دہلی کے جنتر منتر پر شدید گرمی کی راتوں سے لے کر پیرس کے گولڈ میڈل مقابلے تک، ان کا سفر ہماری قومی تاریخ کا ایک روشن باب ہے۔ ان کی داستان ہمارا مشترکہ خواب ہے۔ ان کے اس سفر کی شہادت دینے والے برسوں بعد اپنی نسلوں کو بتایا کریں گے کہ وہ ونیش پھوگاٹ کے ہمعصر تھے۔
نئی دہلی: یہ کھیل کے میدان میں سیاسی فتح ہے، اور پیرس کا اسٹیڈیم اس رزم گاہ کا استعارہ ، جسے ونیش پھوگاٹ ہندوستان میں ادھورا چھوڑ آئی تھیں۔ اس لڑائی کا پرچم پیرس میں لہرایا جانا تھا۔ اس لیے ،بھلے ہی اس بات کا ملال رہے گا کہ ونیش پھوگاٹ کو گولڈ میڈل کے مقابلے سے پہلے نااہل قرار دے دیا گیا ، لیکن اس سے ان کی اولو العزمی اور ہمالیہ جیسی حصولیابی پر ذرا بھی حرف نہیں آتا۔
ونیش پھوگاٹ کو کسی کے سامنے کچھ ثابت کرنے کی ضرورت نہیں ہے، نہ اولمپک ایسوسی ایشن کو – اور اپنے ملک کو تو بالکل بھی نہیں۔
دہلی کے جنتر منتر پر شدیدگرمی کی چلچلاتی راتوں سے لے کر پیرس کے گولڈ میڈل مقابلے تک ، ان کا سفر قومی تاریخ کا ایک روشن باب ہے۔ ان کی داستان ہمارا مشترکہ خواب ہے۔ ان کا حاصل ہماری سیاسی حمایت ہے۔ ان کے سفر کی شہادت دینے والےبرسوں بعداپنی نسلوں کو فخر سے بتایا کریں گے کہ وہ نیش پھوگاٹ کے ہمعصر تھے۔
ونیش پھوگاٹ کی زندگی ایک قومی رزمیہ ہے۔
کھیل کے میدان پر کامیابی کے پس پردہ اکثر زخم جگر کی ٹیس ہوتی ہے۔ جب ہنگری کی واٹر پولو ٹیم 1956 کے اولمپک میں سوویت یونین کا مقابلہ کرنے میدان میں اتری، تو اس کے باطن میں یہ زخم ہرا تھا، جب روسی ٹینکوں نے چند ماہ قبل ہی بوداپست پر چڑھائی کی تھی۔
اور جب 1969 میں چیکوسلواکیہ کی ٹیم آئس ہاکی ورلڈ چیمپئن شپ کے مقابلے میں سوویت یونین کے سامنے آئی ،تو اس کے کھلاڑی اس ذلت کو بھولے نہیں تھے کہ روسی فوج نے پراگ پر حملہ کیا تھا۔
ان دونوں موقعوں پر قدآور سوویت یونین کو ان ممالک نے عبرتناک شکست دی تھی ،جن کی سرزمین پر اس نے اپنا تسلط قائم کر رکھا تھا۔
یہ بھی یاد کر سکتے ہیں کہ فٹ بال کی تاریخ کے دو عظیم ترین گول اس مقابلے میں ہوئے تھے جب میراڈونا زخم جگر کی ٹیس کے ساتھ 1982 کے ورلڈ کپ میں انگلینڈ کے خلاف میچ میں اترے تھے– حال ہی میں ارجنٹائن کی میدان جنگ میں انگلینڈ کے ہاتھوں شرمناک شکست ہوئی تھی۔
ونیش کا سفر اسی تاریخ کا ایک نیا اور روشن باب ہے۔
ہریانہ کے بلالی گاؤں سے تعلق رکھنے والی ونیش پیرس اولمپک کے فائنل میں اپنے تاریخی ریسلنگ میچ سے چوک گئی ہیں، لیکن انہوں نے مسلسل پسپا کیے جا رہے ملک کو یقین دلایا ہے کہ ہم سفاک سے سفاک حکمران کو بھی شکست دے سکتے ہیں۔
ونیش پھوگاٹ اولمپک میں ریسلنگ کے فائنل تک پہنچنے والی ہندوستان کی پہلی خاتون ریسلر ہیں۔ منگل (6 اگست) کو انہوں نے ایک دن میں تین مقابلہ جیت کر تاریخ رقم کی ۔
ونیش نے منگل کو سیمی فائنل میں کیوبا کے گزمین لوپیز کو 5-0 سے شکست دی۔ اس سے پہلے ونیش نے کوارٹر فائنل میں یوکرین کی پہلوان اوکسانا لواچ اور پری کوارٹر فائنل میں جاپان کی یوئی سساکی کو شکست دی۔ ونیش کے ہاتھوں یوئی سساکی کی شکست سب سے خاص رہی، کیونکہ سساکی چار بار کی ورلڈ چیمپئن، ٹوکیو اولمپک کی گولڈ میڈلسٹ اور رینکنگ میں نمبر ون کھلاڑی ہیں۔
یوئی سساکی کو شکست دینے کے بعد ونیش جس طرح میٹ پر لیٹ گئیں اور ان کی آنکھوں میں خوشی کے آنسو تیرنے لگے، پوری دنیا نے یہ منظر اپنی ٹی وی اسکرین پر دیکھا۔ تاہم، اولمپک میٹ کا یہ سفر ونیش کے لیے بالکل بھی آسان نہیں تھا۔ کیونکہ اس سے پہلے گزشتہ سال 2023 میں انہوں نے اپنے ملک کی سڑکوں پر جنسی ہراسانی کے خلاف ایک لمبی جدوجہد کی، کئی مہینے شب و روز کی جد وجہد۔
ونیش نے ‘کھیل رتن’ اور ‘ارجن ایوارڈ’ دہلی کے فٹ پاتھ پر چھوڑ دیے تھے
خیال رہے کہ گزشتہ سال ریسلنگ فیڈریشن آف انڈیاکے صدر رہے برج بھوشن شرن سنگھ پر جنسی ہراسانی کا الزام لگانے والی خواتین پہلوانوں میں اولمپک میڈلسٹ ساکشی ملک کے ساتھ ونیش پھوگاٹ ایک نمایاں چہرہ تھیں۔ انہوں نے پہلوان بجرنگ پنیا کے ساتھ مل کر اپنے سرکاری ایوارڈ ‘کھیل رتن’ اور ‘ارجن ایوارڈ’ دہلی کے فٹ پاتھ پر چھوڑ دیے تھے اور پولیس سے درخواست کی تھی کہ اسے وزیر اعظم کو سونپ دیا جائے۔
اس سلسلے میں ونیش پھوگاٹ نے وزیر اعظم نریندر مودی کو ایک کھلا خط بھی لکھا تھا، جس میں انہوں نے کہا تھا کہ وہ میڈل واپس کر دیں گی کیونکہ یہ ایوارڈ اب ان کی زندگی میں کوئی معنی نہیں رکھتے۔ جدوجہد کے دوران پہلوان ساکشی ملک نے بھی کھیل سے ریٹائرمنٹ کا اعلان کیا اور پہلوان بجرنگ پنیا نے بھی پدم شری ایوارڈ حکومت کو لوٹا دیا تھا۔
آج ونیش پھوگاٹ کو مبارکباد دینے کے ساتھ ساتھ ان کی جدوجہد کو یاد کرنے کا دن بھی ہے،کیوں کہ احتجاج کے دوران ان کی صلاحیت پر کئی سوال اٹھائے گئے، انہیں سڑکوں پر گھسیٹا گیا، پولیس کی حراست سے لے کر دھمکیوں تک کا سامنا کرنا پڑا۔ یہاں تک کہ انہیں 53 کلوگرام کی اپنی پسندیدہ ویٹ کیٹیگری چھوڑ کر 50 کلوگرام ویٹ کیٹیگری کے کم وزن کے زمرے میں چیلنج پیش کرنےکومجبور ہونا پڑا۔ یہ وہ وقت تھا، جب اولمپک ہی نہیں، ونیش کا ریسلنگ میں مستقبل بھی تاریک نظر آرہا تھا، کیونکہ اگست 2023 میں گھٹنے کی چوٹ کی وجہ سے انہیں سرجری کروانی پڑی تھی۔
وزیر اعظم نریندر مودی کی خاموشی
اس سے پہلے اپریل سے مئی تک پہلوانوں کے احتجاج کو کسان تنظیموں، کھاپ پنچایت، تمام اپوزیشن پارٹیوں، خواتین طلبہ تنظیموں کی حمایت حاصل تھی، لیکن بی جے پی لیڈر اور دائیں بازو کے گروپ پہلوانوں پر مسلسل سوال اٹھا رہے تھے۔ ہندوستانی اولمپک ایسوسی ایشن کی صدر پی ٹی اوشا نے یہاں تک کہہ دیا تھا کہ اس طرح کے مظاہروں سے ملک کی بدنامی ہوتی ہے۔
پہلوانوں نے وزیر اعظم نریندر مودی کی خاموشی ٹوٹنے کا لمبا انتظار کیا، لیکن انہیں مایوسی ہاتھ لگی۔ اس دوران پہلوانوں نے انڈیا گیٹ پر کینڈل مارچ نکلا، بنگلہ صاحب، ہنومان مندر، کناٹ پلیس گئے اور لوگوں کو اپنے مطالبات کے بارے میں بتانے کی کوشش کی۔
وہیں، 28 مئی 2023 ، جس دن ملک کی نئی پارلیامنٹ کا افتتاح ہوا، اسی دن نے نہ صرف ہندوستان کی تاریخ میں بلکہ دنیا کے کھیل، سیاست اور خواتین کی تحریک کی تاریخ میں بھی ایک سیاہ دن کا مشاہدہ کیاگیا۔ 28 مئی کو جہاں برج بھوشن شرن سنگھ نئی پارلیامنٹ کے افتتاح کے موقع پر تصویریں کھنچوا رہے تھے،وہیں ان خواتین پہلوانوں کو جنتر منتر پر گھسیٹا جا رہا تھا۔ دہلی پولیس تمام پہلوانوں اور مظاہرین کو گرفتار کر کے مختلف تھانوں میں لے گئی اور شام ہوتے ہوتے جنتر منتر پر احتجاجی مقام کو پوری طرح سے خالی کروا دیا گیا۔ پہلوانوں کے خلاف مقدمات بھی درج کیے گئے۔
پھر، پہلوانوں پر ہونے والے اس جبر کی نہ صرف ملک بلکہ بیرون ملک بھی مذمت کی گئی اور ونیش پھوگاٹ نے گرفتاری کے دوران کہا تھا کہ ‘نیا ملک مبارک ہو!’
شاید آپ کو یاد ہو، یہی وہ وقت تھا جب اس وقت کی خواتین اور بچوں کی ترقی کی وزیر اسمرتی ایرانی نے ایک انٹرویو کے دوران یہ سوال اٹھایا کہ ببیتا پھوگاٹ مظاہرین پہلوانوں کی حمایت کیوں نہیں کر رہی ہیں، جو ان کے خاندان کی رکن ہیں۔ ‘کیا آپ کو لگتا ہے کہ ببیتا پھوگاٹ جیسی دنیا کی مشہور ریسلر ان لوگوں کے ساتھ بیٹھیں گی جس نے دوسروں اور خاص طور پر ان کے خاندان کے لوگوں کا استحصال کیا؟’
برج بھوشن اور ان کے حامی پہلوانوں کی قابلیت پر سوال اٹھاتے رہے
واضح ہو کہ اس تحریک کے دوران برج بھوشن اور ان کے حامی مظاہرین پہلوانوں کی صلاحیت پر سوال اٹھاتے رہے اور الزام لگایا کہ ونیش، بجرنگ پنیا اور ساکشی ملک بڑے ٹورنامنٹ میں براہ راست انٹری حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ تاہم، ونیش کی جیت نے اب انہیں کرارا جواب دے دیا ہے۔
پیرس اولمپک سے پہلے، ڈیڑھ سال تک ریسلنگ سے دور رہنے کے بعد ونیش پھوگاٹ نے اس سال فروری کے مہینے میں قومی ریسلنگ چیمپئن شپ میں 55 کلوگرام زمرے میں طلائی تمغہ جیت کر شاندار واپسی کی تھی۔ لیکن اس کے باوجود اولمپک کے لیے کوالیفائی کرنے کے لیے انھیں سخت محنت کرنا پڑی اور اپنا وزن کم کرنا پڑا، کیونکہ انھیں اولمپک میں جانے کا راستہ صرف 50 کلوگرام وزن کے زمرے میں ہی حاصل تھا۔
انڈین ایکسپریس کو دیے گئے ایک انٹرویو میں ونیش پھوگاٹ نے بتایا تھا کہ آخری پنگھال کے 53 کلوگرام وزن کے زمرے میں اولمپک کے لیے کوالیفائی کرنے کے بعد ان کے پاس کم وزن کے زمرے میں کوٹہ حاصل کرنے کا واحد آپشن تھا۔ لیکن اس وقت پھوگاٹ کا وزن 56 کلوگرام تھا، جسے کم کرنا ان کے لیے ایک بڑا چیلنج تھا۔
انہوں نے کہا تھا، ‘اپنا وزن 50 کلو کرنا صحت کے لیے بڑا خطرہ تھا۔ ڈاکٹروں نے مجھے ایسا نہ کرنے کا مشورہ دیا کیونکہ انہیں ڈر تھا کہ اس سے چوٹ لگ سکتی ہے۔ تاہم، یہ میرے لیے کرو یا مرو کی حالت تھی۔ اگر میں صحت مند ہوتے ہوئے گھر بیٹھ کر ٹی وی پر اولمپک دیکھتی تو مجھے افسوس ہوتا۔ اس لیے میں نے خطرہ مول لینے کا فیصلہ کیا۔‘
بتادیں کہ 2022 کے کامن ویلتھ گیمز میں ونیش نے 53 کلوگرام وزن کے زمرے میں ہی کھیلا تھا، جس میں انہوں نے گولڈ میڈل جیتا تھا۔
Categories: عالمی خبریں, فکر و نظر