خبریں

ہلدوانی کے 4000 خاندانوں کو ہٹانے سے پہلے مرکز اور اتراکھنڈ حکومت بحالی کا منصوبہ لائے: سپریم کورٹ

اتراکھنڈ کے ہلدوانی میں ریلوے کی زمین پر آباد تقریباً 50000 لوگوں کو بے دخل کرنے کے اتراکھنڈ ہائی کورٹ کے فیصلے پر5 جنوری 2023 کو سپریم کورٹ نے روک لگا دی تھی۔ ریلوے نے سپریم کورٹ سے اپنے مذکورہ فیصلے میں ترمیم کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔

سپریم کورٹ (فوٹو : دی وائر)

سپریم کورٹ (فوٹو : دی وائر)

نئی دہلی: سپریم کورٹ نے بدھ (24 جولائی) کو اتراکھنڈ کے ہلدوانی ریلوے اسٹیشن پر ترقیاتی کاموں کے لیے تجاوزات کو ہٹانے سے پہلے مرکز اور اتراکھنڈ حکومت سے وہاں رہنے والے لوگوں کی بحالی کو یقینی بنانے کے لیے ایک منصوبہ پیش کرنے کو کہا ہے۔

انڈین ایکسپریس خبر کے مطابق، عدالت نے حکام سے کہا ہے کہ وہ متاثرہ افراد کی شناخت کریں اور ان کی بحالی کے لیے ایک منصوبہ تیار کریں۔ عدالت نے واضح طور پر کہا کہ تجاوزات کرنے والے بھی انسان ہیں اور حکومت کو ریلوے اور عوام کی ضروریات کے درمیان توازن قائم کرنے کی ضرورت ہے۔

اس معاملے میں سپریم کورٹ نے اتراکھنڈ کے چیف سکریٹری سے کہا ہے کہ وہ ریلوے حکام اور مرکزی ہاؤسنگ اور شہری امور کی وزارت کے ساتھ میٹنگ کریں، تاکہ بحالی کا منصوبہ تیار کیا جا سکے۔ اس معاملے کی اگلی سماعت اب 11 ستمبر کو ہوگی۔

جسٹس سوریہ کانت کی سربراہی والی تین ججوں کی بنچ نے کہا کہ سب سے پہلے، اس زمین کی نشاندہی کی جائے جس کی  (ریلوے کی ترقی کے لیے) ضرورت ہے ، اور اس کی مکمل تفصیلات فراہم کی جائیں۔ ان خاندانوں کی بھی نشاندہی کی جائے، جن کااس زمین پر قبضہ لینے کی صورت میں متاثر ہونے کا امکان ہے۔ بنچ نے اس پورے عمل کو چار ہفتوں میں مکمل کرنے کی ہدایت دی ہے۔

معلوم ہو کہ جسٹس سوریہ کانت، جسٹس دیپانکر دتہ اور جسٹس اجول بھوئیاں کی بنچ ریلوے کی اس درخواست پر سماعت کر رہی تھی جس میں ہلدوانی میں ریلوے کی زمین پر پر بسےتقریباً 50 ہزار لوگوں کو بے دخل کرنے کے اتراکھنڈ ہائی کورٹ کے فیصلے پر سپریم کورٹ کی جانب سے5 جنوری 2023 کو لگائی گئی روک فیصلے میں ترمیم کرنے کی درخواست کی گئی تھی۔

ریلوے کی طرف سے پیش ہوئے ایڈیشنل سالیسٹر جنرل ایشوریہ بھاٹی نے  عدالت سےروک ہٹانے کی اپیل کی۔ تاہم، بنچ نے جاننا چاہا کہ ریلوے اس مسئلہ میں کتنا سرگرم ہے۔

رپورٹ کے مطابق ، بنچ نے مفاد عامہ کی عرضی (پی آئی ایل) کے ذریعے بے دخلی کا حکم دینے کے طریقہ پر بھی سوال اٹھائے۔

عدالت نے ایڈیشنل سالیسٹر جنرل ایشوریہ بھاٹی سے پوچھا، ‘بے دخلی کے لیے پی آئی ایل کیوں؟ آپ پی پی ایکٹ یعنی پبلک پراپرٹی ایکٹ کے تحت آگے بڑھ سکتے ہیں۔ آپ نوٹس جاری کریں اور قانون کے مطابق آگے بڑھیں۔ ‘کہیں ایسا تو نہیں  کہ آپ پی آئی ایل کی آڑ میں اپنا کام نکلوانا چاہتےتھے؟ آپ نےپی آئی ایل پر سوار ہو کر حکم حاصل کر لیا۔ آپ نے خود کوئی نوٹس جاری نہیں کیا۔ آپ یہ سب کرنے کے لیے پی آئی ایل کا استعمال نہیں کر سکتے۔‘

عدالت نے کہا، ‘ہم یہاں انسانوں کی بات کر رہے ہیں۔ ہائی کورٹ رٹ کے دائرہ اختیار میں فیصلہ نہیں کر سکتی کہ کسی خاندان کا وہاں کوئی دعویٰ نہیں ہے۔ان  لوگوں کو اپنی بات رکھنے کا مناسب موقع ملنا چاہیے تھا، جو زمین پر اپنا دعویٰ کر رہے ہیں… اگر یہ مان بھی لیا جائے کہ وہ تجاوزات کرنے والے ہیں، تب بھی وہ انسان ہیں۔ وہ کئی دہائیوں سے وہاں رہ رہے ہیں۔‘

غورطلب  ہے کہ 20 دسمبر 2022 کو شرت کمار کی سربراہی میں اتراکھنڈ ہائی کورٹ کی بنچ نے بن بھول پورہ میں 4500 مکانات کو ہٹانے کا حکم دیا تھا۔ اس کے بعد 30 دسمبر کو ڈویژنل ریلوے مینجر عزت نگر کی طرف سے ایک پبلک نوٹس جاری کیا گیا، جس میں رہائشیوں سے کہا گیا کہ وہ ایک ہفتے کے اندر علاقہ خالی کر دیں۔

اس کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے ہلدوانی کے کچھ باشندوں نے سپریم کورٹ کا رخ کیا تھا۔ رہائشیوں نے اپنی درخواست میں استدلال کیا ہے کہ ہائی کورٹ نے اس حقیقت کا علم ہونے کے باوجودمتنازعہ فیصلہ کرنے  میں سنگین غلطی کی کہ درخواست گزاروں سمیت رہائشیوں کے مالکانہ حقوق سے متعلق کچھ کارروائی ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ کے سامنے زیر التوا ہے۔

رہائشیوں نے دلیل دی ہے کہ ریلوے اور ریاستی حکام کے ذریعہ اختیار کردہ ‘من مانی اور غیر قانونی’ طریقہ کار کے  ساتھ ساتھ ہائی کورٹ کی جانب سے اسے برقرار رکھنے کےنتیجے میں ان کے پناہ کے حق کی سنگین خلاف ورزی ہوئی ہے ۔

درخواست گزاروں نے دعویٰ کیا ہے کہ ان کے پاس قانونی  دستاویز ہیں، جو واضح طور پر ان کے مالکانہ حق اور قانونی ملکیت کو ثابت کرتے ہیں۔

اس کے علاوہ مقامی رہائشیوں کے نام ہاؤس ٹیکس رجسٹر میں میونسپل ریکارڈ میں درج ہیں اور وہ باقاعدگی سے ہاؤس ٹیکس ادا کر رہے ہیں۔

سپریم کورٹ نے 5 جنوری 2023 کو ہائی کورٹ کے حکم پر روک لگا دی تھی۔

بتادیں کہ مبینہ طور پر اس 29 ایکڑ اراضی پر مذہبی مقام، اسکول، کاروباری ادارے اور رہائش گاہیں ہیں۔ بہت سے رہائشیوں کا دعویٰ ہے کہ 1947 میں تقسیم کے دوران ہندوستان چھوڑنے والوں کے گھر حکومت نے نیلام کیے اور انہوں نے خریدے تھے۔