خبریں

راہل گاندھی کو بجٹ اسپیچ کے دوران اڈانی اور امبانی کا نام لینے سے روکا گیا

لوک سبھا میں قائد حزب اختلاف راہل گاندھی نے اپنی بجٹ اسپیچ میں کہا کہ بھارتیہ جنتا پارٹی ہندوستان کے نوجوانوں، کسانوں، ماؤں-بہنوں، چھوٹی اور درمیانی صنعتوں کے ساتھ وہی کر رہی ہے جو مہابھارت میں ابھیمنیو کے ساتھ چکرویوہ میں کیا گیا تھا۔

راہل گاندھی ایوان میں اپنی تقریر کے دوران۔ (تصویر بہ شکریہ: یوٹیوب اسکرین گریب)

راہل گاندھی ایوان میں اپنی تقریر کے دوران۔ (تصویر بہ شکریہ: یوٹیوب اسکرین گریب)

نئی دہلی: سوموار (29 جولائی) کو لوک سبھا میں یونین بجٹ پر بحث کے دوران حزب اختلاف اور حکمراں جماعت کے درمیان اس وقت بحث چھڑ گئی، جب اپوزیشن لیڈر راہل گاندھی کو گوتم اڈانی اور مکیش امبانی کانام  لینے سے بار بار روکا گیا۔وہیں سنسد ٹی وی اور لوک سبھا کے اسپیکر اوم بڑلا نے انہیں بجٹ کی حلوہ تقریب کے دوران کی  مرکزی وزیر خزانہ نرملا سیتارمن کی تصویرنہیں دکھانے دی۔

قابل ذکر ہے کہ اس سے پہلے بھی امبانی اور اڈانی کے حوالے سے گاندھی کے بیانات کو پارلیامانی ریکارڈ سے ہٹا یا جا چکا ہے ۔

گاندھی نے اپنی تقریر میں مہابھارت میں چکرویوہ میں ابھیمنیو کے مارے جانے کے واقعہ کا حوالہ دیتے ہوئے حکمراں بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کو نشانہ بنایا۔ انہوں نے کہا، ‘ابھیمنیو کو چھ لوگوں نے چکرویوہ میں مارا تھا۔ چکرویوہ کا ایک اور نام ہوتا ہے’پدم ویوہ’،جو کمل کے پھول کی شکل کا ہوتا ہے۔ اکیسویں صدی میں ایک نیا چکرویوہ تیار کیا گیا ہے، وہ بھی کمل کی شکل میں اور وزیر اعظم اس کا نشان اپنے سینے پر لگا کر چلتے  ہیں۔ ابھیمنیو کے ساتھ جو کیا گیا تھا، وہی ہندوستان کے نوجوانوں، کسانوں، ماؤں -بہنوں، چھوٹے پیمانے کی صنعتوں اور درمیانی صنعتوں کے ساتھ کیا گیا ہے۔‘

گاندھی نے کہا کہ چکرویوہ میں ہزاروں لوگ ہوتے ہیں، لیکن اس کے مرکز میں چھ لوگ  ہوتے ہیں جو اسے کنٹرول کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا، ‘اس چکرویوہ کو بھی چھ لوگ کنٹرول کرتے ہیں، نریندر مودی، امت شاہ، موہن بھاگوت، اجیت ڈوبھال ، اڈانی اور امبانی۔‘

اس پر حکمراں جماعت کی طرف سے سخت مخالفت ہوئی اور لوک سبھا اسپیکر اوم بڑلا نے کہا کہ کانگریس کے ڈپٹی لیڈر گورو گگوئی نے تحریری طور پر کہا ہے کہ جو لوگ ایوان کے رکن نہیں ہیں ان کا ذکر نہیں کیا جائے گا۔

اپنی تقریر جاری رکھتے ہوئے گاندھی نے کہا، ‘اگر آپ چاہیں تو میں این ایس اے، امبانی اور اڈانی کا نام ہٹا دوں گا۔’

گاندھی نے کہا کہ انہیں امیدتھی کہ یہ بجٹ اس چکرویوہ کو کمزور کرے گا اور کسانوں، مزدوروں اور چھوٹی اور درمیانی صنعتوں کی مدد کرے گا۔ لیکن اس بجٹ کا مقصد جمہوری ڈھانچے کو تباہ کرنے والی بڑی صنعتوں کی اجارہ داری اور سیاسی اجارہ داری کے ڈھانچے کو مضبوط کرنا ہے۔ گاندھی نے کہا کہ متوسط طبقے نے پہلے وزیر اعظم نریندر مودی کو اپنی حمایت دی تھی، لیکن بجٹ نے ان کی پیٹھ اور سینے دونوں میں چاقو گھونپا ہے۔ یہاں انہوں نے ایک بار پھر اڈانی اور امبانی کا ذکر کیا۔

انہوں نے کہا، ‘اس بجٹ سے پہلے متوسط طبقے نے شاید وزیراعظم کا ساتھ دیا تھا۔ جب وزیر اعظم نے ان سے کووڈ کے دوران تھالی بجوائی تو انہوں نے دبا کر تھالی بجائی۔ اس کے بعد وزیر اعظم نے کہا کہ موبائل فون کی لائٹ جلاؤ تو پورے ہندوستان میں متوسط طبقے نے موبائل فون کی لائٹ جلا دی۔ اب اس بجٹ میں آپ نے ایک چھرا متوسط طبقے کی پیٹھ میں اور دوسرا سینے میں مارا ہے۔

انہوں نے مزید کہا، ‘آپ چاہتے ہیں کہ ہندوستان چھوٹے چھوٹےکھانچوں میں تقسیم رہے اور ہندوستان کے غریب لوگ خواب نہ دیکھ سکیں۔ صرف اڈانی اور امبانی…‘

جب گاندھی نے ایک بار پھر اڈانی اور امبانی کا نام لیا تو بڑلا نے مداخلت کی اور انہیں گگوئی کے خط یاد کی  دلائی۔

اسی دوران پارلیامانی امور کے وزیر کرن رجیجو نے اپنی نشست سے اٹھ کر راہل گاندھی پر الزام لگایا کہ وہ ایوان کے قواعد کو نہیں جانتے اور لوک سبھا اسپیکر بڑلا سے سوال کرکے ایوان کے وقار کو مجروح کررہے ہیں۔

حکمران پارٹی کی سخت مخالفت کے درمیان گاندھی نے کہا کہ وہ اڈانی اور امبانی کو اے ون  اوراے ٹو کے نام سے مخاطب کریں گے، اور یہ بھی کہا کہ مرکزی وزیر کو ان کے دفاع کے لیے ‘اوپر سے احکامات’ موصول ہوئے ہیں۔

گاندھی نے کہا، ‘اوپر سے حکم آیا ہے۔ میں سمجھ سکتا ہوں۔ اس لیے میں اس پر کوئی تبصرہ نہیں کروں گا۔ انہیں (رجیجو) ان کا دفاع کرنے کی اجازت دی گئی ہے۔ یہ جمہوریت ہے۔ انہیں اے ون  اور اے ٹو کا دفاع کرنے کی اجازت ہے۔‘

اس پر رجیجو نے کہا کہ وہ ایوان کے قواعد سے متعلق اپنے خیالات کا اظہار کرنے کے لیے اپنی نشست سے اٹھے تھے۔

‘ملک کاحلوہ’

اس وقت کافی ہنگامہ ہوا جب گاندھی نے روایتی حلوہ تقریب کی تصویر دکھائی جو بجٹ پیش کرنے سے ایک دن قبل منعقد کی جاتی ہے۔ جب گاندھی نے مرکزی وزیر خزانہ نرملا سیتا رمن کی وزارت خزانہ کے افسران کے ساتھ تصویر دکھانے کی کوشش کی تو سنسد ٹی وی نے ہر بار گاندھی نے تصویر دکھائی ، تو بڑلا کو دکھایا۔

گاندھی نے الزام لگایا کہ جب بھی انہوں نے تصویر دکھائی، کیمرے کا رخ بڑلا کی طرف کر دیا گیا۔ اس پر بڑلا نے کہا کہ پوسٹر دکھانے کی اجازت نہیں ہے۔ راہل گاندھی نے پارلیامنٹ میں مذکورہ  تصویر دکھاتے ہوئے اپنی ایک تصویر ایکس پربھی پوسٹ کی ہے۔

تاہم، اس کے بعد راہل گاندھی نے اپنی تقریر میں کہا، ‘بجٹ کاحلوہ تقسیم کیا جا رہا ہے۔ اس تصویر میں مجھے کوئی او بی سی افسر نظر نہیں آرہا، کوئی آدی واسی  افسر نظر نہیں آرہا، کوئی دلت افسر نظر نہیں آرہا، یہ کیا ہو رہا ہے؟ ملک کا حلوہ  بانٹا جا رہا ہے۔ اس کا 72 فیصد ہیں ہی نہیں، آپ حلوہ کھا رہے ہیں، باقی ملک کو حلوہ  مل ہی نہیں مل رہا ہے۔ 20 افسران نے بجٹ تیار کیا۔ یعنی ہندوستان کا حلوہ بانٹنے کا کام 20 لوگوں نے کیا ہے۔ ان میں صرف ایک اقلیتی اور ایک او بی سی ہیں۔ اور اس تصویر میں ایک بھی نہیں ہے۔ میں چاہتا تھا کہ بجٹ میں ذات پر مبنی مردم شماری کا مسئلہ اٹھایا جائے۔ ملک کے 95 فیصد لوگ ذات پر مبنی مردم شماری چاہتے ہیں کیونکہ سب کو اپنی حصہ داری  کا پتہ لگانا ہے۔‘