرکاری طور پر محدود اور کنٹرول کرنے کی کوشش ہے۔ اور یہ آئین کے خلاف ہے۔ اسد الدین اویسی نےٹھیک کہا ہے کہ یہ نسل پرستی ہے اور نازیوں کے وقت کے ‘جوڈین بائیکاٹ’ جیسا ہی ہے۔ آپ ابتدائی نازی دور کو دیکھیں، جس میں یہودیوں کواپنی دکانوں پر اپنی یہودی شناخت ظاہر کرنے کو کہا گیا تھا ۔ اس سے ان کا بائیکاٹ اور پھر ان پر حملہ کرنا آسان ہو گیا۔
اتر پردیش حکومت نے یاترا کے راستے پر گوشت کی تمام دکانیں پہلے ہی بند کروا دی ہیں۔ یہ معاشرے کے ایک طبقے کے نام پر دوسرے کے کاروباری حقوق کی خلاف ورزی ہے۔ کیا گوشت کی دکان کے پاس سے گزرنے پر یاترا یا یاتری آلودہ ہو جائیں گے؟ کیا یہ اس وقت کی یادنہیں دلاتا ہے جب شودروں کو اپنی شناخت ظاہر کرتے ہوئے چلنا ہوتا تھا تاکہ برہمن ان سے اپنی پاکیزگی کی حفاظت کر سکیں؟
ہم جانتے ہیں کہ یہ ایسا ملک ہے جس میں آپ سے آپ کا پورا نام پوچھا جاتا ہے، تاکہ پوچھنے والا طے کر سکے کہ وہ آپ کے ساتھ کیسا سلوک کرے گا۔ یہ اس کا حق سمجھا جاتا ہے۔ صرف اودھیش کہنے پر ممکن ہے اپنی پلیٹ سے روٹی لینے دیں، لیکن اگر یہ معلوم ہو جائے کہ آپ اودھیش پاسی ہیں، تو روٹی نکال کر الگ پلیٹ میں ڈال دیں۔ اسے ہندوستان میں امتیازی سلوک نہیں سمجھا جاتا۔ اس روایتی سماجی رویے کی وجہ سے مسلمانوں سے اپنے نام ظاہر کرنے کا مطالبہ کرنا تاکہ ہم فیصلہ کر سکیں کہ ہمیں آپ کے قریب آنا چاہیے یا آپ سے دور رہنا چاہیے، کسی کو غلط نہیں لگے گا۔
غلط لیکن یہ ہے کہ کوئی مجھ سے راہ چلتا یہ مطالبہ نہیں کر سکتا کہ میں اپنے یہاں کام کرنے والے ہر کسی کا نام اسے بتاؤں ۔ ریاست مجھے اپنی طرف سے ایسا کرنے پر مجبور نہیں کر سکتی۔
اتر پردیش اور اتراکھنڈ کی ان ہدایات سے صاف ہے کہ ان ریاستوں کے حکام عقیدت مندوں کی سہولت کا خیال رکھنا چاہتے ہیں۔ اس میں کوئی حرج نہیں، لیکن وہ دوسروں کو اپنی سہولت کے مطابق اپنا رویہ بدلنے پر کیسے مجبور کر سکتی ہے؟
یہ ریاست کی طرف سے معاشرے میں مذہبی علیحدگی کو فروغ دینے اور مذہبی بنیادوں پر امتیاز کو گہرا کرنے کی کوشش ہے۔
یہ کہنا بھی ضروری ہے کہ یہ سب کچھ پچھلے 10 سالوں میں ہوا ہے۔ کانوڑ یاترا پہلے بھی ہوا کرتی تھی۔ ہم نے کبھی بہار میں کانوڑیوں سے کوئی شکایت نہیں سنی کہ انہیں اپنا پرہیز برقرار رکھنے میں دقت کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے کیونکہ وہ نہیں جانتے کہ وہ کسی ہندو سے سامان خرید رہے ہیں یا کسی مسلمان سے۔ اتر پردیش میں ہم نے اس عرصے سے پہلے کبھی کسی عقیدت مند کی طرف سے یہ شکایت نہیں سنی کہ ان کے ساتھ دھوکہ ہوا ہو۔ اب ایک نئی ہندو شکایت بھی پیدا کی جا رہی ہے۔
ہم نے کورونا انفیکشن کے دوران مسلمان سبزی یا میوہ فروشوں کا بائیکاٹ کرنے کے نعرے سنے۔ ہم یہ جھوٹ بھی سن رہے ہیں کہ مسلمانوں پر بھروسہ نہیں کیا جا سکتا کیونکہ وہ تھوک ملا کر سامان بیچتے ہیں۔ ہم نے مسلمانوں کی طرح طرح کی سازشوں کی کہانیاں سنی ہیں۔ یہ سب کچھ ہندوؤں کے ذہنوں میں مسلمانوں کے تئیں شک، کینہ اور نفرت پیدا کرنے کے لیے کیا جا رہا ہے۔
کانوڑ یاتری اگر شیو کے تئیں عقیدت سے زیادہ مسلمانوں پر شک کے ساتھ یاترا کرتے ہیں تو انہیں کون سا تیرتھ ملے گا؟ ان کا جو ہو ، اتر پردیش اور اتراکھنڈ کی پولیس کو معلوم ہونا چاہیے کہ وہ صرف مسلمانوں سے تعصب رکھنے والے بھکتوں کی پولیس نہیں، مسلمانوں کی پولیس بھی ہے۔
Categories: فکر و نظر