خبریں

بنگلہ دیش میں تختہ پلٹ: ہندوستان کو درپیش چیلنجز

کیا بنگلہ دیش کی اقتصادی ترقی کے غبارے میں عدم مساوات کی ہوا تھی یا شیخ حسینہ کے ہند نواز رویے نے انہیں ڈبو دیا؟ سیاسی طور پر ان کی موت ہندوستان کے لیے تشویش کا باعث کیوں ہے؟

بنگلہ دیش کی وزیر اعظم شیخ حسینہ۔ (تصویر بہ شکریہ: فیس بک/بنگلہ دیش عوامی لیگ)

بنگلہ دیش کی وزیر اعظم شیخ حسینہ۔ (تصویر بہ شکریہ: فیس بک/بنگلہ دیش عوامی لیگ)

نئی دہلی: گزشتہ ایک دہائی میں اقتصادی طور پر تیزی سے ترقی کرنے والا بنگلہ دیش  سیاسی عدم استحکام سے گزر رہا ہے۔ تقریباً 15 سال سے مسلسل حکومت کرنے والی شیخ حسینہ کو وزیراعظم کے عہدے سے استعفیٰ دے کر ملک سے فرار ہونا پڑا۔ 17 کروڑ کی آبادی والے بنگلہ دیش کے دارالحکومت ڈھاکہ کی سڑکیں تشدد، آتش زنی، توڑ پھوڑ اور لوٹ مار کی گواہی دے رہی ہیں۔ بھیڑ تاریخ کے ہیروز کو اکھاڑ پھینکنے پر آمادہ ہے۔

بنگلہ دیش کے نجات دہندہ شیخ مجیب الرحمن کے گھر کو جلانا اور ان کے مجسمے کو گرانا اس بات کا اشارہ ہے کہ بنگلہ دیش کی تاریخ دوبارہ لکھی جانے والی ہے۔ لیکن بنیاد کو اکھاڑ پھینکنے اور سب کچھ نیا کرنے کی کوشش کتنی کامیاب ہوتی ہے اس کا فیصلہ مستقبل میں ہو گا۔ خیال رہے کہ جس گھر کو جلایا گیا، اسی  گھر میں مجیب الرحمن اور ان کے خاندان کے دیگر 10 افراد کو 15 اگست 1975 کو قتل کیا گیا تھا۔ یہ بنگلہ دیش کی آزادی کی قیمت تھی جو شیخ مجیب الرحمن اور ان کے خاندان نے اپنی جان دے کر ادا کی۔

اس وقت جو سوال اٹھ رہے ہیں وہ یہ ہیں کہ تقریباً ناقابل تسخیر نظر آنے والی حسینہ کے خلاف عدم اطمینان کا یہ سیلاب آخر آیاکہاں سے ؟ ریزرویشن کے حوالے سے ایک یونیورسٹی میں شروع ہونے والا احتجاج ‘جمہوری’ اور ‘سیکولر’ لیڈر کے طور پر معروف حسینہ کے زوال کا باعث کیسے بن گیا؟ کیا معاشی ترقی کے غبارے میں عدم مساوات کی ہوا تھی یا حسینہ واجد کے ہند نواز رویے نے انہیں ڈبو دیا؟ سیاسی طور پر حسینہ کی موت  ہندوستان کے لیے تشویش  کا باعث کیوں ہے؟

اقتصادی ترقی کا غبارہ

بنگلہ دیش کی آزادی کے لیے لڑنے والے خاندان کی بیٹی شیخ حسینہ 2009 میں آزاد، غیر جانبدار اور قابل اعتماد انتخابات کے ذریعے اقتدار میں آئیں۔ اس کے بعد ہونے والے تین عام انتخابات (2014، 2019 اور 2024) نہ صرف متنازعہ تھے بلکہ حزب اختلاف کی جماعتوں نے ان کا بڑے پیمانے پر بائیکاٹ بھی کیا تھا۔ لیکن شیخ حسینہ نے اقتدار پر اپنی گرفت برقرار رکھی اور ملک کو معاشی رفتار دینے کی پوری کوشش کی۔ سید منیر خسرو انڈین ایکسپریس میں لکھتے ہیں ، ‘ان کی (شیخ حسینہ) قیادت میں بنگلہ دیش دنیا کے ‘غریب ترین ممالک میں سے ایک’ سے خطے میں ‘تیزی سے ترقی کرتی ہوئی معیشت’ میں تبدیل ہو گیا، یہاں تک کہ اپنے بڑے پڑوسی ہندوستان کو بھی اس نے پیچھے چھوڑ دیا۔ ملک کی فی کس آمدنی ایک دہائی میں تین گنا بڑھ گئی ہے اور ورلڈ بینک کا اندازہ ہے کہ گزشتہ 20 سالوں میں 2.5 کروڑ سے زیادہ بنگلہ دیشی غربت سے باہر نکل آئے ہیں۔’

تاہم، معاشی ترقی کی اس دوڑ میں جمہوری اقدار اور شہری آزادیوں کو مسلسل کچلا جا رہا تھا۔ خسرو لکھتے ہیں، ‘2014، 2018 اور 2024 کے پارلیامانی انتخابات اپوزیشن جماعتوں کے بائیکاٹ، کم ووٹنگ اور تشدد سے متاثر ہوئے۔ حسینہ حکومت پر کنٹرول برقرار رکھنے کے لیے سخت قوانین کا استعمال کر رہی تھیں، جس سے خوف اور جبر کا ماحول پیدا ہوا۔ ڈیجیٹل سیکورٹی ایکٹ، جو 2018 میں نافذ کیا گیا، حکومت کے لیے ناقدین کو خاموش کرانے، اظہار رائے کی آزادی کو دبانے اور آن لائن اسپیس  کا گلا گھونٹنے کا ایک طاقتور ہتھیار بن گیا۔ صحافت کی آزادی مسلسل خطرے میں رہی۔ شہری حقوق کو منظم طریقے سے دبایا گیا۔ حسینہ نے یہ سب خود کو اقتدار کے مرکز میں رکھنے کے لیے کیا۔‘

اس طرح، اقتصادی تبدیلی کا اسکرپٹ لکھنے والی ، جمہوری اور سیکولر رہنما کے طور پر معروف شیخ حسینہ اپنے شہریوں کے لیےمطلق العنان رہنما بن گئیں۔ تنقید کے تئیں عدم برداشت، مخالفین کو جیلوں میں ڈالنے اور کرونی سرمایہ داروں کو پروان چڑھانے کی ان کی پالیسی ناکام رہی۔ بنگلہ دیش سے یہ سبق ملتا ہے کہ صرف معاشی ترقی کسی لیڈر کی مقبولیت کو برقرار نہیں رکھ سکتی۔ جمہوری اقدار اور شہری آزادیوں کی قیمت پر معاشی ترقی کو ترجیح دینے والے رہنما حسینہ کی حالت سے سبق حاصل کر سکتے ہیں۔

بنگلہ دیش کی اقتصادی ترقی کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ جیسے جیسے ملک کی معیشت ترقی کر رہی تھی، امیر اور غریب کے درمیان عدم مساوات میں بھی اضافہ ہو رہا تھا۔ خسرو لکھتے ہیں، ‘حسینہ کی حکومت میں بینک گھوٹالے بڑھے، قرض ادا نہ کرنے والوں کی فہرست لمبی ہوتی گئی۔ سی ایل سی پاور، ویسٹرن میرین شپ یارڈ اور ریمیکس فٹ ویئر جیسی کمپنیاں ڈیفالٹر کی فہرست میں سرفہرست ہیں، جن کا پھنسا قرض 965 کروڑ سے 1649 کروڑ بنگلہ دیشی ٹکا تک ہے۔ بڑھتی ہوئی معاشی عدم مساوات اور بے تحاشہ بدعنوانی نے معاشی ترقی کے باوجودعوام کے درمیان  عدم اطمینان کو ہوا دیا۔’

ریزرویشن تنازعہ

اقربا پروری، بے تحاشہ بدعنوانی،اقتصادی عدم مساوات،غیر شفافیت، جمہوری اقدار کا  زوال  وغیرہ نے ملک کا مزاج پہلے ہی گرم کر دیا تھا، اس پر ریزرویشن کے معاملےمیں  ہونے والی تحریک نے ملک کا مزاج  اور بدل دیا۔ حالیہ طلباء کی تحریک سول سروس کی نوکریوں میں کوٹہ ختم کرنے کے ایک سادہ مطالبے کے طور پر شروع ہوئی۔ دراصل، جون میں حسینہ حکومت پہلے سے ملتوی پالیسی ریزرویشن کو واپس لانے کی تیاری کر رہی تھی۔ اس کے تحت تعلیمی اداروں اور سرکاری ملازمتوں میں نشستوں کا بڑا حصہ مجاہدین آزادی کی نسلوں کو دیا جانا تھا۔ دوسرے لفظوں میں کہیں تو حکمران عوامی لیگ کے خاندان کو اس کا زیادہ فائدہ ملتا۔

اس کے خلاف پرامن احتجاج ڈھاکہ یونیورسٹی میں شروع ہوا، لیکن جلد ہی دوسرے اداروں اور پھر عام لوگوں تک پھیل گیا۔ صورتحال اس وقت بگڑ گئی جب عوامی لیگ کے طلبہ ونگ ‘بنگلہ دیش چھاتر لیگ’ کے اراکین نے مظاہرین پر حملہ کرنا شروع کر دیا۔ اس نے تحریک کو بغاوت میں بدل دیا۔ جب تک عدالت نے کوٹہ کم کرنے کا فیصلہ سنایا تب تک 200 مظاہرین کو گولی مار کر ہلاک کر دیا گیا تھا۔

حسینہ نے مظاہروں کے خلاف سخت موقف برقرار رکھا۔ گزشتہ ماہ کے آخر میں طلباء کے خلاف پولیس اور نیم فوجی دستوں کو تعینات کرنے کا ان کا فیصلہ بیک  فائرکر گیا، جس سے بڑے پیمانے پر عوامی غصہ پھوٹ پڑا۔ حکومت نے دیکھتے ہی گولی چلانے کے احکامات بھی دیے اور سخت کرفیو لگا دیا جس کی وجہ سے ماحول خراب ہوتا چلا گیا۔ اس کے علاوہ حسینہ کے مظاہرین کو ‘رضاکار’ کہنے سے بھی تناؤ بڑھ گیا۔

جیسےجیسے مظاہروں نے زور پکڑا، ان میں نوجوانوں کے  والدین، اساتذہ اور سماجی  کارکنوں سمیت سماج کے مختلف طبقات شامل ہوتے چلے گئے۔ خسرو لکھتے ہیں، ‘ حمایتی گروپ بڑھنے کے ساتھ ہی تحریک اپنے ابتدائی مطالبات سے آگے بڑھ کر 15 سال کے خوف اور جبر کے خلاف مایوسی کا اجتماعی اظہار بن گئی۔ طلبا کا وزیراعظم سے اس وقت تک بات چیت کرنے سے انکار جب تک کہ ان کے مطالبات پورے نہیں ہو جاتے، گہرے عدم اعتماد اور ناراضگی کو ظاہر کرتا ہے۔’

جب ڈھاکہ جل رہا تھا اور ایسا لگ رہا تھا کہ حسینہ کے گھر پر حملہ ہو سکتا ہے، حسینہ کو مستعفی ہونے اور ملک چھوڑنے کا مشورہ دیا گیا۔ بنگلہ دیش کے روزنامہ ’پروتھم الو‘ کے مطابق، حسینہ آخری دم تک سکیورٹی فورسز پر سخت کارروائی کرنے کے لیے دباؤ ڈال رہی تھیں۔ اس کے بعد ان کے بیٹے نے فون پر انہیں فوری طور پر عہدہ چھوڑنے کا مشورہ دیا۔ ان کے بیٹے واجد جوائے نے لندن میں بی بی سی کو بتایا کہ وہ برطانیہ میں سیاسی پناہ حاصل کریں گی اور اب بنگلہ دیش یا سیاست میں واپس آنے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتیں۔ اس طرح شیخ مجیب الرحمن کی بیٹی شیخ حسینہ کی سیاسی زندگی کو ختم مانا جا رہا ہے۔

بنگلہ دیش میں حسینہ کے ساتھ ساتھ ہندوستان کے خلاف ماحول کیوں؟

بنگلہ دیش چھوڑ کر شیخ حسینہ سیدھے ہندوستان پہنچی ہیں۔ 1971 میں بنگلہ دیش کی آزادی میں  ہندوستان کا رول رہا ہے۔ ہندوستان نے پاکستان کے خلاف سیاسی اور مسلح بغاوت کے دوران مجیب کا ساتھ دیا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ ہندوستان شیخ حسینہ کے خاندان اور سیاسی وراثت کا حصہ ہے۔ لیکن پچھلی دہائی میں ہندوستان سے قربت نے شیخ حسینہ کے لیےمسائل پیدا کیے ہیں۔ ان پرالزام ہے کہ وہ ہندوستان پر آنکھ بند کرکے بھروسہ کرسکتی ہیں، ہندوستان کے کہنے پر انہوں نے صنعت کار گوتم اڈانی کی کمپنی سے بجلی خریدنے کا معاہدہ کیا جو ملک کے لیے نقصان دہ ثابت ہوا۔

اس کے علاوہ بنگلہ دیش کے شہریوں کویہ بھی نظر آ رہا تھا کہ شیخ حسینہ نے ہندوستان کی حکمراں جماعت بی جے پی کی طرف سے بنگلہ دیش کے شہریوں کے خلاف دیے گئے بیانات پر کبھی کچھ نہیں کہا۔ امت شاہ نے اپنی ایک تقریر میں بنگلہ دیشی لوگوں کو دیمک کہہ کر ان کی توہین کی تھی۔ لوگوں کے عدم اطمینان کو ملک کے بنیاد پرست اسلام پسندوں نے خوب ہوا دی۔

نیوز لانڈری نے لکھا ہے کہ ‘خالدہ ضیاء کی حکومت پورے پانچ سال سیاسی طور پر پاکستان نواز جماعت اسلامی پر منحصر رہی اور یہ سال سکیورٹی کے حوالے سے ہندوستان کے لیے کسی ڈراؤنے خواب سے کم نہیں تھے۔ اس حکومت کے دوران بنگلہ دیش انتہا پسند اور بنیاد پرست عناصر کے لیے ایک زرخیز میدان بن چکا تھا۔ شمال مشرق کے باغی گروپوں کو بنگلہ دیش میں محفوظ پناہ گاہیں دی گئیں۔ ہند مخالف جذبات میں اضافہ ہوا۔ ایک دہائی بعد، 2009 میں حسینہ کی اقتدار میں واپسی دہلی کے لیے راحت کا باعث تھی۔ اس کے بعد سے ڈھاکہ اور دہلی نے سیکورٹی کے معاملات پر مل کر کام کیا ہے۔‘

لہٰذا شیخ حسینہ کا اقتدار سےبے دخل  ہونا اور بنگلہ دیش کی آزادی کی تاریخ پر حملہ ہندوستان کے لیے بحران کی علامت ہے۔