یوگا گرو اور کاروباری رام دیو اور ان کی کمپنی پتنجلی آیوروید کو اس ہفتے ملک کی تین مختلف عدالتوں سے دھچکا لگا ہے۔ تاہم، یہ ان کےلیے کوئی نئی بات نہیں ہے۔ جیسے جیسے ان کی کاروباری سلطنت وسیع ہوتی گئی ہے، ان کے حوالے سے تنازعات سامنے آتے رہے ہیں۔
نئی دہلی: اس ہفتے یوگا گرو اور کارباری رام دیو اور ان کی کمپنی پتنجلی کو ملک کی تین مختلف عدالتوں سے دھچکا لگا ہے۔
سوموار (29 جولائی) کودہلی ہائی کورٹ نے رام دیو کو تین دن کے اندر ‘کورونیل’ کے بارے میں اپنا عوامی تبصرہ واپس لینے کی ہدایت دی،جس میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ یہ دوا کووِڈ-19 کا ‘علاج’ کر سکتی ہے، اور ساتھ ہی عدالت نے کووڈ کے باعث ہونے والی اموات کے لیےایلوپیتھی کو ذمہ دار ٹھہرانے والا دعویٰ بھی واپس لینے کا آرڈر جاری کیا۔
اسی دن، بامبے ہائی کورٹ نے بھی ایک معاملے میں عدالتی حکم کی خلاف ورزی کرنے پر پتنجلی آیوروید لمیٹڈ پر 4 کروڑ روپے کا جرمانہ عائد کیا۔
اگلے دن یعنی منگل (30 جولائی) کو ملک کی سپریم کورٹ نے ایک اور کیس کی سماعت کرتے ہوئے اتراکھنڈ حکومت کو حکم دیا کہ وہ پتنجلی اور دیویہ فارمیسی کے 14 پروڈکٹس کے مینوفیکچرنگ لائسنس پر دو ہفتوں کے اندر فیصلہ کرے۔
حالانکہ، رام دیو کے لیے یہ کوئی نئی بات نہیں ہے۔ جیسے جیسے ان کی کاروباری سلطنت وسیع ہوتی گئی ہے، ان کے حوالے سے نت نئے تنازعےسامنے آتے رہے ہیں۔ تقریباً ڈیڑھ سے دو دہائی قبل وہ ٹی وی پر نشر ہونے والے یوگا کیمپوں کے ذریعے پورے ملک میں پہچانے جانے لگے تھے،لیکن آہستہ آہستہ ان کے سیاسی میلان کا بھی انکشاف ہونے لگا اور میڈیا میں ان سے متعلق تنازعات نظر آنے لگے۔
نریندر مودی کے اقتدار میں آتے ہی رام دیو حکومت کے عوام مخالف فیصلوں کی حمایت کرنے لگے اور بی جے پی کی مختلف حکومتوں کے ساتھ اپنے کاروباری مفادات کو پورا کرنے لگے ۔ خراب کوالٹی کی مصنوعات کی مینوفیکچرنگ، اپنی مصنوعات کے بارے میں گمراہ کن دعوے اور اشتہارات ، آیوروید کی برتری ثابت کرنے کے لیے ایلوپیتھی کو بدنام کرنے کی مذموم کوشش اور بی جے پی حکومتوں کے ساتھ زمین کے سودے میں غیر منصفانہ فائدہ اٹھانے کی وجہ سے وہ سرخیوں میں آگئے۔
مصنوعات کے ویجیٹیرین ہونے پر اٹھے سوال
بابا رام دیو کے پتنجلی گروپ کی کمپنیوں پر سب سے پہلے 2006 میں کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا (مارکسسٹ) (سی پی آئی-ایم) کی رہنما ورندا کرات نے سوال کھڑے کیے تھے۔ انہوں نے رام دیو پر اپنی دوائیوں میں انسانوں اور جانوروں کی ہڈیاں ملانے کا الزام لگایا تھا۔ اگرچہ یہ معاملہ میڈیا کی سرخیاں بننے کے بعد رفع دفع کر دیاگیا تھا، لیکن 17 سال بعد 2023 میں دہلی کی ایک لاء فرم نے پتنجلی آیوروید کو قانونی نوٹس بھیجا جس میں الزام لگایا گیا کہ اس کے ‘دیویہ دنت منجن‘ میں مچھلی کی ہڈیوں کو ‘ویجیٹیرین’ بتاکر استعمال کیا جاتا ہے اور بازار میں فروخت کیا جاتا ہے۔
اس پروڈکٹ سے متعلق معاملہ جولائی2023 میں دہلی ہائی کورٹ میں بھی پہنچا تھا۔ عرضی گزار نے آیوش کی وزارت سے بھی شکایت کی، جس نے اس کے پروڈکشن میں استعمال ہونے والے خام مال کو ویجیٹیرین، نان ویجیٹیرین یا دیگر زمروں میں درجہ بندی کرنے کے معیار کا تعین کرنے کے لیے ایک کمیٹی بھی تشکیل دی۔
یوگا کے سے ہم جنس پرستی کا علاج اور بانجھ پن دور کرنے کے لیے ‘پترجیوک بیج ‘
رام دیو یوگاکے ذریعے ایڈس اور ہم جنس پرستی کے علاج کا دعویٰ کر چکے ہیں۔ اپنے دعووں سے آگے بڑھ کر سال 2015 میں انہوں نے ‘دیویہ پتر جیوک بیج’بازار میں لانچ کیا ، جس پر الزام لگایا گیا کہ رام دیو بیٹا پیدا کرنے کی دوا بیچ رہے ہیں۔ آیوش کی وزارت نے اس سلسلے میں بھی ایک کمیٹی تشکیل دی اور یہ معاملہ پارلیامنٹ میں بھی گونجا ۔
رام دیو نے وضاحت پیش کرتے ہوئے کہا کہ ‘پترجیوک’ لفظ آیورویدک کتابوں سے لیا گیا لفظ ہے اور یہ صرف بانجھ پن کو دور کرنے کی دوا ہے۔ اسی دلیل کے ساتھ اس وقت کے آیوش وزیر شری پد نائک بھی ان کا دفاع کرتے نظر آئے، جبکہ ان کی وزارت کی جانب سے تشکیل دی گئی کمیٹی نے اس وقت تک اپنی رپورٹ بھی پیش نہیں کی تھی۔
ایف ایس ایس اے آئی کے لائسنس کے بغیرہی نوڈلز فروخت کرنے لگے
سال2015 میں ہی پتنجلی نے میگی کا مقابلہ کرنے کے لیے مارکیٹ میں آٹا نوڈلز فروخت کرناشروع کیا، جس پر کمپنی کو فوڈ سیفٹی اینڈ اسٹینڈرڈز اتھارٹی آف انڈیا (ایف ایس ایس اےآئی) کی جانب سے نوٹس موصول ہوا تھا کیونکہ وہ اتھارٹی سے اجازت لیے بغیرایف ایس ایس اے آئی نمبر کے ساتھ نوڈلزفروخت کر رہی تھی۔
نیپال میں بھی مصنوعات کی کوالٹی پر ہنگامہ
سال 2017 میں جہاں ایک طرف ہندوستان میں رام دیو کا کاروبار بغیر کسی رکاوٹ کے چل رہا تھا، وہیں دوسری طرف نیپال میں ان کی مصنوعات پر خراب کوالٹی کی وجہ سے پابندی لگائی جا رہی تھی۔ نیپال کے ڈرگ ایڈمنسٹریشن ڈپارٹمنٹ نے ایک پبلک نوٹس جاری کیا تھا جس میں کہا گیا تھا کہ پتنجلی گروپ کی دیویہ فارمیسی کے ذریعہ تیار کردہ چھ آیورویدک مصنوعات مختلف دکانوں پر معائنہ اور نمونوں کی جانچ کے دوران خراب کوالٹی کی پائی گئیں۔ ان میں آنولہ چورن، دیویہ گیس ہر چورن، باکوچی چورن، تریفلا چورن، اشوگندھا اور آدیویہ چورن شامل تھے، جن میں پیتھوجینک بیکٹیریا پائے گئے تھے اور جن کی فروخت پر پابندی عائد کی گئی تھی۔
پانچ سال بعد، 2022 میں، نیپال نے رام دیو کی پتنجلی مصنوعات کو تیار کرنے والی دیویہ فارمیسی کو ہی بلیک لسٹ کر دیا۔
اس سے قبل، نیپال نے کورونا کے علاج کرنے کا دعویٰ کرنے والی پتنجلی کی کورونا کٹ کورونیل پر بھی پابندی عائد کر دی تھی ۔ نیپال کے ساتھ بھوٹان نے بھی اس پر پابندی لگا ئی تھی۔
خوردنی تیل، آنولہ جوس اور سون پاپڑی معیار پر پورا نہیں اترے
ہندوستانی فوج کے کینٹین اسٹورز ڈپارٹمنٹ (سی ایس ڈی) نے 2017 میں آرمی کینٹین میں پتنجلی آنولہ سورس (جوس) کی فروخت پر پابندی عائد کردی تھی کیونکہ یہ لیبارٹری ٹیسٹ کے معیار پر پورا نہیں اترتی تھی۔ اسی سال، ایک آر ٹی آئی نے انکشاف کیا تھا کہ پتنجلی کے آنولہ جوس اور شیولنگی کے بیج ہری دوار کے آیوروید اور یونانی دفتر کے ذریعہ ناقص معیار کے پائے گئےتھے۔
سال 2022 میں راجستھان حکومت نے کہا کہ پتنجلی سرسوں تیل ناقص معیار کا پایا گیا۔ ریاستی حکومت کے مطابق، پتنجلی سرسوں کے تیل کے پانچ نمونوں کی جانچ کی گئی، سب جانچ میں ناکام ہوئے کیونکہ وہ مطلوبہ معیار یا اچھی کوالٹی کے نہیں تھے۔
مئی 2024 میں اتراکھنڈ کے پتھورا گڑھ کے چیف جوڈیشل مجسٹریٹ نے پتنجلی نورتن الائچی سون پاپڑی کے کوالٹی ٹیسٹ میں ناکام ہونے پر پتنجلی آیوروید لمیٹڈ کے ایک اسسٹنٹ منیجر سمیت تین لوگوں کو چھ ماہ قید کی سزا سنائی اور جرمانہ بھی عائد کیا۔
دریں اثنا، 2020 میں، سینٹر فار سائنس اینڈ انوائرمنٹ (سی ایس ای) کی تحقیقات میں یہ بات سامنے آئی تھی کہ شہد فروخت کرنے والے ملک کے 13 ٹاپ برانڈ کے ساتھ ساتھ کئی چھوٹے برانڈ کے شہد میں چینی کے سیرپ کی ملاوٹ تھی۔ ان میں ایک نام پتنجلی شہد کا بھی تھا ۔
رام دیو کے گمراہ کن دعووں کی تاریخ
حالیہ دنوں میں، رام دیو کو اپنی مصنوعات کے بارے میں گمراہ کن دعووں، پروموشنزاور اشتہارات کی وجہ سے سب سے زیادہ مسائل کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ پتنجلی ویلنیس کے نام سے ان کی طرف سے دیے گئے ایسے ہی ایک اشتہار نے طب کے ایلوپیتھی طریقہ علاج پر ہی سوال کھڑے کر دیے تھے ۔ اپنے گمراہ کن اشتہارات کی وجہ سے اسے عدالتی احکامات پر معافی تک مانگنی پڑی ہےاور سپریم کورٹ سے یہ تک سننا پڑا کہ ‘پتنجلی آیوروید گمراہ کن دعوے کرکے ملک کو دھوکہ دے رہی ہے۔’
ویسے پتنجلی کے گمراہ کن اشتہارات کا یہ سلسلہ کوئی حالیہ بات نہیں ہے۔ اس معاملے میں کمپنی کی ایک پرانی اور لمبی تاریخ ہے۔
مئی 2016 میں ایڈورٹائزنگ سیکٹر کی ریگولیٹری باڈی یعنی ایڈورٹائزنگ اسٹینڈرڈز کونسل آف انڈیا (اے ایس سی آئی) نے پتنجلی آیوروید کو اس کے ہیئر آئل اور واشنگ پاؤڈر سمیت مختلف اشتہارات میں ‘جھوٹے اور گمراہ کن’ دعوے کرنے کرنے کے لیے سرزنش کرتے ہوئے فیصلہ سنایا تھا کہ کمپنی کے اشتہارات بازار میں دستیاب دیگر مصنوعات کو ‘غیر منصفانہ طور پر’بدنام کرتے ہیں۔
اے ایس سی آئی کی کنزیومر کمپلینٹس کونسل (سی سی سی) نے پایا کہ پتنجلی کے پروڈکٹ پتنجلی کیش کانتی نیچرل ہیئر کلینزر اینڈ آئل کے اشتہار میں کیا گیا یہ دعویٰ کہ معدنی تیل کینسر کا باعث بن سکتا ہے،جھوٹا اور گمراہ کن تھا۔ اس نے پتنجلی کچی گھانی سرسوں تیل کے اشتہار میں کیے گئے دعووں کو بھی گمراہ کن اور دیگر کمپنیوں کے تیل کو بدنام کرنے والا پایا تھا۔ اس کے علاوہ پتنجلی ہربل واشنگ پاؤڈر، کیک اور ڈش واش بار کے خلاف درج کی گئی شکایت بھی درست پائی گئی تھی۔
جولائی 2016 میں اے ایس سی آئی نے پھر سے کہا کہ پتنجلی آیوروید اپنے اشتہارات میں اپنے حریفوں کی مصنوعات کو ‘غیر ضروری طور پر بدنام’ کر رہی ہے۔ اس بار پتنجلی کچی گھانی سرسوں تیل کے ساتھ ساتھ ‘پتنجلی فروٹ جوس’، ‘پتنجلی دگدھ امرت’ اور ‘پتنجلی دنت کانتی‘ کے اشتہارات میں کیے گئے گمراہ کن دعووں پر بھی سوال اٹھایا گیا تھا۔
اگست 2016 میں، اطلاعات و نشریات کے اس وقت کے وزیر مملکت راجیہ وردھن راٹھور نے لوک سبھا کو بتایا تھا کہ سی سی سی کو اپریل 2015 سے جولائی 2016 کے درمیان پتنجلی کے اشتہارات کے خلاف کل 33 شکایات موصول ہوئی تھیں ۔ ان میں سے جن 21 شکایات کا ازالہ کیا گیا، ان میں 17 میں کمپنی کے اشتہارات کو اے ایس سی آئی کوڈ کی خلاف ورزی کرتے ہوئے پایاگیا، جبکہ 6 مصنوعات کی پیکیجنگ بھی اس کوڈ کی خلاف ورزی کرتی تھی۔
اشتہارات کے ذریعے حریفوں کو نشانہ بنانے کی رام دیو کی کوششوں کو 2017 میں پہلا عدالتی دھچکا اس وقت لگا جب دہلی ہائی کورٹ نے پتنجلی چیون پراش کے اشتہار کو روکنے کا حکم دیا، جس نے ڈابر چیون پراش کو کمتر بتایا گیاتھا۔ اس درخواست میں ڈابر انڈیا لمیٹڈ نے پتنجلی آیوروید پر ‘غیر قانونی کاروباری سرگرمیوں’ میں ملوث ہونے کا الزام لگایا تھا۔
یہ سب رام دیو کی طرف سے ایلوپیتھی کو آیوروید کے سامنے نیچا دکھانے کی کوشش تھی۔ مئی 2021 میں رام دیو نے ایلوپیتھی کو ایک اسٹپڈ اور دیوالیہ سائنس قرار دیا تھا ۔ تاہم مرکزی وزیر صحت کی مداخلت کے بعد انہیں یہ بیان واپس لینا پڑا تھا، لیکن اگلے سال دسمبر 2022 میں انہوں نے دوبارہ ایلوپیتھی پر حملہ کیا اور اخبارات میں آدھے صفحات پر مشتمل اشتہار شائع کیا جس کا عنوان تھا ‘ایلوپیتھی کے ذریعے پھیلائی گئی غلط فہمیاں‘۔
اس کے بارے میں سپریم کورٹ کو بھی کہنا پڑا کہ مرکزی حکومت رام دیو کو جھوٹے دعوے ک اور ایلوپیتھی ڈاکٹروں کی تنقید کرنے سے روکے ۔
پچھلے سال، کیرالہ کے ڈرگ کنٹرول ڈپارٹمنٹ نے پتنجلی کے خلاف مقدمہ چلانے کے لیے 29 گمراہ کن اشتہارات کی فہرست بھی بنائی تھی ۔
چار سال میں کئی ادویات پر پابندی
کووڈ کی وبا کے چند مہینوں کے اندر جون 2020 میں رام دیو نے ‘کورونیل‘ کے نام سے ایک کورونا کٹ مارکیٹ میں لانچ کی ، جس میں اس وبا کا علاج ڈھونڈنے کا دعویٰ کیا گیا تھا ، جبکہ اس وقت تک پوری دنیا کووڈ کی ویکسین کی تلاش میں مصروف تھی۔
اس دوا کے کلینکل ٹرائل پر سنگین سوالات اٹھائے گئے، جس کے بعد وزارت آیوش نے پتنجلی سے اس دوا میں موجود مختلف جڑی بوٹیوں کی مقدار اور دیگر تفصیلات طلب کیں اور اس دوا کی تشہیر پر پابندی لگا دی۔ ایک ہفتے کے اندر معاملہ عدالت میں بھی پہنچ گیا ۔ دریں اثنا، اتراکھنڈ حکومت کے آیوروید محکمہ نے کہا کہ اس نے کورونا دوا کے لیے کوئی لائسنس جاری نہیں کیا ہے۔ معاملے میں ہر طرف سے گھرتے دیکھ کر چند ہی دنوں میں پتنجلی کے سی ای او آچاریہ بال کرشن کورونا کے 100 فیصد علاج کے دعوے سے مکر گئے۔
کورونیل سے متعلق ایک اور کیس کی سماعت کرتے ہوئے دہلی ہائی کورٹ نے رام دیو کے اس دعوے پر وضاحت کو مسترد کر دیا تھا کہ یہ دوا کووڈ 19 کا علاج کر سکتی ہے ۔
نومبر 2022 میں پتنجلی کی دیویہ فارمیسی کے پانچ پروڈکٹس – دیویہ مدھوگرت، دیویہ آئی گرٹ گولڈ، دیویہ تھائروگرٹ، دیویہ بی پی گرٹ اور دیویہ لپیڈوم– کی تیاری اور اشتہار پر آیورویدک اور یونانی سروسز کے حکام نے پابندی لگا دی تھی۔ تاہم، پابندی کے صرف دو دن بعد، ‘غلطی’ کا حوالہ دیتے ہوئے یہ حکم واپس لے لیا گیا ۔ جبکہ، اس سے قبل جولائی 2022 میں آیوروید اور یونانی سروسز (اتراکھنڈ) کے لائسنسنگ آفیسر نے خود مصنوعات کے گمراہ کن اشتہارات کے خلاف ضروری کارروائی کرنے کی ہدایات دی تھیں ۔
اسی طرح، اپریل 2024 میں بھی اتراکھنڈ اسٹیٹ لائسنسنگ اتھارٹی نے بار بار گمراہ کن اشتہارات شائع کرنے کے لیے پتنجلی کی دیویہ فارمیسی کے ذریعہ تیار کردہ 14 مصنوعات- ‘سوساری گولڈ’، ‘سوساری وٹی’، ‘برانچوم’، ‘سوساری پرواہی’، ‘سوساری اوالیہ’، ‘مکتا وٹی ایکسٹرا پاور’، ‘لیپیڈوم’، ‘بی پی گرٹ’، ‘مدھوگرڑ، ‘مدھوناشینی وٹی ایکسٹرا پاور’، ‘لیوامرت ایڈوانس’، ‘لیووگرٹ’، ‘آئی گرٹ گولڈ’ اور ‘پتنجلی درشٹی آئی ڈراپ’– جس کا مینوفیکچرنگ لائسنس منسوخ کر دیا گیا تھا۔ تاہم، یہ مصنوعات مارکیٹ میں فروخت ہوتے دیکھے گئے ۔
بہرحال، عدالتی تنازعات سے گھرے رہنے اور اپنی مصنوعات کی کوالٹی کے حوالے سے مسلسل منھ کی کھانے کے باوجود رام دیو کی کمپنی پتنجلی فوڈ لمیٹڈ کا شیئر تقریباً 1700 روپے کے آس پاس ہے، جو اس کی اب تک کی بلند ترین سطح ہے۔ تاہم، مالی سال 2023-24 کی چوتھی سہ ماہی (جنوری تا مارچ) میں کمپنی کے خالص منافع میں 22 فیصد کی کمی واقع کا مشاہدہ کیا گیا تھا ۔
Categories: فکر و نظر